اسٹیل ملز کی بندش
یہاں زندگی 24 گھنٹے جاگتی تھی رات کا منظر دن سے زیادہ خوبصورت لگتا تھا
اسٹیل ملز کے سابق چیئرمین، سابقہ سینیٹر اور (ن) لیگ کے رہنما جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ کی اقتصادی سروے اور پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران کہی گئی یہ بات تکلیف دہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری نہیں ہوسکتی اسے اسکریپ کے طور پر فروخت کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ستمبر 2006 کو میں نے پاکستان اسٹیل ملز چھوڑا تھا تو اسٹیل ملز 90 فیصد پیداواری استعداد کے مطابق چل رہا تھا اس میں 12 ارب روپے کا خام مال پڑا تھا اور دس ارب روپے کی بچت چار بینکوں میں پڑی تھی۔
اس کے ذمے کسی قسم کا قرضہ نہیں تھا۔ ملز کو اسکریپ کے بھاؤ فروخت کرنے سے پہلے سول، مکینیکل، میٹرولوجیکل، الیکٹرونکس و الیکٹریکل انجینئر کی نئی مشترکہ ٹیم کو موقع پر بھیج کر اس کا معائنہ کرانا انتہائی ضروری ہے۔ مشترکہ ٹیم کو ساحل سمندر پر نیشنل اور سپرہائی وے اور مین ریلوے لائن ایم ایل ون کے ساتھ واقع صرف اس پلانٹ کی 19 ہزار ایکڑ زمین ہی کو نہیں دیکھنا ہوگا بلکہ پاکستان اسٹیل کی اپنی جیٹی ہے، اپنا سمندری چینل ہے، سمندر سے پلانٹس تک کئی کلو میٹر طویل کنویئر بیلٹ ہے، 165 میگاواٹ کا پاور ہاؤس ہے، 165 بیڈز کا اسپتال، 110 کلو میٹر پکی سڑکیں، 72 کلو میٹر کی ریلوے لائن، سمندری چینل، فائیو سٹار ہوٹل کے مقابلے کے 50 گیسٹ ہاؤسز، اسکول، کالجز، کیڈٹ کالج، اسٹیڈیم، پارکس اور تقریباً 10 کلومیٹر فائبر آپٹکس بچھی ہوئی سرنگوں پر بھی نظر دوڑانا ہوگی پلانٹ کا اربوں ٹن کا لوہا اس کے علاوہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل اربوں روپے کا زرمبادلہ بچاتا تھا اور اربوں روپے سالانہ کے ٹیکسز قومی خزانے میں جمع کراتا تھا اس کو دنیا کا صاف ترین پلانٹ قرار دیا گیا تھا اور میٹالرجیکل ٹریننگ سینٹر کو عالمی ادارے نے Centre of Excellence کا خطاب دیا تھا، MTC اور HRD ڈپارٹمنٹس سے اپرنٹس و ڈپلومہ سے لے کر ماسٹر آف سائنس (MS) تعلیم و ڈگریاں دی جاتی تھیں۔
اسٹیل ملز کے اپنے تھرمل پاور پلانٹس تھے جہاں سے سیکڑوں میگاواٹ اضافی بجلی کراچی الیکٹرک کو فراہم کی جاتی تھی جو لانڈھی، کورنگی، انڈسٹریل ایریا کے استعمال میں آتی تھی، ایشیا کی سب سے بڑی کنویئر بیلٹ، سب سے بڑے ان لوڈرز اور جیٹی اسٹیل ملز کی شناخت تھیں۔ اسٹیل ملز منی پاکستان کہلاتا تھا، اسٹیل ٹاؤن و گلشن حدید کسی چھوٹے و ترقی یافتہ شہر کا نقشہ پیش کرتے تھے جہاں جدید سہولیات سے آراستہ کئی چھوٹے بڑے اسپتال، میدان، پارکس، جھیلیں، کرکٹ اسٹیڈیم، آسٹروٹرف سے مزین ہاکی اسٹیڈیم، کنٹری کلب، رشین بیچ، ہرن و مور گارڈن، ریشم کے کپڑوں کا فارم، وسیع و عریض رقبے پر محیط فروٹ فارم موجود تھے۔ مساجد، امام بارگاہ، چرچ اور مندر کے علاوہ تمام مذاہب کے علیحدہ علیحدہ قبرستان تک موجود تھے یہاں زندگی 24 گھنٹے جاگتی تھی رات کا منظر دن سے زیادہ خوبصورت لگتا تھا اگر سوئی بھی نیچے گر جائے تو نظر آجاتی تھی۔ اب تو یہ تمام باتیں اور یادیں تصوراتی لگتی ہیں جو خواب و خیال ہو چکی ہیں۔
اسٹیل ملز شروع سے ہی سیاستدانوں، حکمرانوں، جاگیرداروں کی لوٹ مار اور کرپشن کا شکار رہا ہے، اگست 2022 میں 10 ارب روپے کی چوری ہوئی تھی جسے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی چوری یا ڈکیتی قرار دیا جاسکتا ہے جس کی تحقیقات کے لیے وزارت صنعت و تجارت نے ڈی جی ایف آئی اے کو خط ارسال کیا تھا، گزشتہ کئی عشروں سے ملک میں قومی اداروں کی نجکاری و فروخت کے لیے ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، ری اسٹرکچرنگ اور اِل انڈسٹری (بیمار صنعتیں) جیسے سلوگن کے تحت بڑی تعداد میں مزدوروں کو بے روزگار کیا گیا، منافع بخش اور حساس اداروں تک کو اونے پونے فروخت کردیا گیا۔
پاکستان اسٹیل بھی نجکاری والے اداروں کی فہرست میں شامل رہا ہے۔ ہر حکومت نے اس کو فروخت کرنے کی کوشش کی۔ پرویز مشرف حکومت میں اس کا سودا محض 20 ارب روپے میں وہ بھی قسطوں پر کر دیا گیا تھا جس وقت صرف ادارے کی پروڈکٹس انونٹری 10 ارب سے زیادہ کی تھی اگر سپریم کورٹ ایکشن نہ لیتی تو یہ ادارہ بندربانٹ کی نذر ہو چکا ہوتا۔ اس موقع پر جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا تھا کہ حکومت ملک کی قسمت اور وسائل سے کھیل رہی ہے، عدالتی ریمارکس کا غلط استعمال اور احکامات کی غلط تشریح و تعبیر کی جا رہی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 153 کے تحت پاکستان اسٹیل کے لیے CCI میں پالیسی وضع کرنی چاہیے لیکن حکومت نے اس کے برعکس اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی میں فیصلہ کرکے کابینہ کی منظوری لے کر ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے معاملات چلانے کی کوشش کی عمران خان نے جو نجکاری کے خلاف مزدوروں کے دھرنوں میں شریک ہوتے تھے اقتدار میں آتے ہی قومی اداروں کی نجکاری کے لیے کابینہ سے آرڈیننس اور صدر سے اس کی منظوری لے کر بڑی بھونڈی کوشش کی اور عوام کو طفل تسلیاں دی تھیں کہ یہ ادارے پرائیویٹ پارٹیوں کو صرف دو سال کے لیے دیے جائیں گے پھر انھیں واپس لے لیا جائے گا۔
تمام سیاستدان اور حکمران بظاہر تو اسٹیل ملز کی خیر خواہی اور مزدور دوستی کا دم بھرتے رہے ہیں لیکن حکومت اور ایوانوں میں ان کی ترجیحات کچھ اور ہی ہوتی ہیں ایک طرف تو معاشی ماہرین اسٹیل ملز کی بندش کو معاشی غلامی سے تعبیر کر رہے ہیں دوسری جانب حکومتی اکابرین کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ سابقہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے ایک پریس کانفرنس میں بڑی فراخ دلی اور شیخی سے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے کہ جو ہم سے پی آئی اے خریدے گا ہم اسٹیل ملز اس کو مفت میں دے دیں گے۔ موجودہ وزیر خزانہ بھی اس کو اسکریپ کے طور پر فروخت کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
دنیا بھر میں اسٹیل انڈسٹری کو مدر انڈسٹری کا درجہ اور صنعتی ترقی کا سنگ میل سمجھا جاتا ہے اسی اہمیت کو مدنظر رکھ کر حکومت پاکستان اور بیورو کریٹس25سال کی جانفشانی و کاوشوں کے بعد روس سے اسٹیل ملز کی تعمیر کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بلاشبہ پاکستان اسٹیل ملز ایک صنعتی ٹائی ٹینک تھا جس کا خاتمہ کسی قومی سانحے سے کم نہ ہوگا۔
اس کے ذمے کسی قسم کا قرضہ نہیں تھا۔ ملز کو اسکریپ کے بھاؤ فروخت کرنے سے پہلے سول، مکینیکل، میٹرولوجیکل، الیکٹرونکس و الیکٹریکل انجینئر کی نئی مشترکہ ٹیم کو موقع پر بھیج کر اس کا معائنہ کرانا انتہائی ضروری ہے۔ مشترکہ ٹیم کو ساحل سمندر پر نیشنل اور سپرہائی وے اور مین ریلوے لائن ایم ایل ون کے ساتھ واقع صرف اس پلانٹ کی 19 ہزار ایکڑ زمین ہی کو نہیں دیکھنا ہوگا بلکہ پاکستان اسٹیل کی اپنی جیٹی ہے، اپنا سمندری چینل ہے، سمندر سے پلانٹس تک کئی کلو میٹر طویل کنویئر بیلٹ ہے، 165 میگاواٹ کا پاور ہاؤس ہے، 165 بیڈز کا اسپتال، 110 کلو میٹر پکی سڑکیں، 72 کلو میٹر کی ریلوے لائن، سمندری چینل، فائیو سٹار ہوٹل کے مقابلے کے 50 گیسٹ ہاؤسز، اسکول، کالجز، کیڈٹ کالج، اسٹیڈیم، پارکس اور تقریباً 10 کلومیٹر فائبر آپٹکس بچھی ہوئی سرنگوں پر بھی نظر دوڑانا ہوگی پلانٹ کا اربوں ٹن کا لوہا اس کے علاوہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل اربوں روپے کا زرمبادلہ بچاتا تھا اور اربوں روپے سالانہ کے ٹیکسز قومی خزانے میں جمع کراتا تھا اس کو دنیا کا صاف ترین پلانٹ قرار دیا گیا تھا اور میٹالرجیکل ٹریننگ سینٹر کو عالمی ادارے نے Centre of Excellence کا خطاب دیا تھا، MTC اور HRD ڈپارٹمنٹس سے اپرنٹس و ڈپلومہ سے لے کر ماسٹر آف سائنس (MS) تعلیم و ڈگریاں دی جاتی تھیں۔
اسٹیل ملز کے اپنے تھرمل پاور پلانٹس تھے جہاں سے سیکڑوں میگاواٹ اضافی بجلی کراچی الیکٹرک کو فراہم کی جاتی تھی جو لانڈھی، کورنگی، انڈسٹریل ایریا کے استعمال میں آتی تھی، ایشیا کی سب سے بڑی کنویئر بیلٹ، سب سے بڑے ان لوڈرز اور جیٹی اسٹیل ملز کی شناخت تھیں۔ اسٹیل ملز منی پاکستان کہلاتا تھا، اسٹیل ٹاؤن و گلشن حدید کسی چھوٹے و ترقی یافتہ شہر کا نقشہ پیش کرتے تھے جہاں جدید سہولیات سے آراستہ کئی چھوٹے بڑے اسپتال، میدان، پارکس، جھیلیں، کرکٹ اسٹیڈیم، آسٹروٹرف سے مزین ہاکی اسٹیڈیم، کنٹری کلب، رشین بیچ، ہرن و مور گارڈن، ریشم کے کپڑوں کا فارم، وسیع و عریض رقبے پر محیط فروٹ فارم موجود تھے۔ مساجد، امام بارگاہ، چرچ اور مندر کے علاوہ تمام مذاہب کے علیحدہ علیحدہ قبرستان تک موجود تھے یہاں زندگی 24 گھنٹے جاگتی تھی رات کا منظر دن سے زیادہ خوبصورت لگتا تھا اگر سوئی بھی نیچے گر جائے تو نظر آجاتی تھی۔ اب تو یہ تمام باتیں اور یادیں تصوراتی لگتی ہیں جو خواب و خیال ہو چکی ہیں۔
اسٹیل ملز شروع سے ہی سیاستدانوں، حکمرانوں، جاگیرداروں کی لوٹ مار اور کرپشن کا شکار رہا ہے، اگست 2022 میں 10 ارب روپے کی چوری ہوئی تھی جسے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی چوری یا ڈکیتی قرار دیا جاسکتا ہے جس کی تحقیقات کے لیے وزارت صنعت و تجارت نے ڈی جی ایف آئی اے کو خط ارسال کیا تھا، گزشتہ کئی عشروں سے ملک میں قومی اداروں کی نجکاری و فروخت کے لیے ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، ری اسٹرکچرنگ اور اِل انڈسٹری (بیمار صنعتیں) جیسے سلوگن کے تحت بڑی تعداد میں مزدوروں کو بے روزگار کیا گیا، منافع بخش اور حساس اداروں تک کو اونے پونے فروخت کردیا گیا۔
پاکستان اسٹیل بھی نجکاری والے اداروں کی فہرست میں شامل رہا ہے۔ ہر حکومت نے اس کو فروخت کرنے کی کوشش کی۔ پرویز مشرف حکومت میں اس کا سودا محض 20 ارب روپے میں وہ بھی قسطوں پر کر دیا گیا تھا جس وقت صرف ادارے کی پروڈکٹس انونٹری 10 ارب سے زیادہ کی تھی اگر سپریم کورٹ ایکشن نہ لیتی تو یہ ادارہ بندربانٹ کی نذر ہو چکا ہوتا۔ اس موقع پر جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا تھا کہ حکومت ملک کی قسمت اور وسائل سے کھیل رہی ہے، عدالتی ریمارکس کا غلط استعمال اور احکامات کی غلط تشریح و تعبیر کی جا رہی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 153 کے تحت پاکستان اسٹیل کے لیے CCI میں پالیسی وضع کرنی چاہیے لیکن حکومت نے اس کے برعکس اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی میں فیصلہ کرکے کابینہ کی منظوری لے کر ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے معاملات چلانے کی کوشش کی عمران خان نے جو نجکاری کے خلاف مزدوروں کے دھرنوں میں شریک ہوتے تھے اقتدار میں آتے ہی قومی اداروں کی نجکاری کے لیے کابینہ سے آرڈیننس اور صدر سے اس کی منظوری لے کر بڑی بھونڈی کوشش کی اور عوام کو طفل تسلیاں دی تھیں کہ یہ ادارے پرائیویٹ پارٹیوں کو صرف دو سال کے لیے دیے جائیں گے پھر انھیں واپس لے لیا جائے گا۔
تمام سیاستدان اور حکمران بظاہر تو اسٹیل ملز کی خیر خواہی اور مزدور دوستی کا دم بھرتے رہے ہیں لیکن حکومت اور ایوانوں میں ان کی ترجیحات کچھ اور ہی ہوتی ہیں ایک طرف تو معاشی ماہرین اسٹیل ملز کی بندش کو معاشی غلامی سے تعبیر کر رہے ہیں دوسری جانب حکومتی اکابرین کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ سابقہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے ایک پریس کانفرنس میں بڑی فراخ دلی اور شیخی سے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے کہ جو ہم سے پی آئی اے خریدے گا ہم اسٹیل ملز اس کو مفت میں دے دیں گے۔ موجودہ وزیر خزانہ بھی اس کو اسکریپ کے طور پر فروخت کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
دنیا بھر میں اسٹیل انڈسٹری کو مدر انڈسٹری کا درجہ اور صنعتی ترقی کا سنگ میل سمجھا جاتا ہے اسی اہمیت کو مدنظر رکھ کر حکومت پاکستان اور بیورو کریٹس25سال کی جانفشانی و کاوشوں کے بعد روس سے اسٹیل ملز کی تعمیر کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بلاشبہ پاکستان اسٹیل ملز ایک صنعتی ٹائی ٹینک تھا جس کا خاتمہ کسی قومی سانحے سے کم نہ ہوگا۔