طوفان الاقصیٰ نے مذموم منصوبوں کو ناکام بنا دیا
فلسطینیوں نے عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک نیا نقش چھوڑ دیا ہے
سات اکتوبر 2023 کو سرزمین فلسطین پر دنیا کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جسے طوفان الاقصیٰ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کس چیزکا طوفان تھا؟ یقینا جب بھی کوئی طوفان آتا ہے تو اس طوفان کی آمد کے ساتھ بربادی ہی آتی ہے۔ چاہے ہوا کا طوفان ہو یا سمندری طوفان ہو، تاریخی شواہد سے یہی علم ہوتا ہے کہ نتیجہ بربادی ہی ہے۔
سرزمین فلسطین پر آنے والے طوفان یعنی طوفان الاقصیٰ نے بھی ایسی ہی ایک بربادی کا آغاز کیا ہے لیکن یہ بربادی کیا ہے ؟ کچھ سیاست دانوں اور مخصوص قسم کی سوچ رکھنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق یقیناً طوفان الاقصیٰ نے تباہی اور بربادی کا آغاز کیا ہے لیکن ان سب کے نزدیک یہ بربادی خود فلسطینیوں کی ہے، کیونکہ اس طوفان کے آغاز کے بعد سے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی جا رہی ہے اور غاصب صیہونی حکومت مسلسل معصوم بچوں اور بزرگوں سمیت فلسطینیوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہی ہے اور سفاکیت کی نئی تاریخ رقم کررہی ہے، یقینا یہ ایک تباہی ہے، انسانی المیہ ہے، غزہ میں انسانیت دم توڑ رہی ہے، عالمی برادری بھی خاموش ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ایک پہلوکو دیکھ کر اس بات پر یقین کر لیا جائے کہ واقعی یہ طوفان الاقصیٰ فلسطین کی بربادی کا نتیجہ پیدا کر رہا ہے؟
یہاں پر ایک اور رائے بھی سامنے ہے۔ یہ رائے پہلی رائے کی نسبت کچھ زیادہ قوی اور منطقی نظر آتی ہے یعنی سات اکتوبر سے پہلے کی دنیا کا مشاہدہ کیا جائے تو بہت سی ایسی نشانیاں اور مشاہدات سامنے آتے ہیں جس میں واضح ہوتا ہے کہ مغربی استعماری حکومتیں ایشیائی ممالک بالخصوص جنوبی ایشیاء اور مغربی ایشیاء میں اپنے اثرونفوذ کو بڑھانے کے لیے یہاں معاشی، سیاسی اور فوجی کنٹرول حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھیں۔
اس کنٹرول کو حاصل کرنے کی ایک وجہ ایشیائی ممالک میں چین کا بڑھتا ہوا معاشی اثر ونفوذ ہے جس نے مغربی استعماری حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نہ صرف ایشیائی ممالک بلکہ افریقا میں بھی چین کی بڑھتی ہوئی معاشی مقبولیت کو روکنا استعماری حکومتوں امریکا و برطانیہ کے بس کی بات نہیں رہا ہے۔
ایشیائی ممالک میں امریکی و مغربی اثر و نفوذ کو بڑھانے کے لیے استعماری حکومتیں سرگرم تھیں۔
خاص طور پر مغرب ایشیائی ممالک کو کنٹرول کرنے اور خطے میں بالخصوص مسلمان ممالک کی معاشی، سیاسی اور فوجی قوت کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تسلط قائم رکھنے کے لیے ایک نیا نقشہ سات اکتوبر سے کچھ عرصہ قبل تشکیل دیا گیا تھا جس کے مطابق ایشیائی ممالک میں موجود مسلمان ممالک پر ایک خاص طریقے سے تسلط کا جال ڈالنا تھا لیکن اسی دوران ہی سات اکتوبر کو فلسطینیوں نے اپنی آزادی کے لیے ایک ایسا طوفان شروع کیا جسے طوفان الاقصیٰ کہا جاتا ہے کہ جس نے ایک طرف اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا اور خطے میں سیاسی منظر نامہ اور منفی سازشوں کو بروئے کار لانے سے دورکردیا تو دوسری جانب پوری مغربی دنیا کی حکومتوں کے نئے منصوبے اور نقشوں کو برباد کر کے رکھ دیا۔
یہی وجہ تھی کہ ساتھ اکتوبر کے بعد امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں کھلم کھلا غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کی پشت پناہی کے لیے سرگرم ہو گئیں اور تاحال غاصب اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں تاکہ ان کے اپنے منصوبہ کو تحفظ حاصل ہو سکے۔حقیقت تو یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ نے امریکا اور مغربی حکومتوں کے ان تمام ناپاک عزائم اور منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے جو ایشیائی ممالک بالخصوص ایشیاء میں مسلمان ممالک کے خلاف تیار کیے گئے تھے۔
فلسطینیوں نے عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک نیا نقش چھوڑ دیا ہے جسے آج آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود مغربی دنیا کی حکومتیں مٹانے سے قاصر ہیں۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جس کی طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حال ہی میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی ؒ کی پینتیسویں برسی کی مناسبت سے اپنے خطاب میں بھی کیا ہے۔
انہوں نے فلسطینیوں کے اس طوفان الاقصیٰ کی بدولت مغربی حکومتوں کے منصوبوں کی ناکامی کے بارے میں کہا کہ نہیں معلوم کہ طوفان الاقصیٰ شروع کرنے والے یہ بات جانتے تھے کہ دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کے لیے امریکی اور مغربی حکومتوں کے عزائم کیا ہیں ؟ لیکن واقعی فلسطینیوں نے ایک بہت ہی اہم اور بہت بڑا کام انجام دیا ہے یعنی طوفان الاقصیٰ کہ جس نے مغربی حکومتوں کے منصوبوں کو برباد کر دیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے اس طوفان نے جو بربادی پیدا کی ہے وہ دراصل فلسطینیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ خود امریکا اور مغربی حکومتوں کے لیے ہے اور یہ بربادی ہم سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مغربی دنیا میں عوام کی بیداری کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں طلباء اور اساتذہ کی بیداری بھی طوفان اقصیٰ کے نتائج کا حصہ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے عنوان سے بیداری دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا کی تمام اقوام فلسطینی پرچم تھام کر مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو اپنے لیے باعث افتخار اور عزت قرار دے رہی ہیں۔ آج مغربی ممالک کی حکومتیں اس بات پر سوچ بچار کر رہی ہیں کہ آئندہ آنے والے انتخابات میں ان کے عوام ان کو ووٹ دیں گے یا نہیں دیں گے ؟ یہ سوال اس وقت نہ صرف مغربی حکومتوں کے لیے بلکہ دنیا کی تمام حکومتوں کے لیے اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ فلسطین کی صورتحال نے پوری دنیا کی صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ مغربی قوتوں نے خطے میں اپنی طویل عرصے تک بالادستی کے لئے جو منصوبے بنائے تھے فلسطینی ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئے،فلسطینیوں نے قربانی دے کر بھی اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے اور اپنے موقف اور جدوجہد پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔
امریکا اور برطانیہ جو تاریخی اعتبار سے ہمیشہ غاصب صیہونی حکومت کے مدد گار اور سرپرست رہے ہیں آج امریکی حکومت کے عہدیداروں کے مابین یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا ہمیں مستقبل میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی حمایت کرنی ہے ؟ یا یہ کہ ہم اس حمایت سے دستبرداری کر لیں، یقیناً یہ سب کچھ انقلاب ہے۔ ایک ایسا انقلاب ہے کہ جس نے دنیا کے لیے امریکی و مغربی حکومتوں کے بنائے گئے تمام منصوبوں کو غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکی حکومت کی سالوں کی محنت کو فلسطینیوں کے طوفان اقصیٰ نے چند گھنٹوں میں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، یہی فلسطینی عوام کی کامیابی ہے ۔
سرزمین فلسطین پر آنے والے طوفان یعنی طوفان الاقصیٰ نے بھی ایسی ہی ایک بربادی کا آغاز کیا ہے لیکن یہ بربادی کیا ہے ؟ کچھ سیاست دانوں اور مخصوص قسم کی سوچ رکھنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق یقیناً طوفان الاقصیٰ نے تباہی اور بربادی کا آغاز کیا ہے لیکن ان سب کے نزدیک یہ بربادی خود فلسطینیوں کی ہے، کیونکہ اس طوفان کے آغاز کے بعد سے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی جا رہی ہے اور غاصب صیہونی حکومت مسلسل معصوم بچوں اور بزرگوں سمیت فلسطینیوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہی ہے اور سفاکیت کی نئی تاریخ رقم کررہی ہے، یقینا یہ ایک تباہی ہے، انسانی المیہ ہے، غزہ میں انسانیت دم توڑ رہی ہے، عالمی برادری بھی خاموش ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ایک پہلوکو دیکھ کر اس بات پر یقین کر لیا جائے کہ واقعی یہ طوفان الاقصیٰ فلسطین کی بربادی کا نتیجہ پیدا کر رہا ہے؟
یہاں پر ایک اور رائے بھی سامنے ہے۔ یہ رائے پہلی رائے کی نسبت کچھ زیادہ قوی اور منطقی نظر آتی ہے یعنی سات اکتوبر سے پہلے کی دنیا کا مشاہدہ کیا جائے تو بہت سی ایسی نشانیاں اور مشاہدات سامنے آتے ہیں جس میں واضح ہوتا ہے کہ مغربی استعماری حکومتیں ایشیائی ممالک بالخصوص جنوبی ایشیاء اور مغربی ایشیاء میں اپنے اثرونفوذ کو بڑھانے کے لیے یہاں معاشی، سیاسی اور فوجی کنٹرول حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھیں۔
اس کنٹرول کو حاصل کرنے کی ایک وجہ ایشیائی ممالک میں چین کا بڑھتا ہوا معاشی اثر ونفوذ ہے جس نے مغربی استعماری حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نہ صرف ایشیائی ممالک بلکہ افریقا میں بھی چین کی بڑھتی ہوئی معاشی مقبولیت کو روکنا استعماری حکومتوں امریکا و برطانیہ کے بس کی بات نہیں رہا ہے۔
ایشیائی ممالک میں امریکی و مغربی اثر و نفوذ کو بڑھانے کے لیے استعماری حکومتیں سرگرم تھیں۔
خاص طور پر مغرب ایشیائی ممالک کو کنٹرول کرنے اور خطے میں بالخصوص مسلمان ممالک کی معاشی، سیاسی اور فوجی قوت کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تسلط قائم رکھنے کے لیے ایک نیا نقشہ سات اکتوبر سے کچھ عرصہ قبل تشکیل دیا گیا تھا جس کے مطابق ایشیائی ممالک میں موجود مسلمان ممالک پر ایک خاص طریقے سے تسلط کا جال ڈالنا تھا لیکن اسی دوران ہی سات اکتوبر کو فلسطینیوں نے اپنی آزادی کے لیے ایک ایسا طوفان شروع کیا جسے طوفان الاقصیٰ کہا جاتا ہے کہ جس نے ایک طرف اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا اور خطے میں سیاسی منظر نامہ اور منفی سازشوں کو بروئے کار لانے سے دورکردیا تو دوسری جانب پوری مغربی دنیا کی حکومتوں کے نئے منصوبے اور نقشوں کو برباد کر کے رکھ دیا۔
یہی وجہ تھی کہ ساتھ اکتوبر کے بعد امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں کھلم کھلا غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کی پشت پناہی کے لیے سرگرم ہو گئیں اور تاحال غاصب اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں تاکہ ان کے اپنے منصوبہ کو تحفظ حاصل ہو سکے۔حقیقت تو یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ نے امریکا اور مغربی حکومتوں کے ان تمام ناپاک عزائم اور منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے جو ایشیائی ممالک بالخصوص ایشیاء میں مسلمان ممالک کے خلاف تیار کیے گئے تھے۔
فلسطینیوں نے عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک نیا نقش چھوڑ دیا ہے جسے آج آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود مغربی دنیا کی حکومتیں مٹانے سے قاصر ہیں۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جس کی طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حال ہی میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی ؒ کی پینتیسویں برسی کی مناسبت سے اپنے خطاب میں بھی کیا ہے۔
انہوں نے فلسطینیوں کے اس طوفان الاقصیٰ کی بدولت مغربی حکومتوں کے منصوبوں کی ناکامی کے بارے میں کہا کہ نہیں معلوم کہ طوفان الاقصیٰ شروع کرنے والے یہ بات جانتے تھے کہ دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کے لیے امریکی اور مغربی حکومتوں کے عزائم کیا ہیں ؟ لیکن واقعی فلسطینیوں نے ایک بہت ہی اہم اور بہت بڑا کام انجام دیا ہے یعنی طوفان الاقصیٰ کہ جس نے مغربی حکومتوں کے منصوبوں کو برباد کر دیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے اس طوفان نے جو بربادی پیدا کی ہے وہ دراصل فلسطینیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ خود امریکا اور مغربی حکومتوں کے لیے ہے اور یہ بربادی ہم سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مغربی دنیا میں عوام کی بیداری کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں طلباء اور اساتذہ کی بیداری بھی طوفان اقصیٰ کے نتائج کا حصہ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے عنوان سے بیداری دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا کی تمام اقوام فلسطینی پرچم تھام کر مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو اپنے لیے باعث افتخار اور عزت قرار دے رہی ہیں۔ آج مغربی ممالک کی حکومتیں اس بات پر سوچ بچار کر رہی ہیں کہ آئندہ آنے والے انتخابات میں ان کے عوام ان کو ووٹ دیں گے یا نہیں دیں گے ؟ یہ سوال اس وقت نہ صرف مغربی حکومتوں کے لیے بلکہ دنیا کی تمام حکومتوں کے لیے اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ فلسطین کی صورتحال نے پوری دنیا کی صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ مغربی قوتوں نے خطے میں اپنی طویل عرصے تک بالادستی کے لئے جو منصوبے بنائے تھے فلسطینی ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئے،فلسطینیوں نے قربانی دے کر بھی اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے اور اپنے موقف اور جدوجہد پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔
امریکا اور برطانیہ جو تاریخی اعتبار سے ہمیشہ غاصب صیہونی حکومت کے مدد گار اور سرپرست رہے ہیں آج امریکی حکومت کے عہدیداروں کے مابین یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا ہمیں مستقبل میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی حمایت کرنی ہے ؟ یا یہ کہ ہم اس حمایت سے دستبرداری کر لیں، یقیناً یہ سب کچھ انقلاب ہے۔ ایک ایسا انقلاب ہے کہ جس نے دنیا کے لیے امریکی و مغربی حکومتوں کے بنائے گئے تمام منصوبوں کو غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکی حکومت کی سالوں کی محنت کو فلسطینیوں کے طوفان اقصیٰ نے چند گھنٹوں میں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، یہی فلسطینی عوام کی کامیابی ہے ۔