بین المذاہب ہم آہنگی امن کمیٹیوں میں خواتین کو شامل کرنا ہوگا

نبی آخرالزماں ﷺ نے ساڑھے 1400 برس قبل خواتین کو عزت اور حقوق دیے جو اس سے پہلے نہیں تھے


’’بین المذاہب ہم آہنگی اور خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو ـ وسیم نیاز

''بین المذاہب ہم آہنگی اور خواتین کا کردار'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میںایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور خواتین کی نمائندہ کو مدعو کیا گیا۔

فورم میں امن، بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری، اخوت، بھائی چارہ، فرقہ واریت اور دہشت گردی سمیت بیشتر معاملات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور شرکاء نے مسائل کے حل کیلئے اہم تجاویز بھی دی۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد

(چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی خطیب و امام بادشاہی مسجد لاہور)

رحیم یار خان، جڑانوالہ، سرگودھا سمیت جہاں بھی اقلیتوں کے حوالے سے مسائل پیدا ہوئے، ہم نے انہیں حل کرنے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا۔ میں اور آرچ بشپ سباسٹین شا نے خود وہاں جاکر متاثرین کو حوصلہ دیا اور انتشار ختم کرایا۔ میں نے وہاں کے لوگوں سے کہا کہ خوف ختم کر دیں، ہم آگئے ہیں، آپ اپنے گھروں میں جائیں، ہم آپ کا تحفظ کریں گے، کوئی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دشمن کی سازش ہے جو ہمارے امن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، ہم نے مل کر فرقہ واریت کو شکست دی، اب دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہمارے فوجی جوان بھی اس لڑائی میں شہید ہو رہے ہیں، ہم مل کر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے اور دشمن کی ہر چال کو ناکام بنائیں گے، اس حوالے سے پیغام پاکستان ایک اہم دستاویز ہے جس پر ہزاروں علماء کے دستخط ہیں، اس نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی، ہم اس پر عمل پیرا ہیں، اسے مزید عام کرنا ہوگا۔ ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ کی سیرت، حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت فاطمۃالزہرہؓ کا کردار مشعل راہ ہے۔

نبی آخرالزماں ﷺ نے ساڑھے 1400 برس قبل خواتین کو عزت اور حقوق دیے جو اس سے پہلے نہیں تھے۔ ہم آپﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہیں اور آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم خواتین کے حقوق کے علمبردار ہیں۔ میرے نزدیک امن کمیٹیوں میں خواتین کی شمولیت کا مطالبہ جائز ہے، اس سے بہتری آئے گی اور مسائل کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

اس وقت پنجاب کی وزیراعلیٰ خاتون ہیں جو بہترین کام کر رہی ہیں۔ خواتین ہر محکمے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کر رہی ہیں۔ بیوروکریسی میں بھی خواتین ہیں، ہر ادارے میں خواتین بڑے عہدوں پر موجود ہیں اور اچھا کام کر رہی ہیں لہٰذا بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے فروغ کیلئے امن کمیٹیوں میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے وفاق اور صوبوں سے بات کروں گا۔ میرے نزدیک خواتین کی شمولیت سے معاشرے سے نفرت، انتشار اور منفی رویوں کے خاتمے میں مدد ملے گی، گھر سے ہی محبت، رواداری، برداشت، اخوت اور بھائی چارے جیسے رویوں کو فروغ ملے گا۔جب بھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو یہاں بدامنی اور انتشار کو ہوا دی جاتی ہے۔

کبھی فرقہ واریت تو کبھی دہشت گردی، ہم سب نے بہت نقصان اٹھایا مگر مل کر دشمن کی سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ ہم نے ممبر و محراب سے امن کا پیغام دیا، دیگر عبادت گاہوں سے بھی یہی پیغام دیا گیا۔ عوام سب سے زیادہ ممبر کے قریب ہیں لہٰذا یہاں سے ہر روز امن، رواداری، محبت، اخوت، بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارے کا پیغام جانا چاہیے۔ گزشتہ دنوں آزاد کشمیر میں جو صورتحال بنی اس پر بھی ہم نے اہم کردار ادا کیا۔ ہم نے وہاں کے 10 اضلاع سے 300 علماء کو اکٹھا کرکے وحدت کا پیغام دیا اور لوگوں کو بتایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ ملک ہے تو ہم ہیں لہٰذا ہمیں مل جل کر رہنا ہے، انتشار سے بچنا ہے اور ہمارا دشمن جو ہر وقت انتظار میں بیٹھا ہے اس کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔

ہم سب آدمؑ کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدمؑ کی اولاد کو عزت دی۔ تمام مذاہب نے انسانیت کے احترام کا درس دیا ہے۔ آپﷺ کی تعلیمات میں بھی انسانیت کی تکریم ہے اور ہم ان پر عمل پیرا ہیں۔ سرگودھا واقعہ ہوا تو ہم نے کوئیک ایکشن لیا۔ میں، سباسٹین شا، مسلم، مسیحی قیادت اور انتظامیہ فوری وہاں پہنچے۔ وہاں کے علماء نے بھی اہم کردار ادا کیا، ملک کے دیگر علماء بھی وہاں پہنچے اور ہم سب نے مل کر مشکل صورتحال پر قابو پالیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتظامیہ، پولیس، علماء اور دیگر مذاہب کے رہنما جو وہاں پہنچے، ان کا کردار لائق تحسین ہے، ہم بڑے سانحہ سے نکل آئے۔ سانحہ جڑانوالہ میں بھی سب نے مل کر کردار ادا کیا اور انتشار کو مزید پھیلنے سے روکا۔ ہمیں اپنے اتحاد کو مزید فروغ دینا ہوگا۔

نبیﷺ کا فرمان ہے کہ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظمؒ کا فرمان بھی یہی ہے۔ میرے نزدیک جیسے ہم نے پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا، ایسے ہی پاکستان بچانے میں ادا کرنا ہوگا۔ ہندوستان میں تمام اقلیتیں ظلم و بربریت کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں حالات بہتر ہیں۔ ہم نبی رحمتﷺ کے ماننے والے ہیں۔ آپﷺ نے درختوں کو جلانے سے منع کیا۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ اگر ماضی میں ہونے والے واقعات کے ذمہ داروں کو بروقت سزا دی جاتی تو آئندہ کوئی واقعہ رونما نہ ہوتا۔ اگر کوئی توہین مذہب کا مرتکب پایا گیا تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس کے خلاف سخت ایکشن لے، کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔

دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ آپس میں قربتیں بڑھ رہی ہیں، ہمیں ایسی معاملات دیکھنے ہیں جو آپس میں مشترک ہوں۔ ہمیں ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرنی چاہیے۔ ہمیں قومی یکجہتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے مشن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا کو محبت، امن، رواداری اور بھائی چارے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ النساء ہے جو خواتین کے حوالے سے ہے۔ اسلام ہمیں خواتین کی عزت ، ان کے حقوق اور کردار کا درس دیتا ہے لہٰذا خواتین کے معاشرتی کردار کو فروغ دینا چاہیے۔ اسلام اور معاشرے کے مطابق خواتین کا جو کردار ہو سکتا ہے، میں اس کے حق میں ہوں۔ ہم ہر جگہ خواتین کے حقوق اور شمولیت کی آواز بلند کریں گے۔

سباسٹین شا

(آرچ بشپ آف لاہور)

افسوس ہے کہ جذبات کی رو میں بہہ کر صدیوں سے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ اس خطے میں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے ایک ساتھ رہتے ہیں، آپس میں اچھے تعلقات ہیں مگر کوئی ایک چنگاری سب راکھ کر دیتی ہے۔ جڑانوالہ ہو یا سرگودھا کا افسوسناک واقعہ، لوگوں کے جذبات ابھارنے کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے۔ لوگوں نے جذباتی ہو کر حملے کیے اور آپس کے تعلقات اور میل جول کا خیال بھی نہ رکھا۔ ایسے حالات میں مولانا عبدالخبیر آزاد، میں اور دیگر مذہبی شخصیات، ان علاقوں میں گئے اور موقع پر جاکر آگ بھجانے میں کردار ادا کیا۔ ہم مل کر بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔

لاہور میں ہم نے بے شمار پروگرامز کیے جن سے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ ملا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ماضی کی نسبت حالات بہتر ہیں۔ سب ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں، یہاں برداشت کا کلچر عام ہے اور سب مل کر رہ رہے ہیں تاہم افسوس ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں آج بھی مسائل ہیں، وہاں انتشار کے واقعات بڑھے ہیں جن سے ہماری ساکھ کو نقصان پہنچا ہے لہٰذا ہمیں ملک کے طول و عرض میں ہر سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی، امن، رواداری، برداشت اور بھائی چارے کے لیے کام کرنا ہوگا۔

یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ ہم نے خواتین کو پس پردہ رکھا ہے حالانکہ خاتون نے ہمیں چلنا سکھایا ۔ مرد سے گھر نہیں چلتا لیکن عورت اچھے انداز میں گھر سنبھالتی۔ خاوند کی آمدن کم ہو تو اس میں سے بھی کچھ رقم بچا لیتی ہے، گھر کے معاملات چلاتی ہے اور بچوں کی بھی تربیت کرتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جو عورت گھر چلا سکتی ہے وہ ملکی مسائل کے حل میں کردار اداکیوں نہیں کرسکتی لہٰذا امن کمیٹیوں میں خواتین کو نمائندگی دینے سے بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے فروغ میں بہتری آئے گی۔ میرے نزدیک امن کمیٹیوں میں خواتین کو 33فیصد کے بجائے 50 فیصد نمائندگی دینی چاہیے۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے لہٰذا ماؤں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کریں۔ انہیں بتائیں کہ سب کو خدا نے بنایا ہے، ہمیں اکٹھے رہنا ، رواداری، امن اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔

ہمیں گھر سے ہی بچوں کو قبولیت سکھانا ہوگی، اگر سب ایک دوسرے کو قبول کر لیں تو معاشرے میں امن قائم ہوجائے گا۔عدم مساوات اور عدم انصاف سے بدامنی پھیلتی ہے۔ جہاں انصاف نہیں ہوتا، وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا، ہمیں اپنا نظام انصاف بہتر کرنا ہوگا۔ ہمیں گھر میں بھی عدل و انصاف کو فروغ دینا ہوگا، بچوں کو قانون کا احترام سکھانا ہوگا۔ اگر ہم نظام بہتر کر لیں، یہاں انصاف کا بول بالا ہو، کسی سے زیادتی نہ ہو، سب کو ان کا حق ملے، محرومیاں ختم ہوں، گھر سے تربیت ہو اور ایک دوسرے کی قبولیت ہو تو ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور ملک میں امن قائم ہوجائے گا۔ اگر رواداری کو فروغ ملے گا تو کوئی ایک دوسرے کو غیر نہیں سمجھے گا۔

ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لہٰذا بڑے بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر مزید بہتر کردار ادا کرے۔ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں ، ہمیں جذباتیت کو ختم کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ہمیں لوگوں کو تنازعات کا حل، ہجوم کو کنٹرول کرنے جیسے معاملات کی تربیت دینا ہوگی۔ میرے نزدیک معاشرتی اصلاح کیلئے لانگ ٹرم ترقیاتی پلان بنانا ہوگا۔ اس میں تمام مذاہب کے رہنما شامل ہوں جو لوگوں کی تربیت کریں، سب مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے مسائل حل کریں۔

کانجی رام

(سابق رکن صوبائی اسمبلی پنجاب)

قومی سطح سے لے کر تحصیل کی سطح تک، امن کمیٹیاں موجود ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کیلئے کام کر رہی ہیں۔ میرے نزدیک ان تمام کمیٹیوں میں خواتین کو لازمی نمائندگی دینی چاہیے، ان میں تمام مذاہب کی خواتین کو شامل کیا جائے۔ خواتین کی محرومی دیکھ کر مجھے اپنی برادری کی محرومی کا بہت شدت سے احساس ہو رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 371 نشستیں ہیں مگر ہندو کمیونٹی کا ایک بھی نمائندہ موجود نہیں۔

ایسا نہیں کہ پنجاب میں ہندو آباد نہیں یا ان کی تعداد چند ہزار ہے۔ جنوبی پنجاب میں 6 لاکھ سے زائد ہندو رہتے ہیں مگر ہمارے مسائل پر بات کرنے اور ہمارے حق کیلئے آواز اٹھانے والا ایک بھی نمائندہ اسمبلی میں نہیں۔ آج تک ہندو میرج ایکٹ نہیں بن سکا، ہمارے دیگر مسائل بھی اپنی جگہ کھڑے ہیں۔ رحیم یار خان میں بھونگ مندر پر حملہ کیا گیا، توڑ پھوڑ کی گئی اور وہاں کافی نقصان ہوا۔ اس وقت حالات مزید خراب ہونے کا خطرہ تھا مگر تمام مذاہب کے رہنماؤں نے محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا، سب ایک ساتھ کھڑے ہوئے اور معاملہ کنٹرول کر لیا گیا۔ مولانا عبدالخبیر آزاد سمیت بڑے علماء اور دیگر مذاہب کے پیشواؤں نے اہم اور مثبت کردار ادا کیا۔ یہ امن دوست افراد، آج بھی اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قصور، سرگودھا، جڑانوالہ سمیت ملک میں جہاں بھی کوئی افسوسناک واقعہ پیش آیا اس سے ہمارے ملک کی ساکھ عالمی سطح پر متاثر ہوئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انتشار پھیلانے والے چند لوگ ہیں جن کی وجہ سے پورے ملک کی ساکھ خراب ہوتی ہے، ان کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ ہم سب مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ تمام مذاہب امن، محبت، رواداری اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں لہٰذا ہمیں اس پیغام کو عام کرنا ہوگا۔ ہمیں عالمی سطح پر بھی یہی پیغام پھیلانا ہے اور دنیا کو بتانا ہے کہ ہم متحد ہیں اور پاکستان میں مل جل کر رہ رہے ہیں۔

پاکستان ایک خوبصورت گلدستہ ہے ، مسلم، مسیحی، ہندو، سکھ، سب اس کے پھول ہیں، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کو مزید فروغ دینا ہے ، انتشار اور نفرت کی چنگاری لگانے والوں پر نظر رکھنی ہے، منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہے اور پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا ہے۔ قیام پاکستان سے تکمیل پاکستان تک اقلیتوں نے ہمیشہ بھرپور کردار ادا کیا ہے، یہ ملک سب کا اور سب نے مل کر اسے سنوارنا ہے، ماضی میں بھی ہم نے متحد ہوکر دہشت گردی کا خاتمہ کیا، اب بھی مل کر دشمن کی ہر سازش ناکام بنائیں گے۔ہم امن کیلئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔

ہم نے پاکستان بننے کے بعد بھارت جانے سے انکار کیا، ہم پاکستانی ہیں اور پاکستانی رہیں گے۔ اپنے ملک میں کسی کو انتشار پھیلانے نہیں دیں گے اور نہ ہی امن کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالنے دیں گے۔ ہماری آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہے لہٰذا ہمیں اپنی خواتین کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ خواتین کے لیے 33 فیصد کوٹہ مختص ہے، اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگر ملک کی نصف سے زائد آبادی کیلئے امن، سکون، سازگار اور محفوظ ماحول ہوگا تو ملک میں امن بھی قائم ہوجائے گا۔ خواتین گھر چلاتی ہیں، گھر سے بچوں کی تربیت کرتی ہیں لہٰذا خواتین کی امن کمیٹیوں میں شمولیت سے گھر سے ہی امن، رواداری ، بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارے کی سوچ کو فروغ ملے گا۔

آمنہ ملک ایڈووکیٹ

(ممبر ویمن پیس آرکیٹکٹس)

امن کے بغیر نہ تو معاشرے کی تشکیل ممکن ہے اور نہ ہی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ دیرپا امن کیلئے تمام مذاہب کے پیروکار مل کر کام کرنا ہوگا۔ خواتین معمار امن ہیں، کسی بھی معاشرے میں ان کی شمولیت کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا لہٰذا قیام امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے امن کمیٹیوں میں خواتین کی 33 فیصد نمائندگی یقینی بنائی جائے ا ور ان کمیٹیوں میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کو شامل کیا جائے۔ عورت بحیثیت ماں اور بیٹی سوچتی ہے، جو خاتون ہمیں جینا سیکھاتی ہے، دنیا میں رہنا بتاتی ہے، جو گھر سنبھال سکتی ہے، وہ ملک بھی سنبھال سکتی ہے، امن قائم کر سکتی ہے اور رواداری کو فروغ دے سکتی ہے۔ عورت کو پیچھے رکھ کر ترقی، خوشحالی اور امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ معاشرے میں توازن قائم کرنے کیلئے اقلیتی خواتین کو بھی یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔

اس وقت ضلعی سطح پر تو امن کمیٹیاں موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ گلی، محلے میں کام کون کرے گا؟ محلے کی سطح پر کمیٹیاں کیوں نہیں؟ کیا وہاں پر مسائل نہیں ہیں؟ اگر ہم بنیادی یونٹ سے کام شروع کریں تو مسائل حل کیے جاسکتے ہیں لہٰذا محلے کی سطح پر امن کمیٹیاں قائم کی جائیں اور ان میں بھی تمام مذاہب کی خواتین کو شامل کیا جائے۔ اس طرح یہ خواتین گھر سے لے کر ملکی سطح تک، امن و رواداری کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گی جس سے بدامنی، انتشار، خواتین پر تشدد سمیت دیگر معاشرتی مسائل کا نچلی سطح پر ہی خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔

بین المذاہب ہم آہنگی تب آئے گی جب خواتین آپس میں ملیں گی، ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوں گی۔ تہوار انسانوں کو جوڑتے ہیں۔ ہم بچپن میں ایک دوسرے کے تہواروںمیں شریک ہوتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی۔ آج بھی بیشتر جگہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں تاہم جہاں مسائل ہیں انہیں مل کر دور کرنا ہوگا۔ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ امن روزگار سے جڑا ہے۔ بے روزگاری اور غربت سے بدامنی کو فروغ ملتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ خواتین کیلئے مختص فنڈز کہاں ہیں؟ ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی کمیٹیوں میں خواتین کہاں ہیں؟ خواتین کی روزگار کی تربیت کیسے ہوگی؟ خواتین کے لیے بنائے جانے والے اداروں کو اپنا درست اور موثر کردار ادا کرنا چاہیے اور خواتین کے لیے مختص فنڈز کو ان کی تربیت اور سکل ڈویلپمنٹ پر خرچ کرنا چاہیے۔ ہمیں ملک سے نفرت کا خاتمہ کرنا ہے جو ہر سطح پر ضروری ہے۔

اس کیلئے ممبر و محراب سے جمعہ کے خطبات میں امن و رواداری کا درس دیا جائے، دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں سے بھی یہی پیغام عام کیا جائے۔ یہ کام پہلے ہو رہا ہے، اسے مزید بہتر انداز میں کیا جائے۔ تعلیمی نصاب میں بھی امن کے حوالے سے خصوصی مضامین شامل کیے جائیں۔ جب تک ہم اپنے بچوں کو امن، مساوات اور رواداری کی تعلیم نہیں دیں گے، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا نہیں سکھائیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہمیں انہیں بتانا چاہیے کہ تمام مذاہب قابل احترام ہیں، ہمیں مذاہب اور ان کے پیروکاروں کا احترام کرنا ہے۔ ہمیں نصاب میں نفرت نہیں محبت پڑھانی چاہیے، یہی امن کا راستہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔