ہندو ساتھیوں کے بدلتے تیوردیکھ کر تنہا پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا لیفٹیننٹ جنرلر طلعت مسعود
نظام حیدرآباد کم فہم، لالچی اورکنجوس تھے، ان کی وجہ سے مسلمانوں کوزیادہ مشکلات کا سامناکرنا پڑا
یہ بات تقریباً طے ہوگئی ہے کہ ہمارے ہاں میڈیا میں نامی گرامی تجزیہ نگاربننے کے لیے مطالعے کی قطعی ضرورت نہیں، اس کے لیے جو چیزیں لازم ہیں، ان میں اول توآپ اونچی آوازمیں گرج سکتے ہوں، دوسرے گفتگو میں عامیانہ پن ہواوراس پرمستزادنام نہاد قوم پرستی سے لتھڑے جذبات کا ببانگ دہل اظہار کر سکیں۔
ان خوبیوں کے ساتھ آپ ریٹنگ کے بھوکے کسی بھی اینکرکی نگاہِ نازمیں سماسکتے ہیں، صرف پروگرام میں مدعوہی نہیں کیا جائے گابلکہ وعظ کے لیے کھلاچھوڑ دیا جائے گا۔اس کثیف ماحول میں بھی چند اہل بصیرت موجود ہیں، جوبات کریں توان کا سانس نہیں پھولتا اورتعصب چہرے سے عیاں نہیں ہوتا۔اپنے کہے کو حرف آخرنہیں جانتے، یہ درست ہے کہ انھیں ریٹنگ مارکہ پروگراموں میں تونہیں بلایا جاتا لیکن سادہ پروگراموں میں وہ دکھائی دے جاتے ہیں۔ایسے نیک ناموں میں ایک نام معروف دفاعی وسیاسی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر)طلعت مسعود کا ہے۔
جو فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سے اپنے قلم اورزبان سے متوازن اورمتین لہجے میں تجزیہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ان دنوں ایکسپریس ٹریبون میں ان کا کالم باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ ٹی وی پروگراموں کے ذریعے سے ان کے خیالات سامنے آتے رہتے ہیں۔ مختلف قومی امورکے بارے میں ان کا نقطہ نظرہمارے روایتی قومی بیانیے سے ہٹ کر ہے، اس لیے وہ کلیشے میں بات کرنے پربھی مجبور نہیں۔ عمرعزیز کی اسّی سے زائد بہاریں دیکھ چکے لیکن ذہنی وجسمانی اعتبارسے فٹ فاٹ ہیں ۔بات، کان دھرکرسنتے ہیں اوربڑے تحمل سے جواب دیتے ہیں۔ تجزیہ نگارکے طورپرخود کو منوانے سے قبل چالیس برس پاک فوج سے متعلق رہنے کے دوران بڑے کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔
پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے چیئرمین بھی رہے، ان کے دورمیں اس اسلحہ ساز فیکٹری نے ترقی کی کئی منازل طے کیں ۔ان کے کئے کی دھوم ملک سے باہربھی پھیلی۔ ضیاء دورمیں مہاتیرمحمد خصوصی طورپران سے ملاقات کے متمنی ہوئے۔طلعت مسعود کے بقول''ضیاء دورمیں وفد کے ساتھ ملائشیا جانا ہوا۔ مہاتیر محمد سے الوداعی ملاقات میں ہاتھ ملایاتوکہنے لگے ''آپ بھی سنگاپورجارہے ہیں''پہلے تومیری سمجھ میں نہ آیالیکن پھرمیں نے کہا کہ ظاہرسی بات ہے کہ وفد میں شامل ہوں تو یہاں سے ہم سب اکٹھے ہی جائیں گے۔کہنے لگے، 'مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے،آپ رک کیوں نہیں جاتے۔ میں نے سنا ہے آپ نے پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے لیے بہت عمدہ کام کیا ہے۔'
میں نے ان سے کہا کہ صدرضیاء الحق سے پوچھ لوں۔ان سے بات کی توانھوں نے اجازت دے دی، تو پھر ساڑھے تین گھنٹے مہاتیر محمد سے ملاقات رہی، جس میں ان کے آرمی چیف اور وزیردفاع بھی تھے، مجھ سے پوچھتے رہے کہ میں نے آرڈیننس فیکٹری کو کس طرح ترقی دی۔اس زمانے میں بین الاقوامی سطح پر فیکٹری کا چرچا ہونا شروع ہوا اورہم ہتھیاربرآمدکرنے لگے تھے۔''
طلعت مسعود کا تعلق بڑے پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔ان کے والد رشید احمد،متحدہ ہندوستان کی جوڈیشل سروس میںجج تھے۔دادا مسعود علی منصف ہی نہیں مصنف بھی تھے۔شعرکہتے تھے۔نظام حیدرآباد نے انھیں انجمن ترقی اردوکا ناظم بھی بنایا۔حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولنے والے طلعت مسعود نے اسکول کی تعلیم اسی شہر میں رہ کر حاصل کرلی تویہیں کے معروف نظام کالج سے ایف ایس سی کیا، جس کے فوراً بعدریاست پر ہندوستان نے حملہ کردیا ۔1948ء میں حیدرآباد دکن میں پولیس ایکشن کے بعد ماحول یکسر بدل گیا۔ دوست، دوست نہ رہا۔
ہندوساتھیوں کے بدلے تیور دیکھ کرنوجوان طلعت مسعود نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ہجرت ،سراسران کا انفرادی فیصلہ تھا۔والدین کا خیال تھا کہ تھوڑا انتظارکرلیا جائے۔اس وجہ سے کہ والد کی تھوڑی سروس باقی تھی، دوسرے دومکانات اور ایک بڑے باغ کا کچھ ہو جائے۔ ان کے والدین کو یہ فکربھی دامن گیرتھی کہ فوراً گھربار چھوڑنے پرنئے ملک میں ذریعہ آمدن کیا ہو گا۔ خیر!طلعت مسعود تن تنہا لاہورآگئے اورایف سی کالج میں داخلہ لے لیا۔گھرسے مالی امداد ملنے لگی، پرجلد ہی اس میں رخنہ آ گیا۔
ہندوستان نے اپنے روپے کی قدر میں کمی کی ، پاکستان نے ایسا نہ کیا تو دونوں ملکوں میں روپے کا لین دین بند ہوگیا۔مالی مشکلات کے اس دورمیں انھوں نے فوج کی تینوں سروسزمیں اپلائی کردیا۔تینوں جگہوں سے مثبت جواب ملا۔بری فوج کی طرف سے پہلے بلاواآگیاتوپھراس کا انتخاب کر لیا۔ دو بہنوں کی شادی بھی فوجیوں سے ہوئی، اوپرسے یہ فوج میں تھے لہٰذاان کے لیے ہندوستان جاناممکن نہ رہا، ایسے میں والدین پرزوردیا کہ پنشن ملے نہ ملے،جائیداد حاصل ہویا نہ ہو،بس اب وہ پاکستان آجائیں۔ 1963ء میں ان کے والدین پاکستان آگئے۔یہ اس وقت میجر تھے۔ بھائی ان کے پاکستان تھوڑے عرصے کے لیے آئے اور پھر ہمیشہ کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔ جنرل (ر)کمال متین الدین اور بریگیڈیر(ر)صلاح الدین کرمانی ان کے بہنوئی ہیں۔
طلعت مسعود نے حیدرآباد دکن سے وابستہ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایاکہ مسلمانوں کے اس مرکز میں ہرمضمون اردو میں پڑھایاجاتا۔ان کی بہن میڈیسن کی تعلیم اردو میں حاصل کر رہی تھیں۔ انجینئرنگ اور قانون کی تعلیم بھی اردو میں دی جاتی۔ ماہرقانون والدنے پاکستان آکرانگریزی کی قانونی لغت کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔اس تہذیب کی سب سے بڑی خوبی ان کے نزدیک والدین کا تعلیم کو سب سے مقدم جاننا تھا۔ حیدرآبادی تہذیب کے رکھ رکھاؤ اورادب آداب کی یادانھیں آتی ہے۔نظام حیدرآباد میرعثمان علی کے بارے میں وہ اچھی رائے نہیں رکھتے۔کہتے ہیں ''نظام ٹھیک آدمی نہیں تھے۔سمجھ بھی کمزور تھی۔لالچی اورکنجوس تھے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا رہا ورنہ وہ ان سے کافی حد تک بچ سکتے تھے۔
لینڈ لاک ہونے کے باعث حیدرآباد دکن کے لیے آزاد ریاست کے طورپرزندہ رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ وہاں کی اسی فیصد آبادی ہندو، بیس فیصد مسلمان تھی ، توایسے میں نظام کی حیدرآباد کو آزاد ریاست قراردینے کی خواہش دانش مندانہ نہیں تھی، اس سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں، نقصان ہوا۔مزاحمت سے مسلمانوں کا نقصان ہی ہونا تھا، ایک طرف ہندوستان کی فوج، دوسری طرف حیدرآباد کی کمزورفوج اور وہ بھی کہیں کم تعداد میں، رضاکار انھوں نے کھڑے کئے لیکن وہ تربیت یافتہ نہیں تھے،اس لیے انڈین فوج کا مقابلہ نہ کرسکے۔پولیس ایکشن کے وقت ادھر تھا، ہم لوگ متاثر اس لیے نہیں ہوئے کہ قتل عام زیادہ تر دیہات میں ہوا کیونکہ مزاحمت بھی ادھرزیادہ تھی۔ مزاحمت کے باعث بات چیت کے ذریعے جو حاصل ہو سکتا تھا، وہ بھی نہیں مل سکا۔''
'' بات چیت کے ذریعے کیا حاصل کرسکتے تھے؟''
'' کم سے کم پرامن انتقال اقتدارہوجاتا۔ مسلمانوں کے ساتھ اس قدرظلم نہ ہوتا۔اتنی جانیں نہ جاتیں۔ پاکستان جان گیا تھا کہ حیدرآباد کے ساتھ الحاق قابل عمل نہیں ۔تقسیم ہند کے منصوبے میں وہ شق ہونی ہی نہیں چاہیے تھی جس میں ریاستوں کو اپنے طور پر آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیاردیا گیا تھا، یہ شق انگریزوں کی'' لڑاؤ اور حکومت کرو''کی پالیسی کی آئینہ دار تھی۔ ''
طلعت مسعودکاٹریک ٹو ڈپلومیسی سے بہت تعلق رہا،اس لیے ہندوستان کا پھیرا بھی لگتا رہا، البتہ حیدرآباد دکن جانے کی کوئی سبیل پیدا نہ ہوتی ،پھر قدرت نے اس کا بھی انتظام کردیا۔ ان کا حیدرآباد جانا کس طریقے سے ممکن ہوااس کی کہانی ان کی زبانی سنیے:
''آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندربابو نائیڈو پاکستان آئے ، توان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میںشرکت کے لیے انڈین ہائی کمیشن نے مجھے بھی دعوت نامہ بھجوایا۔انڈوپاک ڈائیلاگ میں شامل رہنے کی وجہ سے مجھ سے چندربابونائیڈومتعارف ضرورتھے لیکن یہ انھیں پتا نہیں تھا کہ ان کی ریاست کا جو صدرمقام ہے، میرا تعلق وہیںسے ہے،جب انھیں پتا چلا کہ میں تقسیم سے قبل حیدرآباد میں رہتا تھا توانھوں نے مجھ سے کہا ''آپ کبھی گئے ہیں؟'' '' وہاں اب میرا کون ہے، جس کے پاس جاؤں۔''میرے اس جواب پروہ کہنے لگے ''آپ ہمارے مہمان بنیں۔''پہلے پہل تو میں نے سمجھا کہ محض تکلفاً کہہ رہے ہیں، جیسا کہ کسی بھی شائستہ آدمی سے توقع ہوتی ہے، لیکن ان کے دوتین بارزوردینے پر میں نے ہامی بھرلی اور ان سے کہا کہ اب جب بھی ہندوستان آیا، ان سے رابطہ کروں گا۔ انھوں نے مجھے اپناذاتی نمبردیا۔ پی اے کا نمبردیا۔چارپانچ ماہ بعد مجھے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے سلسلے میں دہلی جانا پڑا، تووہاں سے میں نے چندربابونائیڈو سے رابطہ کیا توانھوں نے بڑی خوشدلی سے کہا کہ ضرورحیدرآباد آئیں۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ گیاتورہائش کا بندوبست کیا۔اپنی کاراور ڈرائیور دیا۔ اتنے برسوں میں سب کچھ بدل گیا۔ہم جہاں پررہتے تھے، وہ علاقہ پہچان میں نہ آتا تھا۔ بہت زیادہ ترقی ہوگئی۔افسوس یہ ہوا کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں ہندوؤں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔''
ٹریک ٹوڈپلومیسی سے کئی برسوں سے منسلک اس محترم سے ہم نے پوچھا ''بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٹریک ٹواوربیک ڈورڈپلومیسی دونوں ہی کامیاب طرز سفارت نہیں ؟''اس سوال پرکہنے لگے '' بیک ڈورمیں حکومت کے نمائندے ملتے ہیں۔آپس میں بات چیت کرکے حکومت کو فیڈ کرتے ہیں، اور حکومت جواباًانھیں فیڈ کرتی ہے، اورجب تک کسی ایسی منزل پرمعاملات پہنچ نہ جائیں، جہاں پرفیصلہ سازی یا کچھ حاصل کیا جاسکے، تواسے پبلک میں نہیں لایاجاتا۔ ٹریک ٹومیں شامل افراد کا اثرحکومت پربھی ہوتا ہے اوروہ ایک حد تک رائے عامہ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔
یہ طرفین کے ان افراد پرمشتمل ہوتا ہے جو آزادانہ طورپرمسائل حل کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں،جن میں نیوکلیئر جیسے بڑے ایشوزبھی زیربحث آتے ہیں اورچھوٹے ایشوز بھی۔ ٹریک ٹو میں فائدہ یہ ہے کہ آپ ایک دوسرے کی ذہنیت جان کراپنی حکومت اورعوام کو بتاسکتے ہیں۔جولوگ کہتے ہیں کہ ٹریک ٹو نے کچھ حاصل نہیں کیا، ان سے پوچھتاہوں ٹریک ون نے کیا حاصل کیا ہے؟کم سے کم ٹریک ٹوکی وجہ سے اعتماد سازی کے کئی معاملات پرغورکرکے حکومت کو فیڈ کیا، اورحکومت نے اسے مانا بھی۔ '' طلعت مسعود نے دوران ملازمت ضیاء الحق کو قریب سے دیکھا۔ ان کی شخصیت کے بارے پوچھنے پر بتایا ''جنرل ضیاء میں خوبیاں خامیاں دونوں تھیں۔ ان کے ہاں تضادات تھے۔
غریبوں کے بڑے ہمدرد تھے۔ کوئی ان کے مقابلے میں آجاتاتواس کو چھوڑتے نہیں تھے، جس طریقے سے بھٹوکے ساتھ ظلم کیا وہ عیاں ہے۔لبرل بھی تھے لیکن سیاسی طورپرقدم جمانے کے لیے ریڈیکل رائٹ کوساتھ رکھا، جس سے بہت نقصان ہوا۔ اپنے اقدامات کو legitimizeکرنے اور اپنی سیاسی قوت بڑھانے کے لیے جو کچھ کیا اس سے بھی خسارہ ہوا۔نان اسٹیٹ ایکٹرز بھی ان کے دورمیں وجود میں آئے۔''قومی ترجیحات میں وہ سب سے اول نمبرتعلیم کو دیتے ہیں۔
کہتے ہیں،ہماری آبادی کا پچاس فیصد پینتیس برس سے کم عمرافراد پرمشتمل ہے،جنھیں تعلیم دلا کراثاثہ بنایا جاسکتا ہے بصورت دیگروہ liability بن جائیں گے اورانتہا پسند قوتیں مزید مضبوط ہوں گی۔طلعت مسعود زندگی سے مطمئن ہیں۔ کہتے ہیں، سب سے بڑی کامیابی ضمیرکا مطمئن ہونا ہے۔خاندان پر بھی ان کی توجہ رہی۔ایک بیٹی آئی ٹی کمپنی میں اونچے عہدے پر ہے تو دوسری ماہرنفسیات۔بیٹامائیکروسوفٹ انجینئر۔ زندگی کے سفر میں اہلیہ کا بھرپور تعاون بھی میسر آیا، جنھوں نے معذورافراد کے لیے اسکول بھی قائم کیا۔ مطالعے سے گہرا شغف رکھنے والے طلعت مسعود کو ڈاکٹرمحبوب الحق کی علمیت نے متاثر کیا۔ ان دنوں اپنی یادداشتیں لکھ رہے ہیں۔
پرداداکی قبر کا قصہ
والد بتاتے تھے کہ حضرت نظام الدین اولیاء کی قبرکے نزدیک ہی ہمارے پردادا احمد علی دفن ہیں۔ان کے یہاں دفن ہونے کی بھی ایک کہانی ہے، جو میں نے والد سے ہی سنی۔دہلی کی انتظامیہ میں ایک بڑے مسلمان افسران کے عزیزدوست تھے۔ایک دن انھوں نے پردادا سے پوچھا کہ وہ ان کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔انھوں نے سوچا ہوگا کہ شاید وہ کوئی بیش قیمت چیزمانگیں گے، لیکن انھوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ مرنے کے بعد نظام الدین اولیاء کے قدموں کے پاس میرا مدفن ہو۔
اس پر انھوں نے کہا کہ کوئی جگہ نہیں بچی ،دادایہ سن کرمغموم ہوگئے، اور ادھران کے دوست نے انھیں رنجیدہ پاکرکہا کہ ایک جگہ ہے ضرورمگروہ میں نے اپنے لیے رکھ چھوڑی ہے، آپ سے اچھے مراسم کی وجہ سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگرمیں پہلے انتقال کرگیاتوادھردفن ہوجاؤں گا اور اگرآپ مجھ سے پہلے دنیا سے رخصت ہوجائیں توآپ کی قبراس مخصوص جگہ پربن جائے۔پردادا نے دوست سے کہا کہ آپ نے بڑا انصاف کیا۔اب میں اللہ سے دعاکروں گا کہ مجھے آپ سے پہلے اٹھالے۔
ان کی یہ دعا قبول ہوگئی۔ ضیاء دور میں ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان ٹیم کے شیف ڈی مشن کے طورپرہندوستان جانا ہوا۔میں اس وقت میجرجنرل اور پی او ایف کا چیئرمین تھا۔ٹیم کو لے کردہلی پہنچا توڈیفنس اتاشی لینے ائیرپورٹ آئے جہاں سے ہمیں کچھ دیرمیں کلکتہ روانہ ہونا تھا، میں نے ڈیفنس اتاشی سے پرداداکی قبرڈھونڈنے کی خواہش کا ذکرکیا تواس نے کہا کہ سر!ائیرپورٹ اتھارٹیزسے پوچھتے ہیں اگروہ اجازت دے دیں توہم نظام الدین اولیاء کے مزار پرہوآئیں گے۔
اس پرمجھے ڈیڑھ دوگھنٹے کے لیے اجازت مل گئی۔میں کئی قبروں پرگیا لیکن پردادا کے قبر نہیں ملی۔احمد کے نام سے ایک قبرملی تو میں نے اسے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ نہیں یہ نہیں جبکہ میرے دادا کا نام بھی احمد تھا۔بس !دل سے آوازنہیں آئی تھی۔پھراور قبریں دیکھنے لگے تو امیرخسروکی قبرکے قریب پردادا کی قبرمل گئی،جس پران کا پورانام اورسن وفات درج تھا۔میں نے فاتحہ پڑھی، اتنے میں مزارکے ناظم بھی آگئے۔بعد میں دہلی جانا رہا تو ادھرحاضری دیتا رہا۔
کانگریس سیاچن کا مسئلہ حل کرنے میں مخلص نہیں تھی
میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ منموہن سنگھ سیاچن کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے مگران کی فوج نے ایسا نہ کرنے دیا۔کانگریس خود بھی سیاچن کا مسئلہ حل کرنے پرتیارنہیں تھی۔شروع میں منموہن سنگھ کے ذہن میں کچھ ہوگا،اس لیے انھوں نے سیاچن کو ماؤنٹین آف پیس وغیرہ بنانے کی بات کی ، لیکن حکومت کو پوری طرح سنبھالنے پرانھیں احساس ہوگیاکہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے اوربھیs ramification ہیں، چین کی سرحد نزدیک ہے، اور یہ ایک سٹریٹجک لوکیشن ہے۔ سیاچن کا مسئلہ حل کرنے میں کانگریس کی نیت ہی نہیں تھی۔
اس میں فوج کا بھی اپنی جگہ دخل ہوگا، لیکن انڈین فوج اتنی طاقتورنہیں کہ حکومت سے کہے کہ آپ یہ کریں وہ کریں۔منموہن کے زمانے میںتھوڑا بہت فوج کا رسوخ بڑھا ہوگالیکن آپ دیکھیں گے اب مودی کے دور میں بالکل نارمل ہوجائے گا اور فوج کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ پالیسی بنائے۔
تزویراتی گہرائی کا تصورفضول تھا
تزویراتی گہرائی (strategic depth)کا تصورفضول اوربے معنی تھا۔یہ جنرل (ر) اسلم بیگ کی سوچ تھی کہ ہم افغانستان کوتزویراتی گہرائی کے طورپراستعمال کریں،الٹاادھر سے نظریاتی گہرائی پاکستان میں آگئی۔ہمارے ہاں بھی ان کی محفوظ پناہ گاہیں(sanctuaries) بن گئیں۔
افغانوں نے اس تصورکو اپنی خود مختاری میں مداخلت جانا اور سمجھا کہ ہم ان پربالادستی جمانا اوران کے ملک کو انڈیا کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں، ایک طریقے سے جیسے ہم ان کو اپنی کالونی سمجھتے ہیں۔میرے خیال میں وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب تھے۔جنرل(ر) اشفاق پرویزکیانی کے دورمیں یہ احساس پیدا ہوگیا تھاکہ تزویراتی گہرائی کا تصورچل نہیں سکتا۔نوازشریف بھی اس تصورکے حامی نہیں اور افغانستان سے برابری کی سطح پردوستی چاہتے ہیں۔
فیصلے کہیں اور ذمہ داری کسی اورپر،معاملات یوں نہیں چل سکتے
ذمہ داری اگرسول حکومت کی ہے مگرفیصلہ فوج کررہی ہو تو معاملات درست طریقے سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔فیصلہ کسی اورکا اور ذمہ داری کسی اورپر،یہ ٹھیک نہیں۔حکومت کو لوگوں نے مینڈیٹ دیا ہوتاہے، وہ اپنے طریقے سے ان کے مفادکے بارے میں سوچتی ہے۔فوج سکیورٹی پیراڈائم یا انسٹی ٹیوشنل پیراڈائم سے چیزوں کو دیکھتی ہے۔اس کی بنیاد پروہ فیصلہ کرتے ہیں یا بزورمنواتے ہیں، جوکہ اگرمناسب نہ ہوںتوبھی ذمہ دارحکومت ہی ٹھہرے گی۔
یہ درست روش نہیں۔ مثلاًنوازشریف کے انڈیاجانے کے معاملے کو لیجیے: وہ اگرانڈیانہ جاتے تو لوگ یہی کہتے کہ وزیراعظم توجانا چاہ رہے تھے، فوج نے جانے نہیں دیا، اوران کے دورے سے قبل تاثربھی اسی قسم کا بن رہا تھا۔بالفرض محال اگرفوج کے دباؤ کی وجہ سے نہ جاتے،اوراس سے جو نقصانات ہوتے تو ان کی ذمہ دارحکومت ہی ٹھہرتی جبکہ فیصلہ اس کا نہیں تھا۔سویلین حکومت اورفوج کے درمیان تعلقات میں عدم توازن ایک دن میں ختم نہیں ہوگا۔ سیاسی عمل چل رہا ہے، ایک سویلین حکومت نے دوسری کو اقتدارمنتقل کیا ہے،دوسرے اہم بات یہ ہے کہ سویلین اپنی اہلیت اورقابلیت بہتربنائیں،جب ایسا ہوگاتو خودبخود فوج ان کی بات سننے لگے گی،جیسا کہ ترکی میں ہوا ہے۔
فوج کے رسوخ کو کم کرنے کا معاملہ گڈگورنس سے جڑا ہے، ایک تو سیاسی عمل ہے جو چل رہا ہے، دوسرے سیاسی حکومت کی کارکردگی ہے ۔ سیاسی عمل مضبوط ہونے کے لیے کارکردگی کا بہترہونا ضروری ہے ،ایسا نہ ہونے سے سیاسی عمل اگرچلے بھی تو بتدریج کمزورہوتا جائے گا۔حکومت کی مخالف قوتیں بھی صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں اور فوج کی طرف دیکھتی ہیں، اسٹبلشمنٹ بھی ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی پر اس کا کنٹرول رہے۔انڈیا کے ساتھ تجارت کے حق میں ہوں۔میرے خیال میں کشمیرکا حل سوائے اس کے کہ سرحد کوstabilizeکیا جائے،کوئی اورنہیں۔میرانہیںخیال انڈیاکسی صورت میں کشمیرکو چھوڑے گا، اورہمارے پاس کوئی ایساleverageنہیں ہے، کہ کسی خطے کو مانگیں اورانڈیااسے آزاد کردے۔
ان خوبیوں کے ساتھ آپ ریٹنگ کے بھوکے کسی بھی اینکرکی نگاہِ نازمیں سماسکتے ہیں، صرف پروگرام میں مدعوہی نہیں کیا جائے گابلکہ وعظ کے لیے کھلاچھوڑ دیا جائے گا۔اس کثیف ماحول میں بھی چند اہل بصیرت موجود ہیں، جوبات کریں توان کا سانس نہیں پھولتا اورتعصب چہرے سے عیاں نہیں ہوتا۔اپنے کہے کو حرف آخرنہیں جانتے، یہ درست ہے کہ انھیں ریٹنگ مارکہ پروگراموں میں تونہیں بلایا جاتا لیکن سادہ پروگراموں میں وہ دکھائی دے جاتے ہیں۔ایسے نیک ناموں میں ایک نام معروف دفاعی وسیاسی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر)طلعت مسعود کا ہے۔
جو فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سے اپنے قلم اورزبان سے متوازن اورمتین لہجے میں تجزیہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ان دنوں ایکسپریس ٹریبون میں ان کا کالم باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ ٹی وی پروگراموں کے ذریعے سے ان کے خیالات سامنے آتے رہتے ہیں۔ مختلف قومی امورکے بارے میں ان کا نقطہ نظرہمارے روایتی قومی بیانیے سے ہٹ کر ہے، اس لیے وہ کلیشے میں بات کرنے پربھی مجبور نہیں۔ عمرعزیز کی اسّی سے زائد بہاریں دیکھ چکے لیکن ذہنی وجسمانی اعتبارسے فٹ فاٹ ہیں ۔بات، کان دھرکرسنتے ہیں اوربڑے تحمل سے جواب دیتے ہیں۔ تجزیہ نگارکے طورپرخود کو منوانے سے قبل چالیس برس پاک فوج سے متعلق رہنے کے دوران بڑے کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔
پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے چیئرمین بھی رہے، ان کے دورمیں اس اسلحہ ساز فیکٹری نے ترقی کی کئی منازل طے کیں ۔ان کے کئے کی دھوم ملک سے باہربھی پھیلی۔ ضیاء دورمیں مہاتیرمحمد خصوصی طورپران سے ملاقات کے متمنی ہوئے۔طلعت مسعود کے بقول''ضیاء دورمیں وفد کے ساتھ ملائشیا جانا ہوا۔ مہاتیر محمد سے الوداعی ملاقات میں ہاتھ ملایاتوکہنے لگے ''آپ بھی سنگاپورجارہے ہیں''پہلے تومیری سمجھ میں نہ آیالیکن پھرمیں نے کہا کہ ظاہرسی بات ہے کہ وفد میں شامل ہوں تو یہاں سے ہم سب اکٹھے ہی جائیں گے۔کہنے لگے، 'مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے،آپ رک کیوں نہیں جاتے۔ میں نے سنا ہے آپ نے پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے لیے بہت عمدہ کام کیا ہے۔'
میں نے ان سے کہا کہ صدرضیاء الحق سے پوچھ لوں۔ان سے بات کی توانھوں نے اجازت دے دی، تو پھر ساڑھے تین گھنٹے مہاتیر محمد سے ملاقات رہی، جس میں ان کے آرمی چیف اور وزیردفاع بھی تھے، مجھ سے پوچھتے رہے کہ میں نے آرڈیننس فیکٹری کو کس طرح ترقی دی۔اس زمانے میں بین الاقوامی سطح پر فیکٹری کا چرچا ہونا شروع ہوا اورہم ہتھیاربرآمدکرنے لگے تھے۔''
طلعت مسعود کا تعلق بڑے پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔ان کے والد رشید احمد،متحدہ ہندوستان کی جوڈیشل سروس میںجج تھے۔دادا مسعود علی منصف ہی نہیں مصنف بھی تھے۔شعرکہتے تھے۔نظام حیدرآباد نے انھیں انجمن ترقی اردوکا ناظم بھی بنایا۔حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولنے والے طلعت مسعود نے اسکول کی تعلیم اسی شہر میں رہ کر حاصل کرلی تویہیں کے معروف نظام کالج سے ایف ایس سی کیا، جس کے فوراً بعدریاست پر ہندوستان نے حملہ کردیا ۔1948ء میں حیدرآباد دکن میں پولیس ایکشن کے بعد ماحول یکسر بدل گیا۔ دوست، دوست نہ رہا۔
ہندوساتھیوں کے بدلے تیور دیکھ کرنوجوان طلعت مسعود نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ہجرت ،سراسران کا انفرادی فیصلہ تھا۔والدین کا خیال تھا کہ تھوڑا انتظارکرلیا جائے۔اس وجہ سے کہ والد کی تھوڑی سروس باقی تھی، دوسرے دومکانات اور ایک بڑے باغ کا کچھ ہو جائے۔ ان کے والدین کو یہ فکربھی دامن گیرتھی کہ فوراً گھربار چھوڑنے پرنئے ملک میں ذریعہ آمدن کیا ہو گا۔ خیر!طلعت مسعود تن تنہا لاہورآگئے اورایف سی کالج میں داخلہ لے لیا۔گھرسے مالی امداد ملنے لگی، پرجلد ہی اس میں رخنہ آ گیا۔
ہندوستان نے اپنے روپے کی قدر میں کمی کی ، پاکستان نے ایسا نہ کیا تو دونوں ملکوں میں روپے کا لین دین بند ہوگیا۔مالی مشکلات کے اس دورمیں انھوں نے فوج کی تینوں سروسزمیں اپلائی کردیا۔تینوں جگہوں سے مثبت جواب ملا۔بری فوج کی طرف سے پہلے بلاواآگیاتوپھراس کا انتخاب کر لیا۔ دو بہنوں کی شادی بھی فوجیوں سے ہوئی، اوپرسے یہ فوج میں تھے لہٰذاان کے لیے ہندوستان جاناممکن نہ رہا، ایسے میں والدین پرزوردیا کہ پنشن ملے نہ ملے،جائیداد حاصل ہویا نہ ہو،بس اب وہ پاکستان آجائیں۔ 1963ء میں ان کے والدین پاکستان آگئے۔یہ اس وقت میجر تھے۔ بھائی ان کے پاکستان تھوڑے عرصے کے لیے آئے اور پھر ہمیشہ کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔ جنرل (ر)کمال متین الدین اور بریگیڈیر(ر)صلاح الدین کرمانی ان کے بہنوئی ہیں۔
طلعت مسعود نے حیدرآباد دکن سے وابستہ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایاکہ مسلمانوں کے اس مرکز میں ہرمضمون اردو میں پڑھایاجاتا۔ان کی بہن میڈیسن کی تعلیم اردو میں حاصل کر رہی تھیں۔ انجینئرنگ اور قانون کی تعلیم بھی اردو میں دی جاتی۔ ماہرقانون والدنے پاکستان آکرانگریزی کی قانونی لغت کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔اس تہذیب کی سب سے بڑی خوبی ان کے نزدیک والدین کا تعلیم کو سب سے مقدم جاننا تھا۔ حیدرآبادی تہذیب کے رکھ رکھاؤ اورادب آداب کی یادانھیں آتی ہے۔نظام حیدرآباد میرعثمان علی کے بارے میں وہ اچھی رائے نہیں رکھتے۔کہتے ہیں ''نظام ٹھیک آدمی نہیں تھے۔سمجھ بھی کمزور تھی۔لالچی اورکنجوس تھے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا رہا ورنہ وہ ان سے کافی حد تک بچ سکتے تھے۔
لینڈ لاک ہونے کے باعث حیدرآباد دکن کے لیے آزاد ریاست کے طورپرزندہ رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ وہاں کی اسی فیصد آبادی ہندو، بیس فیصد مسلمان تھی ، توایسے میں نظام کی حیدرآباد کو آزاد ریاست قراردینے کی خواہش دانش مندانہ نہیں تھی، اس سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں، نقصان ہوا۔مزاحمت سے مسلمانوں کا نقصان ہی ہونا تھا، ایک طرف ہندوستان کی فوج، دوسری طرف حیدرآباد کی کمزورفوج اور وہ بھی کہیں کم تعداد میں، رضاکار انھوں نے کھڑے کئے لیکن وہ تربیت یافتہ نہیں تھے،اس لیے انڈین فوج کا مقابلہ نہ کرسکے۔پولیس ایکشن کے وقت ادھر تھا، ہم لوگ متاثر اس لیے نہیں ہوئے کہ قتل عام زیادہ تر دیہات میں ہوا کیونکہ مزاحمت بھی ادھرزیادہ تھی۔ مزاحمت کے باعث بات چیت کے ذریعے جو حاصل ہو سکتا تھا، وہ بھی نہیں مل سکا۔''
'' بات چیت کے ذریعے کیا حاصل کرسکتے تھے؟''
'' کم سے کم پرامن انتقال اقتدارہوجاتا۔ مسلمانوں کے ساتھ اس قدرظلم نہ ہوتا۔اتنی جانیں نہ جاتیں۔ پاکستان جان گیا تھا کہ حیدرآباد کے ساتھ الحاق قابل عمل نہیں ۔تقسیم ہند کے منصوبے میں وہ شق ہونی ہی نہیں چاہیے تھی جس میں ریاستوں کو اپنے طور پر آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیاردیا گیا تھا، یہ شق انگریزوں کی'' لڑاؤ اور حکومت کرو''کی پالیسی کی آئینہ دار تھی۔ ''
طلعت مسعودکاٹریک ٹو ڈپلومیسی سے بہت تعلق رہا،اس لیے ہندوستان کا پھیرا بھی لگتا رہا، البتہ حیدرآباد دکن جانے کی کوئی سبیل پیدا نہ ہوتی ،پھر قدرت نے اس کا بھی انتظام کردیا۔ ان کا حیدرآباد جانا کس طریقے سے ممکن ہوااس کی کہانی ان کی زبانی سنیے:
''آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ چندربابو نائیڈو پاکستان آئے ، توان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میںشرکت کے لیے انڈین ہائی کمیشن نے مجھے بھی دعوت نامہ بھجوایا۔انڈوپاک ڈائیلاگ میں شامل رہنے کی وجہ سے مجھ سے چندربابونائیڈومتعارف ضرورتھے لیکن یہ انھیں پتا نہیں تھا کہ ان کی ریاست کا جو صدرمقام ہے، میرا تعلق وہیںسے ہے،جب انھیں پتا چلا کہ میں تقسیم سے قبل حیدرآباد میں رہتا تھا توانھوں نے مجھ سے کہا ''آپ کبھی گئے ہیں؟'' '' وہاں اب میرا کون ہے، جس کے پاس جاؤں۔''میرے اس جواب پروہ کہنے لگے ''آپ ہمارے مہمان بنیں۔''پہلے پہل تو میں نے سمجھا کہ محض تکلفاً کہہ رہے ہیں، جیسا کہ کسی بھی شائستہ آدمی سے توقع ہوتی ہے، لیکن ان کے دوتین بارزوردینے پر میں نے ہامی بھرلی اور ان سے کہا کہ اب جب بھی ہندوستان آیا، ان سے رابطہ کروں گا۔ انھوں نے مجھے اپناذاتی نمبردیا۔ پی اے کا نمبردیا۔چارپانچ ماہ بعد مجھے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے سلسلے میں دہلی جانا پڑا، تووہاں سے میں نے چندربابونائیڈو سے رابطہ کیا توانھوں نے بڑی خوشدلی سے کہا کہ ضرورحیدرآباد آئیں۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ گیاتورہائش کا بندوبست کیا۔اپنی کاراور ڈرائیور دیا۔ اتنے برسوں میں سب کچھ بدل گیا۔ہم جہاں پررہتے تھے، وہ علاقہ پہچان میں نہ آتا تھا۔ بہت زیادہ ترقی ہوگئی۔افسوس یہ ہوا کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں ہندوؤں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔''
ٹریک ٹوڈپلومیسی سے کئی برسوں سے منسلک اس محترم سے ہم نے پوچھا ''بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٹریک ٹواوربیک ڈورڈپلومیسی دونوں ہی کامیاب طرز سفارت نہیں ؟''اس سوال پرکہنے لگے '' بیک ڈورمیں حکومت کے نمائندے ملتے ہیں۔آپس میں بات چیت کرکے حکومت کو فیڈ کرتے ہیں، اور حکومت جواباًانھیں فیڈ کرتی ہے، اورجب تک کسی ایسی منزل پرمعاملات پہنچ نہ جائیں، جہاں پرفیصلہ سازی یا کچھ حاصل کیا جاسکے، تواسے پبلک میں نہیں لایاجاتا۔ ٹریک ٹومیں شامل افراد کا اثرحکومت پربھی ہوتا ہے اوروہ ایک حد تک رائے عامہ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔
یہ طرفین کے ان افراد پرمشتمل ہوتا ہے جو آزادانہ طورپرمسائل حل کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں،جن میں نیوکلیئر جیسے بڑے ایشوزبھی زیربحث آتے ہیں اورچھوٹے ایشوز بھی۔ ٹریک ٹو میں فائدہ یہ ہے کہ آپ ایک دوسرے کی ذہنیت جان کراپنی حکومت اورعوام کو بتاسکتے ہیں۔جولوگ کہتے ہیں کہ ٹریک ٹو نے کچھ حاصل نہیں کیا، ان سے پوچھتاہوں ٹریک ون نے کیا حاصل کیا ہے؟کم سے کم ٹریک ٹوکی وجہ سے اعتماد سازی کے کئی معاملات پرغورکرکے حکومت کو فیڈ کیا، اورحکومت نے اسے مانا بھی۔ '' طلعت مسعود نے دوران ملازمت ضیاء الحق کو قریب سے دیکھا۔ ان کی شخصیت کے بارے پوچھنے پر بتایا ''جنرل ضیاء میں خوبیاں خامیاں دونوں تھیں۔ ان کے ہاں تضادات تھے۔
غریبوں کے بڑے ہمدرد تھے۔ کوئی ان کے مقابلے میں آجاتاتواس کو چھوڑتے نہیں تھے، جس طریقے سے بھٹوکے ساتھ ظلم کیا وہ عیاں ہے۔لبرل بھی تھے لیکن سیاسی طورپرقدم جمانے کے لیے ریڈیکل رائٹ کوساتھ رکھا، جس سے بہت نقصان ہوا۔ اپنے اقدامات کو legitimizeکرنے اور اپنی سیاسی قوت بڑھانے کے لیے جو کچھ کیا اس سے بھی خسارہ ہوا۔نان اسٹیٹ ایکٹرز بھی ان کے دورمیں وجود میں آئے۔''قومی ترجیحات میں وہ سب سے اول نمبرتعلیم کو دیتے ہیں۔
کہتے ہیں،ہماری آبادی کا پچاس فیصد پینتیس برس سے کم عمرافراد پرمشتمل ہے،جنھیں تعلیم دلا کراثاثہ بنایا جاسکتا ہے بصورت دیگروہ liability بن جائیں گے اورانتہا پسند قوتیں مزید مضبوط ہوں گی۔طلعت مسعود زندگی سے مطمئن ہیں۔ کہتے ہیں، سب سے بڑی کامیابی ضمیرکا مطمئن ہونا ہے۔خاندان پر بھی ان کی توجہ رہی۔ایک بیٹی آئی ٹی کمپنی میں اونچے عہدے پر ہے تو دوسری ماہرنفسیات۔بیٹامائیکروسوفٹ انجینئر۔ زندگی کے سفر میں اہلیہ کا بھرپور تعاون بھی میسر آیا، جنھوں نے معذورافراد کے لیے اسکول بھی قائم کیا۔ مطالعے سے گہرا شغف رکھنے والے طلعت مسعود کو ڈاکٹرمحبوب الحق کی علمیت نے متاثر کیا۔ ان دنوں اپنی یادداشتیں لکھ رہے ہیں۔
پرداداکی قبر کا قصہ
والد بتاتے تھے کہ حضرت نظام الدین اولیاء کی قبرکے نزدیک ہی ہمارے پردادا احمد علی دفن ہیں۔ان کے یہاں دفن ہونے کی بھی ایک کہانی ہے، جو میں نے والد سے ہی سنی۔دہلی کی انتظامیہ میں ایک بڑے مسلمان افسران کے عزیزدوست تھے۔ایک دن انھوں نے پردادا سے پوچھا کہ وہ ان کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔انھوں نے سوچا ہوگا کہ شاید وہ کوئی بیش قیمت چیزمانگیں گے، لیکن انھوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ مرنے کے بعد نظام الدین اولیاء کے قدموں کے پاس میرا مدفن ہو۔
اس پر انھوں نے کہا کہ کوئی جگہ نہیں بچی ،دادایہ سن کرمغموم ہوگئے، اور ادھران کے دوست نے انھیں رنجیدہ پاکرکہا کہ ایک جگہ ہے ضرورمگروہ میں نے اپنے لیے رکھ چھوڑی ہے، آپ سے اچھے مراسم کی وجہ سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگرمیں پہلے انتقال کرگیاتوادھردفن ہوجاؤں گا اور اگرآپ مجھ سے پہلے دنیا سے رخصت ہوجائیں توآپ کی قبراس مخصوص جگہ پربن جائے۔پردادا نے دوست سے کہا کہ آپ نے بڑا انصاف کیا۔اب میں اللہ سے دعاکروں گا کہ مجھے آپ سے پہلے اٹھالے۔
ان کی یہ دعا قبول ہوگئی۔ ضیاء دور میں ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان ٹیم کے شیف ڈی مشن کے طورپرہندوستان جانا ہوا۔میں اس وقت میجرجنرل اور پی او ایف کا چیئرمین تھا۔ٹیم کو لے کردہلی پہنچا توڈیفنس اتاشی لینے ائیرپورٹ آئے جہاں سے ہمیں کچھ دیرمیں کلکتہ روانہ ہونا تھا، میں نے ڈیفنس اتاشی سے پرداداکی قبرڈھونڈنے کی خواہش کا ذکرکیا تواس نے کہا کہ سر!ائیرپورٹ اتھارٹیزسے پوچھتے ہیں اگروہ اجازت دے دیں توہم نظام الدین اولیاء کے مزار پرہوآئیں گے۔
اس پرمجھے ڈیڑھ دوگھنٹے کے لیے اجازت مل گئی۔میں کئی قبروں پرگیا لیکن پردادا کے قبر نہیں ملی۔احمد کے نام سے ایک قبرملی تو میں نے اسے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ نہیں یہ نہیں جبکہ میرے دادا کا نام بھی احمد تھا۔بس !دل سے آوازنہیں آئی تھی۔پھراور قبریں دیکھنے لگے تو امیرخسروکی قبرکے قریب پردادا کی قبرمل گئی،جس پران کا پورانام اورسن وفات درج تھا۔میں نے فاتحہ پڑھی، اتنے میں مزارکے ناظم بھی آگئے۔بعد میں دہلی جانا رہا تو ادھرحاضری دیتا رہا۔
کانگریس سیاچن کا مسئلہ حل کرنے میں مخلص نہیں تھی
میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ منموہن سنگھ سیاچن کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے مگران کی فوج نے ایسا نہ کرنے دیا۔کانگریس خود بھی سیاچن کا مسئلہ حل کرنے پرتیارنہیں تھی۔شروع میں منموہن سنگھ کے ذہن میں کچھ ہوگا،اس لیے انھوں نے سیاچن کو ماؤنٹین آف پیس وغیرہ بنانے کی بات کی ، لیکن حکومت کو پوری طرح سنبھالنے پرانھیں احساس ہوگیاکہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے اوربھیs ramification ہیں، چین کی سرحد نزدیک ہے، اور یہ ایک سٹریٹجک لوکیشن ہے۔ سیاچن کا مسئلہ حل کرنے میں کانگریس کی نیت ہی نہیں تھی۔
اس میں فوج کا بھی اپنی جگہ دخل ہوگا، لیکن انڈین فوج اتنی طاقتورنہیں کہ حکومت سے کہے کہ آپ یہ کریں وہ کریں۔منموہن کے زمانے میںتھوڑا بہت فوج کا رسوخ بڑھا ہوگالیکن آپ دیکھیں گے اب مودی کے دور میں بالکل نارمل ہوجائے گا اور فوج کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ پالیسی بنائے۔
تزویراتی گہرائی کا تصورفضول تھا
تزویراتی گہرائی (strategic depth)کا تصورفضول اوربے معنی تھا۔یہ جنرل (ر) اسلم بیگ کی سوچ تھی کہ ہم افغانستان کوتزویراتی گہرائی کے طورپراستعمال کریں،الٹاادھر سے نظریاتی گہرائی پاکستان میں آگئی۔ہمارے ہاں بھی ان کی محفوظ پناہ گاہیں(sanctuaries) بن گئیں۔
افغانوں نے اس تصورکو اپنی خود مختاری میں مداخلت جانا اور سمجھا کہ ہم ان پربالادستی جمانا اوران کے ملک کو انڈیا کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں، ایک طریقے سے جیسے ہم ان کو اپنی کالونی سمجھتے ہیں۔میرے خیال میں وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب تھے۔جنرل(ر) اشفاق پرویزکیانی کے دورمیں یہ احساس پیدا ہوگیا تھاکہ تزویراتی گہرائی کا تصورچل نہیں سکتا۔نوازشریف بھی اس تصورکے حامی نہیں اور افغانستان سے برابری کی سطح پردوستی چاہتے ہیں۔
فیصلے کہیں اور ذمہ داری کسی اورپر،معاملات یوں نہیں چل سکتے
ذمہ داری اگرسول حکومت کی ہے مگرفیصلہ فوج کررہی ہو تو معاملات درست طریقے سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔فیصلہ کسی اورکا اور ذمہ داری کسی اورپر،یہ ٹھیک نہیں۔حکومت کو لوگوں نے مینڈیٹ دیا ہوتاہے، وہ اپنے طریقے سے ان کے مفادکے بارے میں سوچتی ہے۔فوج سکیورٹی پیراڈائم یا انسٹی ٹیوشنل پیراڈائم سے چیزوں کو دیکھتی ہے۔اس کی بنیاد پروہ فیصلہ کرتے ہیں یا بزورمنواتے ہیں، جوکہ اگرمناسب نہ ہوںتوبھی ذمہ دارحکومت ہی ٹھہرے گی۔
یہ درست روش نہیں۔ مثلاًنوازشریف کے انڈیاجانے کے معاملے کو لیجیے: وہ اگرانڈیانہ جاتے تو لوگ یہی کہتے کہ وزیراعظم توجانا چاہ رہے تھے، فوج نے جانے نہیں دیا، اوران کے دورے سے قبل تاثربھی اسی قسم کا بن رہا تھا۔بالفرض محال اگرفوج کے دباؤ کی وجہ سے نہ جاتے،اوراس سے جو نقصانات ہوتے تو ان کی ذمہ دارحکومت ہی ٹھہرتی جبکہ فیصلہ اس کا نہیں تھا۔سویلین حکومت اورفوج کے درمیان تعلقات میں عدم توازن ایک دن میں ختم نہیں ہوگا۔ سیاسی عمل چل رہا ہے، ایک سویلین حکومت نے دوسری کو اقتدارمنتقل کیا ہے،دوسرے اہم بات یہ ہے کہ سویلین اپنی اہلیت اورقابلیت بہتربنائیں،جب ایسا ہوگاتو خودبخود فوج ان کی بات سننے لگے گی،جیسا کہ ترکی میں ہوا ہے۔
فوج کے رسوخ کو کم کرنے کا معاملہ گڈگورنس سے جڑا ہے، ایک تو سیاسی عمل ہے جو چل رہا ہے، دوسرے سیاسی حکومت کی کارکردگی ہے ۔ سیاسی عمل مضبوط ہونے کے لیے کارکردگی کا بہترہونا ضروری ہے ،ایسا نہ ہونے سے سیاسی عمل اگرچلے بھی تو بتدریج کمزورہوتا جائے گا۔حکومت کی مخالف قوتیں بھی صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں اور فوج کی طرف دیکھتی ہیں، اسٹبلشمنٹ بھی ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی پر اس کا کنٹرول رہے۔انڈیا کے ساتھ تجارت کے حق میں ہوں۔میرے خیال میں کشمیرکا حل سوائے اس کے کہ سرحد کوstabilizeکیا جائے،کوئی اورنہیں۔میرانہیںخیال انڈیاکسی صورت میں کشمیرکو چھوڑے گا، اورہمارے پاس کوئی ایساleverageنہیں ہے، کہ کسی خطے کو مانگیں اورانڈیااسے آزاد کردے۔