مون سون سیزن اور پیشگی حفاظتی اقدامات
بھارتی آبی جارحیت کا خطرہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ہم گزشتہ برسوں کی تباہ کاریوں سے ابھی تک نبرد آزما نہیں ہوسکے
این ڈی ایم اے نے مون سون بارشوں کے حوالے سے الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماہ جولائی کے آغاز سے ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ شدید بارشوں کی وجہ سے مقامی نالوں، ندیوں، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے حساس علاقوں میں سیلاب کا خدشہ ہے جب کہ مری، گلیات، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں کے حساس علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا بھی خدشہ ہے۔ خطرناک وادیوں میں گلیشیئر جھیل پھٹنے کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث معاشی نقصان کا بھی سامنا ہے، طوفانی بارشیں، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات قدرت کا غیظ و غضب نہیں، بلکہ اس دھرتی کا رد عمل ہے، جس کو ہم صدیوں سے غلط استعمال کر رہے ہیں، اگر ہم اس دھرتی پر آبادی میں اس قدر اضافہ کردیں گے کہ دھرتی یہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہ رہے، درخت کاٹ دیں، قدرتی چشمے اور دریا روک کر تعمیرات کر دیں گے۔
ماحولیاتی تباہی کی پرواہ کیے بغیر ایسی ملیں، فیکٹریاں اور کارخانے لگا دیں گے، جو کسی ضابطے کی پرواہ کیے بغیر فضا میں آلودگی پھینکتے رہیں تو یہ دھرتی کے قدرتی عمل میں مداخلت ہے۔ انسان صدیوں سے شہر تعمیر کرتا آیا ہے اور اس نے صدیوں کے اس تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس میں ایک سبق یہ ہے کہ شہر ایک منصوبے کے تحت بنائے جانے چاہیے، بستیاں باقاعدہ منصوبے کے تحت تعمیر ہوں۔ شہر میں جس کا جہاں جی چاہے عمارت بنا دے، دکان کھڑی کر دے، گھر تعمیر کر دے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان بستیوں کو انسانی بستیوں کی شکل میں برقرار رکھنا اور چلانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی تعمیر اور تباہی سے دیگر اسباق کے علاوہ یہ دو سبق بھی سیکھنے چاہیے کہ شہر کیسے بنائے جاتے ہیں اور شہر کیسے تباہ ہوتے ہیں۔
بارشوں، سیلابوں، اور دیگر قدرتی آفات کا صرف ہمیں ہی سامنا نہیں دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جسے ان آفات کا سامنا نہ ہو۔ سیلاب سے پاکستان میں اموات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دریاؤں کے سوکھ جانے سے لوگوں نے دریا کے اندر اور ارد گرد گھر تعمیر کیے، ہمارے انتظامی اداروں نے کوئی کارروائی نہیں کی جس وجہ سے اموات اور نقصانات میں اضافہ ہوا۔
سیلاب کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ندی، نالے، نہروں کی صفائی اور نئی نہروں کی تعمیر ضروری ہے، جس سے سیلاب کا رخ تبدیل کر کے ان علاقوں کی طرف منتقل کرنا ہے جہاں نقصانات ہونے کے مواقع کم ہوتے ہیں۔ سیلاب کے باعث سب سے زیادہ زراعت کا شعبہ متاثر ہوتا ہے اس لیے ہر سیلاب کے بعد دیہی علاقوں میں متاثرین کو مالی امداد دے کر اپنی ذمے داری سے دامن چھڑانے کے بجائے حکومتی سطح پر رسک ٹرانسفر اور انشورنس اسکیموں پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ پالیسی شہری علاقوں میں غیر رسمی بستیوں اور کچی آبادیوں کے لیے بھی اپنائی جا سکتی ہے۔
یہ اقدام اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہماری معیشت پہلے ہی بہت کمزور بنیادوں پر استوار ہے ایسے میں پاکستان ترقیاتی منصوبوں میں کمی کر کے یا عالمی برادری سے قرض اور امداد لے کر نقد رقوم کی تقسیم کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درپیش خطرات بنیادی طور پر مقامی مسئلہ ہیں۔ اس لیے ان کا حل فعال مقامی حکومتوں اور مقامی اداروں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
2024 کا ہر مہینہ درجہ حرارت کے اعتبار سے زیادہ گرم ہے اور سنو کور اگر کم ہو تو درجہ حرارت زیادہ بڑھ جاتا ہے، جنوری، فروری، مارچ میں برفباری کم ہوئی، سنو(snow) کور کم پڑی تو کم برفباری سے پاوڈر سنو (snow) پگھلی اس لیے زمینی درجہ حرارت اس بار وہاں زیادہ ہے، مون سون سیزن کے دوران زیادہ درجہ حرارت کے علاوہ گلگت بلتستان میں جو سیلابی صورتحال بنے گی وہ زیادہ میلٹنگ کی وجہ سے ہے، اب گلگت بلتستان کے علاوہ جو باقی صوبے ہیں ان میں بھی انتہائی پریشان کن حالات کی نشاندہی کی گئی ہے، دریاؤں میں سیلابی صورتحال بھی شدید نوعیت کی ہو سکتی ہے، جہلم، چناب، ستلج، راوی میں سیلابی صورتحال کا زیادہ امکان ہے اور کوہ سلیمان اور کوہ کیرتھر میں بھی فلیش فلڈنگ کا زیادہ خدشہ ہے۔
کراچی، حیدرآباد، فیصل آباد اور لاہور سمیت ملک کے مختلف چھوٹے، بڑے شہروں میں بے ہنگم آبادیوں، ناقص سیوریج سسٹم، گندے نالوں کی صفائی نہ ہونے اور گندے نالوں کے سکڑنے، سڑکوں کی تعمیر میں سول انجینئرنگ کی کمزوریوں اور خامیوں نے مون سون سیزن کو قدرتی آفت بنا دیا ہے۔ ہماری صوبائی حکومتیں ہر وقت لاہور اور کراچی کو لندن، پیرس اور نیویارک بنانے کا دعویٰ اور وعدہ کرتی ہیں۔
ہر سال اربوں روپے خرچ کرنے کا اعلان ہوتا ہے لیکن بڑے شہروں کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔ شہریوں پر ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آجاتا ہے، گٹروں کے ڈھکن غائب ہوتے ہیں، سڑکوں کے عین درمیان میں گہرے کھڈے بھی بند نہیں کیے جاتے، ان وجوہات کی بنا پر جان لیوا حادثات ہوتے ہیں۔ اتنا نقصان ہونے کے بعد کسی محکمہ کو ذمے دار نہیں ٹہرایا جاتا۔ جن کے گھروں میں پانی داخل ہوجاتا ہے، ان کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے بر وقت کوئی انتظام بھی نہیں کیا جاتا۔ شہری ادارے کھوکھلے ہوچکے ہیں، ناقص بلدیاتی نظام کی وجہ سے شہریوں کی تربیت بھی نہیں ہوسکی ہے۔ ہمارے ملک میں معمول سے زیادہ بارشوں کا سلسلہ قدرتی آفت بن جاتا، ماضی میں کم از کم دو سے تین بار پورا شہر مفلوج ہوچکا ہے۔
بھارتی آبی جارحیت کا خطرہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ہم گزشتہ برسوں کی تباہ کاریوں سے ابھی تک نبرد آزما نہیں ہوسکے۔ ہمیں حفاظتی اقدامات کے ساتھ اس امر کی بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ اصل مسئلہ انتظامی ناکامی کا ہے یا کوئی اور۔ ہر سال وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیلاب سے پہلے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں اور ہر سال سیلاب کے نتیجے میں لوگوں کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مون سون آپریشن کے لیے اگر صوبائی حکومتیں بیوروکریسی پر انحصار کرنے کے بجائے، مقامی حکومتوں سے کام لیتیں تو اس کے نتائج زیادہ بہتر ہوتے۔ دراصل ملک میں بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام موجود ہے، اگر موجود ہے تو کیا ندی، نالوں اور گٹروں کی صفائی بلدیاتی اداروں اور صوبائی حکومتوں نے شروع کردی ہے، تو جواب نفی میں ہے، بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور قبل از وقت حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
صفائی ستھرائی کی ناگفتہ بہ صورتحال عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہے، اگر شہروں میں بارش کے پانی کے نکاس کے نظام کو پورا سال جاری رکھا جائے اور پانی کی گزرگاہوں کو صاف ستھرا اور ان کے اطراف درخت لگا کر خوبصورت بنایا جائے، شہروں میں بارش کی چھوٹی گزرگاہوں پر ڈھکن لگائے جائیں۔ گندے پانی اور بارش کے پانی کے نکاس کا انتظام علیحدہ علیحدہ رکھا جائے، تو عوام بھی بارش سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اداروں کو بروقت مربوط حکمت عملی از سر نو جامع پلان کی ضرورت ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی میں پیشگی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ بارشیں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے ہر سال عوام کو جانی و مالی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود متعلقہ ادارے ان پر قابو پانے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔
پانی کی گرتی ہوئی سطح کے پیش نظر بارشیں بہت بڑی نعمت خداوندی ہیں لیکن پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کا زیادہ تر پانی ضایع ہوجاتا ہے اور ناقص حفاظتی اقدامات کی بدولت اکثر مقامات پر یہ نعمت خصوصاً غریب اور کچی آبادی کے لیے زحمت بن جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موسم برسات سے قبل ندی نالوں کی صفائی، سیوریج سسٹم کی درستی اور بارشوں سے ہونے والے نقصانات کو روکنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جاتا اور جس حد تک ممکن ہو پانی ذخیرہ کرنے کے ہنگامی اقدامات کیے جاتے تاکہ آبی قلت کے مسئلے پر بھی قابو پایا جاسکتا۔
شاید اس طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دینی چاہیے تھی۔ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مون سون سیزن کے پیشگی اقدامات کے تحت سیوریج لائنوں اور مین چینلز کی ڈی سلٹنگ اور صفائی مہم بلا تعطل جاری رہنی چاہیے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔
سرکار صرف یہ قانون سازی کر دے کہ شہر کی ہر چھوٹی بڑی عمارت سے بارش کے پانی کے ذخیرے کے لیے ٹینک بنانا عمارت کے مالک پر لازم ہے اور آیندہ ملک میں کوئی گھر کوئی عمارت ''رین واٹر اسٹوریج ٹینک'' کے بغیر بنانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ قانون سازی کرنے اور اس پر سختی سے عمل کرنے سے طوفانی بارش نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی کو اگر بالکل ختم نہیں تو بہت کم ضرور کیا جا سکتا ہے، لیکن ان سب سے بڑھ کر ایسے طویل مدتی اقدامات کی ضرورت ہے، جو ماحولیاتی تباہی کی روک تھام کے لیے ضروری ہیں۔
اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث معاشی نقصان کا بھی سامنا ہے، طوفانی بارشیں، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات قدرت کا غیظ و غضب نہیں، بلکہ اس دھرتی کا رد عمل ہے، جس کو ہم صدیوں سے غلط استعمال کر رہے ہیں، اگر ہم اس دھرتی پر آبادی میں اس قدر اضافہ کردیں گے کہ دھرتی یہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہ رہے، درخت کاٹ دیں، قدرتی چشمے اور دریا روک کر تعمیرات کر دیں گے۔
ماحولیاتی تباہی کی پرواہ کیے بغیر ایسی ملیں، فیکٹریاں اور کارخانے لگا دیں گے، جو کسی ضابطے کی پرواہ کیے بغیر فضا میں آلودگی پھینکتے رہیں تو یہ دھرتی کے قدرتی عمل میں مداخلت ہے۔ انسان صدیوں سے شہر تعمیر کرتا آیا ہے اور اس نے صدیوں کے اس تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس میں ایک سبق یہ ہے کہ شہر ایک منصوبے کے تحت بنائے جانے چاہیے، بستیاں باقاعدہ منصوبے کے تحت تعمیر ہوں۔ شہر میں جس کا جہاں جی چاہے عمارت بنا دے، دکان کھڑی کر دے، گھر تعمیر کر دے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان بستیوں کو انسانی بستیوں کی شکل میں برقرار رکھنا اور چلانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی تعمیر اور تباہی سے دیگر اسباق کے علاوہ یہ دو سبق بھی سیکھنے چاہیے کہ شہر کیسے بنائے جاتے ہیں اور شہر کیسے تباہ ہوتے ہیں۔
بارشوں، سیلابوں، اور دیگر قدرتی آفات کا صرف ہمیں ہی سامنا نہیں دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جسے ان آفات کا سامنا نہ ہو۔ سیلاب سے پاکستان میں اموات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دریاؤں کے سوکھ جانے سے لوگوں نے دریا کے اندر اور ارد گرد گھر تعمیر کیے، ہمارے انتظامی اداروں نے کوئی کارروائی نہیں کی جس وجہ سے اموات اور نقصانات میں اضافہ ہوا۔
سیلاب کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ندی، نالے، نہروں کی صفائی اور نئی نہروں کی تعمیر ضروری ہے، جس سے سیلاب کا رخ تبدیل کر کے ان علاقوں کی طرف منتقل کرنا ہے جہاں نقصانات ہونے کے مواقع کم ہوتے ہیں۔ سیلاب کے باعث سب سے زیادہ زراعت کا شعبہ متاثر ہوتا ہے اس لیے ہر سیلاب کے بعد دیہی علاقوں میں متاثرین کو مالی امداد دے کر اپنی ذمے داری سے دامن چھڑانے کے بجائے حکومتی سطح پر رسک ٹرانسفر اور انشورنس اسکیموں پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ پالیسی شہری علاقوں میں غیر رسمی بستیوں اور کچی آبادیوں کے لیے بھی اپنائی جا سکتی ہے۔
یہ اقدام اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہماری معیشت پہلے ہی بہت کمزور بنیادوں پر استوار ہے ایسے میں پاکستان ترقیاتی منصوبوں میں کمی کر کے یا عالمی برادری سے قرض اور امداد لے کر نقد رقوم کی تقسیم کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درپیش خطرات بنیادی طور پر مقامی مسئلہ ہیں۔ اس لیے ان کا حل فعال مقامی حکومتوں اور مقامی اداروں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
2024 کا ہر مہینہ درجہ حرارت کے اعتبار سے زیادہ گرم ہے اور سنو کور اگر کم ہو تو درجہ حرارت زیادہ بڑھ جاتا ہے، جنوری، فروری، مارچ میں برفباری کم ہوئی، سنو(snow) کور کم پڑی تو کم برفباری سے پاوڈر سنو (snow) پگھلی اس لیے زمینی درجہ حرارت اس بار وہاں زیادہ ہے، مون سون سیزن کے دوران زیادہ درجہ حرارت کے علاوہ گلگت بلتستان میں جو سیلابی صورتحال بنے گی وہ زیادہ میلٹنگ کی وجہ سے ہے، اب گلگت بلتستان کے علاوہ جو باقی صوبے ہیں ان میں بھی انتہائی پریشان کن حالات کی نشاندہی کی گئی ہے، دریاؤں میں سیلابی صورتحال بھی شدید نوعیت کی ہو سکتی ہے، جہلم، چناب، ستلج، راوی میں سیلابی صورتحال کا زیادہ امکان ہے اور کوہ سلیمان اور کوہ کیرتھر میں بھی فلیش فلڈنگ کا زیادہ خدشہ ہے۔
کراچی، حیدرآباد، فیصل آباد اور لاہور سمیت ملک کے مختلف چھوٹے، بڑے شہروں میں بے ہنگم آبادیوں، ناقص سیوریج سسٹم، گندے نالوں کی صفائی نہ ہونے اور گندے نالوں کے سکڑنے، سڑکوں کی تعمیر میں سول انجینئرنگ کی کمزوریوں اور خامیوں نے مون سون سیزن کو قدرتی آفت بنا دیا ہے۔ ہماری صوبائی حکومتیں ہر وقت لاہور اور کراچی کو لندن، پیرس اور نیویارک بنانے کا دعویٰ اور وعدہ کرتی ہیں۔
ہر سال اربوں روپے خرچ کرنے کا اعلان ہوتا ہے لیکن بڑے شہروں کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔ شہریوں پر ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آجاتا ہے، گٹروں کے ڈھکن غائب ہوتے ہیں، سڑکوں کے عین درمیان میں گہرے کھڈے بھی بند نہیں کیے جاتے، ان وجوہات کی بنا پر جان لیوا حادثات ہوتے ہیں۔ اتنا نقصان ہونے کے بعد کسی محکمہ کو ذمے دار نہیں ٹہرایا جاتا۔ جن کے گھروں میں پانی داخل ہوجاتا ہے، ان کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے بر وقت کوئی انتظام بھی نہیں کیا جاتا۔ شہری ادارے کھوکھلے ہوچکے ہیں، ناقص بلدیاتی نظام کی وجہ سے شہریوں کی تربیت بھی نہیں ہوسکی ہے۔ ہمارے ملک میں معمول سے زیادہ بارشوں کا سلسلہ قدرتی آفت بن جاتا، ماضی میں کم از کم دو سے تین بار پورا شہر مفلوج ہوچکا ہے۔
بھارتی آبی جارحیت کا خطرہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ہم گزشتہ برسوں کی تباہ کاریوں سے ابھی تک نبرد آزما نہیں ہوسکے۔ ہمیں حفاظتی اقدامات کے ساتھ اس امر کی بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ اصل مسئلہ انتظامی ناکامی کا ہے یا کوئی اور۔ ہر سال وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیلاب سے پہلے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں اور ہر سال سیلاب کے نتیجے میں لوگوں کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مون سون آپریشن کے لیے اگر صوبائی حکومتیں بیوروکریسی پر انحصار کرنے کے بجائے، مقامی حکومتوں سے کام لیتیں تو اس کے نتائج زیادہ بہتر ہوتے۔ دراصل ملک میں بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام موجود ہے، اگر موجود ہے تو کیا ندی، نالوں اور گٹروں کی صفائی بلدیاتی اداروں اور صوبائی حکومتوں نے شروع کردی ہے، تو جواب نفی میں ہے، بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور قبل از وقت حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
صفائی ستھرائی کی ناگفتہ بہ صورتحال عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہے، اگر شہروں میں بارش کے پانی کے نکاس کے نظام کو پورا سال جاری رکھا جائے اور پانی کی گزرگاہوں کو صاف ستھرا اور ان کے اطراف درخت لگا کر خوبصورت بنایا جائے، شہروں میں بارش کی چھوٹی گزرگاہوں پر ڈھکن لگائے جائیں۔ گندے پانی اور بارش کے پانی کے نکاس کا انتظام علیحدہ علیحدہ رکھا جائے، تو عوام بھی بارش سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اداروں کو بروقت مربوط حکمت عملی از سر نو جامع پلان کی ضرورت ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی میں پیشگی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ بارشیں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے ہر سال عوام کو جانی و مالی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود متعلقہ ادارے ان پر قابو پانے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔
پانی کی گرتی ہوئی سطح کے پیش نظر بارشیں بہت بڑی نعمت خداوندی ہیں لیکن پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کا زیادہ تر پانی ضایع ہوجاتا ہے اور ناقص حفاظتی اقدامات کی بدولت اکثر مقامات پر یہ نعمت خصوصاً غریب اور کچی آبادی کے لیے زحمت بن جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موسم برسات سے قبل ندی نالوں کی صفائی، سیوریج سسٹم کی درستی اور بارشوں سے ہونے والے نقصانات کو روکنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جاتا اور جس حد تک ممکن ہو پانی ذخیرہ کرنے کے ہنگامی اقدامات کیے جاتے تاکہ آبی قلت کے مسئلے پر بھی قابو پایا جاسکتا۔
شاید اس طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دینی چاہیے تھی۔ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مون سون سیزن کے پیشگی اقدامات کے تحت سیوریج لائنوں اور مین چینلز کی ڈی سلٹنگ اور صفائی مہم بلا تعطل جاری رہنی چاہیے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔
سرکار صرف یہ قانون سازی کر دے کہ شہر کی ہر چھوٹی بڑی عمارت سے بارش کے پانی کے ذخیرے کے لیے ٹینک بنانا عمارت کے مالک پر لازم ہے اور آیندہ ملک میں کوئی گھر کوئی عمارت ''رین واٹر اسٹوریج ٹینک'' کے بغیر بنانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ قانون سازی کرنے اور اس پر سختی سے عمل کرنے سے طوفانی بارش نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی کو اگر بالکل ختم نہیں تو بہت کم ضرور کیا جا سکتا ہے، لیکن ان سب سے بڑھ کر ایسے طویل مدتی اقدامات کی ضرورت ہے، جو ماحولیاتی تباہی کی روک تھام کے لیے ضروری ہیں۔