پاکستان ایک نظرمیں کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے

کسی نے سچ کہا ہے کہ نااہلوں، کمزوروں اور بزدلوں کے ہاتھ میں زمام اقتدار نہیں ہونی چاہیے۔


ضمیر آفاقی June 26, 2014
کسی نے سچ کہا ہے کہ نااہلوں، کمزوروں اور بزدلوں کے ہاتھ میں زمام اقتدار نہیں ہونی چاہیے۔ فوٹو فائل

KARACHI: 17 جون کی شب لاہور میں ادارہ منہاج القران کے مرکزی دفتر اورماڈل ٹاؤن میں واقع ڈکٹر طاہر القادری کی رہاش گاہ پر رات گیارہ بجے لاہور پولیس نے جو شب خون مارا وہ اگلے دن تک جاری رہا ۔پاکستانی سیاسی تاریخ میں نہتے شہریوں پر آگ اور بارود برسانے کی اسقدر سفاکانہ مثال اور کوئی نہیں ملتی ۔

حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ یہ سب کچھ وہاں لگے غیر قانونی بیرئیر ہٹانے کے لئے کیا گیا جس کے لیے وہاں کے لوگوں نے شکایت کی تھی جبکہ حقیقت حال میں ایسا کچھ نہیں تھا وہاں پر جو بیرئیر لگائے گئے تھے وہ خود حکومت کی اجازت اور منشا سے لگے تھے ۔بلکہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ہمسایوں اور رہاشیوںکا کہنا تھا کہ یہاں بیرئیر انہوں نے خود لگوائے تھے جس کا نوٹیفیکشن بھی ان کے پاس موجود ہے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب سے یہاں بیرئیر لگے ہیں اس علاقے میں کبھی کوئی واردت نہیں ہوئی ۔

تاہم حکومت کی اس احمقانہ حرکت اور طاقت کے بے مہابہ استعمال کے نتیجے میں 8 کے قریب معصوم انسانی جانیں ضائع ہوئیں جبکہ ایک سو کے قریب افراد ذخمی بھی ہوئے ۔ میڈیا پر اس واقعے کی دن رات کوریج نے دنیا بھر میں پنجاب حکومت کی اس حرکت کو ریاستی دہشت گردی کے طور پر پیش کیا ،حقائق جاننے کے لئے اگلے روز ہم چند کالم نگاروں کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہاش گاہ اور مرکزی دفتر پہنچے جہاں کے مناظر دیکھنے کے بعد ہمیں ہٹلر کے ستم کم نظر آئے۔

پنجاب حکومت کی ایما پر لاہور پولیس نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر جو وحشیانہ تشدد کیا اس کی مثال کم سے کم جمہوری حکومتوں میں نہیں ملتی۔ ریاستی دہشت گردی کے اس واقعے نے پاکستان کو دنیا بھر میں شرمندہ ہی نہیں کیا بلکہ دنیا ہمیںوحشی اور خونخوار کے لفظوں سے بھی نوازنے لگی ہے۔

بہرحال حکومت نے خود اپنوں پاوں پر جو کلہاڑی ماری ہے اس سے اس کے زخمی ہونے کے چانسزز میں اضافے کے ساتھ جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کو خود آگے بڑھ کے بلا تمیز اس میں ملوث افراد کو انصاف کے کہٹرئے میں لانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ بے گناہ افراد کی ہلاکت کی بازگشت ساری زندگی ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔

ابھی اس واقعے سے پاکستان عوامی تحریک کے کارکن سنبھل نہیں پائے تھے کہ حکومت نے حسب سابق مزید حماقتیں کرتے ہوئے طاہر القادری کی آمد 24 جون کے موقع پر ان کی پرواز کا رخ اسلام آباد سے لاہور کی طرف موڑ کر انہیں مزید مشتعل کر دیا۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ کوئی بڑا واقع نہیں ہوا ورنہ حکومت نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ ہر طرف دما دم مست قلندر ہوتا ۔

اب حکومت طاہر القادری سے مفاہمت کے لیے کبھی گورنر پنجاب کو آگے کر رہی ہے تو کبھی کسی اور کو۔ بلکہ حد تو یہ ہے کہ جو بیرئر اور بلاکس وجہ تنازعہ تھے انہیں دوبارہ اسی پوزیشن میں لگا دیا گیا ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے اس ساری ایکسر سائز کا مقصد کیا تھا اور حکومت اس سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتی تھی ؟ بلکہ لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔

یہاں اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حاصل وصول کچھ نہیں 8 لاشیں 80 زخمی اور حکومت کی بدنامی کے سوا کیا ہاتھ آیا ہے کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے کہ یہ سب کچھ گلو بٹ کو متعارف کرانے کے لئے کیا گیا تھا۔

حکومت کی نااہلی کھل کر سامنے آنے سے اس حکومت کے بارے اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ ایک طاہر القادری سے خوفزدہ حکومت کی بوکھلاہٹ نے یہ ڈر پیدا کر دیا ہے کہ اگر کل کوئی گرئینڈ الائنس حکومت کے خلاف بنتا اور وہ احتجاج کرتا ہے تو یہ حکومت جس کی صلاحیت دنیا بھر پر عیاں ہو چکی ہے اس وقت کیا کرے گی؟ جبکہ دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے روئیے ،مزاج ، تحمل ،بردباری اور بہترین سیاسی حکمت عملی سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ ایک اچھے سیاستدان ہیں اور اس خلاء کو پر کر سکتے ہیں جو اس وقت قیادت کے بحران کی شکل میں پیدا ہو چکا ہے۔

کسی نے سچ کہا ہے کہ نااہلوں، کمزوروں اور بزدلوں کے ہاتھ میں زمام اقتدار نہیں ہونی چاہیے۔ ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ ہجوم کو قوم بنا سکیں۔ یا کسی بحران سے احسن طریقے سے عہدہ براہ ہو سکیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں