یہ آثار اچھے نہیں
پی ٹی آئی کے طرز عمل نے اس قیمتی موقع کو ضائع کر کے ہمیشہ کی طرح بدمزگی پیدا کر دی
یہ پاک چین اقتصادی راہ داری اور بیلٹ اینڈ روڈ انی شی ایٹو کیا ہے؟ اقبال کا خواب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عزت مآب لیو جہان چاؤ یہی راز کھولنے کے لیے پاکستان تشریف لائے تھے۔ سی پیک مشاورتی میکنزم کے اجلاس سے ان کا خطاب دو وجہ سے یادگار رہے گا۔ انھوں اپنے خطاب کے لیے انگریزی زبان کا انتخاب کیا اور پھر بتایا کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کس ورلڈ آرڈر کا خواب دیکھا اور اس آرڈر میں پاکستان اور چین کا کردار کیا ہے پھر نہایت خوش گوار سنجیدگی کے ساتھ انھوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
معزز مہمان کی تقریر کے اس حصے کا جس میں انھوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا، حاضرین میں سے کسی نے اس کا نوٹس لیا، کسی نے نہیں لیا کیوں کہ سید یوسف رضا گیلانی، سردار ایاز صادق، مولانا فضل الرحمن، خالد مقبول صدیقی، سینیٹر علی ظفر اور آصف لقمان قاضی سمیت جس کسی نے بھی خطاب کیا، لکھی ہوئی تقریر پڑھی یا تحریری نکات کا سہارا لیا لیکن سینیٹر مشاہد حسین سید کی فی البدیہہ تقریر اسی شعر کے گرد گھومتی رہی اور انھوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ اقبال جب گراں خواب چینیوں کے سنبھلنے اور ہمالہ کے چشموں کے ابلنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس دنیا کا مستقبل ایشیا میں دیکھتے ہیں۔ صرف ایشیا میں ہی نہیں دیکھتے، چین میں دیکھتے ہیں جس کا پڑوسی اور اسٹریٹجک شراکت دار پاکستان ہے۔ مشاہد حسین سید کی تقریر کا یہی نکتہ تھا جسے معزز مہمان نے نہایت توجہ سے سنا اور داد دی۔
یہ سوال اہم ہے کہ چین سے آنے والے مہمان نے سی پیک کے دوسرے اور ترقی یافتہ دور کی ابتدا کے موقع پر ہمیں یہ بتانا کیوں ضروری سمجھا کہ سی پیک کے جس خاکے پر ہم آپ رنگ بھرنے میں مصروف ہیں، یہ در اصل آپ ہی کے نظریاتی جد امجد اور مشرق کے عظیم شاعر کا پیش کردہ ہے۔ اسی سوال کے ساتھ منسلک ایک سوال اور بھی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے چینی دوست جو سرکاری سطح پر ہر گفت گو اور تبادلہ خیال اپنی قومی زبان چینی میں کرتے ہیں، انھوں نے اس بار انگریزی میں تقریر کرنی کیوں ضروری سمجھی؟ ان دو سوالات کے جواب حاصل کر لیے جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ جناب لیو جہان چاؤ کے دورۂ پاکستان کی اہمیت واضح ہو جائے گی۔
ابھی چند روز ہوتے ہیں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے دورہ چین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا دورہ چین ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور دونوں ملکوں کی ترقی اور خوش حالی کا ضامن ہے۔ چینی ترجمان کا یہ ردعمل پاک چین تعلقات اور وزیر اعظم کے دورہ چین کے خلاف سوشل میڈیا پر کیے جانے والے ردعمل کے پس منظر میں تھا۔
یہ پروپیگنڈا اتنا شدید تھا کہ نہ صرف چینی دوستوں کو ہی اس پر بات کرنی پڑی بلکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کوبھی اسے موضوع گفت گو بنانا پڑا۔ احسن اقبال نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت پاکستان اور چین کے تعلقات کے حوالے سے مسلسل پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک جماعت نے پچھلے تین چار روز سے پاکستان اور چین کے تعلقات پر ٹرولنگ شروع کی ہوئی ہے۔
یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں کوئی کمی آ گئی ہے یا یہ ڈاؤن گریڈ ہو گئے ہیں۔ احسن اقبال جس ایک 'جماعت' کا ذکر کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ پی ٹی آئی ہے کیوں کہ منفی پروپیگنڈے کی ساری شہادتیں اسی جماعت کی طرف جاتی ہیں۔
پاک چین تعلقاتِ کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کی تاریخ 2014 تک پہنچتی ہے جب اس جماعت نے ڈی چوک پر دھرنا دے کر چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی کرایا پھر اس کے ساتھ ہی مختلف سطحوں پر یہ پروپیگنڈا بھی شروع کر دیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان کے مفاد میں نہیں کیوں کہ چین کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح سے پاکستان میں لایا جا رہا ہے۔
پھر جب اس جماعت کی حکومت بنی تو اقتصادی راہداری کے منصوبے کو عملًا بند کر دیا گیا اور حکومت کے وزرا نے ان منصوبوں کی شفافیت کے بارے میں سوالات اٹھا کر دوست ملک کو بدمزہ کیا۔ یہی پس منظر تھا جس کی وجہ سے ایک عمومی خیال تھا کہ پاکستان میں پیدا ہو جانے والی صورت حال نے چین کو مایوس کیا ہے اور اب وہ پاکستان کو بھول کر متبادل منصوبوں پر توجہ دے رہا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین سے واضح ہو گیا تھا کہ اس قسم کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے لیکن پروپیگنڈا اسی زور و شور سے جاری رہا جس پر دونوں طرف سے نہایت اعلی سطح پر وضاحت کی گئی لیکن ظاہر ہے کہ صورت حال ویسی کی ویسی ہی رہی چناں چہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے بین الاقوامی رابطوں کے وزیر لیو جہان چاؤنے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر چینی سفارت کاری کا وہ نفیس اور براہ راست طریقہ اختیار کیا جس کے لیے وہ دنیا میں معروف ہے۔
چینی وزیر کا انگریزی میں خطاب اقبال کے تصور کی یاد دہانی اور چینی سفارت کاری کے اسی پہلو کو اجاگر کرتا ہے تاکہ ان کی تقریر کے جو معنی ہیں،وہی لیے جائیں اور کوئی فریق اسے دوسرے معنی نہ پہنا سکے۔ اس سے بھی بڑی بات سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اجتماع ہے جس سے چینی وزیر نے خطاب کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ اجتماع پاک چین تعلقات کے معاملے میں چین کی گواہی میں ایک اتفاق رائے پیدا کرنے کی غیر معمولی کوشش تھی۔ کیا یہ کوشش کامیاب رہی؟ یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے۔
یہ کوشش اس حد تک تو کامیاب رہی کہ مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے نمائندے بیرسٹر علی ظفر نے اقتصادی راہداری منصوبے میں تیزی لانے کا مطالبہ کیا لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے چند ایسے اشارے بھی دیے جو نامناسب تھے۔ بیرسٹر علی ظفر نے اپنی تقریر میں یہ کہنا ضروری سمجھا کہ وہ مشاورتی اجلاس میں اس لیے شریک ہوئے ہیں کیوں کہ اس کی دعوت انھیں معزز مہمان یعنی چین کی طرف سے ملی ہے۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ یہ بات کیسے نامناسب ہے؟ یہ بات ایسے نامناسب ہے کہ انھوں نے بہ الفاظ دیگر یہ کہا ہے کہ اگر حکومت انھیں مدعو کرتی تو وہ اجلاس میں شریک نہ ہوتے۔ یہ کہہ کر انھوں نے قومی اتفاق رائے کے خوبصورت منظر نامے کو دھندلا دیا۔ اپنی تقریر میں انھوں نے اس منصوبے کی کامیابی کو سیاسی استحکام سے منسلک کیا۔ ایسا کہتے ہوئے انھوں نے نہایت چابک دستی سے عدالتی فیصلوں کا ذکر کیا۔ یہ ایک نامناسب بات تھی کیوں کہ ایسا کر کے انھوں نے پاک چین دو طرفہ تعلقات کو پاکستان کی داخلی سیاست اور اختلاف سے منسلک کر دیا۔ اتنی اعلیٰ سطح کی کانفرنسوں اور اجتماعات کے موقع پر گروپ فوٹو بنانے کی روایت بھی ہوتی ہے لیکن پی ٹی آئی کے نمائندے بیرسٹر علی ظفر اس میں بھی شریک نہیں ہوئے۔
ان کا یہ طرز عمل ایک عظیم دوست ملک سے آنے والے مہمان کے احترام کے منافی تھا۔بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ پی ٹی آئی کی طرف سے اختلاف پیدا کرنے کا رویہ اگلے روز بھی جاری رہا۔ اس جماعت کے قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ایجنسیاں سیکیورٹی کی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں کیوں کہ وہ اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے بہ جائے سیاسی مخالفین پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس جماعت کے ترجمان رؤف حسن نے اپنی پریس کانفرس میں کہا کہ ملک میں آئینی بریک ڈاؤن ہو چکا ہے۔
یہ سب کچھ عین اس وقت ہو رہا ہے جب چینی مہمان ابھی پاکستان میں ہی تھے۔ کیا سبب ہے کہ ایک ایسے وقت میں سیاسی مخالفین اپنا اختلاف بالائے طاق رکھ کر اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں پی ٹی آئی کے طرز عمل نے اس قیمتی موقع کو ضائع کر کے ہمیشہ کی طرح بدمزگی پیدا کر دی۔ یہ واقعات اچھے آثار کی نشان دہی نہیں کرتے ضرور 2014جیسا کوئی منصوبہ زیر عمل ہے، قوم چوکنی رہے۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
معزز مہمان کی تقریر کے اس حصے کا جس میں انھوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا، حاضرین میں سے کسی نے اس کا نوٹس لیا، کسی نے نہیں لیا کیوں کہ سید یوسف رضا گیلانی، سردار ایاز صادق، مولانا فضل الرحمن، خالد مقبول صدیقی، سینیٹر علی ظفر اور آصف لقمان قاضی سمیت جس کسی نے بھی خطاب کیا، لکھی ہوئی تقریر پڑھی یا تحریری نکات کا سہارا لیا لیکن سینیٹر مشاہد حسین سید کی فی البدیہہ تقریر اسی شعر کے گرد گھومتی رہی اور انھوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ اقبال جب گراں خواب چینیوں کے سنبھلنے اور ہمالہ کے چشموں کے ابلنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس دنیا کا مستقبل ایشیا میں دیکھتے ہیں۔ صرف ایشیا میں ہی نہیں دیکھتے، چین میں دیکھتے ہیں جس کا پڑوسی اور اسٹریٹجک شراکت دار پاکستان ہے۔ مشاہد حسین سید کی تقریر کا یہی نکتہ تھا جسے معزز مہمان نے نہایت توجہ سے سنا اور داد دی۔
یہ سوال اہم ہے کہ چین سے آنے والے مہمان نے سی پیک کے دوسرے اور ترقی یافتہ دور کی ابتدا کے موقع پر ہمیں یہ بتانا کیوں ضروری سمجھا کہ سی پیک کے جس خاکے پر ہم آپ رنگ بھرنے میں مصروف ہیں، یہ در اصل آپ ہی کے نظریاتی جد امجد اور مشرق کے عظیم شاعر کا پیش کردہ ہے۔ اسی سوال کے ساتھ منسلک ایک سوال اور بھی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے چینی دوست جو سرکاری سطح پر ہر گفت گو اور تبادلہ خیال اپنی قومی زبان چینی میں کرتے ہیں، انھوں نے اس بار انگریزی میں تقریر کرنی کیوں ضروری سمجھی؟ ان دو سوالات کے جواب حاصل کر لیے جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ جناب لیو جہان چاؤ کے دورۂ پاکستان کی اہمیت واضح ہو جائے گی۔
ابھی چند روز ہوتے ہیں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے دورہ چین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا دورہ چین ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور دونوں ملکوں کی ترقی اور خوش حالی کا ضامن ہے۔ چینی ترجمان کا یہ ردعمل پاک چین تعلقات اور وزیر اعظم کے دورہ چین کے خلاف سوشل میڈیا پر کیے جانے والے ردعمل کے پس منظر میں تھا۔
یہ پروپیگنڈا اتنا شدید تھا کہ نہ صرف چینی دوستوں کو ہی اس پر بات کرنی پڑی بلکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کوبھی اسے موضوع گفت گو بنانا پڑا۔ احسن اقبال نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت پاکستان اور چین کے تعلقات کے حوالے سے مسلسل پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک جماعت نے پچھلے تین چار روز سے پاکستان اور چین کے تعلقات پر ٹرولنگ شروع کی ہوئی ہے۔
یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں کوئی کمی آ گئی ہے یا یہ ڈاؤن گریڈ ہو گئے ہیں۔ احسن اقبال جس ایک 'جماعت' کا ذکر کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ پی ٹی آئی ہے کیوں کہ منفی پروپیگنڈے کی ساری شہادتیں اسی جماعت کی طرف جاتی ہیں۔
پاک چین تعلقاتِ کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کی تاریخ 2014 تک پہنچتی ہے جب اس جماعت نے ڈی چوک پر دھرنا دے کر چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی کرایا پھر اس کے ساتھ ہی مختلف سطحوں پر یہ پروپیگنڈا بھی شروع کر دیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان کے مفاد میں نہیں کیوں کہ چین کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح سے پاکستان میں لایا جا رہا ہے۔
پھر جب اس جماعت کی حکومت بنی تو اقتصادی راہداری کے منصوبے کو عملًا بند کر دیا گیا اور حکومت کے وزرا نے ان منصوبوں کی شفافیت کے بارے میں سوالات اٹھا کر دوست ملک کو بدمزہ کیا۔ یہی پس منظر تھا جس کی وجہ سے ایک عمومی خیال تھا کہ پاکستان میں پیدا ہو جانے والی صورت حال نے چین کو مایوس کیا ہے اور اب وہ پاکستان کو بھول کر متبادل منصوبوں پر توجہ دے رہا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین سے واضح ہو گیا تھا کہ اس قسم کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے لیکن پروپیگنڈا اسی زور و شور سے جاری رہا جس پر دونوں طرف سے نہایت اعلی سطح پر وضاحت کی گئی لیکن ظاہر ہے کہ صورت حال ویسی کی ویسی ہی رہی چناں چہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے بین الاقوامی رابطوں کے وزیر لیو جہان چاؤنے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر چینی سفارت کاری کا وہ نفیس اور براہ راست طریقہ اختیار کیا جس کے لیے وہ دنیا میں معروف ہے۔
چینی وزیر کا انگریزی میں خطاب اقبال کے تصور کی یاد دہانی اور چینی سفارت کاری کے اسی پہلو کو اجاگر کرتا ہے تاکہ ان کی تقریر کے جو معنی ہیں،وہی لیے جائیں اور کوئی فریق اسے دوسرے معنی نہ پہنا سکے۔ اس سے بھی بڑی بات سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اجتماع ہے جس سے چینی وزیر نے خطاب کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ اجتماع پاک چین تعلقات کے معاملے میں چین کی گواہی میں ایک اتفاق رائے پیدا کرنے کی غیر معمولی کوشش تھی۔ کیا یہ کوشش کامیاب رہی؟ یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے۔
یہ کوشش اس حد تک تو کامیاب رہی کہ مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے نمائندے بیرسٹر علی ظفر نے اقتصادی راہداری منصوبے میں تیزی لانے کا مطالبہ کیا لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے چند ایسے اشارے بھی دیے جو نامناسب تھے۔ بیرسٹر علی ظفر نے اپنی تقریر میں یہ کہنا ضروری سمجھا کہ وہ مشاورتی اجلاس میں اس لیے شریک ہوئے ہیں کیوں کہ اس کی دعوت انھیں معزز مہمان یعنی چین کی طرف سے ملی ہے۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ یہ بات کیسے نامناسب ہے؟ یہ بات ایسے نامناسب ہے کہ انھوں نے بہ الفاظ دیگر یہ کہا ہے کہ اگر حکومت انھیں مدعو کرتی تو وہ اجلاس میں شریک نہ ہوتے۔ یہ کہہ کر انھوں نے قومی اتفاق رائے کے خوبصورت منظر نامے کو دھندلا دیا۔ اپنی تقریر میں انھوں نے اس منصوبے کی کامیابی کو سیاسی استحکام سے منسلک کیا۔ ایسا کہتے ہوئے انھوں نے نہایت چابک دستی سے عدالتی فیصلوں کا ذکر کیا۔ یہ ایک نامناسب بات تھی کیوں کہ ایسا کر کے انھوں نے پاک چین دو طرفہ تعلقات کو پاکستان کی داخلی سیاست اور اختلاف سے منسلک کر دیا۔ اتنی اعلیٰ سطح کی کانفرنسوں اور اجتماعات کے موقع پر گروپ فوٹو بنانے کی روایت بھی ہوتی ہے لیکن پی ٹی آئی کے نمائندے بیرسٹر علی ظفر اس میں بھی شریک نہیں ہوئے۔
ان کا یہ طرز عمل ایک عظیم دوست ملک سے آنے والے مہمان کے احترام کے منافی تھا۔بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ پی ٹی آئی کی طرف سے اختلاف پیدا کرنے کا رویہ اگلے روز بھی جاری رہا۔ اس جماعت کے قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ایجنسیاں سیکیورٹی کی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں کیوں کہ وہ اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے بہ جائے سیاسی مخالفین پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس جماعت کے ترجمان رؤف حسن نے اپنی پریس کانفرس میں کہا کہ ملک میں آئینی بریک ڈاؤن ہو چکا ہے۔
یہ سب کچھ عین اس وقت ہو رہا ہے جب چینی مہمان ابھی پاکستان میں ہی تھے۔ کیا سبب ہے کہ ایک ایسے وقت میں سیاسی مخالفین اپنا اختلاف بالائے طاق رکھ کر اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں پی ٹی آئی کے طرز عمل نے اس قیمتی موقع کو ضائع کر کے ہمیشہ کی طرح بدمزگی پیدا کر دی۔ یہ واقعات اچھے آثار کی نشان دہی نہیں کرتے ضرور 2014جیسا کوئی منصوبہ زیر عمل ہے، قوم چوکنی رہے۔