ناول ’’سیتا زینب‘‘ پر ایک نظر
مترجم شاہد حنائی نے اس ناول کا سندھی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے جو قابل تعریف ہے
سندھی زبان کے ممتاز ادیب زیب سندھی کا ناول سیتا زینب زبان و بیاں کے اعتبار سے ایک دلکش ناول ہے، تجسس کی فضا میں پروان چڑھا ہے ، اس ناول میں کئی موڑ ایسے آتے ہیں جو قاری کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں اور اس کے لیے ایک ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جن کی بنا پر ایک بار ایک ہی نشست میں ختم کیے بغیر رہا نہیں جاتا ہے ، مترجم شاہد حنائی نے اس ناول کا سندھی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے جو قابل تعریف ہے ناول کا کلیدی کردار سیتا ہے جو بعد میں اسلام قبول کرلیتی ہے۔
مصنف نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ سیتا سلمان کی محبت کے علاوہ اسلامی تعلیمات سے واقف ہونے کی بناء پر وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتی ہے ، زیب سندھی صاحب نے اسلوب بیان پر خصوصی توجہ دی ہے کرداروں کی نفسیات کو اجاگر کیا ہے ، احساسات و جذبات کی عکاسی پر گویا انہیں قدرت حاصل ہے ، کردار اور منظر نگاری عروج پر ہے ، زینب کو پناہ دینے والے عابد علی جو کہ اسٹیشن ماسٹر ہے ان کی تہذیب ، شائستگی اور گفتگو کے انداز کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ قاری عابد علی کی عزت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، عابد علی ایک بے غرض ، مخلص، بے لوث و بے غرض شخصیت کانام ہے ، خصوصا اس وقت ان کے اعلی اوصاف مزید نمایاں ہوتے ہیں، جب وہ طلاق کے بعد اپنی سابقہ بیوی سے ہمدردی کرتے ہیں اور اسے بے سہار ا سمجھ کر گھر میں ہی رہنے پر راضی کرلیتے ہیں اس وعدے کے ساتھ کہ وہ عدت کے بعد اپنابندوبست کرکے یہ گھر چھوڑدیں ۔
ناول کی کہانی سندھی گھرانے کی کہانی ہے جہاں پسند کی شادی کرنے کی وجہ سے لڑکے لڑکی کو کاری کردیا جاتا ہے ، لیکن اس کہانی کو مصنف نے منفرد اور معتبراور حقیقت نگاری کے خوبصورت رنگوں سے مرصع کردیا ہے ، تمام انسانوں کی فکر اور سوچنے کا انداز یکساں ہوتا ہے ، جیسے حالات وواقعات سامنے آتے ہیں وہ ان سے متاثر ہوتا ہے ، اور اس ہی ماحول میں ڈھل جاتا ہے ، ادباء و شعرا ء کا معاملہ بھی جدا نہیں ہے بلکہ زیادہ توانا ہے اپنی حساس طبیعت کے تحت معاشرے کا اثر بہت جلد قبول کرتے ہیں بلکہ کرداروں کی زندگیوں میں پیش آنے والے نشیب وفراز اور شکست ریخت اور فتح کے جشن کو دل کے نہاں خانے میں اتار لیتے ہیں تب ہی وہ حقائق کو بیح کے آئینے میں سمو دیتا ہے اور پھر اس آئینے کو سماج کے چوراہے پر نذر کردیتا ہے۔
یہ وہ آئینہ ہے جو اہل دانش اور علم وفن سے تعلق رکھنے والوں کو واضح نظر آتا ہے اور پھر فنکار اپنی مرضی سے کردار چن کر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے اگر تخلیق میں جان ہوتی ہے تب یہ خوشبو کی مانند ہواؤں کے ساتھ دور دور تک کا سفر کرتی ہے ، میں یہ بات وثوق سے کہ سکتی ہوں کہ اس ناول میں تازہ کاری بھی ہے ، توانا اور مضبوط تخلیق کیے ہوئے فقرے متاثر کن ہیں، ناقدین اور قارئین نے اسے پسند بھی کیا اور داد وتحسین سے بھی نوازا ہے ، ناول کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔
زینب اس وقت ٹوٹتی ہے اور بکھرتی ہے جب اسے اپنی بربادی اور موت سامنے کھڑی نظرآتی ہے چونکہ وقت مقررہ پر سلمان نہیں آتا ہے وہ نازک وقت ہوتا ہے جب وہ پناہ گاہ کی تلاش میں اس ہی دوران درویش صفت اسٹیشن ماسٹر عابد علی اس کے لیے مددگار کے طور پر سامنے آجاتا ہے اور پھرا سکی کہانی اور بے گھری کو نوحہ سن کر اسے اپنے گھر لے آتا ہے اس کی بیوی خدیجہ بھی اس کے لیے دلجوئی کا باعث بن جاتی ہے۔
عابد علی کے گھر زینب کی موجودگی میں ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے ، جب عقل اور ہوش وحواس بے گانہ ہو جاتے ہیں اور وہ غلطی سرزد ہوجاتی ہے جو اللہ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے اور شیطا ن کا یہ وار کامیابی کی نوید سناتا ہے ، آناً فاناً، غلط فہمی، خدیجہ اور عابد علی کے دلوں میں قدم جماتی ہے ، اور عابد علی خدیجہ کو تین طلاق دینے کا حق استعمال کرتا ہے ، غصہ ایسی ہی تلوار ہے جو رشتوں ناتوں کو ایک وار میں ہی جدا کردیتا ہے ،خدیجہ اور عابد علی کے درمیان ہونے والی طلاق کے بعد کے حالات اور عابد علی کی اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ بولے جانے والے مکالمے بھی قاری کو تذبذب میں مبتلا کرتے ہیں ، سراسمیگی کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے ، اور اپنے ہی ہاتھوں سابقہ اہلیہ کا رشتہ ڈھونڈنا اور اسے اپنے ہاتھوں وداع کرنے کا منظر بھی قاری کو بار بار اشکبار کرتا ہے۔
ناول سیتا زینب اپنی بنت اور کرداروں کا اپنی آگ میں آپ جلنا بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ مصنف اور پڑھنے والا بھی اس تپش سے بچتا نہیں ہے ، یہ ہی کامیاب تحریر کا کمال ہوتا ہے جو خود بھی جل کر بقا کر درجہ پالیں، اور قارئین بھی دکھ، سکھ، میں اپنے آپ کو برابر کا شریک ٹہرائیں، زینب سندھی کے تخلیق کردہ ناول نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے ، اسی قلم سے مصنف نے یہ ناول سیتا زینب لکھا ہے جس قلم سے وہ گزشتہ برسوں سے تخلیق کے جوہر قرطاس پر ٹانکتے رہے ہیں ، کہانیاں، افسانے، کالم اور ڈراما نگاری کے لیے انہوں نے زندگی کے بہت سے ماہ وسال دان کیے ہیں ۔
مصنف نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ سیتا سلمان کی محبت کے علاوہ اسلامی تعلیمات سے واقف ہونے کی بناء پر وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتی ہے ، زیب سندھی صاحب نے اسلوب بیان پر خصوصی توجہ دی ہے کرداروں کی نفسیات کو اجاگر کیا ہے ، احساسات و جذبات کی عکاسی پر گویا انہیں قدرت حاصل ہے ، کردار اور منظر نگاری عروج پر ہے ، زینب کو پناہ دینے والے عابد علی جو کہ اسٹیشن ماسٹر ہے ان کی تہذیب ، شائستگی اور گفتگو کے انداز کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ قاری عابد علی کی عزت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، عابد علی ایک بے غرض ، مخلص، بے لوث و بے غرض شخصیت کانام ہے ، خصوصا اس وقت ان کے اعلی اوصاف مزید نمایاں ہوتے ہیں، جب وہ طلاق کے بعد اپنی سابقہ بیوی سے ہمدردی کرتے ہیں اور اسے بے سہار ا سمجھ کر گھر میں ہی رہنے پر راضی کرلیتے ہیں اس وعدے کے ساتھ کہ وہ عدت کے بعد اپنابندوبست کرکے یہ گھر چھوڑدیں ۔
ناول کی کہانی سندھی گھرانے کی کہانی ہے جہاں پسند کی شادی کرنے کی وجہ سے لڑکے لڑکی کو کاری کردیا جاتا ہے ، لیکن اس کہانی کو مصنف نے منفرد اور معتبراور حقیقت نگاری کے خوبصورت رنگوں سے مرصع کردیا ہے ، تمام انسانوں کی فکر اور سوچنے کا انداز یکساں ہوتا ہے ، جیسے حالات وواقعات سامنے آتے ہیں وہ ان سے متاثر ہوتا ہے ، اور اس ہی ماحول میں ڈھل جاتا ہے ، ادباء و شعرا ء کا معاملہ بھی جدا نہیں ہے بلکہ زیادہ توانا ہے اپنی حساس طبیعت کے تحت معاشرے کا اثر بہت جلد قبول کرتے ہیں بلکہ کرداروں کی زندگیوں میں پیش آنے والے نشیب وفراز اور شکست ریخت اور فتح کے جشن کو دل کے نہاں خانے میں اتار لیتے ہیں تب ہی وہ حقائق کو بیح کے آئینے میں سمو دیتا ہے اور پھر اس آئینے کو سماج کے چوراہے پر نذر کردیتا ہے۔
یہ وہ آئینہ ہے جو اہل دانش اور علم وفن سے تعلق رکھنے والوں کو واضح نظر آتا ہے اور پھر فنکار اپنی مرضی سے کردار چن کر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے اگر تخلیق میں جان ہوتی ہے تب یہ خوشبو کی مانند ہواؤں کے ساتھ دور دور تک کا سفر کرتی ہے ، میں یہ بات وثوق سے کہ سکتی ہوں کہ اس ناول میں تازہ کاری بھی ہے ، توانا اور مضبوط تخلیق کیے ہوئے فقرے متاثر کن ہیں، ناقدین اور قارئین نے اسے پسند بھی کیا اور داد وتحسین سے بھی نوازا ہے ، ناول کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔
زینب اس وقت ٹوٹتی ہے اور بکھرتی ہے جب اسے اپنی بربادی اور موت سامنے کھڑی نظرآتی ہے چونکہ وقت مقررہ پر سلمان نہیں آتا ہے وہ نازک وقت ہوتا ہے جب وہ پناہ گاہ کی تلاش میں اس ہی دوران درویش صفت اسٹیشن ماسٹر عابد علی اس کے لیے مددگار کے طور پر سامنے آجاتا ہے اور پھرا سکی کہانی اور بے گھری کو نوحہ سن کر اسے اپنے گھر لے آتا ہے اس کی بیوی خدیجہ بھی اس کے لیے دلجوئی کا باعث بن جاتی ہے۔
عابد علی کے گھر زینب کی موجودگی میں ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے ، جب عقل اور ہوش وحواس بے گانہ ہو جاتے ہیں اور وہ غلطی سرزد ہوجاتی ہے جو اللہ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے اور شیطا ن کا یہ وار کامیابی کی نوید سناتا ہے ، آناً فاناً، غلط فہمی، خدیجہ اور عابد علی کے دلوں میں قدم جماتی ہے ، اور عابد علی خدیجہ کو تین طلاق دینے کا حق استعمال کرتا ہے ، غصہ ایسی ہی تلوار ہے جو رشتوں ناتوں کو ایک وار میں ہی جدا کردیتا ہے ،خدیجہ اور عابد علی کے درمیان ہونے والی طلاق کے بعد کے حالات اور عابد علی کی اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ بولے جانے والے مکالمے بھی قاری کو تذبذب میں مبتلا کرتے ہیں ، سراسمیگی کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے ، اور اپنے ہی ہاتھوں سابقہ اہلیہ کا رشتہ ڈھونڈنا اور اسے اپنے ہاتھوں وداع کرنے کا منظر بھی قاری کو بار بار اشکبار کرتا ہے۔
ناول سیتا زینب اپنی بنت اور کرداروں کا اپنی آگ میں آپ جلنا بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ مصنف اور پڑھنے والا بھی اس تپش سے بچتا نہیں ہے ، یہ ہی کامیاب تحریر کا کمال ہوتا ہے جو خود بھی جل کر بقا کر درجہ پالیں، اور قارئین بھی دکھ، سکھ، میں اپنے آپ کو برابر کا شریک ٹہرائیں، زینب سندھی کے تخلیق کردہ ناول نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے ، اسی قلم سے مصنف نے یہ ناول سیتا زینب لکھا ہے جس قلم سے وہ گزشتہ برسوں سے تخلیق کے جوہر قرطاس پر ٹانکتے رہے ہیں ، کہانیاں، افسانے، کالم اور ڈراما نگاری کے لیے انہوں نے زندگی کے بہت سے ماہ وسال دان کیے ہیں ۔