آج سے ہوجا راضی

ان کہانیوں میں حال کا بیان کرتے ہوئے ماضی کی جھلکیاں اتنی چابک دستی سے لائی گئی ہیں

zahedahina@gmail.com

شاہ بانو علوی سے ملاقات ہوئی توگمان بھی نہیں گزرا کہ ایک نہایت سگھڑ،گھرگرہستن کے سوا کچھ اور بھی ہوں گی۔ زیادہ سے زیادہ کسی انگلش میڈیم اسکول میں پڑھاتی ہوں گی۔ کئی برس پہلے بہت چہیتے سعید بھائی کا فون آیا تو معلوم ہوا کہ ان کا پبلشنگ ہاؤس ہے اور ان دنوں وہ 99 برس پرانے ایک مسودے کو چھپوانا چاہتی ہیں جو ان کی بزرگ خاتون کا لکھا ہوا ناول ہے۔ قرعہ فال میرے نام نکلا ،میں نے اسے پڑھنے کے لیے اٹھایا اور پھر پڑھتی ہی چلی گئی۔

ان خاتون کی ہڈیاں بھی اب راکھ ہوگئی ہوں گی، انھیں شاید امید بھی نہ ہوکہ ان کے لکھے ہوئے کوکبھی چھاپے خانے کی سیاہی بھی لگے گی۔ ان کی اگلی پیڑھی کی ایک کارگزار لڑکی کا بھلا ہوا جس نے کسی خاندانی صندوق سے ان کے لکھے ہوئے کو جھاڑ پونچھ کر نکالا اور چھپوا کر سامنے لے آئی۔

کہتے ہیں کہ حق بہ حقدار رسید، کچھ ایسا ہی معاملہ میری عزیز دوست ثریا جبیں کی والدہ محترمہ کنیز فاطمہ بلخی کے ساتھ ہوا، میں جب بھی ان کے گھرجاتی انھیں نہایت انہماک سے ایک رجسٹر پرکچھ لکھتے ہوئے دیکھتی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنی زندگی لکھ رہی ہیں۔ پہلا رجسٹر میں نے '' میری زندگی کے لمحے'' کا عنوان سے شایع کیا ،دوسری جلد اس لیے شایع نہ ہوسکی کہ پدر سری سماج سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو اس کے بعض حصوں پر یا شاید بعض جملوں پر اعتراض تھا۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ بات ہو رہی تھی شاہ بانو علوی کی، وہ لکھتی ہیں، انگریزی میں کتابیں شایع کرتی ہیں، فوٹو گرافی بھی کرتی ہیں اور اب اردو میں کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ ان کے ذریعے لندن میں رہنے والے عامر حسین سے متعارف ہوئی، وہ سال میں ایک مرتبہ پاکستان آتے ہیں، یہاں کی مختلف یونیورسٹیوں کے انگریزی شعبوں میں جاتے ہیں اور وہاں کے طالب علموں کو سیراب کرتے ہیں۔ اسلام آباد اور لاہورکے ادبی میلوں میں جاتے ہیں اور وہاں لوگوں سے تبادلہ خیال کرتے ہیں، انھوں نے شاہ بانو علوی کی تازہ کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

'' ان کہانیوں میں حال کا بیان کرتے ہوئے ماضی کی جھلکیاں اتنی چابک دستی سے لائی گئی ہیں کہ نہ صرف کرداروں کی جیتی جاگتی ہستیاں بلکہ سماج کے ٹھوس مسائل بھی سامنے آجاتے ہیں۔ کراچی کا پس منظر تو ہے ہی ان کہانیوں میں لیکن یہ کبھی لاہور، لندن اور بنگال تک پہنچ جاتی ہیں، سرحدیں پارکرتے وقت تاریخ کی کھوئی ہوئی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرجاتی ہیں۔

مثلاً ایسٹ پاکستان کی جنگ اور ہندوستان کا بٹوارہ... اور پھر گھوم کر ہمیں آج کے آفت زدہ زمانے اور وبا کے دنوں تک واپس لے آتی ہیں اور ان آفت زدہ دنوں میں بہت ہی نزاکت سے شاہ بانو کی مصورانہ آنکھیں دنیا میں موجود رنگوں کو تلاش کرتی ہیں اور ان کے موسیقی سے آشنا کان شہری آوازوں کو غور سے سنتے ہیں۔

کوئی ہار سنگھارکا پھول ہو یا گل موہرکی شاخ، کسی کوے کی کائیں کائیں ہو یا کوئل کی کوک... غم اور خوشی کے ملے جلے تاثرکو اپنی کہانیوں کے تانے بانے میں بہت ہی نزاکت سے رچا کر شاہ بانو ہم تک پہنچا جاتی ہیں( اور میں یہاں لندن میں بیٹھا ہوا خود کواپنے آبائی شہر میں محسوس کرتا ہوں۔)


سچ تو یہ ہے کہ ان کی کہانیوں میں کرداروں کی آبادی سی آبادی ہے۔کہیں سے غلام قادر اور اس کی سہیلی نوشابہ لپکے چلے آتے ہیں اور ہم اس ڈاکٹر کے بارے میں سوچ کر رہ جاتے ہیں اور ہمیں یاد نہیں رہتا کہ انھوں نے لوگوں کی خدمت کا حلف اٹھایا تھا یہ نہیں کہ انھیں بے ہوشی کا شربت پلا کر ان کا گردہ نکال لیں ان کی کہانیوں میں وہ جوان بیٹے ہیں جو اپنی ماں کی ہم عمر سہیلی پر ہزار جان سے عاشق ہوجاتے ہیں تو ماں کا یہ کہنا کہ '' ایک زمانہ تھا کہ اونچے گھرانے کے لڑکوں کو بہترین چنیدہ طوائفوں کے پاس بھیجا جاتا تھا کہ وہ دنیا داری کے طریقوں سے واقف ہوجائیں۔ اپنی جوانی کی اونچ نیچ سمجھ جائیں، مہرجہاں بیگم نے بڑی متانت اور وقار سے کہا ۔' اور بس ... پھر...'

جمال کے کان میں اماں کا کٹیلا جملہ گونجا۔ تب اس نے مہر جہاں بیگم کو دیکھا تھا، ان کے گورے گورے خوبصورت چہرے پر چٹان کی سی سختی نمایاں تھی۔

اماں کی بات سن کر جمال اپنے کمرے میں چلا گیا تھا، وہ ساری رات جاگتا رہا ،اسے معلوم تھا کہ یہ اس کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا ۔ کیا وہ شہلا سے الگ ہوجائے؟ کیا وہ اس کے رنگوں سے بھرپور، موسیقیت سے دھڑکتی ہوئی دنیا سے نکل کر خوش رہ پائے گا؟

زندہ رہ پائے گا؟

نہیں بالکل نہیں! اس کا دل مچل گیا۔''لیکن دل مچلنے کے بعد کیا ہوتا ہے... کچھ بھی نہیں ۔ اس کی زندگی کی بادبانی کشتی سمندر کے عین وسط میں ڈوب گئی۔ شہلا عزیز الدین ڈھاکا گئی اور وہیں زندگی کی ڈور اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔

شاہ بانو کی کہانیوں میں سبزہ ہے، پیڑ ہیں، ان پر چڑھ کر یہ سرخ بادام اور امبیاں کھاتی ہیں اور ان جنوں سے ڈرتی ہیں جن سے ان کا کبھی سابقہ نہیں پڑا۔ ان کے یہاں آپکو امرود ، شہتوت،کٹھل، انناس اور حرفہ ریوڑی کی آبادی ہے۔ انھوں نے خاکے بھی لکھے۔ ایک میں سے حقے کی گڑگڑاہٹ کی آواز، ہار سنگھار اور موتیا کی خوشبو آتی ہیں۔ حسینہ معین کا جنکے بارے میں وہ لکھتی ہیں،'' حسینہ کی اپنی شخصیت میں بھی پرانے اور نئے کا ایک سہانا سا کھٹا میٹھا پن تھا جبھی تو وہ اپنے خیالات کی مختلف پرت اپنے ڈراموں میں اتارتی رہیں کہ وہ ان کے سامعین کے دلوں میں ثبت ہی ہوتے چلے گئے۔

بچپن میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ اور دوسرے کھیل برابری سے کھیلتے ہوئے وہ اپنی پیشہ ورانہ اور فنی زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ اس سفرکے دھارے میں آسانی سے اور بخوبی تیرتی رہیں۔ کبھی دھارے کے ساتھ اورکبھی مخالف... حسینہ سے ان کی ملاقات چند بارکی تھی لیکن اس دوران شاہ بانو نے ان کا خوب جائزہ لیا اور ایک سبک سا خاکہ لکھ ڈالا ۔

شاہ بانو، خوش رہیں کہ انھوں نے خوب لکھا اور ہم ان سے کیوں نہ دوسری بہت سی نئی کہانیوں کی امید لگا کر بیٹھیں۔
Load Next Story