افراتفری خوف و ہراس کا کلچر
کراچی کے عوام برسوں سے جس خوف و دہشت کا شکار ہیں یہ خوف اب ایک نفسیاتی بیماری میں بدل گئے ہیں
NEW DELHI:
کراچی کے عوام برسوں سے جس خوف و دہشت کا شکار ہیں یہ خوف اب ایک نفسیاتی بیماری میں بدل گئے ہیں، ایک خبر اڑتی ہے کہ فلاں علاقے میں کسی سیاسی پارٹی کے کچھ کارکن یا رہنما قتل کر دیے گئے ہیں تو پورے شہر میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ عزیز دوست سخت گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں دکانیں، بازار، مارکیٹیں، دفاتر دھڑا دھڑ بند ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔
خوف زدہ عوام بس اسٹاپوں کی طرف بھاگنے لگتے ہیں لیکن ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوتی ہے لوٹ مار کے عادی کچھ ٹیکسی اور رکشے سڑکوں پر نظر آتے ہیں جس فاصلے کا کرایہ 50 روپے ہوتا ہے اس افراتفری میں یہ کرایہ بڑھ کر 200 روپے تک پہنچ جاتا ہے بھاری جیب والے یہ کرایہ ادا کر کے گھروں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں لیکن عوام کی بھاری اکثریت میلوں دور اپنے گھروں کی طرف پیدل چل پڑتی ہے۔
مرد بھی خواتین بھی جوان بھی بوڑھے بھی سب کے اعصاب پر خوف سوار رہتا ہے گھروں میں ان کے خیریت سے پہنچنے کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے دور دراز واقع گھروں کو جانے کے بجائے کسی قریبی عزیز یا دوست کے گھر پناہ لیتے ہیں۔ پٹرول پمپ بند ہونے سے بہت سی کاریں اور بائیک راستوں میں کھڑی ہو جاتی گاڑیوں کو اللہ کے حوالے کرنا اور پیدل گھروں کو جانا یہ وہ عذاب ہیں جن کا سامنا اس شہر کے عوام برسوں سے کر رہے ہیں۔ ایسے موقعوں پر خوفزدہ عوام کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا پولیس بھی سڑکوں سے غائب ہو جاتی ہے۔
شادی بیاہ اور دیگر تقاریب کینسل ہو جاتی ہیں۔ انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں 17 جون کو آرٹس کونسل میں ہمارے افسانوی مجموعے ''ریگ زار'' کی تقریب اجرا مقرر تھی دعوت نامے بٹ چکے تھے اخبارات میں خبریں لگ چکی تھیں تقریب کا وقت 5 بجے شام تھا کہ اچانک 2 بجے شہر افواہوں کی زد میں آ گیا دکانیں بازار بند ہونے لگے دفاتر اور کاروباری علاقوں سے لوگ گھروں کی طرف دوڑیں لگانے لگے ہم گھر پر آرٹس کونسل جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ برادرم صبا اکرام کا فون آیا۔
سارا شہر بند ہو رہا ہے ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہے لوگ افراتفری میں گھروں کا رخ کر رہے ہیں آج کا پروگرام ملتوی کرنا پڑے گا ہم نے کچھ اور دوستوں اور تقریب کے مقررین سے مشورہ کیا سب نے یہی رائے دی کہ ایسے حالات میں تقریب کا انعقاد ممکن نہیں اسے ملتوی کر دیجیے سو ہم نے تقریب کی صدارت کرنیوالے سحر انصاری سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان کے تینوں موبائل بند جا رہے تھے۔ آرٹس کونسل کی استقبالیہ کی ذمے دار شاہدہ اسرار سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ آج کی تقریب کی منسوخی کا نوٹس لگا دیں جانے اس دن ہونے والی کتنی تقریبیں منسوخ ہو گئی ہوں گی اور منتظمین کو کس قدر ذہنی اذیت اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں جس کا سامنا کراچی کے عوام کو بار بار کرنا پڑتا ہے انتظامیہ کی ذمے داری کیا بنتی ہے؟ اس قسم کی ہنگامی صورت حال کو کنٹرول کرنے کی بنیادی ذمے داری پولیس کی ہوتی ہے اور پولیس ایسے موقعوں پر سڑکوں سے غائب ہو جاتی ہے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا صحیح اطلاعات فراہم کر کے عوام کو اس افراتفری سے بچا سکتا ہے لیکن میڈیا شہر میں پیدا ہونے والی افراتفری کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے خوف و ہراس میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ محکمہ اطلاعات چاہے تو میڈیا کی اعانت سے اس افراتفری کو کنٹرول کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن اس محکمے کی کارکردگی وزراء کی پبلسٹی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر ایک دن شہر بند ہو تو اربوں روپوں کا نقصان ہوتا ہے اور عوام بے پناہ مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ آئے دن شہر بند ہو جاتا ہے اور بند کرانیوالے ایسے منظم اور جارحانہ انداز میں شہر کو بند کراتے ہیں کہ ان کے کردار پر حیرت ہوتی ہے۔ اگر کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کو ہڑتال کروانا ہو تو ایک دن سے پہلے ہی سر شام سے شدید ہوائی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
بچے بڑے سہم جاتے ہیں اور عوام اگلے ایک دو روز کی خریداری میں مصروف ہو جاتے ہیں مجاہدوں کے ٹی ٹی بردار دستے دکانیں بازار بند کرانے کے لیے خوف و ہراس پھیلانے لگتے ہیں ٹرانسپورٹ کو خوفزدہ کرنے کے لیے ایک رات پہلے ہی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ٹی وی اسکرین پر اسکولوں کے بند ہونے اور امتحانات کے ملتوی ہونے کے اعلانات شروع ہو جاتے ہیں نوجوان گیند اور بلے لے کر سنسان سڑکوں پر آ جاتے ہیں فٹ پاتھوں پر شوقین حضرات تاش کھیلنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا کارکن یا رہنما ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن جاتا ہے تو اس جماعت کے کارکنوں کو صدمہ پہنچتا ہے لیکن اس قسم کے صدمات کا اظہار مہذب معاشروں میں نہ گاڑیاں جلا کر کیا جاتا ہے نہ اندھا دھند ہوائی فائرنگ کر کے کیا جاتا ہے نہ بندوق کی نوک پر شہر کو بند کروا کر کیا جاتا ہے بلکہ مکمل طور پر پرامن احتجاج کر کے کیا جاتا ہے۔ ا نہ گاڑیاں جلائی جاتی ہیں نہ ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے نہ ڈنڈوں اور ٹی ٹیوں سے مسلح دستوں کے ذریعے دکانیں اور بازار بند کرائے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ گاڑیاں جلانے شہر بند کرانے سے کس کا نقصان ہوتا ہے کس کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ انسانی جان کے نقصان سے بڑا کوئی نقصان نہیں ہوسکتا لیکن اس نقصان کا ازالہ کیا اندھا دھند ہوائی فائرنگ لٹھ اور ٹی ٹی بردار جتھوں کے ذریعے شہر بند کروا کر یا قیمتی گاڑیاں جلا کر کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جس پر ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے انھیں پرامن زندگی گزارنے کے مواقع مہیا کرنے کی ذمے دار ہوتی ہیں لیکن یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی اور قومی المیہ ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی اور سماجی جرائم سکھانے اور تشدد کی طرف مائل کرنے کا منفی کردار ادا کر رہی ہیں۔
حکمران جماعت پر یہ ذمے داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام میں سیاسی اور سماجی شعور پیدا کرنے کے لیے منظم اور منصوبہ بند طریقے سے کام کرے اور اس مقصد کے لیے میڈیا سمیت ہر ذرائع ابلاغ سے کام لے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہے اور اپوزیشن حکومت کے خلاف نفرت کا پرچار کر رہی ہے محترم وزراء اس حوالے سے اگر داداؤں کی زبان استعمال کر رہے ہیں تو اپوزیشن ان حوالوں سے حکومت کو ملاحیاں سنا رہی ہے جس کا براہ راست منفی اثر سیاسی کارکنوں اور عوام پر پڑ رہا ہے اور اس کلچر کی وجہ تشدد میں اضافے کے ساتھ عوام کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور مصیبت کے وقت ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے بجائے خودغرضی اور علیحدگی کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔
کراچی برسوں سے جس انارکی اور افراتفری خوف و دہشت کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی ذمے داری سیاسی قیادت اور حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے افواہوں پر مبنی ہنگامی صورتحال اور افراتفری پر قابو پانا کوئی مشکل کام نہیں اگر انتظامیہ اور میڈیا اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کریں اور ایک منظم اور مربوط طریقے سے افراتفری کو روکنے اور سیاسی قیادت ہڑتالوں اور یوم سوگ کے پرتشدد طریقوں کے بجائے اپنے جذبات کا اظہار پرامن اور شریفانہ طریقوں سے کرنا سیکھ لے جو مہذب قوموں کا طرۂ امتیاز اور طریقہ کار ہے۔
کراچی کے عوام برسوں سے جس خوف و دہشت کا شکار ہیں یہ خوف اب ایک نفسیاتی بیماری میں بدل گئے ہیں، ایک خبر اڑتی ہے کہ فلاں علاقے میں کسی سیاسی پارٹی کے کچھ کارکن یا رہنما قتل کر دیے گئے ہیں تو پورے شہر میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ عزیز دوست سخت گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں دکانیں، بازار، مارکیٹیں، دفاتر دھڑا دھڑ بند ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔
خوف زدہ عوام بس اسٹاپوں کی طرف بھاگنے لگتے ہیں لیکن ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوتی ہے لوٹ مار کے عادی کچھ ٹیکسی اور رکشے سڑکوں پر نظر آتے ہیں جس فاصلے کا کرایہ 50 روپے ہوتا ہے اس افراتفری میں یہ کرایہ بڑھ کر 200 روپے تک پہنچ جاتا ہے بھاری جیب والے یہ کرایہ ادا کر کے گھروں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں لیکن عوام کی بھاری اکثریت میلوں دور اپنے گھروں کی طرف پیدل چل پڑتی ہے۔
مرد بھی خواتین بھی جوان بھی بوڑھے بھی سب کے اعصاب پر خوف سوار رہتا ہے گھروں میں ان کے خیریت سے پہنچنے کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے دور دراز واقع گھروں کو جانے کے بجائے کسی قریبی عزیز یا دوست کے گھر پناہ لیتے ہیں۔ پٹرول پمپ بند ہونے سے بہت سی کاریں اور بائیک راستوں میں کھڑی ہو جاتی گاڑیوں کو اللہ کے حوالے کرنا اور پیدل گھروں کو جانا یہ وہ عذاب ہیں جن کا سامنا اس شہر کے عوام برسوں سے کر رہے ہیں۔ ایسے موقعوں پر خوفزدہ عوام کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا پولیس بھی سڑکوں سے غائب ہو جاتی ہے۔
شادی بیاہ اور دیگر تقاریب کینسل ہو جاتی ہیں۔ انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں 17 جون کو آرٹس کونسل میں ہمارے افسانوی مجموعے ''ریگ زار'' کی تقریب اجرا مقرر تھی دعوت نامے بٹ چکے تھے اخبارات میں خبریں لگ چکی تھیں تقریب کا وقت 5 بجے شام تھا کہ اچانک 2 بجے شہر افواہوں کی زد میں آ گیا دکانیں بازار بند ہونے لگے دفاتر اور کاروباری علاقوں سے لوگ گھروں کی طرف دوڑیں لگانے لگے ہم گھر پر آرٹس کونسل جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ برادرم صبا اکرام کا فون آیا۔
سارا شہر بند ہو رہا ہے ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہے لوگ افراتفری میں گھروں کا رخ کر رہے ہیں آج کا پروگرام ملتوی کرنا پڑے گا ہم نے کچھ اور دوستوں اور تقریب کے مقررین سے مشورہ کیا سب نے یہی رائے دی کہ ایسے حالات میں تقریب کا انعقاد ممکن نہیں اسے ملتوی کر دیجیے سو ہم نے تقریب کی صدارت کرنیوالے سحر انصاری سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان کے تینوں موبائل بند جا رہے تھے۔ آرٹس کونسل کی استقبالیہ کی ذمے دار شاہدہ اسرار سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ آج کی تقریب کی منسوخی کا نوٹس لگا دیں جانے اس دن ہونے والی کتنی تقریبیں منسوخ ہو گئی ہوں گی اور منتظمین کو کس قدر ذہنی اذیت اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں جس کا سامنا کراچی کے عوام کو بار بار کرنا پڑتا ہے انتظامیہ کی ذمے داری کیا بنتی ہے؟ اس قسم کی ہنگامی صورت حال کو کنٹرول کرنے کی بنیادی ذمے داری پولیس کی ہوتی ہے اور پولیس ایسے موقعوں پر سڑکوں سے غائب ہو جاتی ہے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا صحیح اطلاعات فراہم کر کے عوام کو اس افراتفری سے بچا سکتا ہے لیکن میڈیا شہر میں پیدا ہونے والی افراتفری کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے خوف و ہراس میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ محکمہ اطلاعات چاہے تو میڈیا کی اعانت سے اس افراتفری کو کنٹرول کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن اس محکمے کی کارکردگی وزراء کی پبلسٹی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر ایک دن شہر بند ہو تو اربوں روپوں کا نقصان ہوتا ہے اور عوام بے پناہ مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ آئے دن شہر بند ہو جاتا ہے اور بند کرانیوالے ایسے منظم اور جارحانہ انداز میں شہر کو بند کراتے ہیں کہ ان کے کردار پر حیرت ہوتی ہے۔ اگر کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کو ہڑتال کروانا ہو تو ایک دن سے پہلے ہی سر شام سے شدید ہوائی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
بچے بڑے سہم جاتے ہیں اور عوام اگلے ایک دو روز کی خریداری میں مصروف ہو جاتے ہیں مجاہدوں کے ٹی ٹی بردار دستے دکانیں بازار بند کرانے کے لیے خوف و ہراس پھیلانے لگتے ہیں ٹرانسپورٹ کو خوفزدہ کرنے کے لیے ایک رات پہلے ہی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ٹی وی اسکرین پر اسکولوں کے بند ہونے اور امتحانات کے ملتوی ہونے کے اعلانات شروع ہو جاتے ہیں نوجوان گیند اور بلے لے کر سنسان سڑکوں پر آ جاتے ہیں فٹ پاتھوں پر شوقین حضرات تاش کھیلنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا کارکن یا رہنما ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن جاتا ہے تو اس جماعت کے کارکنوں کو صدمہ پہنچتا ہے لیکن اس قسم کے صدمات کا اظہار مہذب معاشروں میں نہ گاڑیاں جلا کر کیا جاتا ہے نہ اندھا دھند ہوائی فائرنگ کر کے کیا جاتا ہے نہ بندوق کی نوک پر شہر کو بند کروا کر کیا جاتا ہے بلکہ مکمل طور پر پرامن احتجاج کر کے کیا جاتا ہے۔ ا نہ گاڑیاں جلائی جاتی ہیں نہ ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے نہ ڈنڈوں اور ٹی ٹیوں سے مسلح دستوں کے ذریعے دکانیں اور بازار بند کرائے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ گاڑیاں جلانے شہر بند کرانے سے کس کا نقصان ہوتا ہے کس کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ انسانی جان کے نقصان سے بڑا کوئی نقصان نہیں ہوسکتا لیکن اس نقصان کا ازالہ کیا اندھا دھند ہوائی فائرنگ لٹھ اور ٹی ٹی بردار جتھوں کے ذریعے شہر بند کروا کر یا قیمتی گاڑیاں جلا کر کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جس پر ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے انھیں پرامن زندگی گزارنے کے مواقع مہیا کرنے کی ذمے دار ہوتی ہیں لیکن یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی اور قومی المیہ ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی اور سماجی جرائم سکھانے اور تشدد کی طرف مائل کرنے کا منفی کردار ادا کر رہی ہیں۔
حکمران جماعت پر یہ ذمے داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام میں سیاسی اور سماجی شعور پیدا کرنے کے لیے منظم اور منصوبہ بند طریقے سے کام کرے اور اس مقصد کے لیے میڈیا سمیت ہر ذرائع ابلاغ سے کام لے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہے اور اپوزیشن حکومت کے خلاف نفرت کا پرچار کر رہی ہے محترم وزراء اس حوالے سے اگر داداؤں کی زبان استعمال کر رہے ہیں تو اپوزیشن ان حوالوں سے حکومت کو ملاحیاں سنا رہی ہے جس کا براہ راست منفی اثر سیاسی کارکنوں اور عوام پر پڑ رہا ہے اور اس کلچر کی وجہ تشدد میں اضافے کے ساتھ عوام کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور مصیبت کے وقت ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے بجائے خودغرضی اور علیحدگی کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔
کراچی برسوں سے جس انارکی اور افراتفری خوف و دہشت کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی ذمے داری سیاسی قیادت اور حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے افواہوں پر مبنی ہنگامی صورتحال اور افراتفری پر قابو پانا کوئی مشکل کام نہیں اگر انتظامیہ اور میڈیا اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کریں اور ایک منظم اور مربوط طریقے سے افراتفری کو روکنے اور سیاسی قیادت ہڑتالوں اور یوم سوگ کے پرتشدد طریقوں کے بجائے اپنے جذبات کا اظہار پرامن اور شریفانہ طریقوں سے کرنا سیکھ لے جو مہذب قوموں کا طرۂ امتیاز اور طریقہ کار ہے۔