مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی
فلسطینی حکام نے بتایا ہے کہ سات اکتوبرکے بعد اسرائیلی جیلوں میں 54 فلسطینی قیدیوں کی موت ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ نے غزہ میں چھ اسرائیلی حملوں میں کم از کم 218 فلسطینیوں کی اموات کا ذکرکرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں بار بار بھاری بموں کا استعمال کیا جو جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ انسانی حقوق کے دفتر او ایچ سی ایچ آر نے کہا کہ ان حملوں میں رہائشی مکانات، اسکول، مہاجرکیمپوں اور ایک مارکیٹ پر حملے میں دو ہزار پونڈ کے بم کے استعمال کا شبہ ہے۔
بلاشبہ اسرائیل نے غزہ میں جنگی قوانین کی متعدد بار خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل اب تک سینتیس ہزار پانچ سوفلسطینیوں کی جان لے چکا ہے، اس وقت بھی ہزاروں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کی فضا میں چاروں طرف بارود کی بُو ہے۔ 70 فیصد گھر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ بچے صرف گولیوں اور بموں سے نہیں مرے، بہت سی ہلاکتیں خوراک کی کمی اور آلودہ پانی سے ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ڈیڑھ لاکھ ٹن کوئلہ جلانے کے برابر ہے۔ بموں میں استعمال ہونے والے سفید فاسفورس سے زرعی زمین پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ غزہ کے 23 لاکھ شہری پہلے بھی 365 مربع میل میں قید تھے، اب بہت سے لوگ شمال سے جنوب کی جانب ہجرت کر گئے ہیں۔ اس سے جنوب میں آبادی کی کثافت مزید بڑھ گئی ہے جس سے نت نئے سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔عید قرباں پر جب ہر طرف لوگ جانوروں کی قربانی کر رہے تھے، تب بھی غزہ اور رفح کے معصوم اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے تھے۔ دنیا میں سب سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے مغربی ممالک میں ہوئے ہیں اور مغربی شہروں میں بھی لندن سرفہرست ہے، اس کے بعد واشنگٹن ہے۔
اسرائیل مخالف نعرے لگانے والوں میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب شامل ہوئے، یہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں۔ ناحق قتل ہونے والے بچوں نے عالمی ضمیرکو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی آستین کا لہو دن رات پوری دنیا پر آشکار کررہا ہے کہ ان معصوم ننھے منے بچوں کا قاتل وہی ہے۔ اکتوبر 2023 میں جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکا نے حسبِ معمول اپنی مکمل حمایت اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اگر کسی بات پر ہم خیال ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔
صدر جوبائیڈن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ میں بھی صہیونی ہوں۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ صہیونی کون ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عہد نامہ قدیم یعنی Old Testament کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین میں واپس آ کر آباد ہونا یہودیوں کا حق ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ ہر یہودی ضروری نہیں کہ صہیونی ہو۔ عیسائیوں میں صہیونیوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ فلسطین، شام، لبنان، مصر اور عراق میں عیسائی کافی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور ان میں شاید ہی کوئی صہیونی ہو۔
غزہ کی جنگ کے اثرات امریکی سیاست تک گئے ہیں۔ اب امریکا میں صرف مسلم یا عرب ہی فلسطینی حقوق کے حامی نہیں بلکہ یہ ہمدردی اب سفید فام امریکیوں کے کچھ حلقوں میں بھی سرایت کرگئی ہے۔ مغربی دنیا میں رائے عامہ کی خاص اہمیت ہے۔ اسی رائے عامہ کا اعجاز تھا کہ بائیڈن حکومت کو بھی جنگ بندی کے سوال پر بار بار اپنا ویٹو استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا پڑی، تل ابیب میں انتہا پسند صہیونی حکومت اس بات پر خاصی سیخ پا ہے۔ غزہ جنگ پر مسلم دنیا کا ردِعمل مایوس کن رہا ہے۔ کسی عرب ملک نے اسرائیلی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود کو بند نہیں کیا۔
کسی مسلم ملک کی حکومت نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ جب اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بمباری شروع کی تو دنیا کے نو ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معطل کیے، ان میں سے چھ غیر مسلم ممالک تھے اور بیشتر کا تعلق لاطینی امریکا سے تھا۔ کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ انسانی قتلِ عام کے الزام میں اسرائیل کو عالمی عدالت میں لے جاتا۔ یہ فریضہ بھی جنوبی افریقہ کو ادا کرنا پڑا۔ غزہ کی جنگ کا واضح اثر ابراہیمی معاہدوں پر ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کردیے ہیں جب کہ بحرین نے یہ قدم پہلے ہی اٹھا لیا تھا۔
اردن کی حکومت اس وقت شدید دباؤ میں ہے اور وہاں روزانہ مظاہرے ہورہے ہیں، اردن کی ستر فیصد آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ غزہ کی جنگ کا عالمی تجارت پر بھی بڑا منفی اثر پڑا ہے۔ نہر سویز سے گزرنے والے جہاز بہت کم رہ گئے ہیں۔ حوثی میزائلوں کے ڈر سے اب بحری جہاز جنوبی افریقہ کے راستے سے یورپ جا رہے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان سمندری سفر لمبا اور مہنگا ہوگیا ہے جہازوں کے کرائے اور انشورنس کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے۔ سب سے دلچسپ پوزیشن بھارت کی رہی ہے۔
مودی اور نیتن یاہو میں سالوں سے دوستی ہے، دونوں انتہا پسند ہیں۔ بی جے پی اور اسرائیل کی لیکود پارٹی میں بھی بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ دونوں مسلم دشمن سیاسی جماعتیں ہیں۔ بھارت نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد اسرائیل کی مکمل حمایت کی اور پھر عالمی رائے عامہ کو دیکھ کر فلسطینی حقوق کی بات کرنا شروع کر دی۔ فلسطین کے معاملے پر بھارت کی فارن پالیسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہی ہے۔دوسری جانب اسرائیل کی فوج کے اعلیٰ ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری کا حماس سے متعلق بیان موضوعِ بحث بنا ہوا ہے جس پر حکومت کی جانب سے بھی رد عمل دیا گیا ہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ '' حماس ایک نظریہ ہے، ہم نظریے کو ختم نہیں کر سکتے۔'' فوج کے اعلیٰ ترجمان کے اس بیان پر ردِ عمل بھی آیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر نے اس بیان کو فوری طور پر مسترد کر دیا ہے۔ نیتن یاہو کی کابینہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں کارروائیاں اس وقت تک ختم نہیں ہوں گی جب تک حماس کو شکست نہیں دی جاتی۔اسرائیل فلسطین تنازع میں لگتا ہے کہ اب مغرب کا ضمیر جاگ رہا ہے اور آنکھیں کھلتی جا رہی ہیں۔ اسرائیل کسی بھی طریقے سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ الٹا ان ملکوں کو کھری کھوٹی سنا رہا ہے جو جنگ بندی کی بات کر رہے ہیں یا مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولے کی وکالت کر رہے ہیں۔
کئی ممالک خاص طور پر فرانس اور اسپین تو اسرائیل کے اس رویے سے اس قدر ناراض ہیں کہ انھوں نے اسرائیل کے تئیں ایک نئی حکمت عملی اختیارکرنی شروع کردی ہے۔ مغربی کنارا وہ خطہ اراضی ہے جوکہ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔ 1993-95کے اوسلو معاہدے کے تحت اس خطے میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا منصوبہ تھا جس کو بعد کے اسرائیلی حکمرانوں نے عملی جامہ نہیں پہنایا۔ اسپین کا یہ موقف کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔
امریکا رملہ میں مقتدر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ مسلسل اور براہ راست رابطے میں ہے اور وہ جنگ بندی کے بعد ایک جوابدہ اور جمہوری طور پر منتخب کرپشن سے پاک انتظامیہ مقبوضہ فلسطین میں قائم کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے، اگرچہ اسرائیل اس بابت کسی بھی فریق کی بات تسلیم کرنے یا فلسطینی ریاست کے ممکنہ امکان کو مسلسل نظرانداز کرنے کا وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہے اس کے باوجود عالمی سطح پر اس بات کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ ان علاقوں میں ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہوجائے تاکہ فلسطینیوں کو ایک آزاد ملک قائم کرنے کا موقع ملے۔ اس دوران اسرائیل کی ہٹ دھرمی بڑھتی ہی جارہی ہے اور اسرائیل کی حکومت نے مغربی کنارے میں 800 ہیکٹر زمین پر قبضہ کرنے اور وہاں پر یہودی بستیوںکے قیام کی راہ ہموار کردی ہے۔
اس علاقے کو شمالی وادی اردن یا جارڈن ویلی کہاجاتا ہے۔ اب یہ وسیع قطعہ اراضی اسرائیل کی مملکت کا حصہ ہوگیا ہے۔ اسرائیل کا یہ قدم ان معنوں میں غیر معمولی ہے کہ پوری دنیا بشمول سیکیورٹی کونسل کے مستقل ممبران ممالک جن میں اسرائیل کے سرپرست امریکا اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ فرانس نے بھی اسرائیل کے طور طریقوں کو غلط قرار دیا ہے۔
فرانس کے صدر نے غزہ کے جنوبی علاقوں میں رفح کی طرف فلسطینی عوام کو زبردستی دھکیلنے کی پالیسی کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی ایک موقع پر ہاتھ کھڑے کرچکے ہیں یعنی اقوام متحدہ بھی اس معاملے میں بے بسی کا اظہار کر چکی ہے۔
اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ ادارہ جو دنیا میں مسائل ختم کروانے، امن کے قیام کو یقینی بنانے، قوانین اور قواعد و ضوابط پر عمل کروانے کا ذمے دار ہے وہ ادارہ بھی ہاتھ کھڑے کر دے کہ فلسطین میں نہتے انسانوں پر ہونے والے ظلم پر کچھ نہیں کیا جا سکتا، توکیا یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ پھر کون چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہے، خون بہتا رہے اور اس بہتے خون کے خلاف آواز بلند کرنے، مظاہرے کرنے والے گرفتار ہوتے رہیں لیکن خون بہانے والوں کو روکنے والا کوئی نہ ہو۔ جن کے ذمے ظلم روکنا ہو وہ ظالم کی حمایت کرتے رہیں، ظالم افواج کی مالی مدد کریں، ان کی فوج کا ساتھ دیں توکیا ان حالات میں کوئی بڑا انسانی سانحہ کیسے جنم نہیں لے گا؟
بلاشبہ اسرائیل نے غزہ میں جنگی قوانین کی متعدد بار خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل اب تک سینتیس ہزار پانچ سوفلسطینیوں کی جان لے چکا ہے، اس وقت بھی ہزاروں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کی فضا میں چاروں طرف بارود کی بُو ہے۔ 70 فیصد گھر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ بچے صرف گولیوں اور بموں سے نہیں مرے، بہت سی ہلاکتیں خوراک کی کمی اور آلودہ پانی سے ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ڈیڑھ لاکھ ٹن کوئلہ جلانے کے برابر ہے۔ بموں میں استعمال ہونے والے سفید فاسفورس سے زرعی زمین پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ غزہ کے 23 لاکھ شہری پہلے بھی 365 مربع میل میں قید تھے، اب بہت سے لوگ شمال سے جنوب کی جانب ہجرت کر گئے ہیں۔ اس سے جنوب میں آبادی کی کثافت مزید بڑھ گئی ہے جس سے نت نئے سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔عید قرباں پر جب ہر طرف لوگ جانوروں کی قربانی کر رہے تھے، تب بھی غزہ اور رفح کے معصوم اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے تھے۔ دنیا میں سب سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے مغربی ممالک میں ہوئے ہیں اور مغربی شہروں میں بھی لندن سرفہرست ہے، اس کے بعد واشنگٹن ہے۔
اسرائیل مخالف نعرے لگانے والوں میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب شامل ہوئے، یہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں۔ ناحق قتل ہونے والے بچوں نے عالمی ضمیرکو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی آستین کا لہو دن رات پوری دنیا پر آشکار کررہا ہے کہ ان معصوم ننھے منے بچوں کا قاتل وہی ہے۔ اکتوبر 2023 میں جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکا نے حسبِ معمول اپنی مکمل حمایت اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اگر کسی بات پر ہم خیال ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔
صدر جوبائیڈن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ میں بھی صہیونی ہوں۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ صہیونی کون ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عہد نامہ قدیم یعنی Old Testament کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین میں واپس آ کر آباد ہونا یہودیوں کا حق ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ ہر یہودی ضروری نہیں کہ صہیونی ہو۔ عیسائیوں میں صہیونیوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ فلسطین، شام، لبنان، مصر اور عراق میں عیسائی کافی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور ان میں شاید ہی کوئی صہیونی ہو۔
غزہ کی جنگ کے اثرات امریکی سیاست تک گئے ہیں۔ اب امریکا میں صرف مسلم یا عرب ہی فلسطینی حقوق کے حامی نہیں بلکہ یہ ہمدردی اب سفید فام امریکیوں کے کچھ حلقوں میں بھی سرایت کرگئی ہے۔ مغربی دنیا میں رائے عامہ کی خاص اہمیت ہے۔ اسی رائے عامہ کا اعجاز تھا کہ بائیڈن حکومت کو بھی جنگ بندی کے سوال پر بار بار اپنا ویٹو استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا پڑی، تل ابیب میں انتہا پسند صہیونی حکومت اس بات پر خاصی سیخ پا ہے۔ غزہ جنگ پر مسلم دنیا کا ردِعمل مایوس کن رہا ہے۔ کسی عرب ملک نے اسرائیلی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود کو بند نہیں کیا۔
کسی مسلم ملک کی حکومت نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ جب اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بمباری شروع کی تو دنیا کے نو ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معطل کیے، ان میں سے چھ غیر مسلم ممالک تھے اور بیشتر کا تعلق لاطینی امریکا سے تھا۔ کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ انسانی قتلِ عام کے الزام میں اسرائیل کو عالمی عدالت میں لے جاتا۔ یہ فریضہ بھی جنوبی افریقہ کو ادا کرنا پڑا۔ غزہ کی جنگ کا واضح اثر ابراہیمی معاہدوں پر ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کردیے ہیں جب کہ بحرین نے یہ قدم پہلے ہی اٹھا لیا تھا۔
اردن کی حکومت اس وقت شدید دباؤ میں ہے اور وہاں روزانہ مظاہرے ہورہے ہیں، اردن کی ستر فیصد آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ غزہ کی جنگ کا عالمی تجارت پر بھی بڑا منفی اثر پڑا ہے۔ نہر سویز سے گزرنے والے جہاز بہت کم رہ گئے ہیں۔ حوثی میزائلوں کے ڈر سے اب بحری جہاز جنوبی افریقہ کے راستے سے یورپ جا رہے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان سمندری سفر لمبا اور مہنگا ہوگیا ہے جہازوں کے کرائے اور انشورنس کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے۔ سب سے دلچسپ پوزیشن بھارت کی رہی ہے۔
مودی اور نیتن یاہو میں سالوں سے دوستی ہے، دونوں انتہا پسند ہیں۔ بی جے پی اور اسرائیل کی لیکود پارٹی میں بھی بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ دونوں مسلم دشمن سیاسی جماعتیں ہیں۔ بھارت نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد اسرائیل کی مکمل حمایت کی اور پھر عالمی رائے عامہ کو دیکھ کر فلسطینی حقوق کی بات کرنا شروع کر دی۔ فلسطین کے معاملے پر بھارت کی فارن پالیسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہی ہے۔دوسری جانب اسرائیل کی فوج کے اعلیٰ ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری کا حماس سے متعلق بیان موضوعِ بحث بنا ہوا ہے جس پر حکومت کی جانب سے بھی رد عمل دیا گیا ہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ '' حماس ایک نظریہ ہے، ہم نظریے کو ختم نہیں کر سکتے۔'' فوج کے اعلیٰ ترجمان کے اس بیان پر ردِ عمل بھی آیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر نے اس بیان کو فوری طور پر مسترد کر دیا ہے۔ نیتن یاہو کی کابینہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں کارروائیاں اس وقت تک ختم نہیں ہوں گی جب تک حماس کو شکست نہیں دی جاتی۔اسرائیل فلسطین تنازع میں لگتا ہے کہ اب مغرب کا ضمیر جاگ رہا ہے اور آنکھیں کھلتی جا رہی ہیں۔ اسرائیل کسی بھی طریقے سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ الٹا ان ملکوں کو کھری کھوٹی سنا رہا ہے جو جنگ بندی کی بات کر رہے ہیں یا مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولے کی وکالت کر رہے ہیں۔
کئی ممالک خاص طور پر فرانس اور اسپین تو اسرائیل کے اس رویے سے اس قدر ناراض ہیں کہ انھوں نے اسرائیل کے تئیں ایک نئی حکمت عملی اختیارکرنی شروع کردی ہے۔ مغربی کنارا وہ خطہ اراضی ہے جوکہ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔ 1993-95کے اوسلو معاہدے کے تحت اس خطے میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا منصوبہ تھا جس کو بعد کے اسرائیلی حکمرانوں نے عملی جامہ نہیں پہنایا۔ اسپین کا یہ موقف کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔
امریکا رملہ میں مقتدر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ مسلسل اور براہ راست رابطے میں ہے اور وہ جنگ بندی کے بعد ایک جوابدہ اور جمہوری طور پر منتخب کرپشن سے پاک انتظامیہ مقبوضہ فلسطین میں قائم کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے، اگرچہ اسرائیل اس بابت کسی بھی فریق کی بات تسلیم کرنے یا فلسطینی ریاست کے ممکنہ امکان کو مسلسل نظرانداز کرنے کا وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہے اس کے باوجود عالمی سطح پر اس بات کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ ان علاقوں میں ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہوجائے تاکہ فلسطینیوں کو ایک آزاد ملک قائم کرنے کا موقع ملے۔ اس دوران اسرائیل کی ہٹ دھرمی بڑھتی ہی جارہی ہے اور اسرائیل کی حکومت نے مغربی کنارے میں 800 ہیکٹر زمین پر قبضہ کرنے اور وہاں پر یہودی بستیوںکے قیام کی راہ ہموار کردی ہے۔
اس علاقے کو شمالی وادی اردن یا جارڈن ویلی کہاجاتا ہے۔ اب یہ وسیع قطعہ اراضی اسرائیل کی مملکت کا حصہ ہوگیا ہے۔ اسرائیل کا یہ قدم ان معنوں میں غیر معمولی ہے کہ پوری دنیا بشمول سیکیورٹی کونسل کے مستقل ممبران ممالک جن میں اسرائیل کے سرپرست امریکا اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ فرانس نے بھی اسرائیل کے طور طریقوں کو غلط قرار دیا ہے۔
فرانس کے صدر نے غزہ کے جنوبی علاقوں میں رفح کی طرف فلسطینی عوام کو زبردستی دھکیلنے کی پالیسی کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی ایک موقع پر ہاتھ کھڑے کرچکے ہیں یعنی اقوام متحدہ بھی اس معاملے میں بے بسی کا اظہار کر چکی ہے۔
اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ ادارہ جو دنیا میں مسائل ختم کروانے، امن کے قیام کو یقینی بنانے، قوانین اور قواعد و ضوابط پر عمل کروانے کا ذمے دار ہے وہ ادارہ بھی ہاتھ کھڑے کر دے کہ فلسطین میں نہتے انسانوں پر ہونے والے ظلم پر کچھ نہیں کیا جا سکتا، توکیا یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ پھر کون چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہے، خون بہتا رہے اور اس بہتے خون کے خلاف آواز بلند کرنے، مظاہرے کرنے والے گرفتار ہوتے رہیں لیکن خون بہانے والوں کو روکنے والا کوئی نہ ہو۔ جن کے ذمے ظلم روکنا ہو وہ ظالم کی حمایت کرتے رہیں، ظالم افواج کی مالی مدد کریں، ان کی فوج کا ساتھ دیں توکیا ان حالات میں کوئی بڑا انسانی سانحہ کیسے جنم نہیں لے گا؟