پاکستان ایک نظر میں پی آئی اے پر فائرنگ

کراچی ائیرپورٹ پرحملےکے بعددنیا بھرکی اُنگلیاں پاکستان کی طرف اُٹھ رہی ہیں اورہمیں سیکورٹی کےمعاملات کوٹھیک کرنے چاہیے


میں نہیں جانتا کہ یہ حملہ تھا یا کسی ہوائی فائرنگ کا نتیجہ، میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ جس نے بھی فائرنگ کی اُنہیں زندہ سلامت گرفتار کیا جائے تاکہ تحقیقات ہوسکیں۔ فوٹو: ایکسپریس

NEW DEHLI:

پاکستان ایک جانب اگر مہنگائی اور بجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے معاشی بد حالی کا شکار ہیں تو دوسری جانب آئے روز ہشگردی کے واقعات سے ملک میں ایک خوف کی فضا موجود ہے جو وطن عزیز کو ہر ہر حوالے سے نقصان کا سبب بن رہی ہے۔ دہشتگردی کے واقعات میں جہاں ہوٹل،بس سٹینڈ،ریلوے ،مزارات اور دیگر پبلک مقامات کونشانہ بنایا جارہا ہے وہاں سکیورٹی اداروں پرحملوں کے ذریعے پاکستان کو کمزور بنانے کی سازشوں میں دشمن کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ غیر ملکی سرمایہ دار ہوں یا پھر غیر ملکی کھیل کی ٹیمیں ان حالات میں پاکستان آتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب دنیا بھر سے سیاح پاکستان کی خوبصورتی کو دیکھنے آیا کرتے تھے مگر اب تو وہ بھی حالات کی وجہ سے آتے ہوئے کتراتے ہیں۔


ابھی کراچی ائیرپورٹ پرہونے والے حملے کے نتیجے میں لگنے والے زخم سوکھے بھی نہیں تھے کہ گزشتہ شب سعودی عرب کے شہر ریاض سے آنے والے طیارے پی کے756 پر فائرنگ کی خبر دیکھنے کو ملی جو پشاور باچا خان آئیرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران حملے کا نشانہ بنی۔ ایک ہزار فٹ سے بھی اونچائی پر اڑنے والے طیارے میں تقریباٰ 12گولیاں لگی لیکن قربان جاوں حکمرانوں کے رویے پر کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد صوبائی حکومت کے ترجمان نے ایک انتہائی عجیب بیان جاری کردیا کہ علاقے میں شادی ہال بہت زیادہ ہیں اور شادی کی تقریبات میں فائرنگ علاقے کی روایت ہے اور شاید جہاز میں گولیاں بھی ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی ہونگی اِسے جہاز پر حملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان عابد قائم خانی نے حملے کے بعد بیان جڑ دیا کہ حالات قابو میں ہیں اور تمام فلائٹس معمول کے مطابق چل رہی ہیں۔میں ہر بار سوچتا ہوں کہ حکمرانوں اور اعلی حکام کی جانب سے جاری بیانات کو سنجیدگی سے لوں اور اُن پر یقین کرنا شروع کردوں۔ لیکن جب جب میں ایسا سوچتا ہوں تب تب مجھے بعد میں ملنے والے حقائق یہ باور کرواتے ہیں کہ نہیں مجھے ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔ کل بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور میں نے سوچا کہ اگر سول ایوی ایشن اتھارٹی کہہ رہی ہے کہ فلائٹس معمول کے مطابق چل رہی ہیں اور یہ حملہ ہر گز نہیں ہے تو مجھے یقین کرلینا چاہیے مگر جب 13 گھنٹے بعد اُسی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ اب پشاور ائیرپورٹ پر تمام منسوخ فلائٹس کو بحال کردیا گیا ہے تو آپ خود ہی بتائیے کہ آخر میں کیسے اعلی حکام کی بات پر یقین کرنا شروع کردوں۔


بہرحال اِس وقت مسئلہ میرا نہیں ہے بلکہ مسئلہ تو وطن عزیز کے مستقبل کا ہے۔ کراچی ائیرپورٹ کے بعد جہاں دنیا بھر کی اُنگلیاں پاکستان کی طرف اُٹھ رہی ہیں اِس وقت ہمیں ہر حال میں اپنے سیکورٹی معاملات کوسنجیدگی سے لینا چاہیے تھا اور اب بھی لینا چاہیے۔ میں نہیں جانتا کہ فائرنگ کا واقعہ حملہ تھا یا پھر شادی کی تقریب میں ہونے والی ہوائی فائرنگ کا نتیجہ، میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ جناب اِس حملے میں ایک خاتوں اِس دنیا سے رخصت ہوگئیں جبکہ 2 افراد زخمی بھی ہیں۔ اور دنیا بھر میں خبر یہی گئی ہے کہ پاکستان میں ایک جہاز پر حملہ ہوگیا ہے۔ مجھے بس ایسے واقعات میں ملوث افراد زندہ سلامت چاہیے تاکہ اُن سے تحقیقات بھی ہوسکے اور آئندہ ایسے حملے کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی کیے جاسکیں۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں