مہنگائی کا طوفان
نیا مالیاتی سال یکم جولائی سے شروع ہوگا جیسے ہی وفاقی بجٹ پر عملدرآمد شروع ہوگا، مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ اس طوفان سے بالادست طبقات محفوظ رہیں گے۔ امراء جن میں تاجر، صنعت کار اور بڑے زمیندار شامل ہیں ان کا اس طوفان سے کچھ نہیں بگڑے گا۔
مہنگائی کا یہ طوفان متوسط و نچلے طبقے کی معیشت کو تہس نہس کردے گا۔ ایف بی آر کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ دال،آٹا، چاول، چینی اور مسالوں پر 18 فیصد جی ایس ٹی ٹیکس لگے گا۔ اس بجٹ میں بچوں کے دودھ کے بند ڈبوں پر بھی ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ بچوں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی نشوونما کے لیے ماں کا دودھ تو لازمی ہے مگر اس کے ساتھ ڈبے کا دودھ بھی ضروری ہے۔ ملک میں کم خوراک کی بناء پر نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔
غریب آدمی کے لیے اپنے بچے کے لیے اب مہنگا دودھ خریدنا مشکل ہوجائے گا، عام آدمی کے لیے بجلی کے نرخ بڑھ جائیں گے۔ توانائی کی وزارت کی تجاویز کے مطابق بجلی کا سنگل یونٹ جو اس وقت 27.78 روپے ہے یکم جولائی سے 35.50 روپے فی یونٹ ہوجائے گا۔ عام آدمی کے لیے بل میں بجلی کے ایک یونٹ پر پھر مختلف ڈیوٹیز، ٹیکس اور سرچارج شامل ہونگے۔ یوں توانائی کے ایک ماہر کی ریاضیاتی مشق کے مطابق عام آدمی کو ہر یونٹ پر 65 روپے سے 72 روپے حتمی طور پر ادا کرنے ہونگے۔
حکومت نے اگلے مالیاتی سال سے پٹرول پر 10 فیصد لیوی عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ فی الحال حکومت نے اس ماہ پٹرول کی قیمت میں کمی کی ہے۔ عام آدمی کو فوری طور پر بہت معمولی فائدہ ہوگا۔ اگلے ہفتے سے بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت بڑھنے کا امکان نظر آرہا ہے تو پھر شاید پٹرول 300 روپے تک پہنچ جائے گی۔
وفاقی حکومت نے طبی آلات پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ خطرناک امراض میں مبتلا غریب مریضوں کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوگا۔ ملک کے معروف کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر ندیم رضوی نے اس فیصلے کو شعبہ صحت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹنٹ، پیس میکر اور دل کے امراض کے لیے درآمد کیے جانے والے آلات اس فیصلے سے مہنگے ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر صاحب کا استدلال ہے کہ ہارٹ اٹیک کی 80 فیصد انجیو پلاسٹی پبلک سیکٹر کے اسپتالوں میں ہوتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی سمیت اندرون سندھ میں سالانہ 20 ہزار افراد کی انجیو پلاسٹی ہوتی ہے جس میں کم ازکم ایک سے دو اسٹنٹ مریض کو لگائے جاتے ہیں۔ ان آلات پر ٹیکس لگانے کا مطلب غریب آدمی کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
گزشتہ کئی عشروں سے پرنٹ میڈیا مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں پرنٹ میڈیا کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد حالات میں بہتری کے امکانات ظاہر ہونے لگے تھے، مگر اب نیوز پرنٹ پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرکے اخبارات کی معیشت کو پھر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حکومت نے سوشل میڈیا کو فیک نیوز وائرل کرنے سے روکنے کے لیے نئے قوانین تیار کیے ہیں اور سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے ایک علیحدہ ایجنسی قائم کی جا رہی ہے جب کہ اخبارات میں ادارتی کنٹرول اتنا زیادہ مضبوط ہے کہ کسی بھی اخبار میں فیک نیوز کی اشاعت ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو تو اس صورتحال میں اخبارات کی سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ عوام کو معروضیت کے اصولوں کے تحت خبریں اور تجزیے وغیرہ مل سکیں، مگر اس نئے ٹیکس سے تو اخباری صنعت کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔ اسٹیشنری اور لکھنے کے سامان پر ٹیکس لگنے سے غریب والدین براہِ راست متاثر ہونگے۔
وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت ہر صورت ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتی ہے مگر وزیر خزانہ کے اس عزم کا شکار تنخواہ دار طبقہ ہوا۔ ہر سال ایف بی آر کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف تنخواہ دار طبقہ باقاعدگی سے انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی جس کی صدارت معروف تاجر سلیم مانڈوی والا کر رہے تھے، میں ایف بی آر کے چیئرمین نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ تنخواہ دار طبقہ 375 ارب، برآمد کنندگان 90 سے 100 ارب اور ریٹیلرز جن کی ملک بھر میں تعداد 36 لاکھ سے زائد ہے سالانہ 4 سے 5 ارب روپے کے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے رکن فاروق ایچ نائیک نے اجلاس میں ایف بی آر کے مؤقف کی حمایت کر کے واضح کیا کہ برآمد کنندگان طبقہ تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں 45 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ایف بی آر کے چیئرمین نے اس موقعے پر تجویز دی کہ برآمد کنندگان اور ریٹیلرز پر ٹیکس کی شرح میں اضافے سے ٹیکس کا نظام زیادہ منصفانہ ہوگا۔ ایک مبصر نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کا تعلق ریٹیلرز اور برآمد کنندگان طبقے سے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے زیادہ بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا ہے۔
غریب آدمی کا درد رکھنے والے کچھ معاشی ماہرین اس بارے میں تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ یوسف نذر ان میں سے ایک ہیں۔ یوسف نذر جب 80کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کے طالب علم تھے تو جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف طلبہ تحریک کو منظم کرنے کی کوششوں میں پہلی صف میں شامل تھے، پھر یوسف نذر کی تلاش شروع ہوگئی، وہ لندن چلے گئے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ یوسف نذر نے اس بحران کے حل کے لیے 14 نکات تجویز کیے ہیں۔ یوسف نذر کے ترتیب کردہ ان نکات میں چند اہم یہ ہیں۔
سرکاری اخراجات میں 20 فیصد کمی کی جائے۔ چین پر واضح کیا جائے کہ موجودہ قرضوں کی شرائط غیر پائیدار ہیں۔ وفاقی حکومت کی وزارتوں میں کام کرنے والے عملے کی تعداد میں 20 فیصد کمی کی جائے۔ مالیاتی نظام کو سی این ای سی کو ہونے والی سود کی معلومات کی حد تک جوڑ دیا جائے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کو 25 فیصد تک بڑھایا جائے، جہاں ادا شدہ مجموعی سود کی رقم 3 لاکھ سالانہ سے زیادہ ہے، اس بارے میں معلومات تمام ڈیپازٹ ہولڈر سے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل کی جائیں ۔ فائلرز اور نان فائلرز کی تقسیم ختم کی جائے۔
تنخواہوں میں ٹیکس کا اضافہ واپس لیا جائے۔ اسٹیشنری، پنسل، کتابوں، دالوں، دودھ اور دیگر اشیاء پر ٹیکس ختم کیا جائے۔ تمام پبلک لمیٹڈ انفارمیشن کمپنیوں کو 10 سال سے انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ ایک خاندان ، شوہر، بیوی اور دو سال سے کم عمر بچوں پر ایک سے زیادہ پلاٹ رکھنے پر نان یوٹیلائزیشن ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائے۔ برآمد کنندگان سے متعلق فیصلوں کو منسوخ کیا جائے۔ پارلیمنٹ کے اراکین کو ادا کیے جانے والے معاوضے اور سہولیات میں 30 فیصد کمی کی جائے۔
تمام درآمدات پر 10 فیصد ڈیوٹی کی فلیٹ آمدنی متعارف کرائی جائے۔ خام مال پر ٹیکس صفر فیصد کیا جائے۔ خام مال اور درمیانی اشیاء پر صفر اور دیگر مصنوعات پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے۔ زرعی فیصلوں کی برآمد اور درآمد پر تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔ عوامی نیلامی کے علاوہ ہاؤسنگ سوسائٹیز، گورنمنٹ کے کلبزکی فروخت عوامی نمایندگی کے ذریعے کی جائے اور دوسری صورت میں اراضی کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔ نذر یوسف نے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ انتہائی اہم ہیں۔
پارلیمنٹ کو ان تجاویز پر بجٹ کی منظوری سے قبل غور کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ آئی ایم ایف کا مالیاتی پیکیج آخری ہوسکتا ہے مگر یہ منزل ابھی دور ہے۔ عوام کا درد رکھنے والے ماہرینِ معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کے ان اعلانات سے معاشی بحران ختم نہیں ہوگا، معاشی بحران صرف اس صورت میں ختم ہوسکتا ہے کہ دفاعی اخراجات سمیت غیر پیداواری اخراجات 70 فیصد تک کم کیے جائیں، پڑوسی ممالک سے معمول کے تعلقات قائم کیے جائیں اور ریاست کے حجم کو کم کیا جائے۔
مہنگائی کا یہ طوفان متوسط و نچلے طبقے کی معیشت کو تہس نہس کردے گا۔ ایف بی آر کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ دال،آٹا، چاول، چینی اور مسالوں پر 18 فیصد جی ایس ٹی ٹیکس لگے گا۔ اس بجٹ میں بچوں کے دودھ کے بند ڈبوں پر بھی ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ بچوں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی نشوونما کے لیے ماں کا دودھ تو لازمی ہے مگر اس کے ساتھ ڈبے کا دودھ بھی ضروری ہے۔ ملک میں کم خوراک کی بناء پر نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔
غریب آدمی کے لیے اپنے بچے کے لیے اب مہنگا دودھ خریدنا مشکل ہوجائے گا، عام آدمی کے لیے بجلی کے نرخ بڑھ جائیں گے۔ توانائی کی وزارت کی تجاویز کے مطابق بجلی کا سنگل یونٹ جو اس وقت 27.78 روپے ہے یکم جولائی سے 35.50 روپے فی یونٹ ہوجائے گا۔ عام آدمی کے لیے بل میں بجلی کے ایک یونٹ پر پھر مختلف ڈیوٹیز، ٹیکس اور سرچارج شامل ہونگے۔ یوں توانائی کے ایک ماہر کی ریاضیاتی مشق کے مطابق عام آدمی کو ہر یونٹ پر 65 روپے سے 72 روپے حتمی طور پر ادا کرنے ہونگے۔
حکومت نے اگلے مالیاتی سال سے پٹرول پر 10 فیصد لیوی عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ فی الحال حکومت نے اس ماہ پٹرول کی قیمت میں کمی کی ہے۔ عام آدمی کو فوری طور پر بہت معمولی فائدہ ہوگا۔ اگلے ہفتے سے بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت بڑھنے کا امکان نظر آرہا ہے تو پھر شاید پٹرول 300 روپے تک پہنچ جائے گی۔
وفاقی حکومت نے طبی آلات پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ خطرناک امراض میں مبتلا غریب مریضوں کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوگا۔ ملک کے معروف کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر ندیم رضوی نے اس فیصلے کو شعبہ صحت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹنٹ، پیس میکر اور دل کے امراض کے لیے درآمد کیے جانے والے آلات اس فیصلے سے مہنگے ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر صاحب کا استدلال ہے کہ ہارٹ اٹیک کی 80 فیصد انجیو پلاسٹی پبلک سیکٹر کے اسپتالوں میں ہوتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی سمیت اندرون سندھ میں سالانہ 20 ہزار افراد کی انجیو پلاسٹی ہوتی ہے جس میں کم ازکم ایک سے دو اسٹنٹ مریض کو لگائے جاتے ہیں۔ ان آلات پر ٹیکس لگانے کا مطلب غریب آدمی کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
گزشتہ کئی عشروں سے پرنٹ میڈیا مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں پرنٹ میڈیا کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد حالات میں بہتری کے امکانات ظاہر ہونے لگے تھے، مگر اب نیوز پرنٹ پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرکے اخبارات کی معیشت کو پھر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حکومت نے سوشل میڈیا کو فیک نیوز وائرل کرنے سے روکنے کے لیے نئے قوانین تیار کیے ہیں اور سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے ایک علیحدہ ایجنسی قائم کی جا رہی ہے جب کہ اخبارات میں ادارتی کنٹرول اتنا زیادہ مضبوط ہے کہ کسی بھی اخبار میں فیک نیوز کی اشاعت ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو تو اس صورتحال میں اخبارات کی سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ عوام کو معروضیت کے اصولوں کے تحت خبریں اور تجزیے وغیرہ مل سکیں، مگر اس نئے ٹیکس سے تو اخباری صنعت کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔ اسٹیشنری اور لکھنے کے سامان پر ٹیکس لگنے سے غریب والدین براہِ راست متاثر ہونگے۔
وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت ہر صورت ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتی ہے مگر وزیر خزانہ کے اس عزم کا شکار تنخواہ دار طبقہ ہوا۔ ہر سال ایف بی آر کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف تنخواہ دار طبقہ باقاعدگی سے انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی جس کی صدارت معروف تاجر سلیم مانڈوی والا کر رہے تھے، میں ایف بی آر کے چیئرمین نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ تنخواہ دار طبقہ 375 ارب، برآمد کنندگان 90 سے 100 ارب اور ریٹیلرز جن کی ملک بھر میں تعداد 36 لاکھ سے زائد ہے سالانہ 4 سے 5 ارب روپے کے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے رکن فاروق ایچ نائیک نے اجلاس میں ایف بی آر کے مؤقف کی حمایت کر کے واضح کیا کہ برآمد کنندگان طبقہ تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں 45 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ایف بی آر کے چیئرمین نے اس موقعے پر تجویز دی کہ برآمد کنندگان اور ریٹیلرز پر ٹیکس کی شرح میں اضافے سے ٹیکس کا نظام زیادہ منصفانہ ہوگا۔ ایک مبصر نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کا تعلق ریٹیلرز اور برآمد کنندگان طبقے سے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے زیادہ بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا ہے۔
غریب آدمی کا درد رکھنے والے کچھ معاشی ماہرین اس بارے میں تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ یوسف نذر ان میں سے ایک ہیں۔ یوسف نذر جب 80کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کے طالب علم تھے تو جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف طلبہ تحریک کو منظم کرنے کی کوششوں میں پہلی صف میں شامل تھے، پھر یوسف نذر کی تلاش شروع ہوگئی، وہ لندن چلے گئے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ یوسف نذر نے اس بحران کے حل کے لیے 14 نکات تجویز کیے ہیں۔ یوسف نذر کے ترتیب کردہ ان نکات میں چند اہم یہ ہیں۔
سرکاری اخراجات میں 20 فیصد کمی کی جائے۔ چین پر واضح کیا جائے کہ موجودہ قرضوں کی شرائط غیر پائیدار ہیں۔ وفاقی حکومت کی وزارتوں میں کام کرنے والے عملے کی تعداد میں 20 فیصد کمی کی جائے۔ مالیاتی نظام کو سی این ای سی کو ہونے والی سود کی معلومات کی حد تک جوڑ دیا جائے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کو 25 فیصد تک بڑھایا جائے، جہاں ادا شدہ مجموعی سود کی رقم 3 لاکھ سالانہ سے زیادہ ہے، اس بارے میں معلومات تمام ڈیپازٹ ہولڈر سے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل کی جائیں ۔ فائلرز اور نان فائلرز کی تقسیم ختم کی جائے۔
تنخواہوں میں ٹیکس کا اضافہ واپس لیا جائے۔ اسٹیشنری، پنسل، کتابوں، دالوں، دودھ اور دیگر اشیاء پر ٹیکس ختم کیا جائے۔ تمام پبلک لمیٹڈ انفارمیشن کمپنیوں کو 10 سال سے انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ ایک خاندان ، شوہر، بیوی اور دو سال سے کم عمر بچوں پر ایک سے زیادہ پلاٹ رکھنے پر نان یوٹیلائزیشن ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائے۔ برآمد کنندگان سے متعلق فیصلوں کو منسوخ کیا جائے۔ پارلیمنٹ کے اراکین کو ادا کیے جانے والے معاوضے اور سہولیات میں 30 فیصد کمی کی جائے۔
تمام درآمدات پر 10 فیصد ڈیوٹی کی فلیٹ آمدنی متعارف کرائی جائے۔ خام مال پر ٹیکس صفر فیصد کیا جائے۔ خام مال اور درمیانی اشیاء پر صفر اور دیگر مصنوعات پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے۔ زرعی فیصلوں کی برآمد اور درآمد پر تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔ عوامی نیلامی کے علاوہ ہاؤسنگ سوسائٹیز، گورنمنٹ کے کلبزکی فروخت عوامی نمایندگی کے ذریعے کی جائے اور دوسری صورت میں اراضی کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔ نذر یوسف نے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ انتہائی اہم ہیں۔
پارلیمنٹ کو ان تجاویز پر بجٹ کی منظوری سے قبل غور کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ آئی ایم ایف کا مالیاتی پیکیج آخری ہوسکتا ہے مگر یہ منزل ابھی دور ہے۔ عوام کا درد رکھنے والے ماہرینِ معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کے ان اعلانات سے معاشی بحران ختم نہیں ہوگا، معاشی بحران صرف اس صورت میں ختم ہوسکتا ہے کہ دفاعی اخراجات سمیت غیر پیداواری اخراجات 70 فیصد تک کم کیے جائیں، پڑوسی ممالک سے معمول کے تعلقات قائم کیے جائیں اور ریاست کے حجم کو کم کیا جائے۔