زوال کی دستک
بد بختی کا آغاز اُس گرم صبح ہوا، جب ناشتے کی میز پر لیہ کے گائوں، نواں کوٹ میں رونما ہونے والے لرزہ خیز سانحے ۔۔۔
لاہور:
دل پر یاسیت کے بادل چھائے ہیں۔ حبس زدہ شہر سائیں سائیں کرتا ہے۔
رجائیت پسندی، جو کل تک میری رہبر تھی، آج اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ امید گویائی سے محروم ہو گئی۔ مایوسی کے خلاف مثبت سو چ اور خود کلامی جیسے آزمودہ نسخے حیثیت کھو بیٹھے۔
چند روز سے عجیب اکتاہٹ ہے۔ مارکیز اور اورحان پامک کے تحیر خیز قصّے اب مزید اپنی اُور نہیں کھینچتے۔ ڈکنز اور ٹالسٹائی دُور کھڑے ہیں۔ بیدی اور منٹو روٹھ گئے۔ توجہ نہ تو دیوان غالبؔ پر ٹکتی ہے، نہ ہی کلام فیضؔ پر۔ قلم اٹھاتا ہوں، تو افسانے سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔
قنوطیت ایسی کہ کچھ دنوں سے بساط سیاست نے بھی متوجہ نہیں کیا۔ عمران خان نے کون سا پُر لطف بیان داغا، ڈاکٹرطاہر القادری کیا دعویٰ کر بیٹھے، میاں صاحب کی مسکراہٹ کون لے اڑا، گلو بٹ کے کمرے میں کس فلمی ہیرو کا پوسٹر لگا ہے، جمہوریت ڈی ریل ہونے میں کتنے روز ہیں، یہ سُلگتے ہوئے سوالات، جو قوم کو ہیجان میں مبتلا رکھتے ہیں، یوں لگتا ہے، جیسے یک دم اہمیت کھو بیٹھے ہوں۔ بیزاری آسیبی شکل اختیارکر گئی۔
بد بختی کا آغاز اُس گرم صبح ہوا، جب ناشتے کی میز پر لیہ کے گائوں، نواں کوٹ میں رونما ہونے والے لرزہ خیز سانحے کی خبر پڑھی۔ درخت سے لٹکی ایک لاش۔ ایک بیس سالہ لڑکی کا المیہ، جسے درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا۔ واقعے کو خودکشی کا رنگ دینے کے لیے گلے میں کپڑا باندھ کر، بڑے ہی بھونڈے انداز میں، لاش شاخ سے لٹکا دی۔ وہ ایک نابینا شخص کی بیٹی تھی۔ باپ ساری رات اُسے اندھیر نگری میں تلاش کرتا رہا۔ اور جمعے کی صبح اُس آسیبی پیڑ تک پہنچ گیا، جہاں سے جہنم کا نظارہ ممکن تھا۔ وہاں اُس کے لخت جگر کی تشدد زدہ لاش موجود تھی۔
جب سے یہ الم ناک خبر پڑھی ہے، سوچ پر غم کا کُہرا چھایا ہے۔ کیسا کھوکھلاپن ہے، کیسی درندگی ہے۔ سوچتا ہوں، اِس پتھریلے مرد مرکز معاشرے میں عورت کی کیا حیثیت ہے؟ فقط مٹی کا کھلونا۔ کھیلا، جی بھر گیا، توڑ ڈالا۔ ایسا ہی ایک وحشت ناک واقعہ چند روز قبل ہندوستان میں پیش آیا۔ وہاں بھی مرد ہی حکمراں۔ مگر سنتے ہیں، خاصا احتجاج ہوا۔ ہمارے ہاں کیا ردعمل سامنے آیا، اِس باب میں خاموشی بہتر۔
نہیں، میں یہ نہیں پوچھنا چاہتا کہ ''ثنا ء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟'' خوب علم ہے، حقیقی دنیا کے تلخ واقعات اُن کے تخیل میں قائم نظریاتی محل تک رسائی پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور یہ محل تہذیبی نرگسیت کے گارے سے بنا ہے۔ اس میں بسنے والوں کی سماعت اور بینائی کمزور ہے، مگر وہ گونگے نہیں۔ فرسودہ گیت پکے راگوں میں الاپتے ہیں۔ مخالفین کی تضحیک میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ اور زنبیل میں حب الوطنی کے سرٹیفیکٹ لیے پھرتے ہیں۔
لیہ پنجاب کا پس ماندہ ضلع۔ اور اِس ریاست میں، جس کے باسیوں پر غنودگی طاری ہے، ایسے اضلاع کی بھر مار ہے۔ اِس نوع کے واقعات تو عام ہیں۔ عورت کو اُس کی حیثیت یاد دلانے کے لیے وقفے وقفے سے اُنھیں دہرایا جاتا ہے۔ ممکن ہے، سنسنی خیز ی کے سحر میں مبتلا بے سمت میڈیا اور بدعنوان پولیس جلد ہی اِس ہیبت ناک واقعے کوایک نیا رخ دے ڈالے۔ گناہ کا سارا بوجھ مقتولہ کی قبر پر ڈال دیا جائے۔ ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں۔
یہاں بے حرمتی کرنے والوں کے بجائے شکار بننے والوں کو قصوروار ٹھہرانے کا چلن ہے۔ البتہ پردہ پوشی کی اِس کوشش سے فرق نہیں پڑے گا۔ سماج میں عورت کو جو مقام حاصل ہے، اِس سے ہم کماحقہ واقف ہیں۔ دوسرے درجے کی مخلوق۔ اُس کی مرضی اور خوشی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اُس کے لیے تعلیم شجر ممنوعہ ہے۔ گھر نامی قید خانہ تیار کیا گیا۔ بوقت ضرورت تشدد کیا جاتا ہے۔ آنکھ، ناک، کان کاٹ دینے میں کوئی مضایقہ نہیں۔ خواہش ہو، تو قتل کر دیں۔
کیا خاک زندہ قوم ہیں۔ تیزاب گردی نامی بربریت پر قابو نہیں پا سکے۔ اپنی شناخت کے لیے جدوجہد کرنے والی بنت حوا کو بے چہرہ کرنے والے درندوں کا کیا بگاڑ لیا۔ کیا جُھلسے ہوئے، ہیئت سے محروم چہروں کو سماج قبول کرتا ہے؟ جواب ہم سب جانتے ہیں۔ اِس ناسور کا ایک ہی علاج ہے۔ تیزاب گردوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ اُن کے چہرے بھی جھلسائے جائیں۔ اور پھر اُن وحشیوں کو سماج میں چھوڑ دیا جائے، تا کہ اُنھیں اپنے شکار کے کرب کا اندازہ ہو۔
کنفوشس نے کہا تھا ''لوگ اکثر پہاڑوں سے نہیں، کنکریوں پر سے پھسلتے ہیں!'' انسانوں کے مانند معاشروں کی زوال پذیری کے اسباب بھی روزمرہ کے المیوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ ریاستوں کی تباہی کی وجہ یورش گر، معاشی عدم استحکام اور صفوں میں موجود غدار نہیں ہوتے، یہ بربادی تو اخلاقی پستی اور انسانیت کی تذلیل کے پے درپے سانحات سے نمو پاتی ہے۔ سماج گھلنے لگتا ہے۔ جہاں عورتوں اور بچوں کو تحفظ حاصل نہ ہوا، وہاں تاریکی روشنی کو نگل لیتی ہے اور ہم اُس بدبخت سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ تاہم اِس بابت سوچنے کی کسے فرصت۔ ہنری فورڈ نے سچ ہی کہا تھا: ''سوچنا بہت مشکل فعل ہے۔ بہت کم انسان یہ زحمت کرتے ہیں۔''
دل پر یاسیت کے بادل چھائے ہیں۔ شرمندگی کے غبار نے گھیر رکھا ہے۔ میں اِس قوم کی ہر ماں، بہن اور بیٹی سے شرمندہ ہوں۔ ہم اپنا فرض ادا نہیں کر سکے۔ اُنھیں وہ مقام نہیں دیا، جس کا تعین ہمارا دِین کرتا ہے۔ اُنھیں وہ عزت و احترام نہیں ملا، جس کی وہ حقدار ہیں۔ برابری کو تو بھول جائیں، ہم تو اُنھیں انسان سمجھنے کے بھی روادار نہیں۔ اب اِس جہل کے خلاف جہاد فرض ہو چکا۔
میری ایک خواہش ہے۔ چھوٹی سی خواہش کہ کپتانوں کے کپتان، عمران خان لیہ جیسے الم ناک واقعات کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں۔ عزت مآب طاہر القادری عورتوں پر تیزاب پھینکنے والوں کو کچلنے کے لیے اپنے پیروکاروں کو اکٹھا کریں۔ شیخ رشید عظیم الشان ٹرین مارچ کریں۔ پیپلزپارٹی والے جیالوں کو آگاہی مہم کا علم سونپ دیں۔ کراچی اور گجرات سے ظالموں کے خلاف آواز بُلند ہو۔ وزیر اعظم بدبختوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے غیور جوانوں پر مشتمل فورس تشکیل دیں۔ ریاست اِس دجالی فعل کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دے۔
سُستی اور غفلت سے نجات کا لمحہ آن پہنچا۔ اگر ہم ایک محاذ پر اکٹھے ہو جائیں، تو عورتوں کو بے آبرو کرنے والوں کے مکروہ واقعات پر قابو پا کر زوال کے خطرے کو ٹال سکتے ہیں۔ اگر ہاتھوں کی زنجیر بنا لیں، تو ظالم سوچ کو قید کر سکتے ہیں۔ چیخوف نے کہا تھا: ''محبت انسانوں کو اتنا متحد نہیں کرتی، جتنا کسی ایک احساس سے نفرت متحد کر دیتی ہے۔''
آئیں، اِن درندوں سے، اِس مکروہ سوچ کو پروان چڑھانے والوں سے نفرت کریں۔ متحد ہو کر اِس ناسور کا قلع قمع کریں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ یورش گروں پر تو قابو پا ہی لیں گے، لیکن اگر ہم اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت میں ناکام رہے، تو یہ ریاست کھوکھلی ہو کر اپنے اندر منہدم ہو جائے گی۔ کسی بلیک ہول کی طرح خود کو نگل لے گی۔
ٹیگور کا ایک لازوال گیت یاد آتا ہے، جو کرب کے اِس لمحے دعا کے قالب میں ڈھل گیا ہے:
''جہاں ذہن بے خوف ہے، اور سر بُلند رکھا جاتا ہے۔ جہاں علم آزاد ہے۔ جہاں دنیا تنگ خانگی دیواروں کے جھگڑوں میں ٹوٹ کر پرزے پرزے نہیں ہوتی۔ جہاں الفاظ عمیق صداقت سے نکلے ہیں۔ جہاں عقل کا چشمہ فرسودہ مراسم کے صحرا میں اپنا رستہ نہیں بھولتا۔ جہاں 'تو' ہمارے ذہن کو وسیع تخیل اور عمل کی طرف لے جاتا ہے۔ مالک، اُس فردوسی آزادی میں میرے ملک کو بیدار کر۔''
دل پر یاسیت کے بادل چھائے ہیں۔ حبس زدہ شہر سائیں سائیں کرتا ہے۔
رجائیت پسندی، جو کل تک میری رہبر تھی، آج اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔ امید گویائی سے محروم ہو گئی۔ مایوسی کے خلاف مثبت سو چ اور خود کلامی جیسے آزمودہ نسخے حیثیت کھو بیٹھے۔
چند روز سے عجیب اکتاہٹ ہے۔ مارکیز اور اورحان پامک کے تحیر خیز قصّے اب مزید اپنی اُور نہیں کھینچتے۔ ڈکنز اور ٹالسٹائی دُور کھڑے ہیں۔ بیدی اور منٹو روٹھ گئے۔ توجہ نہ تو دیوان غالبؔ پر ٹکتی ہے، نہ ہی کلام فیضؔ پر۔ قلم اٹھاتا ہوں، تو افسانے سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔
قنوطیت ایسی کہ کچھ دنوں سے بساط سیاست نے بھی متوجہ نہیں کیا۔ عمران خان نے کون سا پُر لطف بیان داغا، ڈاکٹرطاہر القادری کیا دعویٰ کر بیٹھے، میاں صاحب کی مسکراہٹ کون لے اڑا، گلو بٹ کے کمرے میں کس فلمی ہیرو کا پوسٹر لگا ہے، جمہوریت ڈی ریل ہونے میں کتنے روز ہیں، یہ سُلگتے ہوئے سوالات، جو قوم کو ہیجان میں مبتلا رکھتے ہیں، یوں لگتا ہے، جیسے یک دم اہمیت کھو بیٹھے ہوں۔ بیزاری آسیبی شکل اختیارکر گئی۔
بد بختی کا آغاز اُس گرم صبح ہوا، جب ناشتے کی میز پر لیہ کے گائوں، نواں کوٹ میں رونما ہونے والے لرزہ خیز سانحے کی خبر پڑھی۔ درخت سے لٹکی ایک لاش۔ ایک بیس سالہ لڑکی کا المیہ، جسے درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا۔ واقعے کو خودکشی کا رنگ دینے کے لیے گلے میں کپڑا باندھ کر، بڑے ہی بھونڈے انداز میں، لاش شاخ سے لٹکا دی۔ وہ ایک نابینا شخص کی بیٹی تھی۔ باپ ساری رات اُسے اندھیر نگری میں تلاش کرتا رہا۔ اور جمعے کی صبح اُس آسیبی پیڑ تک پہنچ گیا، جہاں سے جہنم کا نظارہ ممکن تھا۔ وہاں اُس کے لخت جگر کی تشدد زدہ لاش موجود تھی۔
جب سے یہ الم ناک خبر پڑھی ہے، سوچ پر غم کا کُہرا چھایا ہے۔ کیسا کھوکھلاپن ہے، کیسی درندگی ہے۔ سوچتا ہوں، اِس پتھریلے مرد مرکز معاشرے میں عورت کی کیا حیثیت ہے؟ فقط مٹی کا کھلونا۔ کھیلا، جی بھر گیا، توڑ ڈالا۔ ایسا ہی ایک وحشت ناک واقعہ چند روز قبل ہندوستان میں پیش آیا۔ وہاں بھی مرد ہی حکمراں۔ مگر سنتے ہیں، خاصا احتجاج ہوا۔ ہمارے ہاں کیا ردعمل سامنے آیا، اِس باب میں خاموشی بہتر۔
نہیں، میں یہ نہیں پوچھنا چاہتا کہ ''ثنا ء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟'' خوب علم ہے، حقیقی دنیا کے تلخ واقعات اُن کے تخیل میں قائم نظریاتی محل تک رسائی پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور یہ محل تہذیبی نرگسیت کے گارے سے بنا ہے۔ اس میں بسنے والوں کی سماعت اور بینائی کمزور ہے، مگر وہ گونگے نہیں۔ فرسودہ گیت پکے راگوں میں الاپتے ہیں۔ مخالفین کی تضحیک میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ اور زنبیل میں حب الوطنی کے سرٹیفیکٹ لیے پھرتے ہیں۔
لیہ پنجاب کا پس ماندہ ضلع۔ اور اِس ریاست میں، جس کے باسیوں پر غنودگی طاری ہے، ایسے اضلاع کی بھر مار ہے۔ اِس نوع کے واقعات تو عام ہیں۔ عورت کو اُس کی حیثیت یاد دلانے کے لیے وقفے وقفے سے اُنھیں دہرایا جاتا ہے۔ ممکن ہے، سنسنی خیز ی کے سحر میں مبتلا بے سمت میڈیا اور بدعنوان پولیس جلد ہی اِس ہیبت ناک واقعے کوایک نیا رخ دے ڈالے۔ گناہ کا سارا بوجھ مقتولہ کی قبر پر ڈال دیا جائے۔ ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں۔
یہاں بے حرمتی کرنے والوں کے بجائے شکار بننے والوں کو قصوروار ٹھہرانے کا چلن ہے۔ البتہ پردہ پوشی کی اِس کوشش سے فرق نہیں پڑے گا۔ سماج میں عورت کو جو مقام حاصل ہے، اِس سے ہم کماحقہ واقف ہیں۔ دوسرے درجے کی مخلوق۔ اُس کی مرضی اور خوشی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اُس کے لیے تعلیم شجر ممنوعہ ہے۔ گھر نامی قید خانہ تیار کیا گیا۔ بوقت ضرورت تشدد کیا جاتا ہے۔ آنکھ، ناک، کان کاٹ دینے میں کوئی مضایقہ نہیں۔ خواہش ہو، تو قتل کر دیں۔
کیا خاک زندہ قوم ہیں۔ تیزاب گردی نامی بربریت پر قابو نہیں پا سکے۔ اپنی شناخت کے لیے جدوجہد کرنے والی بنت حوا کو بے چہرہ کرنے والے درندوں کا کیا بگاڑ لیا۔ کیا جُھلسے ہوئے، ہیئت سے محروم چہروں کو سماج قبول کرتا ہے؟ جواب ہم سب جانتے ہیں۔ اِس ناسور کا ایک ہی علاج ہے۔ تیزاب گردوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ اُن کے چہرے بھی جھلسائے جائیں۔ اور پھر اُن وحشیوں کو سماج میں چھوڑ دیا جائے، تا کہ اُنھیں اپنے شکار کے کرب کا اندازہ ہو۔
کنفوشس نے کہا تھا ''لوگ اکثر پہاڑوں سے نہیں، کنکریوں پر سے پھسلتے ہیں!'' انسانوں کے مانند معاشروں کی زوال پذیری کے اسباب بھی روزمرہ کے المیوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ ریاستوں کی تباہی کی وجہ یورش گر، معاشی عدم استحکام اور صفوں میں موجود غدار نہیں ہوتے، یہ بربادی تو اخلاقی پستی اور انسانیت کی تذلیل کے پے درپے سانحات سے نمو پاتی ہے۔ سماج گھلنے لگتا ہے۔ جہاں عورتوں اور بچوں کو تحفظ حاصل نہ ہوا، وہاں تاریکی روشنی کو نگل لیتی ہے اور ہم اُس بدبخت سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ تاہم اِس بابت سوچنے کی کسے فرصت۔ ہنری فورڈ نے سچ ہی کہا تھا: ''سوچنا بہت مشکل فعل ہے۔ بہت کم انسان یہ زحمت کرتے ہیں۔''
دل پر یاسیت کے بادل چھائے ہیں۔ شرمندگی کے غبار نے گھیر رکھا ہے۔ میں اِس قوم کی ہر ماں، بہن اور بیٹی سے شرمندہ ہوں۔ ہم اپنا فرض ادا نہیں کر سکے۔ اُنھیں وہ مقام نہیں دیا، جس کا تعین ہمارا دِین کرتا ہے۔ اُنھیں وہ عزت و احترام نہیں ملا، جس کی وہ حقدار ہیں۔ برابری کو تو بھول جائیں، ہم تو اُنھیں انسان سمجھنے کے بھی روادار نہیں۔ اب اِس جہل کے خلاف جہاد فرض ہو چکا۔
میری ایک خواہش ہے۔ چھوٹی سی خواہش کہ کپتانوں کے کپتان، عمران خان لیہ جیسے الم ناک واقعات کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں۔ عزت مآب طاہر القادری عورتوں پر تیزاب پھینکنے والوں کو کچلنے کے لیے اپنے پیروکاروں کو اکٹھا کریں۔ شیخ رشید عظیم الشان ٹرین مارچ کریں۔ پیپلزپارٹی والے جیالوں کو آگاہی مہم کا علم سونپ دیں۔ کراچی اور گجرات سے ظالموں کے خلاف آواز بُلند ہو۔ وزیر اعظم بدبختوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے غیور جوانوں پر مشتمل فورس تشکیل دیں۔ ریاست اِس دجالی فعل کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دے۔
سُستی اور غفلت سے نجات کا لمحہ آن پہنچا۔ اگر ہم ایک محاذ پر اکٹھے ہو جائیں، تو عورتوں کو بے آبرو کرنے والوں کے مکروہ واقعات پر قابو پا کر زوال کے خطرے کو ٹال سکتے ہیں۔ اگر ہاتھوں کی زنجیر بنا لیں، تو ظالم سوچ کو قید کر سکتے ہیں۔ چیخوف نے کہا تھا: ''محبت انسانوں کو اتنا متحد نہیں کرتی، جتنا کسی ایک احساس سے نفرت متحد کر دیتی ہے۔''
آئیں، اِن درندوں سے، اِس مکروہ سوچ کو پروان چڑھانے والوں سے نفرت کریں۔ متحد ہو کر اِس ناسور کا قلع قمع کریں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ یورش گروں پر تو قابو پا ہی لیں گے، لیکن اگر ہم اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت میں ناکام رہے، تو یہ ریاست کھوکھلی ہو کر اپنے اندر منہدم ہو جائے گی۔ کسی بلیک ہول کی طرح خود کو نگل لے گی۔
ٹیگور کا ایک لازوال گیت یاد آتا ہے، جو کرب کے اِس لمحے دعا کے قالب میں ڈھل گیا ہے:
''جہاں ذہن بے خوف ہے، اور سر بُلند رکھا جاتا ہے۔ جہاں علم آزاد ہے۔ جہاں دنیا تنگ خانگی دیواروں کے جھگڑوں میں ٹوٹ کر پرزے پرزے نہیں ہوتی۔ جہاں الفاظ عمیق صداقت سے نکلے ہیں۔ جہاں عقل کا چشمہ فرسودہ مراسم کے صحرا میں اپنا رستہ نہیں بھولتا۔ جہاں 'تو' ہمارے ذہن کو وسیع تخیل اور عمل کی طرف لے جاتا ہے۔ مالک، اُس فردوسی آزادی میں میرے ملک کو بیدار کر۔''