پنجاب حکومت اور اخلاقی برتری

سرائیکی زبان کے عظیم شاعر خواجہ غلام فرید نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ دل اسے دینا چاہیے جو اس کی قدر پہچان سکے۔

nusrat.javeed@gmail.com

DUBAI:
میرا تعلق صحافیوں کی اس نسل سے ہے جس نے ہمارے شعبے کے بہت ہی گرانقدر ناموں کی رہنمائی میں برسوں تک پھیلی اذیت، مشقت اور جدوجہد کے ذریعے اس ملک میں کھل کر بولنے اور لکھنے کا حق حاصل کیا تھا۔ اپنے بعد صحافت میں آنے والوں سے مجھے اس شعبے کے لیے کشادگی کی نئی راہیں دریافت کرنے کی توقع تھی۔ بدقسمتی سے ان کی اکثریت مگر صحافت تک محدود رہنے کے بجائے اصلاح معاشرہ کے نیک کام میں مصروف ہو گئی ہے۔

سرخی پائوڈر کی مہربانی سے مشہور ہوئے ''اسٹار'' صحافی بڑی بے چینی سے ان ''تیز رو'' افراد کی تلاش اور بعدازاں پروموشن میں مصروف رہتے ہیں جو ٹی وی کیمروں کے سامنے بڑھک باز اداکاروں کی طرح بیٹھ کر خلقِ خدا کو انقلاب برپا کرنے کے لیے اُکساتے رہتے ہیں۔ ایسے چرب زبان انقلابیوں کی آمد کے انتظار میں 12 سے زیادہ افراد اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔ مگر جب وہ خود ہوائی جہاز کی فرسٹ کلاس میں بیٹھ کر پاکستان تشریف لاتے ہیں تو اس وقت تک طیارے سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہوتے جب تک کہ پنجاب کے گورنر ان کی سواری کے لیے بلٹ پروف جیپ کی فراہمی کو یقینی نہیں بنا دیتے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی۔ ہمارے انقلابی رہنما کی زندگی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے چوہدری سرور صاحب ایک بے بس یرغمالی کی طرح کئی گھنٹے تک ان کے ساتھ بھی موجود رہتے ہیں۔

سرائیکی زبان کے عظیم شاعر خواجہ غلام فرید نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ دل اسے دینا چاہیے جو اس کی قدر پہچان سکے۔ ان کے اس شہرۂ آفاق شعر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اکثر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ صحافتی اداروں کے مالکان اور مدیر کسی طرح باہم مل کر صرف ایک وعدہ کر لیں کہ ان کے صفحات اور ٹی وی اسکرینوں کو استعمال کرنے سے پہلے نئے صحافیوں کی کھیپ نے کم از کم ضمیر نیازی صاحب کی وہ تمام کتابیں غور سے پڑھ رکھی ہوں جن میں انھوں نے اس ملک میں آزادیٔ صحافت کے لیے کئی برسوں تک پھیلی جدوجہد کی داستان رقم کر رکھی ہے۔

صحافت اور اظہار کی آزادی کی فکر صرف میرے جیسے دیوانوں کو لاحق ہوا کرتی ہے۔ سیاستدان اس کی قدر کر ہی نہیں سکتے۔ ان کے DNA میں ''جہیڑا جتّے اودھے نال'' والا رویہ جبلت کی صورت موجود ہوتا ہے۔ صدر ایوب ہوں یا بالآخر جنرل مشرف، اس ملک کے ہر فوجی آمر نے احتساب کے نام پر پرانے سیاستدانوں سے جان چھڑا کر نیک پاک، مخلص اور اہل سیاستدانوں کی ایک نئی نسل کو نام نہاد Grassroots یعنی بلدیاتی جمہوریت کے عمل کے ذریعے پاکستان کو ''حقیقی جمہوری مملکت'' بنانے کا وعدہ کیا۔

برطانوی راج کے دنوں سے ہمارے اوپر مسلط مخدوموں، رانوں، چوہدریوں اور سرداروں وغیرہ نے ان آمروں کی سرپرستی میں اپنی ہی اولادوں کو ''میرے حلقے'' میں مضبوط سے مضبوط تر بنایا۔ ''احتساب'' کے نام پر لگائی پابندیوں نے صرف سوچنے سمجھنے والوں کو ہماری بقاء، سلامتی اور خوش گوار مستقبل کے حوالے سے چند بنیادی سوالات اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ ذہنی اور فکری اعتبار سے قوم مفلس سے مفلس تر ہوتی چلی گئی۔ دولے شاہ کے چوہوں میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔ سیاستدانوں کو پھر بھی رحم نہیں آتا لیکن ان سے کہیں زیادہ بے دریغ اور سفاک وہ Stars ہیں جو آزادیٔ اظہار کی بدولت ان دنوں ہرے بھرے نظر آنے والے پیڑوں کی شاخوں پر بیٹھے انھیں لفظوں کے کلہاڑے سے کاٹتے رہتے ہیں۔


کسی گاڑی میں بیٹھ کر آپ اپنی منزل کی جانب خیر و عافیت سے پہنچ ہی نہیں سکتے اگر وقتاََ فوقتاََ بیک مرر کے ذریعے پیچھے کی ٹریفک پر کڑی نگاہ نہ رکھیں۔ آزادیٔ اظہار کے حوالے سے جنرل ضیاء کا دور آج کے دنوں کے مقابلے میں زیادہ حبس زدہ تھا۔ جس کے اس جمود کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے 10 اپریل 1986ء کی صبح لاہور ایئرپورٹ پر ایک طویل جلاوطنی کے بعد آمد کے ذریعے پاش پاش کر کے رکھ دیا۔

وہ مگر یہ سفر اختیار کر ہی نہ سکتیں اگر اس وقت پاکستان میں محمد خان جونیجو مرحوم جیسا وزیر اعظم موجود نہ ہوتا جو بذاتِ خود فوجی آمر کے سائے میں بیٹھ کر منتخب جمہوری حکومتوں کے شجر کی نمو کی کوششوں میں مبتلا تھا۔ جونیجو مرحوم نے بڑی جرأت سے محترمہ کو لاہور ایئرپورٹ سے مینارِ پاکستان تک ایک تاریخی ہجوم کی معیت میں خیر و عافیت سے پہنچ جانا ممکن بنایا۔ بعدازاں محترمہ نے ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں میں پرہجوم جلسے جلوس بھی کیے۔ کوئی انقلاب وغیرہ برپا نہ ہوا۔

پھر محمد خان جونیجو نے فیصلہ کیا کہ 14 اگست 1986ء کے موقع پر وہ مینارِ پاکستان پر ایک جلسے سے خطاب کے ذریعے قوم کو پاکستان میں جمہوریت کی بحالی پر مبارک باد دیں گے۔ ایم آر ڈی میں ان دنوں محترمہ کے اردگرد چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے کئی ''انقلابی'' جمع ہو چکے تھے۔ انھوں نے محترمہ کو مجبور کر دیا کہ وہ جونیجو صاحب کے Show کو ناکام بنانے کے لیے موچی دروازہ کی تاریخی جلسہ گاہ میں 14 اگست ہی کے روز ایک جلسے کا اعلان کر دیں ۔ انھوں نے یہ اعلان کر دیا تو اسلام آباد میں تھرتھلی مچ گئی۔

یہ بات عیاں ہوگئی کہ جونیجو مرحوم اور محترمہ نے ایک ہی دن لاہور میں جلسے کیے تو دونوں کے پرجوش حامیوں کے درمیان کہیں نہ کہیں فساد ضرور برپا ہو جائے گا۔ یہ فساد خون خرابے کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ فساد کے ان امکانات کو ناممکن کیسے بنایا جائے؟ جونیجو مرحوم نے اس ضمن میں اپنے سیاسی ساتھیوں سے مشاورت شروع کر دی۔ ان دنوں وہ چوہدری انور عزیز، قاضی عابد اور زین نورانی کے مشوروں کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے۔ ان تینوں نے الگ الگ وزیر اعظم جونیجو کو اس بات پر قائل کر دیا کہ وہ اپنا 14 اگست 1986ء والا جلسہ منسوخ کر دیں۔

اپنے دل سے اس بات کو مان لینے کے بعد جونیجو مرحوم نے کابینہ کا ایک باقاعدہ اجلاس بلایا۔ وہاں موجود وزیروں کی اکثریت نے اصرار کیا کہ اگر وزیر اعظم نے یہ جلسہ منسوخ کر دیا تو پیپلزپارٹی کو بھرپور نفسیاتی فتح مل جائے گی۔ آپ کو شاید یہ بات عجیب لگے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کو اس جلسے کے اعلان پر قائم رہنے کے لیے سب سے زیادہ مجبور اس وقت کے DGISI مرحوم جنرل اختر عبدالرحمن کرتے رہے۔ ان کی بار بار مداخلت سے تنگ آ کر اپنے زمانے کے ایک بڑے ہی دبنگ سیکریٹری داخلہ ایس کے محمود انگریزی میں وزیر اعظم کے سامنے یہ بات برملا کہنے پر مجبور ہو گئے کہ لاہور میں 14 اگست 1986ء کے دن دو جلسوں کی وجہ سے کوئی فساد ہوا تو بالآخر فائدہ مرحوم اختر عبدالرحمن کے ''اصل ادارے'' کو جائے گا۔

جونیجو صاحب نے ان کی بات فوراََ سمجھ لی۔ ٹی وی پر آ کر اپنے مینارِ پاکستان والے جلسے کی منسوخی کا اعلان کر دیا۔ محترمہ کو اپنی بات پر ڈٹ جانے کو چھوٹی جماعتوں سے آئے انقلابیوں نے مجبور کر دیا۔ نتیجتاًلاہور کے موچی دروازے میں ان کا جلسہ تو نہ ہوا مگر وہاں پولیس فائرنگ سے چار جانیں ضرور ضایع ہو گئیں۔ لوگ جانوں کی اس ضیاع کو فوراََ بھول بھال گئے کہ جونیجو مرحوم نے فساد خلق کو روکنے کی خاطر جھک جانے میں پہل کی تھی۔ اخلاقی برتری نے ان کی حکومت کو بلکہ مضبوط تر بنا دیا۔ کاش کہ پنجاب کے گڈ گورننس والے 17 جون کے واقعے کے بعد کسی صورت اپنے لیے اخلاقی برتری کی کوئی صورت ڈھونڈنے کی سنجیدہ کوشش کرتے اور ہمیں 23 جون کے روز 12 گھنٹے کی Live TV Coverage سے نجات مل جاتی۔
Load Next Story