قبائلی جرگے نے آپریشن عزم استحکام کو عدم استحکام قرار دیا مولانا فضل الرحمان
افغانستان کو مستحکم ہونے کیوں نہیں دیا جارہا، معلوم ہوتا ہے بیرونی ایجنڈے پر عمل کیاجاتا ہے، سربراہ جمعیت علمائے اسلام
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی جانب سے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عزم استحکام کو قبائلی جرگے نے بھی عدم استحکام قرار دیا ہے اور اس پر عدم اعتماد کیا ہے۔
پشاور میں قبائلی جرگے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ یہ جرگہ عزم استحکام آپریشن سے قبل بلایا گیا تھا اور جرگے کے ایجنڈے پر عزم استحکام آپریشن شامل نہیں تھا، تاہم جرگے نے عزم استحکام کو عدم استحکام قرار دیا اور اس عدم اعتماد کیا۔
انہوں نے کہا کہ مسلح گروپوں کے لوگ کئی علاقوں تک پھیل چکے ہیں، مسلح گروپ ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں اور ناکے لگاتے ہیں، جنوبی اضلاع میں پولیس رات کے وقت تھانوں سے باہر نہیں آتی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سوات کے لوگوں نے قربانی دی گھر بدر ہوئے، نوجوان بےروزگار ہوچکے ہیں اور خواتین بھیگ مانگ رہی ہیں، مکمل تباہ مکان کے لیے 4 لاکھ روپے ٹوکن کے دیے گئے ابھی تک وہ پیسے نہیں ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ قبائلیوں کی چادر چاردیواری اور معاشی قتل کیا گیا، باڑ لگایا گیا اور 20 سے 30 ہزار لوگ سرحد پار گئے اور پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوکر لوگ واپس آئے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے معاملات عجلت سے طے نہیں ہوتے، پوچھا جائے ایسا کیوں ہو رہا ہے تو کہتے ہیں افغانستان سے لوگ آئے، افغانستان میں امریکی مفاد کی حکومتیں آئیں سوائے امارات اسلامیہ کے۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ایران سے دخل اندازی ہو تو معاملات ایک ہفتے میں ٹھیک ہوجاتے ہیں، ایسا رویہ افغانستان کے ساتھ کیوں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1980 سے لے کر افغانستان کا چپہ چپہ خون سے رنگا ہے، افغانستان کو کیوں مستحکم ہونے نہیں دیا جا رہا ہے، پھر معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی ایجنڈے پر عمل کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح تنظیموں کو پرامن راستہ دینے کا فیصلہ ہوا تھا، ہم تو آئین و قانون کے تحت پاکستان کو امارات اسلامیہ بنانا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میرے ملک میں حساسیت موجود ہے، ملاکنڈ میں صوفی محمد کی تحریک سے اختلاف نہیں تھا لیکن طریقہ کار ٹھیک نہیں تھا، عزم استحکام میرا درد سر نہیں، میں اب حکومت کو نہیں ملک کو مشکل سے نکالنا چاہتا ہوں۔
پشاور میں قبائلی جرگے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ یہ جرگہ عزم استحکام آپریشن سے قبل بلایا گیا تھا اور جرگے کے ایجنڈے پر عزم استحکام آپریشن شامل نہیں تھا، تاہم جرگے نے عزم استحکام کو عدم استحکام قرار دیا اور اس عدم اعتماد کیا۔
انہوں نے کہا کہ مسلح گروپوں کے لوگ کئی علاقوں تک پھیل چکے ہیں، مسلح گروپ ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں اور ناکے لگاتے ہیں، جنوبی اضلاع میں پولیس رات کے وقت تھانوں سے باہر نہیں آتی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سوات کے لوگوں نے قربانی دی گھر بدر ہوئے، نوجوان بےروزگار ہوچکے ہیں اور خواتین بھیگ مانگ رہی ہیں، مکمل تباہ مکان کے لیے 4 لاکھ روپے ٹوکن کے دیے گئے ابھی تک وہ پیسے نہیں ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ قبائلیوں کی چادر چاردیواری اور معاشی قتل کیا گیا، باڑ لگایا گیا اور 20 سے 30 ہزار لوگ سرحد پار گئے اور پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوکر لوگ واپس آئے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے معاملات عجلت سے طے نہیں ہوتے، پوچھا جائے ایسا کیوں ہو رہا ہے تو کہتے ہیں افغانستان سے لوگ آئے، افغانستان میں امریکی مفاد کی حکومتیں آئیں سوائے امارات اسلامیہ کے۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ایران سے دخل اندازی ہو تو معاملات ایک ہفتے میں ٹھیک ہوجاتے ہیں، ایسا رویہ افغانستان کے ساتھ کیوں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1980 سے لے کر افغانستان کا چپہ چپہ خون سے رنگا ہے، افغانستان کو کیوں مستحکم ہونے نہیں دیا جا رہا ہے، پھر معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی ایجنڈے پر عمل کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح تنظیموں کو پرامن راستہ دینے کا فیصلہ ہوا تھا، ہم تو آئین و قانون کے تحت پاکستان کو امارات اسلامیہ بنانا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میرے ملک میں حساسیت موجود ہے، ملاکنڈ میں صوفی محمد کی تحریک سے اختلاف نہیں تھا لیکن طریقہ کار ٹھیک نہیں تھا، عزم استحکام میرا درد سر نہیں، میں اب حکومت کو نہیں ملک کو مشکل سے نکالنا چاہتا ہوں۔