انسان کی آخری اور اصلی آزادی
فرینک ایک ماہر نفسیات اور یہودی بھی تھا۔ اسے نازی جرمنی کے ڈیتھ کیمپوں میں قید کر دیا گیا
وکٹر فرینکل فرائیڈین سائیکالوجی کی روایت میں پروان چڑھنے والا ایک عزم پرست تھا، جو یہ بتاتا ہے کہ بچپن میں آپ کے ساتھ جوکچھ بھی ہوتا ہے وہ آپ کے کردار اور شخصیت کو تشکیل دیتا ہے اور بنیادی طور پر آپ کی پوری زندگی پر حکمرانی کرتا ہے۔ آپ کی زندگی کی حدود اور پیرا میٹرز متعین ہیں اور آپ اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔
فرینک ایک ماہر نفسیات اور یہودی بھی تھا۔ اسے نازی جرمنی کے ڈیتھ کیمپوں میں قید کر دیا گیا، جہاں اس نے ایسی چیزوں کا تجربہ کیا اور بعد میں بتاتا ہے کہ اسے انسان کی شائستہ مزاجی دہرانے کی بھی اجازت نہیں دیتی اور انسان اسے یاد کر کے تھرتھرا جاتا ہے۔ اس کی بہن کے علاوہ اس کا پورا خاندان موت کے کیمپوں میں ہلاک ہوگیا۔
فرینکل نے خود اذیتوں اور بے شمار بے ذلتوں کا سامنا کیا، ایک لمحے سے دوسرے لمحے تک کبھی نہیں جانتا تھا کہ آیا اس کا راستہ تندوروں کی طرف لے جائے گا یا وہ ' بچائے جانے والوں' میں شامل ہوگا۔ ایک دن، ننگے اور اکیلے ایک چھوٹے سے کمرے میں، اس نے اس بات سے آگاہ ہونا شروع کیا جسے بعد میں اس نے ''انسان کی آخری اور اصلی آزادی'' کہا، وہ آزادی جسے اس کے نازی اغوا کار چھین نہیں سکتے تھے۔
وہ اس کے پورے ماحول کوکنٹرول کر سکتے تھے، وہ اس کے جسم کے لیے جو چاہیں کرسکتے تھے، لیکن فرینکل خود ایک خود شناس ہستی تھی جو اس کی ہر مصروفیت پر ایک مبصرکی طرح دیکھ سکتا تھا۔ اس کی بنیادی شناخت برقرار تھی، وہ خود فیصلہ کرسکتا تھا کہ اس سب کا اس پرکیا اثر ہوگا۔ یعنی جوکچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا اس محرک اور اس کے نتیجے میں اپنے رد عمل کے بارے میں اس کو یہ آزادی اور قوت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ جیسا رد عمل چاہے اس کا چناؤ کر سکے۔
ایک بار Sacramento میں جب Stephen R Covey،proactivityکے موضوع پر بات کر رہے تھے، سامعین میں سے ایک خاتون ان کے پریزنٹیشن کے بیچ میں کھڑی ہوئی اور پرجوش انداز میں بات کرنے لگی۔ یہ سامعین کی ایک بڑی تعداد تھی، اور جیسے ہی بہت سے لوگ اس کی طرف دیکھنے کے لیے مڑ گئے، اسے اچانک معلوم ہوا کہ وہ کیا کررہی ہے، شرمندہ ہوئی اور واپس بیٹھ گئی، لیکن اسے اپنے آپ کو روکنا مشکل دکھائی دے رہا تھا اور جوش میں آس پاس کے لوگوں سے باتیں کرنے لگی۔ Covey مشکل سے ایک وقفے کا انتظار کر سکتا تھا یہ جاننے کے لیے کہ کیا ہوا تھا۔
جب یہ آخر کار آیا تو وہ فوراً اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا وہ اپنا تجربہ بتانا چاہتی ہے۔'' آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے'' اس نے کہا '' میں سب سے زیادہ دکھی، ناشکرے آدمی کی کل وقتی نرس ہوں جس کا آپ تصور نہیں کرسکتے ہیں۔ میں جوکچھ بھی کرتی ہوں وہ اس کے لیے کافی نہیں ہے، وہ کبھی بھی تعریف نہیں کرتا۔ وہ شاید ہی مجھے تسلیم کرتا ہے۔
وہ مسلسل مجھ پر طنزکرتا ہے اور میرے ہر کام میں غلطی تلاش کرتا ہے۔ اس شخص نے میری زندگی کو دکھی کر دیا ہے اور میں اکثر اپنی مایوسی اپنے گھر والوں پر نکال لیتی ہوں۔ دوسری نرسیں بھی ایسا ہی محسوس کرتی ہیں۔ ہم تقریباً ان کے انتقال کے لیے دعا کرتے ہیں اور آپ کو وہاں کھڑے ہونے اور مشورہ دینے کے لیے کہ کوئی چیز مجھے تکلیف نہیں دے سکتی ہے کہ کوئی بھی میری رضا مندی کے بغیر مجھے تکلیف نہیں دے سکتا ہے، اور یہ کہ میں نے اپنی جذباتی زندگی کو دکھی ہونے کا انتخاب خود کیا ہے، لیکن میں اس کے بارے میں مستقل سوچتی رہی۔
میں حقیقتاً اپنے اندرگھس گئی اور میں نے خود سے کہا، کیا میرے اندر یہ طاقت ہے کہ میں اپنا رد عمل خود طے کر سکوں ؟ جب مجھے یہ احساس ہوگیا کہ ہاں میرے اندر یہ طاقت ہے، جب میں نے یہ کڑوی گولی نگل لی اور مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ واقعی میں نے خود اپنے لیے اس آشفتہ حالی میں رہنا چنا ہے تو پھر مجھ پر یہ بھی کھلنے لگا کہ میں اس حال میں نہ رہنا بھی چن سکتی ہوں۔'' اس لمحے پھر میں اٹھ کھڑی ہوئی ۔ مجھے یوں لگا جیسے میں موت کی ایک لمبی قید سے باہر آگئی ہوں ۔ میں چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ ''میں آزاد ہوں ! مجھے قید سے رہائی مل گئی ہے !
اب کوئی شخص میرے ساتھ برا سلو ک نہیں کرسکے گا '' ہمیں اصل تکلیف اپنے ساتھ ہونے والی برائی کی نہیں ہوتی بلکہ اس برائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اپنے رد عمل کی ہوتی ہے ۔ یقینا چیزیں ہمیں طبعی طور پر یا معاشی طور پرگزند پہنچا سکتی ہیں اور ہم اس سلسلے میں دکھی بھی ہوسکتے ہیں لیکن ہمارا بنیادی تشخص اور ہمارا کردار اس سے قطعاً متاثر نہیں ہونے چاہیں بلکہ درحقیقت ہمارے مشکل ترین تجربات ہماری کسوٹی ہوتے ہیں جوکہ ہمارے کردارکو مضبوط بناتے ہیں اور ہمارے اندر ایک قوت پیدا کرتے ہیں، ہمیں آئندہ ایسے مشکل حالات سے نپٹنے کا اہل بناتے ہیں اور مشکلات میں ہمارا یہ رویہ دوسروں کو بھی حوصلہ بخشتا ہے۔
ایلیز روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ کوئی آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔ گاندھی کے الفاظ میں: '' وہ ہم سے ہماری عزت نہیں چھین سکتے تا وقت یہ کہ ہم خود اسے ان کے حوالے نہ کردیں۔'' ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہماری اجازت اور رضامندی سے ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہمیں سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے ، نسبتاً اصل تکلیف کے۔
فرینک ایک ماہر نفسیات اور یہودی بھی تھا۔ اسے نازی جرمنی کے ڈیتھ کیمپوں میں قید کر دیا گیا، جہاں اس نے ایسی چیزوں کا تجربہ کیا اور بعد میں بتاتا ہے کہ اسے انسان کی شائستہ مزاجی دہرانے کی بھی اجازت نہیں دیتی اور انسان اسے یاد کر کے تھرتھرا جاتا ہے۔ اس کی بہن کے علاوہ اس کا پورا خاندان موت کے کیمپوں میں ہلاک ہوگیا۔
فرینکل نے خود اذیتوں اور بے شمار بے ذلتوں کا سامنا کیا، ایک لمحے سے دوسرے لمحے تک کبھی نہیں جانتا تھا کہ آیا اس کا راستہ تندوروں کی طرف لے جائے گا یا وہ ' بچائے جانے والوں' میں شامل ہوگا۔ ایک دن، ننگے اور اکیلے ایک چھوٹے سے کمرے میں، اس نے اس بات سے آگاہ ہونا شروع کیا جسے بعد میں اس نے ''انسان کی آخری اور اصلی آزادی'' کہا، وہ آزادی جسے اس کے نازی اغوا کار چھین نہیں سکتے تھے۔
وہ اس کے پورے ماحول کوکنٹرول کر سکتے تھے، وہ اس کے جسم کے لیے جو چاہیں کرسکتے تھے، لیکن فرینکل خود ایک خود شناس ہستی تھی جو اس کی ہر مصروفیت پر ایک مبصرکی طرح دیکھ سکتا تھا۔ اس کی بنیادی شناخت برقرار تھی، وہ خود فیصلہ کرسکتا تھا کہ اس سب کا اس پرکیا اثر ہوگا۔ یعنی جوکچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا اس محرک اور اس کے نتیجے میں اپنے رد عمل کے بارے میں اس کو یہ آزادی اور قوت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ جیسا رد عمل چاہے اس کا چناؤ کر سکے۔
ایک بار Sacramento میں جب Stephen R Covey،proactivityکے موضوع پر بات کر رہے تھے، سامعین میں سے ایک خاتون ان کے پریزنٹیشن کے بیچ میں کھڑی ہوئی اور پرجوش انداز میں بات کرنے لگی۔ یہ سامعین کی ایک بڑی تعداد تھی، اور جیسے ہی بہت سے لوگ اس کی طرف دیکھنے کے لیے مڑ گئے، اسے اچانک معلوم ہوا کہ وہ کیا کررہی ہے، شرمندہ ہوئی اور واپس بیٹھ گئی، لیکن اسے اپنے آپ کو روکنا مشکل دکھائی دے رہا تھا اور جوش میں آس پاس کے لوگوں سے باتیں کرنے لگی۔ Covey مشکل سے ایک وقفے کا انتظار کر سکتا تھا یہ جاننے کے لیے کہ کیا ہوا تھا۔
جب یہ آخر کار آیا تو وہ فوراً اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا وہ اپنا تجربہ بتانا چاہتی ہے۔'' آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے'' اس نے کہا '' میں سب سے زیادہ دکھی، ناشکرے آدمی کی کل وقتی نرس ہوں جس کا آپ تصور نہیں کرسکتے ہیں۔ میں جوکچھ بھی کرتی ہوں وہ اس کے لیے کافی نہیں ہے، وہ کبھی بھی تعریف نہیں کرتا۔ وہ شاید ہی مجھے تسلیم کرتا ہے۔
وہ مسلسل مجھ پر طنزکرتا ہے اور میرے ہر کام میں غلطی تلاش کرتا ہے۔ اس شخص نے میری زندگی کو دکھی کر دیا ہے اور میں اکثر اپنی مایوسی اپنے گھر والوں پر نکال لیتی ہوں۔ دوسری نرسیں بھی ایسا ہی محسوس کرتی ہیں۔ ہم تقریباً ان کے انتقال کے لیے دعا کرتے ہیں اور آپ کو وہاں کھڑے ہونے اور مشورہ دینے کے لیے کہ کوئی چیز مجھے تکلیف نہیں دے سکتی ہے کہ کوئی بھی میری رضا مندی کے بغیر مجھے تکلیف نہیں دے سکتا ہے، اور یہ کہ میں نے اپنی جذباتی زندگی کو دکھی ہونے کا انتخاب خود کیا ہے، لیکن میں اس کے بارے میں مستقل سوچتی رہی۔
میں حقیقتاً اپنے اندرگھس گئی اور میں نے خود سے کہا، کیا میرے اندر یہ طاقت ہے کہ میں اپنا رد عمل خود طے کر سکوں ؟ جب مجھے یہ احساس ہوگیا کہ ہاں میرے اندر یہ طاقت ہے، جب میں نے یہ کڑوی گولی نگل لی اور مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ واقعی میں نے خود اپنے لیے اس آشفتہ حالی میں رہنا چنا ہے تو پھر مجھ پر یہ بھی کھلنے لگا کہ میں اس حال میں نہ رہنا بھی چن سکتی ہوں۔'' اس لمحے پھر میں اٹھ کھڑی ہوئی ۔ مجھے یوں لگا جیسے میں موت کی ایک لمبی قید سے باہر آگئی ہوں ۔ میں چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ ''میں آزاد ہوں ! مجھے قید سے رہائی مل گئی ہے !
اب کوئی شخص میرے ساتھ برا سلو ک نہیں کرسکے گا '' ہمیں اصل تکلیف اپنے ساتھ ہونے والی برائی کی نہیں ہوتی بلکہ اس برائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اپنے رد عمل کی ہوتی ہے ۔ یقینا چیزیں ہمیں طبعی طور پر یا معاشی طور پرگزند پہنچا سکتی ہیں اور ہم اس سلسلے میں دکھی بھی ہوسکتے ہیں لیکن ہمارا بنیادی تشخص اور ہمارا کردار اس سے قطعاً متاثر نہیں ہونے چاہیں بلکہ درحقیقت ہمارے مشکل ترین تجربات ہماری کسوٹی ہوتے ہیں جوکہ ہمارے کردارکو مضبوط بناتے ہیں اور ہمارے اندر ایک قوت پیدا کرتے ہیں، ہمیں آئندہ ایسے مشکل حالات سے نپٹنے کا اہل بناتے ہیں اور مشکلات میں ہمارا یہ رویہ دوسروں کو بھی حوصلہ بخشتا ہے۔
ایلیز روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ کوئی آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔ گاندھی کے الفاظ میں: '' وہ ہم سے ہماری عزت نہیں چھین سکتے تا وقت یہ کہ ہم خود اسے ان کے حوالے نہ کردیں۔'' ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہماری اجازت اور رضامندی سے ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہمیں سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے ، نسبتاً اصل تکلیف کے۔