پہلے حالات کا تجزیہ کرلیں
ایم کیو ایم کی شکل میں جو تنظیم انھوں نے کھڑی کی وہ کافی نامساعد حالات سے گزر کر بھی ابھی تک بہت توانا ہے۔
علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب یقینا ایک بہت ذہین انسان ہیں۔ کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ ایسی شخصیت مسلسل محنت سے اپنے پیروکاروں کو ایک تنظیم کی صورت یکجا کرکے سخت ڈسپلن کا پابند بنا دے تو کافی بڑی سیاسی قوت بن جاتی ہے۔ الطاف حسین سے آپ سو اختلاف کریں۔ اپنے طالب علمی کے زمانے میں انھوں نے اُردو بولنے والوں کے دلوں میں بڑھتے ہوئے شکوؤں اور مغائرت کو پوری طرح جان کر ان کے سیاسی اظہار کی صورت نکالی۔
ایم کیو ایم کی شکل میں جو تنظیم انھوں نے کھڑی کی وہ کافی نامساعد حالات سے گزر کر بھی ابھی تک بہت توانا ہے۔ مگر اس تنظیم کی سب سے بڑی قوت اس کا ووٹ بینک ہے۔ 1988 سے انتخابات کی نگرانی چاہے کوئی بھی حکومت کرے اور یہ انتخابات منصفانہ ہوں یا غیر منصفانہ، ایم کیو ایم شہری سندھ میں اپنی پارلیمانی قوت برقرار رکھتی ہے۔ اس پارلیمانی قوت کے بل بوتے پر وہ جمہوری حکومتوں کے دوران اقتدار کے کھیل میں اپنا حصہ مذاکراتی عمل کے ذریعے بالآخر وصول کرکے رہتی ہے۔
علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پاس تنظیم تو ہے مگر انتخابی قوت موجود نہیں۔ اپنے پیروکاروں کو دھرنے کی صورت لاہور یا اسلام آباد میں اکٹھا کرکے وہ چند دنوں کے لیے حکومت کو پریشان ضرور کرسکتے ہیں اور کاروبارِ زندگی کو معطل بھی۔ اس کے بعد کیا حاصل کرنا ہے۔ یہ بات نہ ڈاکٹر قادری صاحب جانتے ہیں نہ ان کے پیروکار۔ ان کی اس لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آصف علی زرداری نے بڑے ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اسلام آباد کے 2013 والے دھرنے کو سیاسی طورپر کچھ دیے بغیر ختم کروا دیا تھا۔ پنجاب کے گڈ گورننس والوں میں ان جیسا صبر موجود نہیں۔
شہباز شریف صاحب صوبائی وزیر اعلیٰ منتخب تو پنجاب اسمبلی میں موجود مسلم لیگی اراکینِ اسمبلی کی عددی قوت کے بل پر ہوتے ہیں۔ مگر اقتدار سنبھالتے ہی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے سربراہ کی طرح سرکاری افسران کے ذریعے گڈ گورننس کے جلوے دکھانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ حکومت چلانے کے لیے وہ بنیادی طورپرBureaucratic Inputپر انحصار کرتے ہیں۔ بیوروکریٹس کو ''سیاسی'' شور شرابے پسند نہیں آتے۔
وہ ضابطوں کے پابند ہوتے ہیں۔ فائلوں میں منصوبے بناتے ہیں اور بیوروکریٹک Chain of Command کے ذریعے ان منصوبوں کی تکمیل۔ جب کوئی ''بادشاہ'' بیوروکریٹک ''نورتنوں'' کا محتاج بن جائے تو اس کے دربار میں موجود ہر شخص خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا فرماں بردار ثابت کرنے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ ہر وہ فیصلہ کرنے کو ہمہ وقت بے تاب ہوتا ہے جو اس کے خیال میں ''پیا'' کے من کو بھائے گا۔ میری ناقص رائے میں لاہور میں 17جون کو ہونے والا سانحہ پیاکو لبھانے کی ایسی ہی حرکتوں کا شاخسانہ ہے۔
علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے اپنے مسائل ہیں۔ اپنی کرشماتی شخصیت کے ساتھ ہی ساتھ وہ خود کو عقلِ کل بھی سمجھتے ہیں۔ معروضی اور حقیقی اعتبار سے سیاسی Inputان کو بھی میسر نہیں۔ چونکہ انھیں ''بشارتیں'' وغیرہ بھی ہوتی ہیں اس لیے جب چاہیں جو بھی فیصلہ کرلینے میں بالکل آزاد ہیں۔ ان کے پیروکاروں میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ انھیں اپنے درمیان بٹھا کر خود تنقیدی کے کسی عمل سے گزریں۔ قادری صاحب کے پیروکار مجھے ہرگز پسند نہیں کرتے۔ میں نے بلکہ جان بوجھ کر انھیں اپنا دشمن بنا رکھا ہے۔ اس ضمن میں اس بیماری کا شکار ہوں جو ''مولاجٹ'' نامی فلم میں مصطفیٰ قریشی کو لاحق دکھائی گئی تھی۔ جیل کی سلاخوں سے اپنی کمر کو کھجاتے مصطفیٰ قریشی نے جو کردار ادا کیا تھا ہر وقت فریاد کرتا رہتا ہے کہ ''میرا وی کوئی دشمن ہووے''۔
اپنی ذاتی مجبوریوں سے قطع نظر میں نے بطور رپورٹر انتہائی سنجیدگی سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ تحریک منہاج القران جس کا سیاسی نام پاکستان عوامی تحریک بھی ہوا کرتا ہے کے اہم رہ نمائوں کے درمیان کچھ ایسی باضابطہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں اس سوال پر غور ہوا کہ 2013 کی شدید سردی میں ان کے اسلام آباد میں دیے دھرنے کے اہداف کیا تھے اور وہ کیوں ان اہداف تک نہ پہنچ پائے۔ بڑی تحقیق وتفتیش کے بعد مجھے ایسے کسی اجلاس کی کوئی خبر نہ ملی۔
2013 والے دھرنے کا کوئی سنجیدہ تجزیہ ہوا ہوتا تو علامہ صاحب کو 23جون کے دن پاکستان آنے کی زحمت گوارہ نہ کرنا پڑتی۔ پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کو وہ یقینا ہر وقت بے تاب رہتے ہیں مگر 23جون کی تاریخ ان کی تحریک کے لیے طے نہ تھی۔ انھیں 23جون مقرر کرنے کے لیے ''دھکا'' کسی اور نے دیا ہے۔ بہت سے لوگ الزام لگا رہے ہیں کہ یہ ''دھکا'' گجرات کے چوہدریوں نے لندن میں ان کے ساتھ طویل ملاقاتوں کے دوران دیا۔ پرویز الٰہی صاحب کے بارے میں اس ضمن میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
چوہدری شجاعت کو جاننے کا دعویٰ ضرور ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ان جیسا زیرک سیاستدان قادری صاحب کو ایسا ''دھکا'' دے سکتا ہے۔ یہ کارنامہ کسی اور نے سرانجام دیا ہے۔ اسے ڈھونڈنا میری نہیں قادری صاحب کی ذمے داری ہے۔ انھیں یہ کام اس لیے بھی کرنا چاہیے کہ ان کے ساتھ 23جون کے دن پاکستان آکر اب پنجابی والا ''ہتھ'' ہوگیا ہے۔
علامہ صاحب خود سمجھ دار ہیں۔ موسم ان دنوں ہمارے ہاں سخت گرم ہے۔ چند ہی دنوں میں رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہونے والا ہے۔ پھر عید وغیرہ کی تقریبات شروع ہوجائیں گی۔ پاکستانیوں کو ان موسموں میں انقلاب برپا کرنے کی عادت نہیں۔ ہاں لوڈشیڈنگ ناقابلِ برداشت ہوجائے تو ڈنڈے اور پتھر لے کر سڑکوں پر ضرور آجاتے ہیں۔ مقصد مگر ان کا بجلی بحال کروانا ہوتا ہے۔
کسی حکومت کو گراکر انقلاب برپا کرنا نہیں۔ باقی رہی بات ''ان کی'' جنھیں قادری صاحب اپنی جان کی حفاظت کے لیے پکارتے رہے تو وہ شمالی وزیرستان میں مصروف ہیں۔ چار لاکھ سے زیادہ لوگ وہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ان لوگوں کی رہائش اور راشن کا بندوبست کرنے کے لیے فی الحال موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔ بہتر ہوتا قادری صاحب جہاز میں سوار ہونے سے پہلے یہ سارے حقائق کھلے ذہن کے ساتھ جان کر ان کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرلیتے۔