کراچی کا شمار ملک کے ان شہروں میں ہوتا ہے جس کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے بسایا گیا تھا۔ آزادی سے قبل شہر کی بندرگاہ کے قریبی علاقوں کےلیے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ جس کو اولڈ سٹی ایریا کہا جاتا ہے اور کراچی کو بڑی کشادہ سڑکوں والے شہر کا اعزاز حاصل ہوا۔ قدیمی شہر کے علاقوں میں جہاں کام کے دنوں میں ٹریفک جام کی کوفت آپ کو وہاں کے سفر سے روکتی ہے مگر چھٹی والے دن ان علاقوں کا سفر بتاتا ہے کہ کراچی اور اسلام آباد جیسی کشادہ سڑکیں کسی دوسرے شہر میں نہیں۔
آزادی کے بعد جب کراچی کو نوائیدہ ملک کا دارالحکومت قرار دیا گیا تو شہر کےلیے ماسٹر پلان تیار کرتے ہوئے نئی بستیاں آباد کی گئیں۔ سب سے پہلے مہاجرین کی آباد کاری کےلیے شاہ فیصل کالونی، سعود آباد، اور دیگر آبادیاں بسائی گئیں۔ اس کے بعد شہر میں رہائش کے مسائل حل کرنے کےلیے ناظم آباد ایک شاندار منصوبہ بندی کے ساتھ بسایا گیا۔ شہر میں ترقیاتی عمل کو جاری رکھنے کےلیے ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) قائم کیا گیا، جس نے شہر میں رہائشی آبادیوں کا ایک جال بچھا دیا۔ سب سے پہلے رہائشی آبادی جو کہ شارع فیصل کے ساتھ ساتھ بسائی گئی، کو کے ڈی اے اسکیم نمبر ون کا نام دیا گیا۔ ادارہ ترقیات کراچی نے 1957 کے بعد سے شہر میں رہائشی انفرااسٹرکچر کو بہت ترقی دی اور شہر میں 45 رہائشی اسکیموں میں 7 لاکھ سے زائد رہائشی پلاٹس عوام کو فراہم کیے۔ اس فقید المثال ترقی نے کراچی کو عروس البلاد کا نام دیا۔
کراچی کی اس تیز رفتار ترقی میں شہر کے ماسٹر پلان کا بہت عمل دخل تھا۔ اربن ریسورس سینٹر کے مطابق شہر کا پہلا ماسٹر پلان سال 1952 میں تیار کیا گیا تھا، جس کے بعد 1974 سے 1985 تک دوسرا ماسٹر پلان دیا گیا۔ اس کے بعد 15 سال شہر کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے چلایا گیا اور نئی صدی کے آغاز پر 2000 میں ایک نیا ماسٹر پلان تجویز کیا گیا۔ اس کے بعد 2022 میں ماسٹرپلان کو کراچی اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ پلان کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ مگر آخری دونوں ماسٹر پلان محض ایک دستاویز بن کر رہ گئے اور ان پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ شہر میں بے ہنگم آبادی کا سلسلہ شروع ہوگیا جو تاحال جاری ہے۔
شہر میں مقامی حکومت کی جانب سے جب رہائشی پلاٹس کو کمرشل اور کثیر المنزلہ عمارتوں کےلیے استعمال کی اجازت دی گئی تو اس عمل نے شہر میں کنکریٹ کے ایک جنگل کو جنم دیا۔ ایک پلاٹ جس پر 10 افراد کا ایک خاندان آباد تھا۔ اس پر کثیر المنزلہ عمارت میں کئی ہزار افراد کو بسا دیا گیا۔ جس نے یوٹیلٹیز کے انفرااسٹرکچر کو شدید دباؤ کا شکار کیا۔ اس کی بدترین مثال کے ڈی اے اسکیم نمبر ون ہے۔ اس عمل سے شہر میں پورشن مافیا نے جنم لیا اور یہ بیماری شہر کے دیگر علاقوں میں پھیل گئی۔ شہر میں 80 سے 60 گز کے چھوٹے پلاٹس پر کئی کئی منزلہ عمارتوں کی تعمیر نے صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا۔ چھوٹے پلاٹوں پر تعمیرات کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ جگہ پر تعمیرات کی ہوس نے گلیوں اور سڑکوں پر بھی قبضے کا عمل شروع ہوگیا۔ یوں ایک طرف لوگوں اور گاڑیوں کے چلنے کی جگہ تنگ ہوئی تو دوسری طرف شہر میں یوٹیلٹیز کے انفرااسٹرکچر کو بھی شدید نقصان ہوا۔
دوسرے ماسٹر پلان کے بعد سے شہر میں بے ہنگم تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا اور اس عمل نے شہر کے انفرااسٹرکچر کو بری طرح متاثر کیا۔ جبکہ شہر میں منصوبہ بندی سے بسائی گئی آبادیوں کی جگہ کچی آبادیاں سر اٹھانے لگیں اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شہر کی 60 فیصد آبادی کچی آبادیوں میں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ کے ڈی اے کے بجائے رہائش کے حوالے سے نجی شعبے کو کردار دیے جانے بھی شہر میں رہائش کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے شہر بھر میں بنیادی انسانی ضروریات کو فراہم کرنا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
کراچی کو ان دنوں قدرتی گیس کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں تقریباً 40 سال قبل گیس کی گھریلو، کمرشل اور صنعتی فراہمی کا انفرااسٹرکچر زیر زمین بچھایا گیا تھا۔ اب وہ پائپ لائنز بوسیدہ ہوکر خراب ہوچکی ہیں۔ اسی لیے آپ کو اکثر یہ خبر ملتی ہے کہ گیس کے پائپ سے سیوریج کے گندے پانی کا اخراج ہورہا ہے۔ سوئی سدرن کے ذرائع کے مطابق شہر میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد مقامات پر گیس کی لیکیج ہورہی ہے۔ اس حوالے سے سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آج سے چالیس سال قبل جب انفرااسٹرکچر بچھایا گیا تھا اس وقت سڑک تھی، اب وہاں پر بلند و بالا عمارتیں ہیں۔
شہر کا ماسٹر پلان نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں فراہمی و نکاسی آب کے بھی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ نجی شعبے کی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں گلیوں کی چوڑائی کم ترین سطح پر کردی گئی ہے۔ جبکہ بلڈنگ کوڈ پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے تعمیر ہونے والے مکان اور عمارتوں کو نہ صرف لازمی کھلی جگہ چھوڑنے کے قانون کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے بلکہ اس سے فراہمی و نکاسی کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
ماضی میں قائم کی جانے والی آبادیوں میں پینے کے پانی کےلیے صاف گلی جبکہ گندے پانی کی نکاسی کےلیے گندی گلی کا تصور تھا۔ جو کہ زیادہ سے زیادہ زمین کو فروخت کرنے کے چکر میں صرف ایک گلی پر منحصر رہ گیا ہے۔ اور ایک ہی گلی سے پینے اور نکاسی آب کی پائپ لائن گزر رہی ہیں۔ تجاوزات اور دیگر مسائل کی وجہ سے گندے پانی کی پائپ لائن سے رساؤ پینے کے پانی کو بھی آلودہ کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی واٹر کارپوریشن کی جانب سے فراہم کیا جانے والا پانی پینے کے قابل نہیں ہے اور شہر میں بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ اس حوالے سے واٹر بورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ ماضی میں گندی گلی میں نکاسی آب کا نظام ہوتا تھا۔ جہاں سیوریج لائن میں براہ راست کنکشن کے بجائے پہلے ایک سیفٹی ٹینک بنایا جاتا تھا اور اس میں سالڈ ویسٹ جمع ہوجاتا تھا۔ مگر اب یہ تصور ختم ہوگیا ہے۔ اور سالڈ ویسٹ براہ راست سیوریج لائن میں جاتا ہے۔ جس سے سیوریج اکثر بند ہوجاتا ہے۔ اور پینے کے پانی میں گندگی کی آمیزش ہورہی ہے۔ عوام بیماریوں پر اخراجات کے ساتھ ساتھ پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں اور شہر میں گزشتہ دو دہائیوں میں عام استعمال کے پانی کی فروخت ایک بڑا کاروبار بن گئی ہے۔
شہر میں بجلی کے انفرااسٹرکچر کے حوالے راہداری اور تجاوزات نہ صرف بجلی کی بلاتعطل فراہمی میں مشکلات پیدا کررہے ہیں بلکہ اس سے شہر میں قائم ہونے والی نئی آبادیوں تک بجلی کو پہنچانے کا عمل بھی متاثر ہورہا ہے۔ شہر میں بجلی کے بڑی ٹرانسمیشن لائنوں کے حق راہدری پر تجاوزات ایک عام سی بات ہے۔ ہائی ٹینشن تاروں کے گزرنے کے بعد اس کے نیچے کچی آیادیوں کے علاوہ پکے اور کثیر المننزلہ مکانات تعمیر ہوگئے ہیں۔ اور کسی بھی ناگہانی صورتحال میں انسانی جان کے ساتھ ساتھ املاک کے نقصان کا خطرہ ہر وقت شہر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر ہائی ٹینشن پاور کے بڑے بڑے پولز کو ہی گھر کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔ بجلی کے حفاظتی اصولوں کے مطابق کم از کم 25 فٹ کا فاصلہ رکھنا ہوگا۔
بے ہنگم آبادی کی وجہ سے بعض مقامات پر تجاوزات نے پوری گلی ہی ختم کردی ہے۔ اور بجلی کے لیے ڈالا گیا انفرااسٹرکچر بھی اس قبضے کی زد میں آگیا ہے۔ کچی آبادیوں کے ساتھ ساتھ ماضی کی منصوبہ بندی کے تحت قائم کی گئی آبادیوں میں بھی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر اور گھروں پر اضافی جگہ کےلیے تین سے چار فٹ گلی میں چھجا نکالنے کے عمل نے بھی گھروں کو بجلی کے انفرااسٹرکچر کے بہت قریب کردیا ہے۔ جبکہ حفاظتی طریقہ اور بجلی کے حق راہداری کے تحت بجلی کے تاروں اور تعمیرات میں کم از کم چھ سے سات فٹ کا محفوظ فاصلہ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ بعض مقامات پر تجاوزات کو بڑھاتے ہوئے بجلی کے انفرااسٹرکچر کو بھی عمارت کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں ماسٹر پلان منظور شدہ نہ ہونے اور دستیاب قوانین و قواعد پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے یوٹیلٹیز کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ اور صورتحال اس قدر مخدوش ہوگئی ہے کہ شہروں کو حادثات سے بچانا تقریباً اور بلاتعطل یوٹیلٹیز کی فراہمی میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔