پاکستانی کرکٹرز اور بیگمات کا ’’دم چھلا‘‘
بچپن میں ایک کہاوت سنا کرتے تھے، ''پڑھو گے، لکھو گے، بنو گے نواب، کھیلو گے کودو گے، ہوگے خراب''۔ تب تو خیر کیا سمجھ آنی تھی، سو عمل کا بھی کیا سوال۔ لیکن جب ہوش سنبھالا تو ان نادر خیالات کے موجد کو دل ہی دل میں خوب کوسا کہ پڑھے لکھے تو جوتیاں گھس رہے ہیں اور کھیلنے کودنے والوں کی لاٹری لگی ہے۔ یہاں عملی ''کھیل کود'' کی بات ہورہی ہے جس کے نواب یعنی پاکستان کرکٹ ٹیم آج کل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ٹی وی چینلز پر 'ہاٹ ٹاپک' بنی ہوئی ہے۔
یہ وہی ٹیم ہے جس کے انمول رتن چند ماہ پہلے کرکٹ کی تاریخ میں 'نئی تاریخ' رقم کرتے ہوئے پی ایم اے کاکول کی زینت بنے تھے۔ مقصد ''ٹیم بونڈنگ'' تھا جو اس مصرعے کی عملی تفسیر بن کر منتج ہوا کہ 'الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا'۔
کبھی ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی جان سمجھی جانے والی گرین شرٹس نے ورلڈ کپ جیسے اہم ترین ایونٹ میں گروپ مرحلے میں ہی بوریا بستر سمیٹ لیا۔ پہلے مائی باپ امریکا بہادر تو پھر روایتی حریف بھارت سے شکست کے بعد کینیڈا کو شکست دی۔ جیسے ہی قوم نے امید باندھی، ابرِ کرم نے امریکیوں کے حق میں برس کر انہہں آئرلینڈ کے خلاف ایک پوائنٹ دلوایا اور ہمارے ہیروز کو گھر کا راستہ دکھادیا۔
مبینہ اندرونی سازشوں، گروپنگ، ناقص حکمت عملی اور 'کاکولی ٹریننگ' کو مورد الزام ٹھہرانے والے کہیں کچھ بھول تو نہیں رہے؟ اگر جواب 'نہیں' ہے تو ماضی میں ٹیم کی کسی انٹرنیشنل سیریز کےلیے روانگی سے قبل کی وائرل ویڈیوز اور تصاویر ذہن میں لائیں جہاں ایئرپورٹ پر ان کے ساتھ ساتھ بیگمات بھی رخت سفر باندھے چل رہی ہوتی ہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا میں 34 کھلاڑیوں، معاون عملے اور آفیشلز کے علاوہ کھلاڑیوں کے خاندان کے 26 سے 28 افراد بھی موجود تھے۔ بیگمات و بچے تو ہر اول دستے میں شامل ہیں ہی لیکن کئی کے والدین اور بہن بھائی بھی ہمراہ تھے اور اس 'فیملی گیدرنگ' کےلیے پانچ ستارہ ہوٹل میں 60 کمرے بک کروائے گئے تھے۔
ان غیر مصدقہ اطلاعات کے علاوہ سابق وکٹ کیپر بیٹسمین عتیق الزمان کی ویڈیو دیکھ لیں جنہوں نے کم وبیش یہی تفصیلات بتاتے ہوئے شکوہ کیا کہ فیملیز کو بڑے ایونٹ میں آنے کی اجازت ہی کیوں دی جاتی ہے؟ 'چھوٹی سیریز میں سمجھ آتا ہے کہ بیگم جان نہیں چھوڑتی'۔
سوال یہ ہے کہ جب ایک ملازم آٹھ گھنٹے کےلیے دفتر جاتا ہے یا کاروباری و دیگر شخصیات پروفیشل مصروفیات کے حوالے سے بیرون ملک جاتی ہیں تو کیا بیگمات کے 'پلو سے بندھنے' کےلیے انہیں بھی ساتھ رکھتی ہیں؟ پاکستان کرکٹ ٹیم کےلیے یہ مہربانی کیوں؟ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے یہ کھلاڑی جب ملک کےلیے کھیلنے جاتے ہیں تو لامحالہ آدھی توجہ تو بیوی بچے سمیٹ لیتے ہیں جنہیں نئی جگہ کی سیر بھی کروانا ہوتی ہے اور 'ٹائم' بھی دینا ہوتا ہے، پھر جب گراؤنڈ میں اترنے کی بات آتی ہے تو کسی کی نیند پوری نظر نہیں آتی تو کوئی شاید وہاں بھی 'تصورِ بیگم'' کیے کھڑا رہتا ہے۔ ناقص فیلڈنگ کی تو بات ہی نہ کریں کیونکہ یقینی کیچ کے مواقع گنوانے پر شاید مالا مال کرنے کی کوئی خفیہ اسکیم رکھی گئی ہے جس کے لالچ میں ہر کوئی دوسرے سے سبقت لینے کے چکر میں نظر آتا ہے۔
ایگزیکٹیوز کے فیصلوں کو چیلنج کیے بغیر ہمارا معصومانہ سا مطالبہ یہ ہے کہ بھئی فیملیز کو ضرور لے کر جائیں یہ ان کا حق بنتا ہے لیکن تب جائیں جب آپ کوئی سیریز نہ کھیل رہے ہوں۔ سیدھا سا فارمولا ہے کہ اپنی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی کو علیحدہ علیحدہ رکھیں تاکہ پورا دھیان کھیل کی جانب ہو اور ٹیم میں وہی جذبہ دکھائی دے جو ہم عرصے سے دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔ کاش پی سی بی شائقین کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے اب سے بیرونی دوروں کےلیے بیگمات کے ساتھ جانے پر پابندی عائد کردے تو شاید یہی اقدام قومی ٹیم کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کےلیے کارگر ثابت ہو۔
چلتے چلتے یہ بھی جان لیں کہ کرکٹ بورڈ ایسی غیر تصدیق شدہ رپورٹس کے پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کررہا ہے۔ 'دل جلے شائقین' تو سوشل میڈیا پر بھڑاس نکال ہی لیا کریں گے لیکن میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کو اب کسی بھی اہم میچ میں شاہینوں کی شکست کے بعد اپنے 'بدلے جذبات و حالات' کو قابو میں رکھتے ہوئے منہ بند رکھنا پڑے گا کیونکہ پی سی بی حال ہی میں ڈیجیٹل میڈیا اور ہتک عزت کے قوانین سے متعلق پنجاب حکومت کے منظور کردہ بل کو ڈیجیٹل اور مین اسٹریم میڈیا کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یعنی وہ لوگ پکڑ میں آئیں گے جو کھلاڑیوں کی مبینہ بدعنوانی یا ان سے متعلق انتہائی ذاتی تبصرے کرتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی سے منظورشدہ اس قانون کے تحت کسی بھی عوامی شخصیت پر ایسے الزامات عائد کرنے پر، جن سے اسے عوامی ردعمل کا خطرہ لاحق ہو تو اسے بھاری جرمانے سمیت قید بھی ہوسکتی ہے۔ تو دل جلے شائقین اور میڈیا والے بس اب سے میچ دیکھنا چھوڑ دیں یا زبان بندی سیکھ لیں کیونکہ شاہینوں کا بسیرا تو بہرصورت چٹانوں پر ہی ہونا ہے، سو آپ اپنی خیر منائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔