کلینیکل تربیت کے بغیر ایم ڈی کی ڈگری کی بازگشت معاملہ محتسب کی عدالت میں پہنچ گیا
وفاقی محتسب نے ڈاکٹر بہرام خان، پی ایم ڈی سی کے علاوہ جامعہ کراچی اور جے پی ایم سی انتظامیہ کو طلب کر رکھا ہے
جناح پوسٹ گریجویٹ اسپتال کی فیکلٹی کا مبینہ طور پر قوائد و ضوابط کے برعکس ایم ڈی (ماسٹرز آف میڈیسن) کی ڈگری حاصل کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
ڈگری جامعہ کراچی سے لی گئی ہے تاہم جامعہ کراچی کی جانب سے سند کی تفویض بظاہر جے پی ایم سی کی انتظامیہ کی جانب سے اس سلسلے میں تمام قوائد پورے کیے جانے کے آفیشل خطوط کے تناظر میں جاری کی گئی ہے۔
ایم ڈی کی ڈگری جے پی ایم سی کے شعبہ dermatology کے ڈاکٹر بہرام خان کھوسو نے مبینہ طور پر اپنے کورس سپروائزر کی مذکورہ ادارے میں عدم موجودگی اور متعلقہ پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے بغیرحاصل کی ہے اور اس معاملے کے خلاف اسی شعبے کی پروفیسر ڈاکٹر رابعہ غفور نے پی ایم ڈی سی کو باقاعدہ شکایت درج کرائی ہے اور اس سلسلے میں نوٹیفکیشن کی تصحیح کی درخواست کی تھی تاہم پی ایم ڈی سی کی جانب سے معاملے کا نوٹس نہ لیے جانے پر اب یہ معاملہ وفاقی محتسب کی عدالت میں چلا گیا ہے اور وفاقی محتسب نے اس معاملے پر ڈاکٹر بہرام خان، پی ایم ڈی سی کے علاوہ جامعہ کراچی اورجے پی ایم سی کی انتظامیہ کو اس سلسلے میں طلب کر رکھا ہے۔
''ایکسپریس'' کو اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ وفاقی محتسب کو دی گئی درخواستوں اور اس کے عوض اس ادارے کی جانب سے مختلف مواقعوں پر جاری خطوط میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں جب پی ایم ڈی سی کی جانب سے اس سلسلے میں ابتداء میں جو رپورٹ جمع کرائی گئی اس کے مطابق بادی النظر میں یہ معاملہ ایکٹ اور قوانین کے تحت جامعہ کراچی کی انتظامی حدود کا ہے۔
اس سلسلے میں اپنی فائنڈنگز میں وفاقی محتسب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ جے پی ایم سی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر بہرام کھوسو نے ایم ڈی dermatology میں جامعہ کراچی میں سال 2017 میں انرولمنٹ حاصل کی تھی جبکہ ان کے سپروائز ڈاکٹر اعظم صمدانی نے جے پی ایم سی میں سال 2006 سے 2012 تک کنٹریکٹ پر foreign professor کے طور پر ملازمت کی ہے لہٰذا وہ اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ کسی امیدوار کو سال 2017 سے 2023 تک کے عرصے میں ایم ڈی dermatology کلینیکل ڈگری کو سپروائز کرسکیں جبکہ پی ایم ڈی سی کے قوائد کے تحت بھی ایک پی ایچ ڈی ہولڈر کو اس امر کا استحقاق نہیں ہے کہ وہ کلینیکل ڈگری کے حامل امیدوار کو سپروائز کرے۔
دستاویز بتاتی ہیں کہ جب اس سلسلے میں پی ایم ڈی سی نے جامعہ کراچی سے معاملے کی تحقیقات کے لیے رابطہ کیا تو جامعہ کراچی کی جانب سے وفاقی محتسب میں اس سلسلے میں داخل کرائے گئے جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ ایم ڈی dermatology میں یہ داخلہ تمام لوازم پورے ہونے پر اور داخلہ پالیسی کے مطابق دیا گیا۔ اس موقع پر اس وقت کی ڈین فیکلٹی آف میڈیسن اور جے پی ایم سی کی جانب سے جاری کیا گیا، ڈاکٹر بہرام کی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ سرٹیفیکیٹ بھی جمع کرایا گیا۔
واضح رہے کہ اس سلسلے میں جامعہ کراچی کی جانب سے جو جواب جمع کرایا گیا ہے اور موجودہ ڈین آف میڈیسن نے جامعہ کراچی کے رجسٹرار کو اپنے تحریری موقف سے آگاہ کیا ہے۔
اس کے مطابق ڈاکٹر بہرام 2017 میں ایم ڈی میں ڈاکٹر صمدانی کی سپرویژن میں انرولڈ ہوئے تھے اور اس کی منظوری جامعہ کراچی کی اس وقت کی ڈین ڈاکٹر نرگس انجم کی جانب سے دی گئی تھی جبکہ 3دسمبر 2022 کو جے پی ایم سی کے ایگزیکیٹوو ڈائریکٹر کی جانب سے ڈاکٹر بہرام کی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ لیڈنگ ٹو ایم ڈی کی توثیق کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انھوں نے شعبہ ڈرماٹولوجی 19اکتوبر 2017 سے 20دسمبر 2022 تک جبکہ ڈپارٹمنٹ آف انٹرنل میڈیسن سے 21 دسمبر 2020 سے 21دسمبر 2021 تک ٹریننگ لی ہے۔
رجسٹرار جامعہ کراچی کو لکھے گئے اسی خط میں جامعہ کراچی کی موجودہ ڈین آف میڈیسن ڈاکٹر فریدہ اسلام کہتی ہیں کہ 8جون 2021 کے جے پی ایم سی کے ایک خط کے مطابق اس ادارے کی اکیڈمک کونسل نے ڈاکٹر بہرام کے پی ایچ ڈی سپروائزر ڈاکٹر صمدانی کو ان کی مہارت و ذہانت پر 3سال کے لیے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر ہائر کیا اور وہ ہر کلینڈر ایئر کے کچھ روز اس ادارے کو دیں گے۔
''ایکسپریس'' نے جب اس سلسلے میں جامعہ کراچی کا موقف جاننے کے لیے ادارے کی ڈین میڈیسن سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس معاملے پر یہ کہہ کر تبصرے سے انکار کر دیا ہے کہ ''یہ معاملہ وفاقی محتسب کی عدالت میں ہے لہٰذا کوئی کمنٹ نہیں کرسکتی''۔
ادھر جب جے پی ایم سی کے موجودہ ایگزیکیوٹیوو پروفیسر شاہد رسول سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''محتسب کی عدالت نے جامعہ کراچی اور پی ایم اسی سی سے کمنٹس مانگے ہیں ان دونوں کو ہی موقف دینا ہے یہ معاملہ ہماری حدود سے باہر ہے ہم یہ طے نہیں کرسکتے کہ ڈگری اصلی ہے یا جعلی ہے یا غلط طریقے سے لی گئی ہے جب دونوں ادارے اپنے کمنٹس محتسب کو جمع کروا دیں گے تو اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ آئے گا''۔
دوسری جانب معاملے کو محتسب کی عدالت میں لے جانے والی ڈاکٹر رابعہ غفور کا کہنا ہے کہ ''ڈاکٹر بہرام کھوسو کی جانب سے ایم ڈی dermatology کہ ڈگری کے حصول کے سلسلے میں malafide practice کا معاملہ انتہائی سنجیدہ اور قابل تحقیق و تفتیش ہے، ایک ایسا شخص جو مطلوبہ اہلیت کا حامل ہی نہ ہو اسے ڈرماٹولوجی جیسی مشکل فیلڈ میں بغیر تربیت اور سپرویژن کے ڈگری دینا مریضوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہوگا یہ میڈیکل ایجوکیشن کے رائج قوائد کی سنگین خلاف ورزی ہے''۔
ڈاکٹر بہرام سے جب اس سلسلے میں موقف لینے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے فون پر بات چیت سے معذرت کرلی اور موقف نہیں دیا جبکہ ان کے سپر وائیزر ڈاکٹر اعظم صمدانی سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''یہ دو افراد کے مابین تنازعے کا معاملہ ہے، میں اس پر کوئی بات نہیں کرسکتا، جامعہ کراچی سمیت دیگر اتھارٹیز کو اس معاملے کا فیصلہ کرنا ہے اور ان ہی کو طے کرنے دیں''۔
ڈگری جامعہ کراچی سے لی گئی ہے تاہم جامعہ کراچی کی جانب سے سند کی تفویض بظاہر جے پی ایم سی کی انتظامیہ کی جانب سے اس سلسلے میں تمام قوائد پورے کیے جانے کے آفیشل خطوط کے تناظر میں جاری کی گئی ہے۔
ایم ڈی کی ڈگری جے پی ایم سی کے شعبہ dermatology کے ڈاکٹر بہرام خان کھوسو نے مبینہ طور پر اپنے کورس سپروائزر کی مذکورہ ادارے میں عدم موجودگی اور متعلقہ پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے بغیرحاصل کی ہے اور اس معاملے کے خلاف اسی شعبے کی پروفیسر ڈاکٹر رابعہ غفور نے پی ایم ڈی سی کو باقاعدہ شکایت درج کرائی ہے اور اس سلسلے میں نوٹیفکیشن کی تصحیح کی درخواست کی تھی تاہم پی ایم ڈی سی کی جانب سے معاملے کا نوٹس نہ لیے جانے پر اب یہ معاملہ وفاقی محتسب کی عدالت میں چلا گیا ہے اور وفاقی محتسب نے اس معاملے پر ڈاکٹر بہرام خان، پی ایم ڈی سی کے علاوہ جامعہ کراچی اورجے پی ایم سی کی انتظامیہ کو اس سلسلے میں طلب کر رکھا ہے۔
''ایکسپریس'' کو اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ وفاقی محتسب کو دی گئی درخواستوں اور اس کے عوض اس ادارے کی جانب سے مختلف مواقعوں پر جاری خطوط میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں جب پی ایم ڈی سی کی جانب سے اس سلسلے میں ابتداء میں جو رپورٹ جمع کرائی گئی اس کے مطابق بادی النظر میں یہ معاملہ ایکٹ اور قوانین کے تحت جامعہ کراچی کی انتظامی حدود کا ہے۔
اس سلسلے میں اپنی فائنڈنگز میں وفاقی محتسب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ جے پی ایم سی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر بہرام کھوسو نے ایم ڈی dermatology میں جامعہ کراچی میں سال 2017 میں انرولمنٹ حاصل کی تھی جبکہ ان کے سپروائز ڈاکٹر اعظم صمدانی نے جے پی ایم سی میں سال 2006 سے 2012 تک کنٹریکٹ پر foreign professor کے طور پر ملازمت کی ہے لہٰذا وہ اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ کسی امیدوار کو سال 2017 سے 2023 تک کے عرصے میں ایم ڈی dermatology کلینیکل ڈگری کو سپروائز کرسکیں جبکہ پی ایم ڈی سی کے قوائد کے تحت بھی ایک پی ایچ ڈی ہولڈر کو اس امر کا استحقاق نہیں ہے کہ وہ کلینیکل ڈگری کے حامل امیدوار کو سپروائز کرے۔
دستاویز بتاتی ہیں کہ جب اس سلسلے میں پی ایم ڈی سی نے جامعہ کراچی سے معاملے کی تحقیقات کے لیے رابطہ کیا تو جامعہ کراچی کی جانب سے وفاقی محتسب میں اس سلسلے میں داخل کرائے گئے جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ ایم ڈی dermatology میں یہ داخلہ تمام لوازم پورے ہونے پر اور داخلہ پالیسی کے مطابق دیا گیا۔ اس موقع پر اس وقت کی ڈین فیکلٹی آف میڈیسن اور جے پی ایم سی کی جانب سے جاری کیا گیا، ڈاکٹر بہرام کی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ سرٹیفیکیٹ بھی جمع کرایا گیا۔
واضح رہے کہ اس سلسلے میں جامعہ کراچی کی جانب سے جو جواب جمع کرایا گیا ہے اور موجودہ ڈین آف میڈیسن نے جامعہ کراچی کے رجسٹرار کو اپنے تحریری موقف سے آگاہ کیا ہے۔
اس کے مطابق ڈاکٹر بہرام 2017 میں ایم ڈی میں ڈاکٹر صمدانی کی سپرویژن میں انرولڈ ہوئے تھے اور اس کی منظوری جامعہ کراچی کی اس وقت کی ڈین ڈاکٹر نرگس انجم کی جانب سے دی گئی تھی جبکہ 3دسمبر 2022 کو جے پی ایم سی کے ایگزیکیٹوو ڈائریکٹر کی جانب سے ڈاکٹر بہرام کی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ لیڈنگ ٹو ایم ڈی کی توثیق کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انھوں نے شعبہ ڈرماٹولوجی 19اکتوبر 2017 سے 20دسمبر 2022 تک جبکہ ڈپارٹمنٹ آف انٹرنل میڈیسن سے 21 دسمبر 2020 سے 21دسمبر 2021 تک ٹریننگ لی ہے۔
رجسٹرار جامعہ کراچی کو لکھے گئے اسی خط میں جامعہ کراچی کی موجودہ ڈین آف میڈیسن ڈاکٹر فریدہ اسلام کہتی ہیں کہ 8جون 2021 کے جے پی ایم سی کے ایک خط کے مطابق اس ادارے کی اکیڈمک کونسل نے ڈاکٹر بہرام کے پی ایچ ڈی سپروائزر ڈاکٹر صمدانی کو ان کی مہارت و ذہانت پر 3سال کے لیے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر ہائر کیا اور وہ ہر کلینڈر ایئر کے کچھ روز اس ادارے کو دیں گے۔
''ایکسپریس'' نے جب اس سلسلے میں جامعہ کراچی کا موقف جاننے کے لیے ادارے کی ڈین میڈیسن سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس معاملے پر یہ کہہ کر تبصرے سے انکار کر دیا ہے کہ ''یہ معاملہ وفاقی محتسب کی عدالت میں ہے لہٰذا کوئی کمنٹ نہیں کرسکتی''۔
ادھر جب جے پی ایم سی کے موجودہ ایگزیکیوٹیوو پروفیسر شاہد رسول سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''محتسب کی عدالت نے جامعہ کراچی اور پی ایم اسی سی سے کمنٹس مانگے ہیں ان دونوں کو ہی موقف دینا ہے یہ معاملہ ہماری حدود سے باہر ہے ہم یہ طے نہیں کرسکتے کہ ڈگری اصلی ہے یا جعلی ہے یا غلط طریقے سے لی گئی ہے جب دونوں ادارے اپنے کمنٹس محتسب کو جمع کروا دیں گے تو اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ آئے گا''۔
دوسری جانب معاملے کو محتسب کی عدالت میں لے جانے والی ڈاکٹر رابعہ غفور کا کہنا ہے کہ ''ڈاکٹر بہرام کھوسو کی جانب سے ایم ڈی dermatology کہ ڈگری کے حصول کے سلسلے میں malafide practice کا معاملہ انتہائی سنجیدہ اور قابل تحقیق و تفتیش ہے، ایک ایسا شخص جو مطلوبہ اہلیت کا حامل ہی نہ ہو اسے ڈرماٹولوجی جیسی مشکل فیلڈ میں بغیر تربیت اور سپرویژن کے ڈگری دینا مریضوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہوگا یہ میڈیکل ایجوکیشن کے رائج قوائد کی سنگین خلاف ورزی ہے''۔
ڈاکٹر بہرام سے جب اس سلسلے میں موقف لینے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے فون پر بات چیت سے معذرت کرلی اور موقف نہیں دیا جبکہ ان کے سپر وائیزر ڈاکٹر اعظم صمدانی سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''یہ دو افراد کے مابین تنازعے کا معاملہ ہے، میں اس پر کوئی بات نہیں کرسکتا، جامعہ کراچی سمیت دیگر اتھارٹیز کو اس معاملے کا فیصلہ کرنا ہے اور ان ہی کو طے کرنے دیں''۔