آپریشن عزم استحکام کا سیاسی چیلنج
بنیادی طور پر ہمیں انتہا پسندی اور پر تشدد رجحانات کے تناظر میں ایک کمزور سیاسی حکمت عملی کا سامنا ہے
پاکستان کے ریاستی نظام کا ایک بڑا چیلنج انتہا پسندی ، پرتشدد رجحانات اور دہشت گردی کے واقعات ہیں۔ اگرچہ ہمیں اس محاذ پر کچھ کامیابی بھی ملی مگر اس کے باوجود یہ چیلنج بدستور موجود ہے ۔ اس سے نمٹنے کے لیے مختلف حکومتوں کے دور میں کئی بڑے اقدامات اٹھائے گئے ہیں مگر نتیجہ وہ نہیں نکل سکا جو ہمیں درکار تھا۔ اس جنگ سے نمٹنا محض انتظامی نوعیت تک محدود نہیں بلکہ سیاسی ، انتظامی، سماجی، مذہبی، قانونی نظام سے جڑے مسائل کی بنیاد پر ان کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔ عمومی طور پر ہم مسائل کے حل کی یا تو درست طور پر تشخیص ہی نہیں کرتے اور نہ ہی معاملات کا گہرائی سے جائزہ لے کر اس کی حکمت عملی کو ترتیب دیتے ہیں ۔
بنیادی طور پر ہمیں انتہا پسندی اور پر تشدد رجحانات کے تناظر میں ایک کمزور سیاسی حکمت عملی کا سامنا ہے۔ کیونکہ اس جنگ کا سارا بوجھ اگر ہم نے ایک ادارے یعنی فوج پر ڈال کر ہم نے کچھ نہیں کرنا تو یہ حکمت عملی نتیجہ خیزنہ پہلے ثابت ہوئی ہے اور نہ ہی یہ مستقبل میں کوئی مثبت نتیجہ دے سکے گی ۔یہ جو حال ہی میں سوات میں توہین مذہب کا الزام لگا کر ایک شخص کو پکڑا اور ہجوم اکٹھا کیا گیا، اور بہیمانہ انداز میں ہجوم نے ایک فرد کو زندہ جلایا ہے ،وہ لاقانونیت کا خوفناک مظہر ہے، اس سے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سوائے رسوائی کے ہمیں اور کچھ نہیں ملا۔یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں ہمارا نظام کہاں کھڑا ہے اورکس حد تک ہم نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والے اس جنگ کو جیتنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
پشاور میں ہونے والے سانحہ اے پی ایس کے نتیجے میں 2014ء میں جو بیس نکاتی ''نیشنل ایکشن پلان ''بنایا گیا تھا، قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر ''اپیکس کمیٹیاں'' بھی تشکیل دی گئی تھیں۔اسی کے نتیجے میں ضرب عضب آپریشن شروع ہوا، ''پیغا م پاکستان'' اور ''دختران پاکستان '' جیسی اہم دستاویزات بھی سامنے آئی تھیں ۔2017میں اسی جنگ کو آگے بڑھاتے ہوئے ''ردالفساد'' کا نام دیا گیا تھا اور اسی بنیاد پر نیشنل سیکیورٹی پالیسی بھی سامنے آئی تھی۔
ان اقدامات کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات میں کمی بھی دیکھنے کو ملی مگر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا یہ مرض جڑ سے ختم نہیں ہوا ۔ اس کی وجہ ہماری کمزور اور مبہم پالیسی تھی ۔ جب واقعات زیادہ ہونے لگیں تو حکومتیں حرکت میں آجاتی ہیں اورجیسے ہی کچھ خاموشی ہوتی ہے تو سب خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ لانگ ٹرم ، مڈ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسیوں کا فقدان ، کمزور نگرانی اور جوابدہی یا احتساب کا نظام ، سیاسی سمجھوتوں، مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے درمیان میں موجود سیاسی الجھن ، پارلیمان اور سیاسی نظام کی کمزور ی کا عمل، سیاسی قیادت کی جانب سے عدم دلچسپی یا اس جنگ سے خود کو علیحدہ کرکے سارا بوجھ فوج تک محدود کرنا، دہشت گردی یا انتہا پسندی سے نمٹنے اور جامع پالیسی کے مقابلے میں داخلی سیاست کے معاملات میں خود کو الجھانے کی پالیسی، اداروں یعنی پولیس وغیرہ میں جدید بنیادوں پر عدم اصلاحات کی پالیسی، تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں موجود سیاسی تقسیم اور متفق فیصلہ کا نہ ہونا ، پی ٹی آئی اور اس کی قوتوں اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان دوریاں جیسے مسائل ہم پر مسلط چلے آ رہے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر ہم عملی طورپر دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے ۔داخلی استحکام اور دہشت گردی یا انتہا پسندی سے جڑے داخلی معاملات کی درستگی کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے '' غیرمعمولی یا آوٹ آف باکس''اقدامات درکار ہیں۔ لیکن ہم ایسے اقدامات کر نہیں پا رہے ہیں۔
ایک بار پھر ہم نے '' آپریشن عزم استحکام '' کو بنیاد بنا کر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم نے بغیر کسی اگر مگر کے اس جنگ کو جیتنا ہے اور اس سے تمام جڑے معاملات کا علاج تلاش کرنا ہے ۔سوال یہ ہے کیا ہم نے '' آپریشن عزم استحکام'' کو شروع کرنے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی کہ ہم پچھلے اہداف میںکیونکر ناکام ہوئے ہیں اور ناکامی کی کیا وجوہات ہیں اور کون اس کاذمے دار ہے ۔سب سے پہلے انھیں منظر عام پر لانا چاہیے تاکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی راہ میں کون سی اندرونی قوتیں حائل ہیں۔
بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر سیاسی قیادت کی ناکامی ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ ناکامی محض سیاسی قیادت تک محدود نہیں بلکہ غیر سیاسی فریقین کو بھی اس کی ناکامی کی ذمے داری لینی ہوگی ۔ابتدا ہی میں پی ٹی آئی نے اس '' آپریشن عزم استحکام '' کو چیلنج کیا اور مطالبہ کیا ہے اس اہم معاملے کو پارلیمنٹ میں بحث کا حصہ بنا کر منظوری کے عمل سے گزارا جائے ۔جب کہ حکومت کے بقول ایوان میں '' قومی سلامتی کمیٹی '' کا ان کیمرہ سیشن بلایا جاسکتا ہے۔ بہرحال اس جنگ سے نمٹنے کے لیے سب کا متفق ہونا ضروری ہے اورا سیاسی قیادتوں کی جانب سے اس جنگ کو بطور قائد لیڈ کرنا ضروری ہے۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت معاشرے کے اہل علم و دانش کا مل کر چلنا ہی ہمیں اس جنگ سے نمٹنے میںکامیابی دلا سکتا ہے ۔ اس جنگ سے جڑے جتنے بھی سیاسی ، انتظامی ہوں یا قانونی یا مذہبی تضادات یا فکری مغالطوں کو ختم کیے بغیر اور کسی اگر مگر کے بغیر عدم برداشت پر مبنی پالیسی کو اختیار کرنا ہماری ریاست کی سطح پر ضرورت بنتی ہے ۔سیاسی جماعتیں عمومی طور پر سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوتی ہیں اور اسی سمجھوتوں کی بنیاد پر ہمیں انتہا پسندی یا شدت پسندی سمیت دہشت گردی کے معاملات میں سمجھوتوں کی سیاست غالب نظر آتی ہے۔
بطور ریاست اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں جو ایک مضبوط متبادل بیانیہ درکارہے جو محض انتظامی بنیادوں پر نہیں بلکہ علمی و فکری محاذ پر بھی ہو۔لیکن سوال یہ ہی ہے کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں۔ سیاسی استحکام لائے بغیر نہ تو معاشی استحکام لاسکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی دے سکے گا۔ہمیں سیاسی مہم جوئی ترک کرکے ریاستی سلامتی کو اولیت دینا ہوگی ۔ ہمیں فکری مغالطوں سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنا ہے اور سمجھنا ہے کہ یہ مسائل ہمارے داخلی نظام کے تضادات سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس لیے ہمیں پہلے خود کو جوابدہ بنانا ہوگا اور داخلی احتساب کی مدد سے آگے بڑھنے کا علاج تلاش کرنا ہوگا، وگرنہ ماضی کے تضادات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کا عمل ہمیں کسی بھی محاذ پر کامیابی نہیں دے سکے گا اور اس کے ذمے دار ہم خود ہوںگے ۔
بنیادی طور پر ہمیں انتہا پسندی اور پر تشدد رجحانات کے تناظر میں ایک کمزور سیاسی حکمت عملی کا سامنا ہے۔ کیونکہ اس جنگ کا سارا بوجھ اگر ہم نے ایک ادارے یعنی فوج پر ڈال کر ہم نے کچھ نہیں کرنا تو یہ حکمت عملی نتیجہ خیزنہ پہلے ثابت ہوئی ہے اور نہ ہی یہ مستقبل میں کوئی مثبت نتیجہ دے سکے گی ۔یہ جو حال ہی میں سوات میں توہین مذہب کا الزام لگا کر ایک شخص کو پکڑا اور ہجوم اکٹھا کیا گیا، اور بہیمانہ انداز میں ہجوم نے ایک فرد کو زندہ جلایا ہے ،وہ لاقانونیت کا خوفناک مظہر ہے، اس سے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سوائے رسوائی کے ہمیں اور کچھ نہیں ملا۔یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں ہمارا نظام کہاں کھڑا ہے اورکس حد تک ہم نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والے اس جنگ کو جیتنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
پشاور میں ہونے والے سانحہ اے پی ایس کے نتیجے میں 2014ء میں جو بیس نکاتی ''نیشنل ایکشن پلان ''بنایا گیا تھا، قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر ''اپیکس کمیٹیاں'' بھی تشکیل دی گئی تھیں۔اسی کے نتیجے میں ضرب عضب آپریشن شروع ہوا، ''پیغا م پاکستان'' اور ''دختران پاکستان '' جیسی اہم دستاویزات بھی سامنے آئی تھیں ۔2017میں اسی جنگ کو آگے بڑھاتے ہوئے ''ردالفساد'' کا نام دیا گیا تھا اور اسی بنیاد پر نیشنل سیکیورٹی پالیسی بھی سامنے آئی تھی۔
ان اقدامات کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات میں کمی بھی دیکھنے کو ملی مگر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا یہ مرض جڑ سے ختم نہیں ہوا ۔ اس کی وجہ ہماری کمزور اور مبہم پالیسی تھی ۔ جب واقعات زیادہ ہونے لگیں تو حکومتیں حرکت میں آجاتی ہیں اورجیسے ہی کچھ خاموشی ہوتی ہے تو سب خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ لانگ ٹرم ، مڈ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسیوں کا فقدان ، کمزور نگرانی اور جوابدہی یا احتساب کا نظام ، سیاسی سمجھوتوں، مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے درمیان میں موجود سیاسی الجھن ، پارلیمان اور سیاسی نظام کی کمزور ی کا عمل، سیاسی قیادت کی جانب سے عدم دلچسپی یا اس جنگ سے خود کو علیحدہ کرکے سارا بوجھ فوج تک محدود کرنا، دہشت گردی یا انتہا پسندی سے نمٹنے اور جامع پالیسی کے مقابلے میں داخلی سیاست کے معاملات میں خود کو الجھانے کی پالیسی، اداروں یعنی پولیس وغیرہ میں جدید بنیادوں پر عدم اصلاحات کی پالیسی، تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں موجود سیاسی تقسیم اور متفق فیصلہ کا نہ ہونا ، پی ٹی آئی اور اس کی قوتوں اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان دوریاں جیسے مسائل ہم پر مسلط چلے آ رہے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر ہم عملی طورپر دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے ۔داخلی استحکام اور دہشت گردی یا انتہا پسندی سے جڑے داخلی معاملات کی درستگی کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے '' غیرمعمولی یا آوٹ آف باکس''اقدامات درکار ہیں۔ لیکن ہم ایسے اقدامات کر نہیں پا رہے ہیں۔
ایک بار پھر ہم نے '' آپریشن عزم استحکام '' کو بنیاد بنا کر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم نے بغیر کسی اگر مگر کے اس جنگ کو جیتنا ہے اور اس سے تمام جڑے معاملات کا علاج تلاش کرنا ہے ۔سوال یہ ہے کیا ہم نے '' آپریشن عزم استحکام'' کو شروع کرنے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی کہ ہم پچھلے اہداف میںکیونکر ناکام ہوئے ہیں اور ناکامی کی کیا وجوہات ہیں اور کون اس کاذمے دار ہے ۔سب سے پہلے انھیں منظر عام پر لانا چاہیے تاکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی راہ میں کون سی اندرونی قوتیں حائل ہیں۔
بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر سیاسی قیادت کی ناکامی ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ ناکامی محض سیاسی قیادت تک محدود نہیں بلکہ غیر سیاسی فریقین کو بھی اس کی ناکامی کی ذمے داری لینی ہوگی ۔ابتدا ہی میں پی ٹی آئی نے اس '' آپریشن عزم استحکام '' کو چیلنج کیا اور مطالبہ کیا ہے اس اہم معاملے کو پارلیمنٹ میں بحث کا حصہ بنا کر منظوری کے عمل سے گزارا جائے ۔جب کہ حکومت کے بقول ایوان میں '' قومی سلامتی کمیٹی '' کا ان کیمرہ سیشن بلایا جاسکتا ہے۔ بہرحال اس جنگ سے نمٹنے کے لیے سب کا متفق ہونا ضروری ہے اورا سیاسی قیادتوں کی جانب سے اس جنگ کو بطور قائد لیڈ کرنا ضروری ہے۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت معاشرے کے اہل علم و دانش کا مل کر چلنا ہی ہمیں اس جنگ سے نمٹنے میںکامیابی دلا سکتا ہے ۔ اس جنگ سے جڑے جتنے بھی سیاسی ، انتظامی ہوں یا قانونی یا مذہبی تضادات یا فکری مغالطوں کو ختم کیے بغیر اور کسی اگر مگر کے بغیر عدم برداشت پر مبنی پالیسی کو اختیار کرنا ہماری ریاست کی سطح پر ضرورت بنتی ہے ۔سیاسی جماعتیں عمومی طور پر سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوتی ہیں اور اسی سمجھوتوں کی بنیاد پر ہمیں انتہا پسندی یا شدت پسندی سمیت دہشت گردی کے معاملات میں سمجھوتوں کی سیاست غالب نظر آتی ہے۔
بطور ریاست اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں جو ایک مضبوط متبادل بیانیہ درکارہے جو محض انتظامی بنیادوں پر نہیں بلکہ علمی و فکری محاذ پر بھی ہو۔لیکن سوال یہ ہی ہے کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں۔ سیاسی استحکام لائے بغیر نہ تو معاشی استحکام لاسکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی دے سکے گا۔ہمیں سیاسی مہم جوئی ترک کرکے ریاستی سلامتی کو اولیت دینا ہوگی ۔ ہمیں فکری مغالطوں سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنا ہے اور سمجھنا ہے کہ یہ مسائل ہمارے داخلی نظام کے تضادات سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس لیے ہمیں پہلے خود کو جوابدہ بنانا ہوگا اور داخلی احتساب کی مدد سے آگے بڑھنے کا علاج تلاش کرنا ہوگا، وگرنہ ماضی کے تضادات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کا عمل ہمیں کسی بھی محاذ پر کامیابی نہیں دے سکے گا اور اس کے ذمے دار ہم خود ہوںگے ۔