عوامی احتجاج رنگ لے آیا کینیا کے صدر کا ٹیکسوں میں اضافے کے بل پر دستخط کرنے سے انکار

کینیا کے صدر نے امن و امان پر قابو پانے کیلیے فوج کی خدمات طلب کرلیں، جھڑپوں میں 20 مظاہرین ہلاک

فوٹو فائل

کینیا کے صدر نے شدید عوامی احتجاج کے بعد حکومت کی جانب سے بھیجے جانے والے ٹیکسوں میں اضافے کے بل پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔

خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایک روز قبل فنانس بل اور بجٹ میں مہنگائی بڑھنے پر مظاہرین نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا اور اس کے کئی حصوں کو آگ لگا دی تھی۔

صورت حال پر قابو پانے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے حکومت نے پولیس کے بعد فوج کی خدمات حاصل کیں تو صورت حال مزید کشیدہ ہوئی اور مختلف علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں فائرنگ سے 20 افراد ہلاک ہوئے۔


ابتدا میں تو حکومت نے پولیس کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی تاہم پُرتشدد مظاہروں اور مظاہرین کی پیش قدمی کی وجہ سے پولیس اہلکار پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے جس کے بعد مظاہرین نے پارلیمنٹ میں داخل ہوکر شدید ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور آگ لگائی تھی۔

کینیا کے صدر نے امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر فوج کو طلب کر کے تمام سرکاری عمارتوں کا کنٹرول اُس کے حوالے کرنے کا حکم جاری کردیا۔

مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے براہ راست گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں جبکہ سیدھی گولیاں لگنے کی وجہ سے 100 سے زائد زخمی ہوئے جن میں سے کچھ کی حالت تشویشناک ہے۔


مزید پڑھیں: کینیا میں مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافے پر ہنگامے؛ فوج طلب کرلی گئی

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے پٹرول بم پھینکے اور گولیاں چلائیں جس کے جواب میں پولیس اہلکاروں کو اپنے دفاع میں فائرنگ کرنا پڑی۔

اُدھر حکومت کا کہنا ہے کہ تقریباً 10 ٹریلین شلنگ ($ 78 بلین) کے قرض ادا کرنا ضروری ہیں جو کینیا کی قومی مجموعی پیداوار کا تقریباً 70 فیصد کے برابر ہے۔

عوامی دباؤ اور احتجاج کے بعد ویسے تو حکومت نے اشیایہ ضروریہ، موبائل سروسز پر عائد ٹیکس ختم کردیا جبکہ حکومت نے اب ایندھن کی قیمتوں اور برآمدی محصولات میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کینیا کی وزارت خزانہ نے 200 بلین شیلن کے بجٹ خسارے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

 

 

 
Load Next Story