ایران جنگجوؤں کی پیش قدمی روکنے کیلئے عراق کی مدد کررہا ہے نیو یارک ٹائمز

تہران حکومت روزانہ کی بنیادوں پر 70 ٹن فوجی ساز و سامان عراق بھیج رہی ہے، نیو یارک ٹائمز


ویب ڈیسک June 26, 2014
داعش کے جنگجوؤں اور کمانڈروں کے مابین ہونے والی گفتگو کو سننے کے لیے خفیہ مواصلاتی آلات بھی نصب کیے گئے ہیں۔ فوٹو؛ فائل

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ دولت اسلامی عراق وشام(داعش) کی پیش قدمی روکنے کے لیے ایرانی حکومت کی جانب سے عراق کو جاسوس ڈرون طیاروں سمیت ہر قسم کا تعاون فراہم کیا جا رہا ہے۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران، عراق ميں رونما ہونے والے حالات و واقعات کی خفیہ طور پر نگرانی کر رہا ہے اور ڈرون طیاروں کی مدد سے صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگجوؤں کی پيش قدمی کو روکنے کے لیے بغداد حکومت کو عسکری ساز وسامان بھی فراہم کیا جا رہا ہے، تہران حکومت روزانہ کی بنیادوں پر 70 ٹن فوجی ساز و سامان بغداد بھیج رہی ہے۔

نیویارک ٹائمز نے ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایران نے اپنے ''ابدالی ڈرون'' کا ایک چھوٹا سا بیڑا بغداد کے قریب فضائیہ کی الراشد نامی چھاؤنی پر تعینات کررکھا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ فی العراق و شام (داعش) کے جنگجوؤں اور کمانڈروں کے مابین ہونے والی گفتگو کو سننے کے لیے خفیہ مواصلاتی آلات بھی چھاؤنی میں نصب کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایرانی فوج کے جنرل قاسم سلیمانی نے حال ہی میں عراق کے 2 دورے بھی کیے ہیں، اس کے علاوہ ایران کی ''قدس'' فورس کے ایک درجن افسران کو مشاورت کے لیے عراق بھیجا گیا ہے، یہ افسران عراق کے جنوب میں ملکی شیعہ ملیشیا گروپوں کو متحرک کرنے میں بھی مدد فراہم کریں گے۔بغداد اور مقدس مقامات کو محفوظ رکھنے کے لیے ایران نے عراقی سرحد پر فوج کے 10 ڈویژنز اور قدس فورس کے دستوں کی بڑی تعداد کو بھی تعینات کر دیا ہے، یہ دستے کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری کارروائی کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ چند روز قبل ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر عراق میں مقدس مقامات کی بے حرمتی کا سلسلہ بند نہ ہوا تو ایران اپنی فوج کو عراق بھیج دے گا۔ دوسری جانب امریکا کا کہنا ہے کہ ایران کو عراق کی مدد فرقہ واریت کو ہوا دیئے بغیر کرنی چاہیئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔