1500 میں کیتھولک حکمرانوں کے حکم پرعربی کی 5 ہزار سے زائد کتابیں نذرآتش کی گئیں

غرناطہ یونیورسٹی کے طالب علم ابن الخطیب نے فلسفی، مورخ اور طبیب کی حیثیت سے شہرت پائی، مسلم اسپین کے دور میں وزیر رہا

سیریا نیواڈا سلسلے کے سب سے بلند پہاڑ کا نام غرناطہ کے حاکم ’ابوحسن علی‘ کے نام پر ’جبل مولائی حسن‘ ہے، یہیں پر ان کی قبر بھی ہے، بادشاہ یوسف کے دور کی سرائے آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے، اسپین کا دلچسپ سفر نامہ ۔ فوٹو : فائل

چوتھی قسط

غرناطہ کے اس تاریخی ہسپتال سے نکلے تو ساتھ ہی اک تاریخی چرچ تھا، اُدھر چلے گئے۔ یہ 'بازلیکا جان آف گاڈ' ہے۔ کیتھولک عیسائیت میں بازلیکا وہ چرچ ہیں جنہیں پوپ نے کسی وجہ سے امتیازی حیثیت عطا کی ہو۔ چار بنیادی، مین یا اہم ترین بازلیکا چرچ روم میں واقع ہیں جبکہ ان سے چھوٹی حیثیت کے بازلیکا دنیا بھر میں ہیں، انہیں میں سے ایک یہ غرناطہ کا چرچ ہے۔ یہ کوئی بہت بڑا چرچ نہیں ہے، اس کے ایک جانب ایک چھوٹا سے باغ درمیان میں فوارے سمیت ہے۔ مسلم اندلس میں باغ اور اس کے درمیان میں فوارہ اکثر تعمیرات میں پایا جاتا ہے۔ اس چرچ کی چھت میں مذہبی تصاویر بنی ہیں جبکہ عمارت میں سنہرے گولڈ کا کام بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ اسپین کے لیے یہ مال و متاع کہاں سے آیا؟ پہلے مسلم اندلس کو فتح کرنے کے بعد اور بعد میں براعظم امریکہ میں اسپین کے کالونیاں اس سنہرے پن کا باعث ہوں گی۔

چرچ سے نکلے اور آگے کو چل پڑے۔ غرناطہ میں تاریخ بکھری پڑی ہے، اگر کوئی شخص اس شہر اور اس کی عمارات پر تحقیق کو اپنا لے تو اس کی زندگی اسی میں ہی گذر جائے گی۔ تاریخی عمارات، تنگ گلیاں، مدرسے، مذہبی عمارات سب بکھرے پڑے ہیں۔ کئی عمارتوں کی کھڑکیوں پر چقیں لگی تھیں۔ اب تو پاکستان میں چقیں اس طرح نظر نہیں آتیں مگر بچپن میں جگہ جگہ چقیں نظر آتی تھیں۔ گرمیوں میں لوگ اُن پر پانی ڈال دیتے تھے کہ ہوا ٹھنڈی ہو کر گھر میں داخل ہوتی تھی۔ ایک تنگ گلی میں موٹر سائیکل کھڑا دیکھا تو اندرون لاہور کی گلیاں یاد آگئیں۔ چلے تو ساتھ ہی سولہ سو انچاس عیسوی کا قائم کردہ ایک تاریخی کالج تھا جس کا نام 'رائل کالج آف سینٹ بارتھلیمو و سینٹیاگو' ہے، یہ کالج آج بھی طالبعلموں کے رہائشی کالج کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اندر نہیں جاسکتے تھے مگر باہر لگی تاریخ بتاتی تختی کے مطابق اس عمارت کی عربی طرز کی چھتیں دیکھنے کے قابل ہیں۔ آگے ہمیں یونیورسٹی کا لاء ڈیپارٹمنٹ مل گیا جوکہ سولہویں صدی کے ایک ہسپانوی سکالر فرانسسکو سوریز کے نام پر ہے۔ اس سکالر کا ایک مجسمہ بھی ڈیپارٹمنٹ کے صحن میں نصب ہے۔

راہ میں بازار کو جا نکلے، وہاں مختلف مصالحہ جات کی دکان تھی۔ سپین کے کھانوں میں بھی اس کے ماضی کی بنا پر مختلف ذائقوں کا امتزاج ہے۔ اس کا اندازہ اسپین میں مختلف کھانوں سے ہوا، جس میں 'پائیلا' کی ڈش بھی ہے جو کہ چاول، مچھلی، جھینگے کو ملا کر تیار کی جاتی ہے۔ چکن کے ساتھ بھی پائیلا تیار کیا جاتا ہے کہ گوشت کو گئی گھنٹے ہلکی آگ پر پکایا جاتا ہے کہ اس کا ریشہ ریشہ الگ ہو جائے۔

اندرون غرناطہ چلتے چلتے ہم ایک تاریخی عرب بازار میں جانکلے جسے 'الکسیریا' کہتے ہیں۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ یہ نام بازینطینی شہنشاہ قیصر سے نکلا تھا جس نے عرب تاجروں کی چھ عیسوی میں اپنی سلطنت میں سلک بیچنے کی اجازت دی تھی۔ اس نام کے بازار مشرق وسطی اور مسلم سپین میں جا بجا پائے جاتے تھے۔ آج اس قسم کا تاریخی بازار غرناطہ کے علاوہ سپین کے کسی علاقے میں نہیں باقی رہا۔بازار کے ستون اور قوسین اپنا حسن آج بھی رکھتے ہیں۔ کچھ تنگ گلیوں پر مشتمل اس بازار میں اب زیادہ تر سوینئر بکتے ہیں۔ عرب بازار کے ساتھ ہی غرناطہ کا چرچ ہے۔ وقت نہ تھا سو بس جلدی سے اس پر نظر ڈالی کیونکہ آگے تاریخی مدرسہ یوسفیہ جانے کی جلدی تھی۔ چرچ کے سامنے ہی مدر ٹریسا کی ایک بڑی تصویر کپڑے کے بڑے بینر پر لگی تھی۔ جب کوئی انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی ہستی مٹا دے تو پھر وہ آفاقی ہو جاتا ہے۔ غرناطہ شہرکی سیر کے اگلے مرحلے میں ہم غرناطہ کے مدرسہ یوسفیہ چلے گئے۔ مدرسہ کا حسن دیکھ کر مبہوت رہ گئے۔ چودھویں صدی کے آغازمیں غرناطہ کے حکمران یوسف اول نے غرناطہ کی جامع مسجد کے ساتھ ایک تعلیمی ادارے کی تعمیرکا حکم دیا جسے مدرسہ کے نام سے آج بھی جانا جاتا ہے، گوغرناطہ کی جامع مسجد کومسمارکرکے وہاں چرچ بنا دیا گیا ہے۔ موجودہ تصورسے برعکس یہ مدرسہ مذہبی اور دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم دیتا تھا، یہاں مذہب، قانون، منطق، طب، ادب، فلکیات اور ریاضی پڑھائی جاتی تھی۔ یہ ایک شاندارعمارت تھی جس کا سامنے کا رخ سفید سنگ مرمرسے بنا تھا۔ اس سنگ مرمرکے ٹکڑے آج بھی غرناطہ شہرکے آثارِ قدیمہ کیعجائب گھر میں رکھے ہیں۔ عجائب گھر میں رکھے ان ٹکڑوں میں سنگِ بنیاد بھی ہے، جس پرلکھا ہے کہ یہ عمارت محرم، 750 ہجری یعنی مارچ یا اپریل 1349 عیسوی میں قائم کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مدرسہ مسلم اسپین میں سب سے پرانا تھا اورموجودہ جگہ سے قبل غرناطہ میں شاہی املاک میں قائم تھا۔ اُس پرانی جگہ کا علم نہیں ہوسکا۔ اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ بغداد کا مدرسہ نظامیہ سنہ 1066 عیسوی میں قائم کیا گیا تھا اور اندلس میں مسلمان حکمرانی 711 عیسوی میں قائم ہوئی سو یہ لازمی خیال کیا جا سکتا ہے کہ مدرسے کا قیام 1349 عیسوی سے کہیں پہلے ہوگا۔

عمارت کو شاعری اوراقوال سے مزین کیا گیا تھا جو اُس دورکے ہنرمندوں اورخطاطی کی مہارت کا آئینہ دار ہے۔ ان میں سے ایک عربی عبارت جو بچ گئی ہے اس کا ترجمہ کچھ یو ں ہے، ''اگر آپ کی روح جستجو کی چاہ رکھتی ہے اورلاعلمی کے اندھیروں سے نکلنا چاہتی ہے، تو یہ جگہ ہے جو علم اورعزت کی آبیاری کرتی ہے۔علم حاصل کریں اورستاروں کی طرح روشن ہو جائیں، اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی کمال تک لے جائیں۔ ''

مدرسے کا بڑا بیرونی دروازہ ایک صحن میں کھلتا تھا۔ اس صحن کے درمیان میں اندلسی طرزِ تعمیر کے مطابق حوض تھا اورچاروں طرف کمرے بنے ہیں جن میں پڑھائی کے کمرے اورطالبعلموں کی رہائش تھی۔ صحن کے ایک جانب مسجد تھی، آج اس مدرسے کی تمام عمارت میں صرف مسجد کا ایک کمرہ ہی اصلی حالت میں بچا ہے۔ یہ چوکورکمرہ ہے، کمرے میں داخل ہوں تو سامنے محراب نظر آتی ہے۔ محراب اور کمرے کی خوبصورتی الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ محراب کے گرد مختلف رنگوں سے جوڑ کر ڈیزائن بنائے گئے ہیں، اس کے علاوہ قرآنی آیات کی خطاطی بھی نمایاں ہے۔ الحمرا کے محل میں لکھا ہوا، '' ولا غالب الا اللہ'' بھی یہاں نظر آتا ہے۔ کمرے کے چاروں کونوں سے مقرنص ڈیزائن چھت پرجاکرآٹھ کونے لکڑی کے چھت سے مل جاتا ہے۔ چھت کے نیچے سولہ کھڑکیاں ہیں جو ہوا اور روشنی کے لیے استعما ل ہوتی ہونگی۔ کمرے میں خطاطی اور ڈیزائن میں استعمال ہوئے اصل رنگ ابھی تک محفوظ ہیں۔

سنہ 1491عیسوی میں مسلمانوں کی شکست کے بعد معاہدہ غرناطہ کے مطابق یہ مدرسہ 1500 عیسوی تک چلتا رہا۔ مگر 1500 عیسوی میں کیتھولک بشپ فرانسسکو جیمنیز ڈی سیسنروز کے زیرِ اثر معاہدے سے انحراف ہوا اورکیتھولک حکمرانوں کی طرف سے زبردستی مسلمانوں کے تبدیلیِ مذھب، قتل اوردیس نکالے کی پالیسی چل پڑی۔ مدرسے پر قبضہ کر لیا گیا، تمام عربی میں لکھی کتابوں کو سرعام جلایا گیا، خیال ہے کہ کم از کم پانچ ہزار سے زیادہ کتابیں جلائی گئی تھیں، کچھ مورخین کے مطابق تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مدرسے کو ٹاون ہال میں تبدیل کر دیا گیا۔ عمارت میں کئی تبدیلیاں ہوئیں، حوض کومٹی سے پر کردیا گیا۔ صرف مسجد کا کمرہ ہی اپنی اصل حالت میں باقی ہے۔ موجودہ دور میں یہ عمارت اب غرناطہ یونیورسٹی کے حوالے ہے۔اس مدرسے کے نمایاں طالبعلموں میں 'ابن الخطیب' شامل ہے جو کہ ایک شاعر، فلسفی، مورخ، طبیب اورغرناطہ میں وزیر رہے۔ الحمرا میں دیواروں پر انکی شاعری آج بھی خوشخط لکھی دکھائی دیتی ہے۔ ابن الخطیب نے یورپ کو صابن سے متعارف کروایا۔ اسکی تحقیق سے بیماریوں کے خاتمے کے لیے غسل میں صابن کا استعمال یورپین کو بتلایا گیا۔ لفظ سوپ یعنی انگریزی میں صابن عربی لفظ صف اور صفاء سے نکلا ہے جس کا مطلب صفائی ہے۔

مسافرنے کمرے کو غور سے دیکھا۔ کمرہ قبلہ رو کھڑا تھا، صدیوں سے ساکت۔ اذانوں کے آواز کہیں تھی، دور کہیں، یا کہیں نزدیک ہی، اذاں شاید تھی، یا شاید نہیں تھی، یقیناً تھی یا شاید گماں تھا۔ گماں جیسے کسی پیارے کو دفن کرنے کے بعد بھی گماں رہتا ہے کہ یہیں ہے، یہیں آس پاس، سرگوشی کرتا، ابھی آئے گا۔ غم کی چادر جسم پر اوڑھے، دکھ میں لپٹے بھی گماں ہوتا ہے، سب جھوٹ ہے، جھوٹ۔ دھند کی طرح چاروں طرف پھیلا جھوٹ۔

مسافر نے حُسن کی طرف دیکھا۔ حُسن اوردکھ، کون انکے گھاو سے بچ سکتا ہے۔

مسافر کے پاس نذر کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ ایک جسم تھا، قبلہ روہو کراُس کمرے میں سجدہ ریزہوا۔ صدیوں سے ٹھہری، جامد زمین پر پیشانی رکھ دی۔ اورکچھ دینے کو تھا بھی نہیں۔ ساتھ کوئی اوربھی سجدہ ریز تھا، عالم یا صوفی۔ اسی مدرسے کے سبق پڑھتے بچے یا کوئی فاضل استاد۔ کوئی تھا، انتظارمیں، برس ہا برس کے انتظارمیں، صدیوں سے انتظارمیں۔ اذان کی آواز تھی، یا نہیں تھی۔ کوئی ساتھ تھا یا نہ تھا، کچھ تو تھا یا کچھ بھی نہ تھا، اک سرگوشی تھی، ولاغالب الا اللہ۔

حُسن اوردکھ، کون انکے گھاو سے بچ سکتا ہے۔

مدرسے سے باہر نکلے تو دیکھا ایک بازی گر اپنا کمال دکھا رہا تھا۔ فٹ بال کے گول کیپر کا کردار ادا کر رہا تھا کہ ایک ٹانگ ہوا میں معلق تھی، دائیں ہاتھ سے فٹ بال کو روکے جسم پیچھے کو گرتا تھا۔ چہرے پر اس کوشش کے تمام آثار نمایاں نظر آتے تھے۔ سوچیے تو زندگی میں کئی تماشے سامنے چلتے رہے ہیں اور چل رہے ہیں۔ ہم سب خود بھی اپنے اپنے طور پر کچھ بازی گر ہیں۔ کئی بازی گر چہرے پر بھرپور تاثرات دکھاتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ جھوٹ کی ملاوٹ ہے کہ پورے کا پورا جھوٹ ہے؟ بازی گر بازی کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ مگر زندگی میں بعض ایسے بھی مل جاتے ہیں کہ بقول اقبال


ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفِیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طرِیق

بد قسمتی یہ ہے کہ بازیگروں سے متاثر آنکھ ایسوں کو نہیں پہچان پاتی، چرب زبانوں سے متاثر ہونے والے حقیقی رہنماوں کے مقام کو جان ہی نہیں پاتے۔ انفرادی نقصان تو شاید قابلِ قبول ہو، اس سے کہیں بڑھ کر قومی نقصان ہوجاتا ہے۔ بازی گر اپنے بوریا بستر اور مال اکٹھا کر کے اپنی راہ لیتا ہے، اور پیچھے تاسف کی گرد چھوڑ جاتا ہے۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں یوں جاتا رہا ہے کہ اگلے مداری کی ڈگڈگی پر پھر مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے۔ بازیگر وہ سحر طاری کرتا ہے، چہرے پر وہ محنت اور اخلاص کے تاثر دیتا ہے، ایسی بین بجاتا ہے کہ جرمن لوک کہانی کے'پائیپ پائیپر' کی مانند ہجوم اس کے پیچھے ہوجاتے ہیں کہ بصدِ شوق کسی بھی کھائی میں لے چلے۔ نشترِ تحقیق تو ایسا کند ہوا ہے کہ اگر کوئی سمجھانے کی کوشش کرے تو خوش قسمت ہوگا تو صرف گالیوں سے مزین ہوگا ورنہ ہجوم بصدِ فخر اُسے موت کی گھاٹ اتار کر اتراتا پھرے گا کہ مذہبی و قومی ذمہ داری ادا کی ہے۔

ایسا سلسلہ ہمیشہ نہیں چل سکتا، آخر میں کھنڈرات ہی نشانِ عبرت و آہ کے طور پر باقی رہ جاتے ہیں۔

مدرسے سے چلے تو بازار سے ہوتے ہوئے ایک سرائے کی جانب سفر تھا۔ اس کا نام اب کورل ڈی کاربن ہے، کاربن یعنی کوئلہ کیونکہ یہ سرائے سوداگروں کے ٹھہرنے کے علاوہ کوئلے کی تجارت کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی، سمجھیے کہ کوئلے کی منڈی بھی تھی۔ یہ سرائے چودھویں صدی میں بادشاہ یوسف اول کے دور میں بنی اور شاید پورے سپین میں یہی ایک ایسی نشانی ہے جو تقریبا پوری طرح اپنی اصل حالت میں ہے۔ سرائے کے داخلی دروازے پرخوبصورت قوس شکل کی محراب ہے جس پر عربی لکھی ہوئی ہے۔ دروازے سے داخل ہوں تو کھلا صحن ہے جس کے درمیان میں پتھر کی مستطیل جگہ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے بنی ہے۔ بچپن میں جب پاکستان کے شہروں میں تانگے چلتے تھے تو اس سے ملتی جلتی ساخت گھوڑوں کو پانی پلانے کے لیے ہر تانگے اڈے پر ہوتی تھی۔ صحن کے چاروں طرف تین منزلہ کمرے تھے جن کے سامنے برآمدے ہیں۔ خیال کی آنکھ نے اس صحن میں طویل سفر سے آئے سوداگر دیکھے، کھانے کے بعد انہیں اس صحن میں بیٹھے دور دیسوں کے قصے سناتے دیکھا، عربی گھوڑوں کو نوکر پانی پلاتے اور مالش کرتے نظر آئے، کیا خبر کہ کسی دریچے سے کوئی آنکھ جھانکتی ہوگی، کہیں دور کی دنیا سے آیا عطر فضا کو مہکاتا ہوگا، کنیزیں دف بجاتی ہوں گی، بازیگر اس زمانے میں بھی کمال دکھا کر انعام پاتے ہونگے۔ کیا سلطنت تھی، کیا صنعت و حرفت تھی، کیا تجارت تھی، دنیا کا حسن یہاں اکٹھا تھا، اور پھرایک مشہور مصرعے میں تظمیم کے ساتھ کچھ یوں معاملہ ہوا کہ ''خیال و خواب ہوئی ہیں حقیقتیں کیسی''۔

مدرسہ اور سرائے سے نکل کر ہم غرناطہ کے اس علاقے کی جانب چلنے لگے جو الحمرا کی مانند عالمی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ غرناطہ شہر کا البیسین کے ڈسٹرکٹ کاعلاقہ ہے۔ یہ علاقہ دسویں صدی عیسوی میں آباد ہوا تھا۔ اس علاقے کا نام عربی کے لفظ البیزا ن سے نکلا ہے۔ اس نام کی بابت دو روایتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی کہ یہ علاقہ جنوبی سپین کے صوبے جیان کے شہر بیاسہ کے رہنے والوں نے آکر آباد کیا تھا، جس کی بنا پر اس کا نام البیسین ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ اس علاقے کا نام البیازن سے آیا ہے جس کا مطلب ہے باز پالنے والوں کا علاقہ، کہ اس علاقے میں باز پالنے، سدھانے اور شکار کھیلنے والے رہتے تھے۔ یہ علاقہ غرناطہ شہر کی ایک پہاڑی پر آباد کیا گیا تھا جو کہ الحمرا کے محل کے بالکل سامنے ہے۔ یہاں خوب ہریالی ہے کیونکہ یہاں ندیاں بہتی ہیں۔ آج بھی دریائے درو اس علاقے میں بہتا ہے جوکہ الحمرا کے محل کو سیراب کرتا، بہتا دونوں پہاڑیوں کے بیچ سے ہوتا ہوا نیچے وادی میں اتر جاتا ہے۔ یہ اصل میں ایک ندی ہے جس کے نام کا مطلب سنہرا دریا یا سونے کا دریا ہے کیونکہ لوگ اس دریا کی تہہ سے سونا ڈھونڈتے تھے۔ البیسین سے الحمرا جانے کے لیے اس دریا پر ایک پل تھا جس کے برج پر پہریدار تعینات ہوتے تھے جو آنے اور جانے والوں کی پڑتال کرتے تھے۔ آج اُس پل کا کچھ حصہ ہی باقی رہا ہے۔



البیسین پہاڑی پر واقع یہ ایک خوبصورت آبادی ہے۔ پہاڑی پر پتھر کی فرشیلی تنگ گلیاں ایک طرف سے دوسری جانب اوپر نیچے جاتی ہیں، آمنے سامنے گھر اور انکی بالکنیاں ہیں، گھروں کے صحنوں میں فوارے ہیں اور بہتے پانی کی آوازجابجا سنائی دیتی ہے۔ اکثر یہ گلیاں چھوٹے چوکوں میں ملتی ہیں، جہاں اب کیفے بنے ہیں، باہر کرسیوں پر بیٹھیں اور سامنے کی پہاڑی پر بنے الحمرا کے حُسن کو دیکھیں۔

البیسین غرناطہ کی ابتدائی آبادی خیال کی جاتی ہے جو کہ زیریون شاہی خاندان نے آباد کی تھی۔ زیریون ایک بربر قبیلہ ہے جس کا تعلق الجزائر کے علاقے سیتھا۔ المنصور زاوی بن زیری اسپین میں ایک ہزار عیسوی میں آیا اور قرطبہ کی خلافت کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا۔ اس نے غرناطہ کی علیحدہ حکومت کا آغاز کیا اور البیسین کی آبادی اسی کے دورِحکومت میں بنی۔

زاوی نے البیسین میں ایک قلعہ بنایا، اور البیسین کی آبادی بڑھنے لگی۔ یہاں مختلف علاقوں سے لوگ آ کر آباد ہونے لگے، اور مساجد، محلات، باغات، حوض اورعوامی باتھ کی تعمیر ہوئی۔ ان میں سب سے اہم تیسرے زیری بادشاہ بادیس کا محل تھا جو بدقسمتی سے اب باقی نہیں رہا۔ البیسین کے علاقے میں گاڑی نہیں داخل ہو سکتی کہ گلیاں تنگ ہیں۔ اگر کوئی تعمیری کام کرنا ہو تو آج بھی گدھوں گھوڑوں پر سامان لانا ہوگا۔ البیسین سے آپ کو سیریا نیواڈا کا پہاڑی سلسلہ بھی نظر آتا ہے۔ سیریا نیواڈا کا معنی سپینش میں برف سے ڈھکا پہاڑی سلسلہ ہے۔ اسی

پہاڑی سلسلے میں سپین کی سب سے اونچا پہاڑ جبل مولائی حسن ہے جس کی اونچائی تین ہزار چار سو اسی میٹر ہے۔ اس پہاڑی کا نام غرناطہ کے حکمران ابو حسن علی کے نام پر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر دفن ہے۔ ہم دریائے درو کے ساتھ ساتھ اوپر چڑھتے رہے۔ یہ خاصا محنت طلب کام تھا کہ چڑھائی تھی۔ بس اب یہی کہہ سکتے ہیں کی جس راہ پر ایک تاریخ چلی تھی، اُس راہ پر ہم بھی چلے۔ سڑک پتھروں کی بنی تھی اور ہمارے بائیں جانب البیسین کا علاقہ تھا۔ جب دل چاہتا تو اس علاقے کی گلیوں میں نکل جاتے تھے۔ تاریخ چہار سو بکھری تھی۔ اس علاقے میں ایک سحر سا ہے، آدمی سوچے تو سوچتا رہ جاتا ہے کہ اگر آج یہ عالم ہے تو تہذیب کی ترقی کے اس موڑ پر یہ جگہ کیا ہوگی۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں غرناطہ کو عالم کا لعل اور ہیرا کہا جاتا تھا۔ گھڑسوار الحمرا سے نکلتا ہوگا، پل کو عبور کیا اور اسی راہ پر گھوڑا دوڑاتا نیچے وادی میں اتر جاتا ہوگا۔ اس پتھریلی راہ کو اگر زبان مل جائے تو کیا کیا نہ کہانیاں اس کے پاس ہوں گی۔ رکیے، ایک گھوڑے کے سموں کی آواز تو ابھی بھی آرہی ہے۔ نہیں یہ گھوڑا نہیں بلکہ مشینی پہیے اور سٹینڈ کی آواز ہے جو آپ چڑھائی سے پہلے کرائے پر لے سکتے ہیں کہ قدامت میں جدت مل جائے۔ کچھ بچے ہم نے دیکھا کہ خوشی خوشی اس پر سوار اوپر کو جا رہے تھے۔

البیسین میں کئی پرانی عمارات پر گریفٹی بنی دیکھ کر دکھ سا ہوا کہ عالمی ورثے کی ایسی درگت بھی بعض جگہ پر بن رہی ہے۔ آگے چلے تو عوامی حمام یعنی پبلک باتھ کی عمارت آگئی جو کہ گیارہویں صدی عیسوی میں زیریون شاہی خاندان کے دورِ حکومت میں بنایا گیا تھا۔ غرناطہ میں کئی پبلک باتھ تھے، ایک تاریخی تحریر کے مطابق اکیس حمام تھے،مگر عیسائی فتح کے بعد انہیں تباہ کردیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ عیسائی نہانے سے احتراز کرتے تھے۔ یہ موجودہ حمام بھی ایک دھوبی گھاٹ میں تبدیل ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔

اس کی عمارت اگرچہ خستہ حال ہے مگر موجود ہے۔ اس کوعربی میں حمال الیوزہ جبکہ ہسپانوی میں بینولو یا بینو ڈیل نوگال کہتے ہیں۔ یہ حمام ایک گلی میں ہیں جو کہ دریائے درو کے متوازی واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حمام کی عمارت کے ساتھ ہی مسجد تھی جو کہ بعد میں تباہ کر دی گئی۔ اس حمام کے لیے پانی دریا سے آتا ہے جس کے لیے بہت زبردست سسٹم بنایا گیا تھا۔ اُس دور کے لحاظ سے یہ ایک صناعی کا نمونہ تھا۔ حمام میں کئی کمرے تھے، پہلا کپڑے بدلنے کا کمرہ، جس کے بعد ٹھنڈا کمرہ، پھر گرم کمرہ جس کے بعد بہت گرم کمرہ اور آخر میں بوائلر کا کمرہ تھا۔ ان گرم کمروں کے فرش نیچے سے خالی ہوتے تھے جن سے گرم پانی بہہ کر کمرے کے حوض میں آتا تھا۔ ان کمروں کی چھتوں میں ستاروں کی شکل کے سوراخ تھے، جنہیں زیادہ گرم ہونے کی صورت میں کھول دیا جاتا تھا کہ حرارت نکل جائے۔ ان سوراخوں پر شیشہ تھا تاکہ روشنی آتی رہے۔ ایک حوض کھلے میں بھی تھا۔ (جاری ہے)

 
Load Next Story