سیاست بمقابلہ ریاست
طاہر القادری جس جگہ کا رُخ کرتے ہیں وہیں پر عام انتظامیہ اور کاروبار زندگی مکمل طور پر تالا بند ہو جاتی ہے۔
حالات سنبھلنے کے بجائے بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ مگر ہر کوئی یہی دعوی کر رہا ہے کہ مسئلہ اس کی طرف سے نہیں مخالفین کی طرف سے کھڑا کیا جا رہا ہے۔ طاہر القادری کی آمد کے ارد گرد جو ہنگامہ کھڑا ہوا اس سے اور کچھ ثابت ہو نہ ہو یہ ضرور ظاہر ہو گیا ہے کہ اس ملک میں اندرونی زندگی کو مفلوج کرنا نسبتاً آسان ہے ۔ دو ہوائی اڈے مکمل طور پر بند رہے ۔ سڑکیں ہجوم کے ہاتھ میں تھیں ، بین الاقوامی فضائی کمپنی کا جہاز عملاً یرغمال تھا۔ پتھر اور ڈنڈے بردار لوگ پولیس کی دھنائی کرتے ہوئے ایسا پیچھا کر رہے تھے کہ جیسے عراق کے بعض حصوں میں جہادی قانون نافذ کرنیوالوں کو مار بھگا رہے ہیں۔
طاہر القادری جس جگہ کا رُخ کرتے ہیں وہیں پر عام انتظامیہ اور کاروبار زندگی مکمل طور پر تالا بند ہو جاتی ہے۔ ذرایع ابلاغ اس ادھم کو چلا چلا کر رپورٹ کرتے ہوئے ایسے فخر کر رہے تھے کہ جیسے یہ کوئی غیر ملک ہو اور اس میں ہونے والے واقعات کی اہمیت اپنی جوانمردی اور ہمت ثابت کرنے سے زیادہ اور کچھ نہ ہو ۔ اس روز کراچی میں کتنے قتل ہوئے ، خیبر پختونخوا میں کیا گزری ، باقی خلق خدا کس حال میں تھی ، یہ سب بھولا ہوا تھا ۔ بس ایک ہی شخص ہر کسی کے ذہن پر سوار تھا۔ اور اس نے خوب سواری کی ۔
حکومت اپنے تئیں خوش ہے کہ اس کے ہاتھوں مزید اموات نہیں ہوئیں۔ وہ اس پر بھی مطمئن ہے کہ اس نے رائے عامہ کے کچھ حصوں پر طاہر القادری کے بے بنیاد انقلاب اور کھوکھلے نعروں کو ظاہر کر دیا۔ یہ ثابت کر دیا کہ چند گھنٹے میں جہاز سے اترنے کے معاملے پر اپنے مطالبات میں پانچ تبدیلیاں کرنے والا یہ شخص کتنا قابل اعتبار اور اصول پسند ہے۔ اب اس انکشاف کا حکومت کو کتنا فائدہ ہو گا اور روزانہ کے مسائل کے ستائے ہوئے لوگ اس پہلو سے کس حد تک متاثر ہوں گے ۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ طاہر القادری اپنے تمام تضادات کے باوجود آج بھی اپنی گفتگو سے یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ان کی بات میں وزن ہے۔
یہ ان کی کامیابی نہیں حکومت کی ناکامی ہے کہ تمام تر مینڈینٹ کے باوجود وہ اس ملک میں ایک اچھی اور موثر قیادت کی موجودگی کا احساس پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ ملکی ترقی کے منصوبے جو بھی ہوں ان کو ایسے انداز میں تیار کیا گیا ہے کہ ان پر ایک خاندان کی اپنی منصوبہ بندی کی چھاپ واضح نظر آتی ہے ۔ نا مکمل کابینہ ، اپنے چند پیاروں کے ہاتھوں میں اتنے بڑے ملک کی لگام تھمانے پر اقرار اور سب سے بڑھ کر محض میڈیا کے ذریعے خود کو با اعتبار حکومت ثابت کرنے اور حقیقی مسائل کو پس پشت ڈالنے کی ریت نے وفاق اور پنجاب کو ریت کے گڑھے میں پھنسا دیا ہے۔ وہ جتنے ہاتھ پائوں مارتے ہیں اتنے ہی اندر دھنستے چلے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ بیچارگی عمران خان کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں ہے۔ ایسے تحفے کی تلاش ان کو شروع دن سے تھی۔ انتخابات میں مرکز کی حکومت ہاتھ نہ آنے پر جتنے عمران خان ناخوش تھے اتنا شاید اور کوئی نہیں تھا۔ وہ اس وقت سے ایسے حالات کے انتظار میں تھے جن پر سواری کر کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں امر ہو جائیں۔ اسی وجہ سے اب ان کو طاہر القادری کی 80 فی صد باتوں سے اتفاق ہے ۔ بیس فی صد عدم اتفاق اس لائحہ عمل سے جس کے بارے میں وہ کچھ خاص تفصیل سے جواب نہیں دیتے۔
شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملکی نظام کو بار بار مفلوج کرنے اور فوج سے براہ راست بات چیت کرنے کا جو طریقہ طاہر القادری نے اپنایا ہوا ہے عمران خان اب اس سے خود چند قدم کے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ انھوں نے بہاولپور میں عام احتجاج کے بارے میں عندیہ دیدیا ہے ۔ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کو بھی سنجیدگی سے اپنے سامنے بطور احتجاجی لائحہ عمل رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ایک سیاسی جماعت کا لیڈر کسی منتخب اسمبلی کو ( جو کہ مخلوط مینڈیٹ اور نمایندگی پر بنیاد کرتی ہے اور ان کے اپنے دعوئوں کے مطابق بہترین حکومت ، اور انقلابی تبدیلیوں کی آماجگاہ ہے ) کس طرح تحلیل کرنے کی دھمکیاں دے سکتا ہے ۔ ایسے بیان کی قانون اور آئین میں حیثیت کیا ہے؟
کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ صوبے کا وزیر اعلیٰ اور اس کی تمام کابینہ کی حقیقت محض اس کٹھ پُتلی سے زیادہ کی نہیں ہے جس کی ڈور خان ۔ ترین اینڈ کمپنی کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جب چاہیں ایک چلتے ہوئے نظام کو چلتا کر دیں اور جب چاہیں اس کو چند ماہ اور عطا فرما دیں۔ مگر اس قسم کے نکات آج کے پاکستان میں اٹھانا بے معنی ہو گیا ہے۔ جیسے وزیر اعظم نواز شریف کو مریم نواز کو دختر مشرق بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا بالکل ویسے ہی عمران خان کو خیبر پختونخوا کی اسمبلی اور اس کی حکومت کو گھر کی مرغی کی طرز کا سلوک کرنے پر کسی کا بس نہیں چلتا ۔ اور چوں کہ اس ملک میں اب پاکستانی کم اور '' ورکرز''، ''جانثار''، ''جیالے'' زیادہ رہ رہے ہیں ۔
اور ذرایع ابلاغ کے چیدہ چیدہ لوگ سیاسی جوتیوں میں بٹنے والی دال کھانے کے لیے لائن میں سب سے آگے کھڑے ہیں لہٰذا ان نکات پر آپ کو بھی کوئی خاص بحث ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے گی ۔ لہٰذا وہی ہو گا جو منظور قائدین ہے ۔ عمران خان ، طاہر القادری ، ق لیگ مل کر پنجاب میں گھیرائو اور شہباز شریف بھگائو مہم کا آغاز کریں گے ۔ اور اسلام آباد ملک کے ہوائی اڈوں کی طرح بار بار مفلوج کر دیا جائے گا۔ ملک میں انتشار اور فساد بڑھے گا ۔جو ٹی وی اسکرینوں کے توسط سے ملک گیر مطالبے اور جمہوری تحریک کا تاثر قائم کرے گا ۔ حکومت مزید حماقتیں کرے گی کیوں کہ اس نے فیصلہ سازی کا نظام ہی کچھ ایسا بنا دیا ہے کہ اس میں سے دانشمندی نام کی کوئی شے پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔
اس دوران شمالی وزیرستان آپریشن کا کچھ رد عمل ایسا ہو گا کہ مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ مسلسل انتشار سے بچنے کے لیے کن اداروں کی طرف دیکھا جائے گا۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں سیاسی فساد جب ریاست کو غیر فعال کرنے لگ جائیں تو جو ادارے وقتی استحکام فراہم کر سکتے ہیں وہ حرکت میں آنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں فوج کی مداخلت یا فوج کے ذریعے ملک کو چلانا ایک بے کار تجویز ہے ۔ مگر جس طرح نظام خود سے اپنے اندر خلل پیدا کر رہا ہے اس کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سڑکوں پر عوام کو لا کر حکومتوں کا اب گھیرائو بدترین حالات پیدا کرسکتا ہے۔
عمران خان یا طاہر القادری بے قابو ہجوم کو اشتعال دلوا کر ضابطے کی بوتل میں بند نہیں کر پائیں گے ۔ جب لوگ سڑکوں پر بپھر کر ڈنڈے اٹھا لیتے ہیں تو وہ کسی چوکی یا ناکے پر نہیں رکتے ناکسی کی سنتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں نے ملک کے ساتھ یہ کھیل بند نہیں کیا تو ان کا کھیل بھی بند ہو جائے گا۔نہ شیخ رہے گا نہ قادری۔ نہ عمران ہو گا نہ نواز۔ سیاست ریاست سے بڑی نہیں ہے ، قادری صاحب یہی فرماتے تھے مگر جب اس پر عمل در آمد ہو گا تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ اس کا مطلب ہوتا کیا ہے ۔
طاہر القادری جس جگہ کا رُخ کرتے ہیں وہیں پر عام انتظامیہ اور کاروبار زندگی مکمل طور پر تالا بند ہو جاتی ہے۔ ذرایع ابلاغ اس ادھم کو چلا چلا کر رپورٹ کرتے ہوئے ایسے فخر کر رہے تھے کہ جیسے یہ کوئی غیر ملک ہو اور اس میں ہونے والے واقعات کی اہمیت اپنی جوانمردی اور ہمت ثابت کرنے سے زیادہ اور کچھ نہ ہو ۔ اس روز کراچی میں کتنے قتل ہوئے ، خیبر پختونخوا میں کیا گزری ، باقی خلق خدا کس حال میں تھی ، یہ سب بھولا ہوا تھا ۔ بس ایک ہی شخص ہر کسی کے ذہن پر سوار تھا۔ اور اس نے خوب سواری کی ۔
حکومت اپنے تئیں خوش ہے کہ اس کے ہاتھوں مزید اموات نہیں ہوئیں۔ وہ اس پر بھی مطمئن ہے کہ اس نے رائے عامہ کے کچھ حصوں پر طاہر القادری کے بے بنیاد انقلاب اور کھوکھلے نعروں کو ظاہر کر دیا۔ یہ ثابت کر دیا کہ چند گھنٹے میں جہاز سے اترنے کے معاملے پر اپنے مطالبات میں پانچ تبدیلیاں کرنے والا یہ شخص کتنا قابل اعتبار اور اصول پسند ہے۔ اب اس انکشاف کا حکومت کو کتنا فائدہ ہو گا اور روزانہ کے مسائل کے ستائے ہوئے لوگ اس پہلو سے کس حد تک متاثر ہوں گے ۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ طاہر القادری اپنے تمام تضادات کے باوجود آج بھی اپنی گفتگو سے یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ان کی بات میں وزن ہے۔
یہ ان کی کامیابی نہیں حکومت کی ناکامی ہے کہ تمام تر مینڈینٹ کے باوجود وہ اس ملک میں ایک اچھی اور موثر قیادت کی موجودگی کا احساس پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ ملکی ترقی کے منصوبے جو بھی ہوں ان کو ایسے انداز میں تیار کیا گیا ہے کہ ان پر ایک خاندان کی اپنی منصوبہ بندی کی چھاپ واضح نظر آتی ہے ۔ نا مکمل کابینہ ، اپنے چند پیاروں کے ہاتھوں میں اتنے بڑے ملک کی لگام تھمانے پر اقرار اور سب سے بڑھ کر محض میڈیا کے ذریعے خود کو با اعتبار حکومت ثابت کرنے اور حقیقی مسائل کو پس پشت ڈالنے کی ریت نے وفاق اور پنجاب کو ریت کے گڑھے میں پھنسا دیا ہے۔ وہ جتنے ہاتھ پائوں مارتے ہیں اتنے ہی اندر دھنستے چلے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ بیچارگی عمران خان کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں ہے۔ ایسے تحفے کی تلاش ان کو شروع دن سے تھی۔ انتخابات میں مرکز کی حکومت ہاتھ نہ آنے پر جتنے عمران خان ناخوش تھے اتنا شاید اور کوئی نہیں تھا۔ وہ اس وقت سے ایسے حالات کے انتظار میں تھے جن پر سواری کر کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں امر ہو جائیں۔ اسی وجہ سے اب ان کو طاہر القادری کی 80 فی صد باتوں سے اتفاق ہے ۔ بیس فی صد عدم اتفاق اس لائحہ عمل سے جس کے بارے میں وہ کچھ خاص تفصیل سے جواب نہیں دیتے۔
شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملکی نظام کو بار بار مفلوج کرنے اور فوج سے براہ راست بات چیت کرنے کا جو طریقہ طاہر القادری نے اپنایا ہوا ہے عمران خان اب اس سے خود چند قدم کے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ انھوں نے بہاولپور میں عام احتجاج کے بارے میں عندیہ دیدیا ہے ۔ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کو بھی سنجیدگی سے اپنے سامنے بطور احتجاجی لائحہ عمل رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ایک سیاسی جماعت کا لیڈر کسی منتخب اسمبلی کو ( جو کہ مخلوط مینڈیٹ اور نمایندگی پر بنیاد کرتی ہے اور ان کے اپنے دعوئوں کے مطابق بہترین حکومت ، اور انقلابی تبدیلیوں کی آماجگاہ ہے ) کس طرح تحلیل کرنے کی دھمکیاں دے سکتا ہے ۔ ایسے بیان کی قانون اور آئین میں حیثیت کیا ہے؟
کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ صوبے کا وزیر اعلیٰ اور اس کی تمام کابینہ کی حقیقت محض اس کٹھ پُتلی سے زیادہ کی نہیں ہے جس کی ڈور خان ۔ ترین اینڈ کمپنی کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جب چاہیں ایک چلتے ہوئے نظام کو چلتا کر دیں اور جب چاہیں اس کو چند ماہ اور عطا فرما دیں۔ مگر اس قسم کے نکات آج کے پاکستان میں اٹھانا بے معنی ہو گیا ہے۔ جیسے وزیر اعظم نواز شریف کو مریم نواز کو دختر مشرق بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا بالکل ویسے ہی عمران خان کو خیبر پختونخوا کی اسمبلی اور اس کی حکومت کو گھر کی مرغی کی طرز کا سلوک کرنے پر کسی کا بس نہیں چلتا ۔ اور چوں کہ اس ملک میں اب پاکستانی کم اور '' ورکرز''، ''جانثار''، ''جیالے'' زیادہ رہ رہے ہیں ۔
اور ذرایع ابلاغ کے چیدہ چیدہ لوگ سیاسی جوتیوں میں بٹنے والی دال کھانے کے لیے لائن میں سب سے آگے کھڑے ہیں لہٰذا ان نکات پر آپ کو بھی کوئی خاص بحث ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے گی ۔ لہٰذا وہی ہو گا جو منظور قائدین ہے ۔ عمران خان ، طاہر القادری ، ق لیگ مل کر پنجاب میں گھیرائو اور شہباز شریف بھگائو مہم کا آغاز کریں گے ۔ اور اسلام آباد ملک کے ہوائی اڈوں کی طرح بار بار مفلوج کر دیا جائے گا۔ ملک میں انتشار اور فساد بڑھے گا ۔جو ٹی وی اسکرینوں کے توسط سے ملک گیر مطالبے اور جمہوری تحریک کا تاثر قائم کرے گا ۔ حکومت مزید حماقتیں کرے گی کیوں کہ اس نے فیصلہ سازی کا نظام ہی کچھ ایسا بنا دیا ہے کہ اس میں سے دانشمندی نام کی کوئی شے پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔
اس دوران شمالی وزیرستان آپریشن کا کچھ رد عمل ایسا ہو گا کہ مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ مسلسل انتشار سے بچنے کے لیے کن اداروں کی طرف دیکھا جائے گا۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں سیاسی فساد جب ریاست کو غیر فعال کرنے لگ جائیں تو جو ادارے وقتی استحکام فراہم کر سکتے ہیں وہ حرکت میں آنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں فوج کی مداخلت یا فوج کے ذریعے ملک کو چلانا ایک بے کار تجویز ہے ۔ مگر جس طرح نظام خود سے اپنے اندر خلل پیدا کر رہا ہے اس کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سڑکوں پر عوام کو لا کر حکومتوں کا اب گھیرائو بدترین حالات پیدا کرسکتا ہے۔
عمران خان یا طاہر القادری بے قابو ہجوم کو اشتعال دلوا کر ضابطے کی بوتل میں بند نہیں کر پائیں گے ۔ جب لوگ سڑکوں پر بپھر کر ڈنڈے اٹھا لیتے ہیں تو وہ کسی چوکی یا ناکے پر نہیں رکتے ناکسی کی سنتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں نے ملک کے ساتھ یہ کھیل بند نہیں کیا تو ان کا کھیل بھی بند ہو جائے گا۔نہ شیخ رہے گا نہ قادری۔ نہ عمران ہو گا نہ نواز۔ سیاست ریاست سے بڑی نہیں ہے ، قادری صاحب یہی فرماتے تھے مگر جب اس پر عمل در آمد ہو گا تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ اس کا مطلب ہوتا کیا ہے ۔