بات کچھ اِدھر اُدھر کی اور وہ نشے میں تنہا رہ گیا

ہماری تھوڑی سی توجہ سے اردگرد موجود ہزاروں لوگوں کی زندگیاں برباد ہونے سے بچ سکتی ہیں۔


محمد جواد June 26, 2014
ہماری تھوڑی سی توجہ سے اردگرد موجود ہزاروں لوگوں کی زندگیاں برباد ہونے سے بچ سکتی ہیں۔ فوٹو فائل

یار تم لوگ بھی یہاں سے شفٹ ہو رہے ہو ؟


ہاں یار حالات کی وجہ سے روز کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے۔


تم بھی چلے گئے تو میں تو اکیلا ہی رہ جاؤں گا۔ پھر تو تم یہاں کا چکر بھی نہیں لگاؤ گے۔


نہیں یار میں چھٹی والے دن آجایا کروں گا۔ پھر پورا دن ساتھ گزاریں گے۔


سب ایسے ہی بولتے ہیں احمد لوگ جب یہاں سے جا رہے تھے تو اس وقت وہ بھی ایسے ہی وعدے کر کے گیا تھا۔ چند مہینوں میں ہی بدل گیا اب عید پر بھی کچھ دیر کو ہی آتا ہے۔ تمہارے بعد تو یہاں میرا کوئی دوست بھی نہیں ہے یار۔


وہ تین دوست تھے بچپن سے لے کر لڑکپن ساتھ گزارا ساتھ اسکول جانا ساتھ کالج جانا ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آنا لوگ ان کی دوستی کی مثالیں دیتے تھے وہ شہر کے ایک نسبتاً غریب اور متوسط علاقے میں رہائش پذیر تھے۔


بدلتے وقت کے ساتھ انکا علاقہ رہائشی آبادی سے صنعتی علاقے میں تبدیل ہونے لگا ہر تیسرے چوتھے گھر میں چھوٹا سا کارخانہ کھلنے لگا اور اس کے ساتھ علاقے کے ماحول میں بھی تبدیلی آنے لگی کیونکہ کام کے سلسلے میں باہر کے لوگوں کی آمد و رفت بڑھنے لگی تھی۔ جن لوگوں میں استطاعت تھی وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور اچھا ماحول فراہم کرنے کی غرض سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونے لگے مگر جو بیچارے غریب انہوں نے ماحول سے سمجھوتہ کر لیا۔


اسکا تعلق بھی ایک غریب گھرانے سے تھا ماں کا بچپن میں انتقال ہوا تو باپ نے دوسری شادی کرلی۔ اس کی کفالت کی ذمہ داری اب اس کے بڑے بھائی کی تھی گھر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ لہذا وہ اپنی مرضی کا مالک اور آزاد تھا۔


دونوں دوستوں کے دوسرے علاقے میں شفٹ ہو نے کے بعد تو وہ بہت اکیلا اکیلا سا ہوگیا گھر میں دل نہیں لگتا اور باہر اسکا کوئی دوسرا دوست نہ تھا۔


وہ اپنے دوستوں سے روز رابطہ کرنے کی کوشش کرتا مگر اسکے دوست ہر بار کوئی بہانہ کر لیتے گھر والوں سے وقت گزارنے کی کوشش کرتا تو وہ مصروف ہونے باعث اسے وقت نہ دے پاتے۔ اور یوں کالج سے آنے کے بعد بلکل اکیلا رہ جاتا۔


دن یوں ہیں گزر رہے تھے ایک دن وہ اپنے گھر کے باہر کھڑا سامنے والے گھر میں مشین کا پہیہ گھومتے دیکھ رہا تھا کہ مشین چلانے والا کاریگر اس سے مخاطب ہوا۔


کیا سوچ رہے ہو کیا دوسرا پاکستان بنانے کا ارادہ ہے ؟


نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں بس بور ہو رہا ہوں۔


چلو فارغ وقت میں میرے پاس آجایا کرو اس طرح میرا وقت بھی اچھا گزر جائے گا۔


اسے مشوره اچھا لگا اور اس نے یہ اپنی عادت بنا لی جب فارغ وقت ہوتا وہ سامنے والے گھر میں موجود کار خانے میں چلے جاتا گھر والے بھی اس لئے مطمئن ہو جاتے کہ چلو سامنے ہی تو ہے۔ وقت گزرتا رہا ۔


کار خانے میں کام کرنے والے اکثر کاریگر تمباکو نوشی کرتے تھے وہ اکثر انہیں سگریٹ پینے سے منع کرتا۔


کاریگر ہنس کر اسے ٹال دیتے اور کہتے شہزادے ایک بار پی کے تو دیکھ تجھے خود پتا چل جائے گا۔


وہ کہتا کہ نہیں یہ اچھی عادت نہیں ہوتی۔


ارے ایک سے تھوڑی کچھ ہوتا ہے چل یہ لے پی کے دیکھ، مگر وہ انکار کر دیتا۔


اس کی معصومیت پر سب ہنس پڑتے اور وہ شرمندہ ہوجاتا۔


کاریگر کہتے تم بڑے ہو گئے ہو یا ابھی تک فیڈر پیتے ہو تمہاری عمر میں تو ہم نے کیا کیا نہیں کیا تم تو بلکل ہی ببلو ہو۔


ایک دن کارخانے میں کچھ زیادہ کام تھا جسکی وجہ سے کاریگر رات وہیں رک گئے، انہوں نے اسے بھی اپنے پاس بلا لیا اس کے لئے بھی اچھا موقع تھا رات کے لئے تفریح مل گئی۔


اچانک ہی وہ کہنے لگا کہ آج تم لوگوں کی سگریٹ سے کچھ عجیب سی بو آرہی ہے۔


شہزادے یہ اسپیشل سگریٹ ہے اس کو پینے سے جان بنتی ہے، انسان دیر تک جاگتا ہے اور زیادہ کام کرتا ہے۔


یہ لے تو بھی پی کے دیکھ رات ہے کسی کو کیا پتا چلے گا۔


رات کے اندھیرے کو اس نے اچھا موقع سمجھ کر سگریٹ پینے کا ارادہ کر ہی لیا، اور سوچا پی کے دیکھتا ہوں ایک سے کیا ہوتا ہے۔ ہمت کر کے اس نے سگریٹ منہ کو لگا ہی لیا۔


پھر تو اسے جیسے لت ہی لگ گئی۔ موقع ملتے ہی ایک دو سگریٹ مانگ کر چوری چھپے پی لیتا، آہستہ آہستہ یہ اس کی عادت بن گئی۔ اسے سگریٹ اپنے اکیلے پن کی دوست محسوس ہونے لگی، اس نے سگریٹ کے علاوہ دوسرے نشے بھی کرنا شروع کر دیئے۔


ایسی باتیں چھپتی کہاں ہیں، آخر اس کے گھر والوں کو پتا چل گیا۔ وہ اسے لاکھ سمجھتے کہ بیٹا تمہاری تعلیم کا متاثر ہو رہی ہے، یہ تمہارے لئے نقصان دہ ہے مگر وہ آئندہ نشہ نہ کرنے کا وعدہ کر کے ٹال دیتا۔ پہلے پڑھائی متاثر ہوئی پھر اس کی صحت، اب اسکا کسی اور کام میں دل ہی نہیں لگتا گھر والوں سے بہانے سے پیسے مانگتا، نہ دیتے تو چوری کرتا اور سارا پیسہ نشے میں اڑا دیتا۔ پڑھائی نا مکمل ہونے کی وجہ سے اسے کوئی نوکری بھی نہیں مل پائی۔


اس کے دوستوں تک یہ بات پہنچی تو دونوں اسے سمجھانے اس کے ساتھ وقت گزارنے آتے پہلے پہلے تو اس نے پرانے شکوے دہراے کہ مجھے تم لوگوں کی جب ضرورت تھی تب تم لوگوں کے پاس میرے لئے وقت نہیں تھا اور اب سمجھانے آگئے ہو۔ اب مجھے تم لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں اب بہت دیر ہو چکی تھی۔


اس کے دوست آتے بھی تو وہ بہانہ کر کے وہاں سے اٹھ جاتا۔ اس کا ساتھی تو بس نشہ تھا دوست گھر والے بھی ہمت ہار بیٹھے اب احساس ندامت کے سوا کچھ باقی نہیں بچا اور وہ نشے میں تنہا رہ گیا۔


نجائے اس جیسے کنتے نوجوان مختلف طریقوں سے اور دوسروں کے بہکاوے میں آکر اپنی زندگی تباہ کرلیتے ہیں۔ شاید اس میں ہمارا اپنا بھی قصور ہے۔ آج کل کے نفسہ نفسی کے دور میں ہر شخص اپنی زندگی سنوارنے میں مصروف ہے، لیکن ہماری تھوڑی سی توجہ سے اردگرد موجود ہزاروں لوگوں کی زندگیاں برباد ہونے سے بچ سکتی ہیں۔


آئیں عہد کریں کہ بحیثیت ایک قوم ہم سب ملک کر اس ملک کا مستقبل سنواریں گے اور منشیات کے استعمال سے ہر ممکن دوسروں کو دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں