بھارت میں ہندی کا نفاذ

مجھے یقین ہے نریندر مودی کی حکومت پر انتہا پسند ہندوئوں کا دبائو نہیں تو ترغیب ضرور د ہے

مجھے یقین ہے نریندر مودی کی حکومت پر انتہا پسند ہندوئوں کا دبائو نہیں تو ترغیب ضرور د ہے کہ بھارت میں ہر سطح پر ہندی زبان رائج کی جائے۔ بی جے پی میں کئی آزاد خیال لیڈر بھی ہیں جن کو احساس ہے کہ ہندی زبان اختیار کرنے کا عمل بتدریج اور دھیرے دھیرے ہونا چاہیے تا کہ تنوع میں بھی یکجہتی قائم رہے۔ مودی کی حکومت کے پہلے پندرھواڑے میں مرکزی حکومت کے دفاتر کو ایک مراسلہ موصول ہوا ہے جس میں ہدایت کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا میں ہندی زبان کا استعمال کیا جائے۔

یہ عقبی دروازے سے داخلے کی ایک کوشش ہے۔ جن ریاستوں میں ہندی نہیں بولی جاتی انھوں نے اس بات کا بطور خاص نوٹس لیا ہے اور اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ مرکزی حکومت نے فوری طور پر اپنا یہ اقدام واپس لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ گشتی مراسلہ صرف ان ریاستوں کے لیے ہے جہاں ہندی بولی جاتی ہے۔بھارت میں 1950ء کی دہائی کے اواخر اور 1960ء کی دہائی کے اوائل میں زبان کے حوالے سے بہت خونریز فسادات ہو چکے ہیں۔ اس وقت بھی وزارت داخلہ نے مختلف محکموں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ انگریزی سے ہندی زبان کو منتقلی کی تیاریاں شروع کر دیں جس کا کہ بھارت کے آئین میں وعدہ کیا گیا ہے۔

لسانی فسادات جنوبی ریاستوں میں ہوئے اور تامل ناڈو میں ایک شخص نے احتجاج کرتے ہوئے خود کو زندہ جلا لیا۔ حتیٰ کہ اس ریاست کی علیحدگی کا پرانا نعرہ پھر سے تازہ ہو گیا۔اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اس بات پر بہت ناخوش تھے، لیکن انھوں نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ البتہ انھوں نے پارلیمنٹ کے ایوان میں یہ یقین دہانی کرائی کہ اس وقت تک ہندی زبان اختیار نہیں کی جائے گی جب تک ہندی نہ بولنے والے لوگ بھی اسے وفاقی انتظامیہ کی زبان کے طور پر اختیار کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو جائیں۔ اس بیان سے ہندی کے نفاذ کی کوشش کرنے والوں کو مایوسی ہوئی لیکن قوم نے مجموعی طور پر سکھ کا سانس لیا۔

بلاشبہ مودی خود ہندی بولنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ اور لوک سبھا کے انتخابات میں ان کی بہت بھاری اکثریت میں کامیابی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم ہندی زبان میں چلائی جب کہ شمالی ہند میں تھوڑی بہت سنسکرت بھی استعمال کی۔ لیکن انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ نہرو نے 1963ء میں وعدہ کیا تھا کہ رابطے کی زبان کے طور پر پورے ملک کی انتظامیہ میں ہندی اور انگریزی دونوں زبانیں استعمال کی جائیں گی۔ انھوں نے ہندی کے خصوصی استعمال کے لیے کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہیں کی تھی۔

ہندی نہ بولنے والی ریاستیں بالخصوص تامل ناڈو نے تسلیم کر لیا ہے کہ ہندی بھارت کی وفاقی زبان ہوگی جس کا کہ آئین میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ انھیں ہندی زبان سیکھنے کا وقت دیا جائے تا کہ وہ بھی ہندی بولنے والی ریاستوں مثلاً اترپردیش' مدھیہ پردیش یا راجستھان وغیرہ کے لوگوں کے معیار کی ہندی بول اور سمجھ سکیں۔کیرالہ' تامل ناڈو' آندھرا پردیش اور کرناٹک سے تعلق رکھنے والے بعض امیدواروں نے جن کی مادری زبان ہندی نہیں مقابلے کے امتحانوں میں نہایت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج کا بھارت 50 سال پہلے والے بھارت سے بہت مختلف ہے کیونکہ اب ہر زبان بولنے والے اپنی الگ شناخت پر زور دے رہے ہیں۔


ریاستوں کی تنظیم نو کے عمل سے خاصی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جس سے بھارت کے بنیادی نظرئیے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر لوگوں کے حساس جذبات کا خیال نہ رکھا گیا تو پورا معاشرتی ڈھانچہ تہس نہس ہو جائے گا۔ آخر اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت ہے؟ چند اور دہائیاں گزر جانے دیں' قومی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی خاطر تھوڑا سا انتظار کوئی زیادہ بڑی قیمت نہیں ہے۔مجھے یاد آتا ہے کہ ہندی زبان کے انتہا پسند حامیوں نے انگریزی زبان ترک کرنیوالوں کے لیے ملازمتوں کے کوٹے کی پیش کش کی تھی۔

یہ پیشکش سابق اسپیکر پرشوتم داس ٹنڈن نے کی تھی جن کا تعلق اترپردیش سے تھا لیکن کیرالہ میں ایک رکن اسمبلی نے اس کا خوب مذاق اڑایا اور انتباہ کیا کہ وہ سیلاب کے دروازے نہ کھولیں ورنہ ہر میدان میں کوٹے مقرر کرنے کا مطالبہ شروع ہو جائے گا۔ بھارتی آئین میں 22 زبانوں کو ان کے رسم الخط سمیت سرکاری زبان تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہندی بھی انگریزی کے ساتھ ساتھ رابطے کی زبان ہے لیکن باقی کی 22 زبانیں بھی قومی زبانیں ہیں۔ اس بات کو لینگوئج کمیشن پر بنائی جانے والی پارلیمانی کمیٹی نے بھی تسلیم کیا تھا اگرچہ اس کمیٹی نے ہندی کو پرنسپل لینگوئج کا درجہ دیا جب کہ انگریزی کو اضافی زبان قرار دیا۔

میری اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت تک ''اسٹیٹس کو'' برقرار رکھا جانا چاہیے جب تک کہ قوم کسی دوسرے فارمولے پر متفق نہیں ہو جاتی۔ مودی کی طرف سے ہندی زبان اختیار کرنے کی رائے نے خطرہ پیدا کر دیا ہے دریں اثناء ہندی کی متعصبانہ شدت سے حمایت کرنیوالوں کو صبر و تحمل سے انتظار کرنا چاہیے جب تک پورے ملک کے لوگ اس زبان میں دسترس حاصل نہ کر لیں۔ ہندی پہلے ہی تامل ناڈو کے سوا دیگر تمام ریاستوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ مختلف ریاستوں سے ملازمتیں حاصل کرنے کے امیدوار ہندی کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔

فلموں نے اس زبان کو پورے ملک میں پھیلا دیا ہے اور جنوبی ہند میں بھی آپ ہندی میں (جسے ہندوستانی زبان بھی کہا جاتا ہے) کسی سے بھی بات چیت کر سکتے ہیں۔ محض مزید چند سالوں میں ہم دیکھیں گے کہ غیر ہندی آبادی بھی یہ زبان روانی سے بول رہی ہے۔واضح رہے زبان ایک بہت موثر طاقت ہے۔ بنگالی زبان پر اردو کی ترجیح نے بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اب بلوچی زبان کے ساتھ جو (مبینہ طور پر) سوتیلی ماں کا سلوک کیا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں خود مختار بلوچستان کا مطالبہ ابھرا ہے۔حقیقت میں حکمرانوں کو اس بات کی پریشانی ہونی چاہیے کہ پنجابی جیسی قومی زبانوں کو کیسے بچایا جائے جسے کہ پنجابی گھروں میں بھی ترک کیا جا رہا ہے۔

نئی نسل اپنی مادری زبان سے لاتعلق ہو چکی ہے۔ ان کے لیے انگریزی ہی ان کی مادری زبان ہے جس سے کہ ان کے ملازمت حاصل کرنے کے امکانات روشن ہوتے ہیں اور اسی کے ذریعے وہ اپنا روز گار بہتر طور پر حاصل کر سکتے ہیں۔ ورثے کا تعلق زبانوں سے ہوتا ہے۔ لہٰذا ملک کے تمام لیڈروں کو ایسے طریقے اختیار کرنا چاہئیں کہ تمام علاقائی زبانیں بھی محفوظ رہ سکیں۔ کیونکہ عدم تحفظ کے باعث بہت سی زبانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ آج سے پچاس سال بعد کتنی زبانیں باقی رہ پائیں گی؟ اس کا تو بس اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story