مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں سپریم کورٹ
ایک سیاسی جماعت کے مینی فیسٹو میں اقلیتی شامل نہیں تو اقلیتوں کے لسٹ نہیں دی جائے گی، چیف جسٹس
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔
سماعت شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے روسٹم پر آکر صاحبزادہ حامد رضا نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا، صاحبزادہ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ظاہر کی تھی، مخصوص نشستیں ملیں تو کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی امیدوار ہوں گی۔
مخدوم علی خان نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہ دینے کا فیصلہ کیا اور پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حیرت کی بات ہے سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائیکورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کے لیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔
مخدوم علی خان نے بتایا کہ فی الوقت صاحبزادہ حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ انکے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کک انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا، الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔ مخدوم علی خان نے بتایا کہ اپیلوں میں یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔ مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ عدالت کے سامنے درخواست گزار سنی اتحاد کونسل ہے، تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد نے کوئی امیدوار کھڑا کیا اور نہ مخصوص نشستوں کی فہرست دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے امیدوار ثابت ہوگئے تو مختلف معاملہ ہو جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی کسی جماعت کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے پھر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ایک پارٹی کا ٹکٹ دیکر دوسری جماعت میں شامل ہوجائے تو یہ منحرف ہونا ہے، میری نظر میں ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، فارم 33 سے واضح ہوگا کہ کون کس جماعت سے ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔
جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا کسی امیدوار نے کاغذات جمع کرانے کے بعد پارٹی وابستگی سے علیحدگی کا اظہار کیا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چار مارچ کو الیکشن کمیشن نے خود کہا کہ تمام امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر پارٹی کے لوگوں کو آزاد قرار دیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟
چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، جس کیس کے دلائل ہمارے سامنے آئے ہوئے ہیں اسی تک رہیں گے، عدالت کے سامنے مقدمہ سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں، جو مقدمہ ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہوں گے برے بھی لیکن جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا اس سے ہمارا لینا دینا نہیں، دنیا کو کیا معلوم ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو فائل میں موجود ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلیٰ ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہے کہ عوام حق رائے دیہی کا دفاع کرے، بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بطور جج میرا حلف ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق چلوں گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا ہے تو آئین کے مطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی پارٹی امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتی، اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا موقف کیا ہے دوسری جماعتوں کو چھوڑیں۔
چیف جسٹس فائز عیسی نے سوال اٹھایا کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولہ سمجھائیں وہ کیا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ بھی ڈکٹیٹر کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، میں نے اس وقت وکالت چھوڑ دی تھی۔
چیف جسٹس نے کسی کا نام لیے بغیر ریمارکس دیے کہ کوئی ڈکٹیٹر آئے تو سب وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں، جمہوریت آتی ہے تو سب لوگ چھریاں نکال لیتے ہیں، آئین میں دیا گیا اصول واضح ہے تو ہم کیوں نئی جہتیں نکال لیتے ہیں؟ آئین مقدس ہے اس پر عمل کرنا لازم ہے آپشن نہیں، تاریخ کی بات کرنی ہے تو پوری طرح سے کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج بھی آئین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، ہمیں حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے اپنا سر ریت میں نہیں دبا لینا چاہیے، سب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے ہم ماضی کی بات کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ سٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک دن ہمیں کہ دینا چاہیے کہ بہت ہوچکا، آئین کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ میں اہم ترین درخواست 8 فروری کے انتخابات کے حوالے سے ہے، لاپتہ افراد کے کیسز اور بنیادی حقوق کی پامالیاں سیاسی مقدمات نہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ بلوچستان سے ایک جماعت 10 نشستیں لے اور مخصوص کے لیے فہرست جمع نہ کرائی، اگر کوئی جماعت فہرست جمع نہ کرائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مخصوص نشستیں نہیں چاہتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسمبلی کا مکمل ہونا لازمی نہیں ہے، اسمبلی نشستوں اور ارکان میں فرق ہوتا ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا اصول سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتا ہے آزاد جیتنے والے شامل نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ اصول کی بات کرتے ہیں تو آئین کا حوالہ بھی دیں، آرٹیکل پانچ کے تحت ہر شخص آئین پر عمل درآمد کا پابند ہے۔
وقفے کے بعد سماعت
مختصر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مخدوم صاحب میں نے آپ کے بارے میں جو کہا اس پر معذرت خواہ ہوں، تاریخ استاد ہوتی ہے اور ہمیں تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔ ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی بات نہیں، ویسے بھی یہ معاملہ عدالت میں زیر بحث نہیں ہے، کوئی نہیں کہتا کہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا، اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں ہر لفظ کو ایک معنی دینا ضروری ہے، آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر، سینیٹ سب کے انتخابات کے لیے الگ الیکٹوریٹ دیا ہوتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں لگ رہا جیسے انتخابات ہو ہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے کہ الیکشن ہو رہا ہے، آپ مجھے دکھا دیں کہ کوئی الیکشن ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر چھوٹی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، آج ہی دلائل ختم بھی کرنا ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتا ہے، جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزاد امیدوار شامل ہوتے ہیں، جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں وہاں آزاد امیدوار شامل نہیں ہوسکتے، جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت کے مینی فیسٹو میں اقلیتی شامل نہیں تو اقلیتوں کے لسٹ نہیں دی جائے گی، اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا، خریدنا تو ضروری ہے نا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہ عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہمیں درخواست گزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیر التوا ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے جسٹس اطہر من اللہ کو جواب دیا کہ درخواستیں کیوں زیر التوا ہیں؟ اس کا جواب عدالت دے، وکیل تو نہیں دے سکتا، سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائے گی، انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف سیٹ جیٹ سکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یعنی جو لسٹ نہیں دیتی تو اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے، وکیل نے بتایا کہ اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ دی نہیں اور انتخابات کے بعد دے رہے تو مزید غیر جمہوری ہو جائے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سیٹیں زیادہ جیتیں، مجھے مسئلہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی، قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں، آپ کہہ رہے اگر سنی اتحاد سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہوگئیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں دو طریقوں سے سیٹیں بانٹی گئی ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزاد امیدوار نے ایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔
سماعت شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے روسٹم پر آکر صاحبزادہ حامد رضا نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا، صاحبزادہ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ظاہر کی تھی، مخصوص نشستیں ملیں تو کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی امیدوار ہوں گی۔
مخدوم علی خان نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہ دینے کا فیصلہ کیا اور پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حیرت کی بات ہے سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائیکورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کے لیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔
مخدوم علی خان نے بتایا کہ فی الوقت صاحبزادہ حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ انکے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کک انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا، الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔ مخدوم علی خان نے بتایا کہ اپیلوں میں یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔ مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ عدالت کے سامنے درخواست گزار سنی اتحاد کونسل ہے، تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد نے کوئی امیدوار کھڑا کیا اور نہ مخصوص نشستوں کی فہرست دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے امیدوار ثابت ہوگئے تو مختلف معاملہ ہو جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی کسی جماعت کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے پھر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ایک پارٹی کا ٹکٹ دیکر دوسری جماعت میں شامل ہوجائے تو یہ منحرف ہونا ہے، میری نظر میں ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، فارم 33 سے واضح ہوگا کہ کون کس جماعت سے ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔
جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا کسی امیدوار نے کاغذات جمع کرانے کے بعد پارٹی وابستگی سے علیحدگی کا اظہار کیا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چار مارچ کو الیکشن کمیشن نے خود کہا کہ تمام امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر پارٹی کے لوگوں کو آزاد قرار دیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟
چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، جس کیس کے دلائل ہمارے سامنے آئے ہوئے ہیں اسی تک رہیں گے، عدالت کے سامنے مقدمہ سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں، جو مقدمہ ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہوں گے برے بھی لیکن جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا اس سے ہمارا لینا دینا نہیں، دنیا کو کیا معلوم ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو فائل میں موجود ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلیٰ ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہے کہ عوام حق رائے دیہی کا دفاع کرے، بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بطور جج میرا حلف ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق چلوں گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا ہے تو آئین کے مطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی پارٹی امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتی، اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا موقف کیا ہے دوسری جماعتوں کو چھوڑیں۔
چیف جسٹس فائز عیسی نے سوال اٹھایا کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولہ سمجھائیں وہ کیا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ بھی ڈکٹیٹر کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، میں نے اس وقت وکالت چھوڑ دی تھی۔
چیف جسٹس نے کسی کا نام لیے بغیر ریمارکس دیے کہ کوئی ڈکٹیٹر آئے تو سب وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں، جمہوریت آتی ہے تو سب لوگ چھریاں نکال لیتے ہیں، آئین میں دیا گیا اصول واضح ہے تو ہم کیوں نئی جہتیں نکال لیتے ہیں؟ آئین مقدس ہے اس پر عمل کرنا لازم ہے آپشن نہیں، تاریخ کی بات کرنی ہے تو پوری طرح سے کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج بھی آئین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، ہمیں حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے اپنا سر ریت میں نہیں دبا لینا چاہیے، سب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے ہم ماضی کی بات کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ سٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک دن ہمیں کہ دینا چاہیے کہ بہت ہوچکا، آئین کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ میں اہم ترین درخواست 8 فروری کے انتخابات کے حوالے سے ہے، لاپتہ افراد کے کیسز اور بنیادی حقوق کی پامالیاں سیاسی مقدمات نہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ بلوچستان سے ایک جماعت 10 نشستیں لے اور مخصوص کے لیے فہرست جمع نہ کرائی، اگر کوئی جماعت فہرست جمع نہ کرائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مخصوص نشستیں نہیں چاہتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسمبلی کا مکمل ہونا لازمی نہیں ہے، اسمبلی نشستوں اور ارکان میں فرق ہوتا ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا اصول سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتا ہے آزاد جیتنے والے شامل نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ اصول کی بات کرتے ہیں تو آئین کا حوالہ بھی دیں، آرٹیکل پانچ کے تحت ہر شخص آئین پر عمل درآمد کا پابند ہے۔
وقفے کے بعد سماعت
مختصر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مخدوم صاحب میں نے آپ کے بارے میں جو کہا اس پر معذرت خواہ ہوں، تاریخ استاد ہوتی ہے اور ہمیں تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔ ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی بات نہیں، ویسے بھی یہ معاملہ عدالت میں زیر بحث نہیں ہے، کوئی نہیں کہتا کہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا، اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں ہر لفظ کو ایک معنی دینا ضروری ہے، آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر، سینیٹ سب کے انتخابات کے لیے الگ الیکٹوریٹ دیا ہوتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں لگ رہا جیسے انتخابات ہو ہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے کہ الیکشن ہو رہا ہے، آپ مجھے دکھا دیں کہ کوئی الیکشن ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر چھوٹی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، آج ہی دلائل ختم بھی کرنا ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتا ہے، جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزاد امیدوار شامل ہوتے ہیں، جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں وہاں آزاد امیدوار شامل نہیں ہوسکتے، جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت کے مینی فیسٹو میں اقلیتی شامل نہیں تو اقلیتوں کے لسٹ نہیں دی جائے گی، اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا، خریدنا تو ضروری ہے نا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہ عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہمیں درخواست گزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیر التوا ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے جسٹس اطہر من اللہ کو جواب دیا کہ درخواستیں کیوں زیر التوا ہیں؟ اس کا جواب عدالت دے، وکیل تو نہیں دے سکتا، سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائے گی، انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف سیٹ جیٹ سکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یعنی جو لسٹ نہیں دیتی تو اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے، وکیل نے بتایا کہ اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ دی نہیں اور انتخابات کے بعد دے رہے تو مزید غیر جمہوری ہو جائے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سیٹیں زیادہ جیتیں، مجھے مسئلہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی، قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں، آپ کہہ رہے اگر سنی اتحاد سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہوگئیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں دو طریقوں سے سیٹیں بانٹی گئی ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزاد امیدوار نے ایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو۔