مٹی پاؤ پروگرام یا کچھ ہوگا

چیئرمین پی سی بی کو دل پر پتھر رکھتے ہوئے سب سے پہلے وہاب ریاض کو فارغ کرنا چاہیے

(فوٹو: فائل)

''اس ملک میں کچھ نہیں ہونے والا، تم دیکھ لینا زیادہ سے زیادہ کسی ایک آدھ ٹیم آفیشل کو فارغ کر دیا جائے گا، شائقین کو بھی کوئی نئی خبر مل گئی تو اس کے پیچھے لگ جائیں گے، یوٹیوبرز اور ٹی وی چینلز کو علم ہے کہ اب ورلڈکپ میں شکست کا چورن زیادہ دیر تک بکنے والا نہیں ہے۔

پھر بنگلہ دیش سے سیریز آ جائے گی، ایک، دو سنچریاں بنیں یا کسی نے چار، پانچ وکٹیں لے لیں تو تم لوگ پھر کنگ چھا گیا، شاہین کی اونچی اڑان جیسے قصیدے پڑھنے شروع ہو جاؤ گے، ویسے بھی قوم کی یادداشت کمزور ہے، مٹی پاؤ پروگرام شروع ہو چکا، بورڈ بھی انتظار کر رہا ہے کہ جلد لوگ شکستوں کو بھول جائیں''

جب ایک سابق کرکٹر نے میرے سامنے یہ لمبی چوڑی تقریر کی تو میرا جواب تھا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اب ویسا نہیں ہو گا، چیئرمین محسن نقوی طاقتور شخصیت ہیں، وہ بلیک میلنگ میں نہیں آتے اور جو کرنا ہو کر گذرتے ہیں، اب کچھ نہ کچھ اچھا ہو کر رہے گا، کہنے کو تو یہ بات میں نے کہہ دی مگر یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اب تک تو خاموشی چھائی ہے، کہیں واقعی مٹی پاؤ پلان تو نہیں بن رہا،البتہ اتوار کو جب لاہور میں پی سی بی کے بڑوں کی میٹنگ کا پتا چلا تو اطمینان ہوا کہ کوئی بڑا قدم ضرور اٹھایا جائے گا۔

چیئرمین نے ٹیم کی سرجری کا لفظ استعمال کیا تھا، اگر کوئی بہت بیمار یا زخمی ہو تو سرجری میں تاخیر سے مسئلہ مزید بگڑ جاتا ہے، اس حوالے سے کچھ سوچنا ہو گا، ملکی کرکٹ کو اس وقت کئی سنگین مسائل درپیش ہیں، ان کی فہرست بنائیں، فوری طور پر جو کام ہو سکتے ہیں کر گذریں، باقی ڈومیسٹک سسٹم میں بہتری جیسے اقدامات آہستہ آہستہ کرتے رہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ محسن نقوی جب تک خود نہ چاہیں انھیں پی سی بی سے کوئی نہیں ہٹا سکتا لہذا ان کے پاس لانگ ٹرم پروجیکٹس کیلیے وقت کی کمی نہیں، البتہ روزمرہ کے کام نمٹانے کیلیے فرصت نہیں ہے کیونکہ وزارت داخلہ کی ذمہ داری زیادہ بڑی اور توجہ طلب ہے، ایسے میں انھیں کسی قابل بھروسہ نائب کا تقرر کرنا چاہیے جو اپنے کام میں ماہر بھی ہو،کرکٹ کے کام کرکٹرز کے حوالے کریں، ڈومیسٹک کرکٹ جنھوں نے سنبھالی ہوئی ہے ان کا کھیل سے کوئی تعلق نہیں رہا، وہاں مصباح الحق، راشد لطیف یا ایسے کسی تجربہ کار سابق کرکٹر کو لائیں، سلیکشن کمیٹی کا چیف ضرور ہونا چاہیے اس کے لیے کسی تگڑے سابق ٹیسٹ کرکٹر کا تقرر کریں جو اپنے فیصلے منوا سکے۔


امریکا میں کھلاڑیوں کی فیملیز بھی ساتھ تھیں، اس حوالے سے بھی کوئی پالیسی بننی چاہیے، وہ چھٹیاں منانے نہیں بلکہ ورلڈکپ کھیلنے گئے تھے، بعض آفیشلز کی قریبی شخصیات پلیئرز کی فیملیز کے بھی بہت قریب ہیں، اس سے مسائل ہی ہوتے ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ اتنے دن گذر گئے بورڈ آفیشل، کسی کرکٹر یا ٹیم آفیشل نے آگے بڑھ کر شکستوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی،کسی نے خراب کھیل پر معذرت تک نہ کی، الٹا سینہ تان کر دھمکیاں دے رہے ہیں کہ میرے بارے میں کوئی بات کی تو کورٹ میں دیکھ لوں گا۔

اگر کوئی بغیر ثبوت فکسنگ جیسا کوئی الزام لگائے تو ضرور اسے عدالت میں بلا کر ثبوت طلب کرنے چاہیئں لیکن اگر کوئی کہے بابر اعظم نے اچھی کپتانی نہیں کی، ان کی زیرقیادت پاکستان کوئی ورلڈکپ نہیں جیت سکا، ٹیم امریکا سے ہار گئی، بھارت کیخلاف جیتی بازی گنوا دی،فلاں پلیئرز خراب کھیلا تو اس میں کون سی ہتک عزت ہے، کیس تو ٹیم پر شائقین کو کرنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے ہماری بے عزتی ہوئی، اس وقت وہی مثال دی جا سکتی ہے کہ رسی جل گئی پر بل نہیں گیا، بھائی آپ اب بھی اکڑ کر سامنے آ رہے ہیں، مان کیوں نہیں لیتے کہ خراب کھیلے۔

اب بنگلہ دیش سے ٹیسٹ سیریز ہونی ہے اس میں شان مسعود کپتان ہوں گے، بورڈ کو چاہیے کہ کئی سینئرز کو آرام کا موقع دے، نئے ٹیلنٹ کو آزمائے، آئندہ بھی جب کبھی کینیڈا، امریکا، آئرلینڈ یا دیگر چھوٹی ٹیموں سے میچز ہوں تو نام نہاد سپراسٹارز کو باہر بٹھا کر دیگر پلیئرز کو کھلانا چاہیے ورنہ ان میچز میں بنائے گئے ریکارڈز بعد میں گلے پڑ جاتے ہیں، چیئرمین پی سی بی کو دل پر پتھر رکھتے ہوئے سب سے پہلے وہاب ریاض کو فارغ کرنا چاہیے، وہ بطور منتظم مکمل ناکام ہو چکے، سلیکشن، مینجمنٹ ان کے بس کا کام نہیں ہے، انھیں وزارت داخلہ میں کوئی ذمہ داری سونپ دیں مگر کرکٹ سے پیچھا چھڑائیں۔

کوچز گیری کرسٹن اور جیسن گلیسپی بالکل نئے ہیں انھیں وقت ملنا چاہیے مگر مقامی نائبین کا تقرر سوچ سمجھ کر کریں، پاکستان میں بھی اچھی انگریزی بولنے والے بہت لوگ مل جائیں گے، بابر اعظم کو ابھی سے بتا دیں کہ قیادت کو چھوڑیں صرف بیٹنگ پر توجہ دیں، نئے کپتان کا ایک،دو سال کیلیے تقرر کریں، اس کا نائب بھی بنائیں، اس دوران جیسی بھی کارکردگی رہے دونوں کو سپورٹ کریں، بینچ اسٹرینتھ بھی بڑھانا ہو گی، ہمارے پاس ہر کھلاڑی کا متبادل ہونا چاہیے، آل راؤنڈزر اور اسپنرز کی کمی کو دور کرنے کیلیے اقدامات ضروری ہیں، پاور ہٹنگ کیلیے شاہد آفریدی جیسے سابق کرکٹرز کی خدمات حاصل کریں۔

کئی برس بعد پی سی بی میں دبنگ سربراہ آیا ہے جو کسی انسان سے ڈرتا نہیں نہ ہی اسے کوئی ڈرا سکتا ہے، نقوی صاحب کو اس پاور کا فائدہ اٹھا کر ملکی کرکٹ کو ٹھیک کر دینا چاہیے، پلیئرز پاور، دوستی یاری کلچر یہ سب ٹیم سے ختم کریں، پی ایس ایل کی چند پرفارمنسز کی بنیاد پر کھلاڑیوں کوپیراشوٹ سے قومی ٹیم میں لانا بھی درست نہیں، گرین کیپ اتنی سستی نہ بنائیں جو پرفارم کر کے آگے آئے اسے موقع دیں، فٹنس کو ترجیح دیں، ہمارے مسائل ایسے نہیں جو حل نہ ہو سکیں بس ہمت کرنا ہوگی، اس وقت قوم بھی کرکٹرز سے ناراض ہے بڑے فیصلے بھی کر لیے تو کوئی ردعمل نہیں آئے گا، پیڈ سوشل میڈیا والے بھی قصیدہ گوئی کے بجائے غصہ تھمنے کا انتظار کر رہے ہیں، دیکھتے ہیں پی سی بی اس موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story