غیر ملکی سرمایہ کاری اور پائیدار امن کا خواب
افغانستان تو مجموعی طور پر پاکستان کے لیے کوڑھ بن چکا ہے
اگراپنے گھر میں پائیدار امن قائم نہ ہو اوراگر اپنے وطن میں قانون و آئین کی بالادستی نہ ہو تو ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم ایران و توران کی باتیں کریں۔ ہم اپنا یہ خود ساختہ حق کھو دیتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل میں اقلیتوں پر مظالم ڈھانے کی داستانیں بیان کریں ۔
جب اپنے گھر میں بدامنی کے سائے گہرے ہو رہے ہوں اور فرد غیر محفوظ ہو کر رہ جائے تو ہم اخلاقی طور پر خود کو نحیف اور کمزور خیال سمجھتے ہیں کہ امریکا ومغرب میں اسلاموفوبیا کی گرفت کریں ۔ ہمارے اپنے ملک میں مسلسل جو خونریز اور خونیں واقعات و سانحات جنم لے رہے ہیں، اِن کی موجودگی میں اگر ہم بھارت، اسرائیل ، امریکا اور مغربی ممالک پر تنقید و تنقیص کریں تو وہ پلٹ کر بجا طور پر کہہ سکتے ہیں : پہلے اپنا گھر تو درست کر لو، پھر ہماری طرف نظریں اُٹھانا ۔
سوات مدین کی ٹھنڈی اور خوشگوار فضاؤں میں گزشتہ روز توہینِ مذہب کے الزام کے نام پر جو آگ بھڑکی ہے ، اور جس طرح ایک سنگین الزام کے تحت ایک سیاح کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا ہے ، اِس ناخوشگوار اور خونی سانحہ نے دلوں پر بھاری بوجھ ڈال رکھا ہے۔ سوات میں ایک پاکستانی سیاح کے مبینہ توہینی اقدام پر ردِ عمل نے سارے ملک میں جھرجھری پھیلا دی ہے ۔ اِس کی بازگشت ساری دُنیا میں بھی سنائی دی گئی ہے۔
اِس سانحہ کے نتیجے میں سوات کی سیاحت اور معیشت کو زبردست دھچکے پہنچنے کے اندیشے ہیں ۔ سوات میں آئین و قانون کی پروا نہ کرتے ہُوئے چند افراد نے ، خود ہی جج اور جیوری بن کر، ملزم کو جو سزا دی ہے، اِس نے چند برس قبل سوات اور اس کے مضافات میں بنیاد پرستوں اور انتہا پسندوں کے لاتعد اد مظالم کی تلخ یادیں پھر سے تازہ کر دی ہیں ۔ پاکستان آرمی کے افسروں اور جوانوں نے اپنی لاتعداد جانوں کے نذرانے پیش کرکے سوات اور اہلِ سوات کو ظالموں کے چنگل سے نجات دلائی تھی۔ افسوس اہلِ سوات نے ان قربانیوں کی قدر نہیں کی۔ سیاح کو قانون و عدالت سے ماورا قتل کرکے ان لوگوں نے وہی کردار ادا کیا ہے جو کبھی سوات میں ٹی ٹی پی والے کیا کرتے تھے ۔
بدامنی اور خونریزی کا یہ سانحہ ایسے لمحات میں وقوع پذیر ہُوا ہے جب چین کے ایک اہم وزیر لیو جیان چاؤ ( Liu Jianchao) پاکستان کے دَورہ پر تشریف لائے ہُوئے تھے ۔ اُن کی سرکاری سطح پر خوب آؤ بھگت کی گئی ہے کہ ہمیں چین سے ابھی بہت کچھ درکار و مطلوب ہے ۔ مذکورہ چینی وزیر نے ایک ایسے اہم سرکاری اجلاس سے بھی خطاب کیا جس میں نون لیگ، پیپلز پارٹی ، جے یو آئی ایف اور پی ٹی آئی کے منتخب افراد موجود تھے۔
ان سب کی موجودگی میں لیو جیان چاؤ نے جو باتیں کی ہیں، انھیں ایک جملے میں یوں سمیٹا جا سکتا ہے :'' پاکستان میں جب تک کامل امن اور سیاسی پائیداری نہیں ہوگی، یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات روشن نہیں ہوں گے ۔'' ہمیشہ خاموش رہ کر کامیاب سفارتکاری کرنے والی چینی قیادت کی جانب سے پاکستان کو واضح اور اہم پیغام دے دیا گیا ہے ۔ ہماری مگر بدقسمتی ہے کہ مذکورہ چینی وزیر ابھی پاکستان ہی میں تھے کہ بلوچستان میں شدید بدامنی کا ایک اور سانحہ پیش آ گیا۔
اطلاعات کے مطابق:''21جون2024 کو بلوچستان کے تفریحی مقام ،زرغون شعبان، میں لوگ پکنک منا رہے تھے کہ 40مسلح افراد آئے اور سب لوگوں کو گھیر کر ایک جگہ جمع کر لیا۔ اُن کے شناختی کارڈ جمع کیے ۔ پھر اُن میں ایک خاص علاقے کے10 لوگ چھانٹے اور انھیں اغوا کرکے ساتھ لے گئے۔'' لیویز ذرایع کا کہنا کہ مغویان میں کچھ لوگ ملتان کے تھے ۔کیا اِن سیاح دشمن سانحات کی بازگشت دُنیا تک نہیں پہنچ رہی ؟ ایسے میں کون احمق غیر ملکی سیاح ہوگا جو پاکستان کی جنت نظیر وادیوں کا رخ کرے گا؟
لگتا مگر یہ ہے کہ لیو جیان چاؤ کی نصیحت یا وارننگ پر ہم بحیثیتِ مجموعی کان دھرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بد قسمتی سے ہماری صفوں کے اندر ہی کئی عناصر اور کالی بھیڑیں ایسی ہیں جو ہمہ وقت وطنِ عزیز کے امن، سیکیورٹی اور شانتی کو بلڈوز کرنے میں دن رات لگی ہیں ۔ لیو جیان چاؤ ابھی پاکستان ہی میں تھے کہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع، کرم، میں دہشت گردوں نے بارُودی سرنگ (IEDs)سے حملہ کرکے پاک آرمی کے پانچ جوانوں کو شہید کر دیا۔ سوات کے بعد کرم میں جنم لینے والے اِن سانحات کی رپورٹ پاکستان کے دَورے پر آئے چینی وزیر تک بھی یقینا پہنچی ہوگی ۔
انھوں نے کیا تاثر لیا ہوگا؟ اِن واقعات میں ہم افغانستان میں پناہ گیر اور افغان طالبان کی زیر سرپرستی بروئے کار ٹی ٹی پی کو منہا نہیں کر سکتے ۔ افغانستان تو مجموعی طور پر پاکستان کے لیے کوڑھ بن چکا ہے ۔ لیکن سندھ اور پنجاب کو بھی ہم امن کا گہوارہ قرار نہیں دے سکتے ۔ کراچی میں جنم لینے والی قتل و رہزنی کی مسلسل وارداتوں اور سندھ کے کچے میں ڈاکوؤں کی بے لگام اور بے مہار سرکشی نے قیامت کی صورت پیدا کررکھی ہے ۔ پنجاب میں گزشتہ دنوں سرگودھا اور جڑانوالہ میںمسیحیوں کے خلاف جن سانحات نے جنم لیا ہے ، اِن کی موجودگی میں ہم کیسے اور کیونکر پنجاب کو امن و آشتی کا جزیرہ کہہ سکتے ہیں ؟
کیا ایسے ماحول اور انوائرمنٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے؟ کوئی غیر ملکی سرمایہ دار یہاں آنے کا رسک لے سکتا ہے؟ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو وطنِ عزیز کی جانب مائل و قائل کرنے کے لیے SIFCکی کوششیں اور جدوجہد اپنی جگہ مستحسن اور قابلِ ستائش ہیں ، مگر ملک میں بد امنی کی آگ بڑھکانے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے کون نمٹے گا اور کب نمٹے گا؟ طاقتور بھی تو سہمے سہمے لگتے ہیں۔
سرکشوں اور امن دشمنوں کے مقابل قانون نافذ کرنے والے پسپائی اختیار کرتے محسوس ہو رہے ہیں۔ بصورتِ دیگر کوئی بھی قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کسی ملزم کو خاکستر کرنے ، جلانے اور قتل کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا ۔ مگر یہ سانحات رکنے کانام ہی نہیں لے رہے۔ اِن حالات میں پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری خصوصاً منفی طور پر متاثر ہُوئی ہے ۔
راقم نے گوگل پر ریسرچ کی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پچھلے برس ترکیہ نے سیاحت سے55ارب ڈالر کمائے ۔ انڈونیشیا اور ملائشیا نے بالترتیب ٹورازم کی مَد میں 36ارب اور 41ارب ڈالر کمائے ۔ یہ ممالک کسی بھی طرح پاکستان سے کم اسلامی نہیں ہیں۔ان ممالک کے شہری کسی بھی شکل میں پاکستانیوں سے کم مسلمان نہیں ہیں۔ انڈونیشیا تو عالمِ اسلام کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔
اِن ممالک کے باسیوں نے مگر سیاحوں کا احترام کرنا سیکھ لیا ہے ۔ وہ قانون و آئین کو اپنے ہاتھ میں لینے کا رسک لے ہی نہیں سکتے۔ ترکیہ ، انڈونیشیا اور ملائشیا کے سواحل پر عالمی سیاح جس طرح کا لباس پہن کر آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں ، اگر اِسی طرح کا لباس پاکستان کے کسی ساحل پر اگر کوئی غیر ملکی سیاح گھومے گا تو شاید وہ سلامت ہی نہ رہے ۔ پھر کون آئیگا یہاں سیر کرنے اور سرمایہ لگانے ؟حکومت نے اب ''آپریشن عزمِ استحکام'' منظور کر لیا ہے ۔ اُمید ہے اِس کے نفاذ سے پائیدار امن قائم ہو سکے گا ۔ دیکھتے ہیں۔