ایک لاپتہ شہرکا سراغ
گزشتہ صدی میں اسے ہندوستان کا پیرس کہا جاتا تھا۔ دنیا کے چند صاف ستھرے شہروں میں شمار ہوتا تھا
رمضان بلوچ 4 اگست 1944ء کو لیاری کے ایک غریب گھرانے میں عبدالغفور بلوچ کے یہاں پیدا ہوئے ان کے والد ایک محنت کش مزدور تھے جو مٹی گارے کے بنے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ رمضان بلوچ جامعہ کراچی کے فارغ تحصیل ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ تعلیمی اور سماجی میدانوں میں سرگرم عمل رہے، وہ روشن خیال اور ترقی پسند طلباء تنظیموں لیاری اسٹوڈنٹس فیڈریشن، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے ہیں۔
1973ء میں وہ حکومت سندھ کے بلدیاتی محکمے سے وابستہ ہوئے۔ اس ملازمت کے دوران انہوں نے اندرون سندھ ڈسٹرکٹ خیر پور، شکار پور، رانی پور اورگڑھی یاسین ٹاؤنز میں ایڈمنسٹریٹرکی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1976ء میں ان کا تبادلہ کراچی میونسپل کارپوریشن میں ہوا جہاں وہ مختلف اہم محکموں میں فرائض سرانجام دیتے رہے۔2004ء میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہ علمی، ادبی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔2007ء سے وہ ٹاؤن میونسپل کارپوریشن لیاری میں کنسلٹنٹ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ان کی ذمے داریوں میں مقبول ماہنامہ صدائے لیاری کے چیف ایڈیٹرکی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ رمضان بلوچ کی تصنیفات میں لیاری کی ادھوری کہانی، لیاری کی ان کہی کہانی، بلوچ روشن چہرے،گوادر: ڈوبتے ابھرتے سورج کی کہانی اور حال ہی میں شائع شدہ کتاب ایک لاپتہ شہر کا سراغ شامل ہیں۔ ایک لاپتہ شہر کا سراغ نامی اس کتاب میں کراچی کا درخشاں ماضی، تخریب کے دن اور مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے جس میں کراچی کے ماضی کی عکاسی کی گئی ہے کتاب میں کراچی کے حوالے سے 41 مختلف مضامین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ 15صفحات پر پھیلے ہوئے حوالہ جات کی تعداد 198ہے کو مختلف کتابوں اور اخباری مضامین پر مشتمل ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے قلمی محنت کی ہے اور اپنی تہی سے کراچی کا حال و احوال کو یکجا کرنے کی سعی کی ہے ۔326صفحات پر مشتمل اس کتاب کو انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ نے شائع کیا ہے۔
مصنف نے کتاب کے انتساب بعنوان فیض احمد فیض کے نام سے لکھا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا ہم کراچی نشینوں نے خوشیاں دیکھیں، بہاروں کے جھونکوں سے آشنا ہوئے، پھولوں کی مہک اور موسیقی کی لے روحانی سکون کا باعث بنی، ساتھ ساتھ عقل و شعور پھلتا پھولتا رہا۔ پھول جیسے بچوں کا مستقبل تابناک دیکھا، پرعزم قدم آگے بڑھتے رہے، پھر نہ جانے کہاں سے طوفانی ہوا چلی، نفرت کی آگ بھڑک اٹھی، پھر امن وسکون برباد ہوا، تباہی آئی، انتشار پھیلا، خوف کے سائے چھا گئے، بے بسی کے عالم میں اس عظیم شہرکی رونقوں اور روشنیوں کو مدہم ہوتے دیکھا،روشن مستقبل کے خواب بکھرکر ہوا میں تحلیل ہوتے نظر آئے۔ سدھارکی صورت اب کہیں نظر نہیں آتی، تاریکی ہی کو ہم اپنا مقدر سمجھ بیٹھے ہیں۔ پیش لفظ بعنوان کچھ ہماری عرض میں مصنف لکھتے ہیں کہ '' یہ کتاب میں نے کیوں لکھی مجھے نہیں معلوم ۔ بس ! کچھ جذبات، چند تاثرات اور بہت ساری یادیں ہیں۔کچھ خوشگوارکچھ تلخ ، جن کو ہم نے یہاں کاغذ پر بکھیرنے کی ایک بہت ہی ادنیٰ سی کوشش کی ہے۔
ایک ایسے شہرکے بارے میں جو مٹی، ریت ، جنگلات اور خاموش ویران ساحل سے ابھرکر چمکتے ستارے کی طرح افق پر پہنچا اور کافی عرصہ تک بلندی پر قائم رہا، پھر دیکھتے دیکھتے ٹوٹے ستارے کی طرح ایسا گرا کہ اب یہ دوبارہ مٹی، ریت ، جنگل اور (ذہنی ) ویرانی کی تصویر بن چکا ہے ۔ یہ بلندی و پستی صرف ڈیڑھ دو سو سالوں کی مدت ہی میں تمام ہوئی۔
اس عرصے میں طرح طرح کے حکمرانوں کے ہاتھ یہ شہر لگا، کسی نے سنوارا، کسی نے دھتکارا، کسی نے بگاڑا اور ہر دورکے شہری بیچارے کبھی خوشیوں سے اچھل جاتے اورکبھی ویرانے میں آنسو بہاتے، وہ جو بلندیوں کا ایک شہر تھا پہلے شکستہ ہوا ،اب لاپتہ ہوچکا ہے، کیوں شکستہ و لاپتہ ہوا ہے اس کی کھوج اور جستجو نے اس کتاب کو جنم دیا ہے۔ محمود شام جوکسی تعارف کے محتاج نہیں،کتاب کے تعارف بعنوان ایک لاپتہ شہر کا سراغ میں لکھتے ہیں کہ یہ شہر ( کراچی ) جو اب حکمرانوں کی لوٹ مارکے باعث انسانوں کے لیے آغوش نہیں بلکہ خطرات کا جنگل بنا ہوا ہے، یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، یہ 1947ء سے ہی نہیں، اس سے پہلے بھی 1729ء سے تلاش معاش میں آنے والوں کا خیر مقدم کرتا تھا۔ انہیں رہنے کو جگہ دیتا تھا، باعزت روزگار فراہم کرتا تھا۔1947ء کے بعد تو اس میں ہندوستان کے کئی شہروں کی تہذیب، تمدن، ثقافت سمٹ آئی تو یہ صرف شہر نہیں رہا، یہ کاسمو پولیٹن شہر یا میگا سٹی ہوگیا۔
گزشتہ صدی میں اسے ہندوستان کا پیرس کہا جاتا تھا۔ دنیا کے چند صاف ستھرے شہروں میں شمار ہوتا تھا، شام کو اس کی سڑکیں باقاعدہ دھلتی تھیں۔ اسے روشن اور شفاف شہر رکھنے میں انگریزوں، ہندوئوں اور پارسیوں کا مرکزی کردار تھا۔ اس کتاب کی ایک تحریر بعنوان ''رمضان بلوچ کا شہر آرزو'' میں ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ وہ ( رمضان بلوچ ) جب کراچی کو ایک لاپتہ شہر قرار دیتے ہیں تو ان کے تحت الشعور میں یہی بات پوشیدہ ہوتی ہے کہ دراصل وہ اس شہرکو ڈھونڈنا چاہتے ہیں جو پچھلے چند عشروں میں کسی ایک روز یا دوسرے روز نہیں بلکہ ایک طویل دورانیے کے دوران مسلسل ناپید ہوتا چلا گیا ہے۔
ڈاکٹر ریاض شیخ تاریخ کے جھروکوں سے، میں لکھتے ہیں کہ نوآبادیاتی حکمران دراصل تاریخ کو اپنے زاویے اور نقطہ نظر سے لکھتے ہوئے اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے ان سے قبل نوآبادیات کے لوگ وحشی اور جانوروں کی طرح زندگی گزارتے رہے ہیں اور تہذیب ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی اور انہوں نے ہی ان کو تہذیب سے روشناس کرایا۔ انگریزوں کا عمومی طور پر ہندوستان کے متعلق یہی رویہ تھا، لیکن موہن جودڑو، ہڑپہ اور مہرگڑھ جیسے ہزاروں سال قبل کے شہروں کی دریافت نے انگریزوں کے دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی اور بتایا کہ یہ علاقے ہزاروں برس قبل باقاعدہ شہری زندگی کے تجربات سے گزرچکے تھے، جو منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے۔
ان شہروں کو یورپ، مصر اور دیگر علاقوں کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے مقابل کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ کراچی کا شمار بھی اسی روایت کے تحت کیا جاسکتا ہے یقینا انگریز کے آنے کے بعد کراچی کی ترقی کا عمل تیزی سے آگے بڑھا، لیکن اس کا یہ مطلب کسی طرح بھی یہ نہیں ہے کہ کراچی کی انگریز سے قبل کوئی تاریخ نہ تھی۔ ایک لاپتہ شہر کا سراغ کی تحریر بعنوان پر امن شہرکے عظیم لوگ میں ایک جگہ درج ہے کہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور انسانی اقدار کو بڑی اہمیت حاصل تھی لیکن انسان تو ایک طرف جانوروں کو بھی انسانوں جیسی آسانیاں میسر تھیں۔
شہر کے مختلف حصوں میں ان کی دھلائی اور پینے کے لیے پانی کی سبیلیں فراہم کی گئی تھیں جو ہندؤ اور پارسی سیٹھوں کی انسان دوستی اور جانوروں پر رحمدلی کی روشن مثال تھی۔ الغرض یہ کہ رمضان بلوچ کی تصنیف ایک لاپتہ شہرکا سراغ جہاں نسل نو کے لیے ایک حوالہ جاتی کتاب ہے جس کے ذریعے کراچی کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، وہاں ملک کے حکمرانوں کو بھی دعوت فکر دیتی ہے کہ کراچی کیسا تھا اور کیا سے کیا کردیا گیا ہے۔
کراچی انسانوں اور کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے جہاں کبھی راتیں جاگتی تھی اب وہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے نام پر سر شام اندھیرا کردیا جاتاہے اور دن کے گرم سورج سے شہری بلبلہ اٹھتے ہیں، دن دھاڑے شہری ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں۔ کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر کہلاتا ہے، اب گیٹ وے آف ایشیا بن چکا ہے مگر اس کی اس اہمیت کے مطابق اس کا حق نہیں دیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق منصوبہ بندی کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کا کراچی، کرچی کرچی ہے۔
1973ء میں وہ حکومت سندھ کے بلدیاتی محکمے سے وابستہ ہوئے۔ اس ملازمت کے دوران انہوں نے اندرون سندھ ڈسٹرکٹ خیر پور، شکار پور، رانی پور اورگڑھی یاسین ٹاؤنز میں ایڈمنسٹریٹرکی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1976ء میں ان کا تبادلہ کراچی میونسپل کارپوریشن میں ہوا جہاں وہ مختلف اہم محکموں میں فرائض سرانجام دیتے رہے۔2004ء میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہ علمی، ادبی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔2007ء سے وہ ٹاؤن میونسپل کارپوریشن لیاری میں کنسلٹنٹ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ان کی ذمے داریوں میں مقبول ماہنامہ صدائے لیاری کے چیف ایڈیٹرکی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ رمضان بلوچ کی تصنیفات میں لیاری کی ادھوری کہانی، لیاری کی ان کہی کہانی، بلوچ روشن چہرے،گوادر: ڈوبتے ابھرتے سورج کی کہانی اور حال ہی میں شائع شدہ کتاب ایک لاپتہ شہر کا سراغ شامل ہیں۔ ایک لاپتہ شہر کا سراغ نامی اس کتاب میں کراچی کا درخشاں ماضی، تخریب کے دن اور مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے جس میں کراچی کے ماضی کی عکاسی کی گئی ہے کتاب میں کراچی کے حوالے سے 41 مختلف مضامین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ 15صفحات پر پھیلے ہوئے حوالہ جات کی تعداد 198ہے کو مختلف کتابوں اور اخباری مضامین پر مشتمل ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے قلمی محنت کی ہے اور اپنی تہی سے کراچی کا حال و احوال کو یکجا کرنے کی سعی کی ہے ۔326صفحات پر مشتمل اس کتاب کو انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ نے شائع کیا ہے۔
مصنف نے کتاب کے انتساب بعنوان فیض احمد فیض کے نام سے لکھا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا ہم کراچی نشینوں نے خوشیاں دیکھیں، بہاروں کے جھونکوں سے آشنا ہوئے، پھولوں کی مہک اور موسیقی کی لے روحانی سکون کا باعث بنی، ساتھ ساتھ عقل و شعور پھلتا پھولتا رہا۔ پھول جیسے بچوں کا مستقبل تابناک دیکھا، پرعزم قدم آگے بڑھتے رہے، پھر نہ جانے کہاں سے طوفانی ہوا چلی، نفرت کی آگ بھڑک اٹھی، پھر امن وسکون برباد ہوا، تباہی آئی، انتشار پھیلا، خوف کے سائے چھا گئے، بے بسی کے عالم میں اس عظیم شہرکی رونقوں اور روشنیوں کو مدہم ہوتے دیکھا،روشن مستقبل کے خواب بکھرکر ہوا میں تحلیل ہوتے نظر آئے۔ سدھارکی صورت اب کہیں نظر نہیں آتی، تاریکی ہی کو ہم اپنا مقدر سمجھ بیٹھے ہیں۔ پیش لفظ بعنوان کچھ ہماری عرض میں مصنف لکھتے ہیں کہ '' یہ کتاب میں نے کیوں لکھی مجھے نہیں معلوم ۔ بس ! کچھ جذبات، چند تاثرات اور بہت ساری یادیں ہیں۔کچھ خوشگوارکچھ تلخ ، جن کو ہم نے یہاں کاغذ پر بکھیرنے کی ایک بہت ہی ادنیٰ سی کوشش کی ہے۔
ایک ایسے شہرکے بارے میں جو مٹی، ریت ، جنگلات اور خاموش ویران ساحل سے ابھرکر چمکتے ستارے کی طرح افق پر پہنچا اور کافی عرصہ تک بلندی پر قائم رہا، پھر دیکھتے دیکھتے ٹوٹے ستارے کی طرح ایسا گرا کہ اب یہ دوبارہ مٹی، ریت ، جنگل اور (ذہنی ) ویرانی کی تصویر بن چکا ہے ۔ یہ بلندی و پستی صرف ڈیڑھ دو سو سالوں کی مدت ہی میں تمام ہوئی۔
اس عرصے میں طرح طرح کے حکمرانوں کے ہاتھ یہ شہر لگا، کسی نے سنوارا، کسی نے دھتکارا، کسی نے بگاڑا اور ہر دورکے شہری بیچارے کبھی خوشیوں سے اچھل جاتے اورکبھی ویرانے میں آنسو بہاتے، وہ جو بلندیوں کا ایک شہر تھا پہلے شکستہ ہوا ،اب لاپتہ ہوچکا ہے، کیوں شکستہ و لاپتہ ہوا ہے اس کی کھوج اور جستجو نے اس کتاب کو جنم دیا ہے۔ محمود شام جوکسی تعارف کے محتاج نہیں،کتاب کے تعارف بعنوان ایک لاپتہ شہر کا سراغ میں لکھتے ہیں کہ یہ شہر ( کراچی ) جو اب حکمرانوں کی لوٹ مارکے باعث انسانوں کے لیے آغوش نہیں بلکہ خطرات کا جنگل بنا ہوا ہے، یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، یہ 1947ء سے ہی نہیں، اس سے پہلے بھی 1729ء سے تلاش معاش میں آنے والوں کا خیر مقدم کرتا تھا۔ انہیں رہنے کو جگہ دیتا تھا، باعزت روزگار فراہم کرتا تھا۔1947ء کے بعد تو اس میں ہندوستان کے کئی شہروں کی تہذیب، تمدن، ثقافت سمٹ آئی تو یہ صرف شہر نہیں رہا، یہ کاسمو پولیٹن شہر یا میگا سٹی ہوگیا۔
گزشتہ صدی میں اسے ہندوستان کا پیرس کہا جاتا تھا۔ دنیا کے چند صاف ستھرے شہروں میں شمار ہوتا تھا، شام کو اس کی سڑکیں باقاعدہ دھلتی تھیں۔ اسے روشن اور شفاف شہر رکھنے میں انگریزوں، ہندوئوں اور پارسیوں کا مرکزی کردار تھا۔ اس کتاب کی ایک تحریر بعنوان ''رمضان بلوچ کا شہر آرزو'' میں ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ وہ ( رمضان بلوچ ) جب کراچی کو ایک لاپتہ شہر قرار دیتے ہیں تو ان کے تحت الشعور میں یہی بات پوشیدہ ہوتی ہے کہ دراصل وہ اس شہرکو ڈھونڈنا چاہتے ہیں جو پچھلے چند عشروں میں کسی ایک روز یا دوسرے روز نہیں بلکہ ایک طویل دورانیے کے دوران مسلسل ناپید ہوتا چلا گیا ہے۔
ڈاکٹر ریاض شیخ تاریخ کے جھروکوں سے، میں لکھتے ہیں کہ نوآبادیاتی حکمران دراصل تاریخ کو اپنے زاویے اور نقطہ نظر سے لکھتے ہوئے اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے ان سے قبل نوآبادیات کے لوگ وحشی اور جانوروں کی طرح زندگی گزارتے رہے ہیں اور تہذیب ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی اور انہوں نے ہی ان کو تہذیب سے روشناس کرایا۔ انگریزوں کا عمومی طور پر ہندوستان کے متعلق یہی رویہ تھا، لیکن موہن جودڑو، ہڑپہ اور مہرگڑھ جیسے ہزاروں سال قبل کے شہروں کی دریافت نے انگریزوں کے دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی اور بتایا کہ یہ علاقے ہزاروں برس قبل باقاعدہ شہری زندگی کے تجربات سے گزرچکے تھے، جو منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے۔
ان شہروں کو یورپ، مصر اور دیگر علاقوں کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے مقابل کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ کراچی کا شمار بھی اسی روایت کے تحت کیا جاسکتا ہے یقینا انگریز کے آنے کے بعد کراچی کی ترقی کا عمل تیزی سے آگے بڑھا، لیکن اس کا یہ مطلب کسی طرح بھی یہ نہیں ہے کہ کراچی کی انگریز سے قبل کوئی تاریخ نہ تھی۔ ایک لاپتہ شہر کا سراغ کی تحریر بعنوان پر امن شہرکے عظیم لوگ میں ایک جگہ درج ہے کہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور انسانی اقدار کو بڑی اہمیت حاصل تھی لیکن انسان تو ایک طرف جانوروں کو بھی انسانوں جیسی آسانیاں میسر تھیں۔
شہر کے مختلف حصوں میں ان کی دھلائی اور پینے کے لیے پانی کی سبیلیں فراہم کی گئی تھیں جو ہندؤ اور پارسی سیٹھوں کی انسان دوستی اور جانوروں پر رحمدلی کی روشن مثال تھی۔ الغرض یہ کہ رمضان بلوچ کی تصنیف ایک لاپتہ شہرکا سراغ جہاں نسل نو کے لیے ایک حوالہ جاتی کتاب ہے جس کے ذریعے کراچی کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، وہاں ملک کے حکمرانوں کو بھی دعوت فکر دیتی ہے کہ کراچی کیسا تھا اور کیا سے کیا کردیا گیا ہے۔
کراچی انسانوں اور کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے جہاں کبھی راتیں جاگتی تھی اب وہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے نام پر سر شام اندھیرا کردیا جاتاہے اور دن کے گرم سورج سے شہری بلبلہ اٹھتے ہیں، دن دھاڑے شہری ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں۔ کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر کہلاتا ہے، اب گیٹ وے آف ایشیا بن چکا ہے مگر اس کی اس اہمیت کے مطابق اس کا حق نہیں دیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق منصوبہ بندی کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کا کراچی، کرچی کرچی ہے۔