صحافت اور دور آمریت
جمہوریت قانون کی حکمرانی، اختلاف رائے کے حق اور ہر شخص کی رائے کے احترام کی علمبردار ہوتی ہے،
جمہوریت قانون کی حکمرانی، اختلاف رائے کے حق اور ہر شخص کی رائے کے احترام کی علمبردار ہوتی ہے، جمہوریت اپنی کوتاہیوں سے قطع نظر، شائستگی، وقار، سلیقہ مندی اور رکھ رکھاؤ کی پاسدار ہے، اس کے برخلاف آمرانہ حکومت اور مارشل لا لاقانونیت کا حامل قانون ہے اور ان تمام اقدار اور معیارات کی نفی کرتا ہے جن میں جمہوریت یقین رکھتی ہے، اس ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں بشمول قومی اخبارات کے ایک بڑے حصے کے، جنھوں نے جنگل کے قانون کا پرجوش استقبال کیا کیونکہ اس کے ذریعے سڑکوں اور گلیوں کی صفائی ہوگئی۔
کھانے پینے کی چیزوں کو مکھیوں سے بچانے کے لیے جالیوں سے ڈھانکا جانے لگا، ریلیں وقت پر چلنے لگیں، اور ہڑتالیں بند ہوگئیں۔ ان مداحوں نے ان بنیادی انسانی حقوق کو نظرانداز کردیا جن میں آزادی اظہار خواب دیکھنے کی آزادی اور خوف سے نجات بھی شامل ہے، اس مضمون کا موضوع یہ ہے کہ قومی صحافت نے اس لام بندی کی تاریک دہائی میں کیا رویہ اپنایا یا اسے کیا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا، پچھلے 66 سالوں میں اس کے نصف سال ہم نے نام نہاد آمریت کے زیر سایہ گزارے۔
یہی نہیں بلکہ زمانہ امن میں بھی ہم کو ہنگامی حالات، منسوخ یا معطل شدہ آئین بے اختیار اسمبلیوں، کمزور اور منقسم حزب اختلاف اور سنسر شپ سمیت مہر بہ لب صحافت کے تاریک سائے میں دن بتانے پڑے ہیں، یہ حالات و واقعات حقیقتاً اس قوم کے قومی شعور کے برخلاف ہیں جس قوم کے بڑوں نے آزادی صحافت و اظہار کے حوالہ سے جمہوریت کو قومی دھارے میں لانے یا جمہوریت کو بچانے کے لیے شب و روز محنت کی ہو، جہاں بکری اور شیر ایک ہی گھاٹ میں پانی پیتے تھے۔ وہاں اقتدار کے لیے باپ بیٹوں کو، بھائی کو بھائی کے ساتھ دست و گریباں دیکھا گیا، جہاں صحافت اور صحافیوں پر زندگی کے گھیرے کو تنگ تر کردیا گیا، جہاں سنسر شپ کی قینچی نے اس جراح کا کام کیا کہ اس نے بدن پر سے گھاؤں کے ساتھ ساتھ صحت مند اور اچھی کھال بھی اتار لی، اس کے دو ہی عوامل ہوسکتے ہیں۔
داخلی یا خارجی۔ گستاخی معاف ، ماضی بعید میں صحافت اپنے بنیادی فرض یعنی لوگوں کو عوام الناس کو سچائی دکھانے سے بے خبر ہی رہی۔ جیساکہ میں اوپر جمہوریت کی حقیقی تعریف بیان کر ہی چکا ہوں، اگر ہمارے درمیان جمہوریت کے باعزت طریقے پر اتفاق رائے نہیں ہوسکے گا تو پھر ہم اپنے عوام کی زندگیوں میں کیا تبدیلی لے کر آئیں گے اور پاکستان صرف زمینی خداؤں، اپنی حدود سے تجاوز بیوروکریسی ترجیح یافتہ طبقے اور اس کے بیرونی حلیفوں کی ایک ایسی آماجگاہ بن کر رہ جائے گا۔
آپ کی یاداشت اچھی ہے مگر آپ کو 1963 کے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس کا وہ دور یاد نہیں ہے جب ہر طرف گھٹن اور جمود طاری تھا، لیکن 1977 کے بعد کے دور سے اس کو کسی بھی صورت ملایا نہیں جاسکتا، یہ جبر کا وہ دور تھا جسے پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں بدترین دور کی صورت یاد رکھا جائے گا۔
آمر یا ڈکٹیٹر اپنے ہاتھوں میں ہمیشہ قینچی رکھتا ہے اور وہ ہر ادبی کتابوں، رسائل و جرائد حتیٰ کہ پمفلٹس کو بھی اپنی روایتی سنسر شپ کی قینچی سے دور نہیں رکھتا، اور اس کے اردگرد خوشامدی بلکہ ماہر خوشامدی، نوآموز لوگ جو صحافت کی الف ب نہیں جانتے، صحافت پر حاکم بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہ صحافیوں پر ترجیح حاصل کرکے جو اپنے پیشے کے ساتھ اس کی آزادی صبح سے وابستہ تھے، ضیا الحق کے دور حکومت نے کالی بھیڑوں، خوشامدی، ابن الوقت اور وقتی فائدوں کے غلاموں کو بہ آسانی استعمال کیا، اور اس آمر کے دور حکومت میں ایسی کئی پارٹیاں وجود میں آئیں جن میں سے ایک کو آمر کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی اور وہ پارٹی بڑی صحافتی تنظیم تھی ۔
کئی سال تک ضیا الحق کی زیر صدارت اہل صحافت کیلیے سالانہ ایوارڈز ہوئے اور وہ ہر بار صحافت سے اپنے تنفر کا اظہار بھی کرتے رہے، تاہم کئی سینئر صحافیوں نے اس آمریت کے خلاف مزاحمت بھی کی، ماضی میں ہم نے دیکھا ہے اور آج کی نسل نے ممکن ہے کہ پڑھا بھی ہو۔ اسی دور میں اخبارات کے عام قاری، اخبارات پر سرکاری دباؤ سے واقف ہوں مگر انھیں اس نظر نہ آنے والے دباؤ کا بالکل بھی علم نہیں جو اخبارات کے مالکان، مدیروں، اشتہار دینے والوں، سیاسی جماعتوں، سماجی فرقہ وارانہ، نسلی گروہوں، طالب علموں اور ٹریڈ یونینوں اور دیگر پریشر گروپوں کی طرف سے ڈالا جاتا ہے، ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ مقامی اخباروں پر منظم حملے، رپورٹروں کی پٹائی روز کا معمول تھا۔
دور آمریت یا مارشل لا میں کئی رپورٹرز اور اخباری فوٹو گرافرز اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے اسپتالوں تک بھی پہنچائے گئے ، یا اپنی جانوں سے ان کو ہاتھ تک دھونے پڑے ہیں، آج پاکستان صحافیوں کیلیے خطرناک ملک بن چکا ہے ۔ اخباروں کی کاپیاں جلانا ایک عام رجحان تھا۔ یہ سب بلامبالغہ صحافت کے دفاعی حصار کو توڑنے کے مترادف تھا ، یوں کئی صحافیوں کے ضمیر بیدار ہوئے اور انھوں نے بین السطور اپنا پیغام پہنچانے کا ہنر سیکھ لیا اس نئی نسل کے لیے (جو اقلیت میں ہیں) اب سچائی کے علاوہ کچھ چیز مقدس نہیں وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے، چاہے وہ فرد واحد ہو یا کوئی ادارہ۔
دور آمریت میں سچ کہنے، سچ چھاپنے پر اتنی ہی پابندی ہوتی ہے، جتنی کسی بھی اسلامی رعایا اور حکومت میں حرام چیزوں کی دستیابی یا ان کے استعمال پر ہوتی ہے، حبیب جالب کی شخصیت اور ان کی شاعری اسی دور کی شاعری ہے، وہ صحافی ہوکہ شاعر ادیب ہو کہ نقاد وہ جمہوریت ہی کا دلدادہ ہوتا ہے، اور اگر وہ باضمیر بھی ہو تو اس کے لیے سچ، سچ ہوتا ہے اور جھوٹ، جھوٹ۔ لیکن جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہنے والا آمر کا رفیق کار ہوتا اور اس کے برعکس لکھنے والا کال کوٹھڑی میں قید تنہائی کاٹتا ہے، جبھی تو ہزاروں باضمیر صحافیوں اور شاعروں کو زندانوں میں عمر گزارنی پڑی۔ ان کے بچوں کو یتیم کردیا گیا۔
ان پر حد درجہ ظلم روا رکھا گیا، ان پرمقدمے چلائے گئے، کوڑے مارے گئے ۔ ستمبر 1983ء میں نیشنل پریس ٹرسٹ نے دس سینئر صحافیوں کو جن میں سے بیشتر بیس سال سے زیادہ عرصے سے اس مقدس پیشے سے وابستہ تھے، ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا۔ ان کا گناہ کیا تھا؟ ان کا گناہ صرف اتنا ہی تھا کہ انھوں نے ایک ایسی یادداشت پر دستخط کیے تھے جس میں جمہوریت کی بحالی اور ایم آرڈی MRD تحریک کے دوران سندھ میں ہونے والے ظلم و جبر کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا' میں نہیں جانتا
تم نے چوسا ہے صدیوں ہمارا لہو
اب نا ہم پہ چلے گا تمہارا فسوں
ظلم کی رات کو' جہل کی بات کو
میں نہیں مانتا' میں نہیں جانتا
یہ سب کہنے والے صرف کال کوٹھڑیوں میں ہی رہ سکتے ہیں، آمروں کے حواری تو جاہ و جلال سے رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
ضیا الحق کے دور حکومت میں جتنی زیادتیاں، آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت پر روا رکھی گئی تھیں اتنی پابندیاں کسی دوسرے آمر کے دور میں نہیں لگیں ، اگر ہیروئن کلچر اور کلاشنکوف کلچر کو بہاروں کے آنے کا سندیش دینے والوں نے اچھا جانا تھا تو وہ دراصل اندروں بیں تھے اور ان کا ایسا کرنا معاشرتی اور سماجی جرم تھا۔
بقول خالد علیگ
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا' یا ہاتھ قلم رکھنا
ہم ہاتھوں میں قلم رکھنے والے لوگ ہیں اور صبح پرست بھی ہیں، اور یہی ہماری ریت بھی ہے اور یہی ہماری پہچان بھی۔
اپنی مٹی پر چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پر چلوگے تو پھسل جاؤگے
کھانے پینے کی چیزوں کو مکھیوں سے بچانے کے لیے جالیوں سے ڈھانکا جانے لگا، ریلیں وقت پر چلنے لگیں، اور ہڑتالیں بند ہوگئیں۔ ان مداحوں نے ان بنیادی انسانی حقوق کو نظرانداز کردیا جن میں آزادی اظہار خواب دیکھنے کی آزادی اور خوف سے نجات بھی شامل ہے، اس مضمون کا موضوع یہ ہے کہ قومی صحافت نے اس لام بندی کی تاریک دہائی میں کیا رویہ اپنایا یا اسے کیا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا، پچھلے 66 سالوں میں اس کے نصف سال ہم نے نام نہاد آمریت کے زیر سایہ گزارے۔
یہی نہیں بلکہ زمانہ امن میں بھی ہم کو ہنگامی حالات، منسوخ یا معطل شدہ آئین بے اختیار اسمبلیوں، کمزور اور منقسم حزب اختلاف اور سنسر شپ سمیت مہر بہ لب صحافت کے تاریک سائے میں دن بتانے پڑے ہیں، یہ حالات و واقعات حقیقتاً اس قوم کے قومی شعور کے برخلاف ہیں جس قوم کے بڑوں نے آزادی صحافت و اظہار کے حوالہ سے جمہوریت کو قومی دھارے میں لانے یا جمہوریت کو بچانے کے لیے شب و روز محنت کی ہو، جہاں بکری اور شیر ایک ہی گھاٹ میں پانی پیتے تھے۔ وہاں اقتدار کے لیے باپ بیٹوں کو، بھائی کو بھائی کے ساتھ دست و گریباں دیکھا گیا، جہاں صحافت اور صحافیوں پر زندگی کے گھیرے کو تنگ تر کردیا گیا، جہاں سنسر شپ کی قینچی نے اس جراح کا کام کیا کہ اس نے بدن پر سے گھاؤں کے ساتھ ساتھ صحت مند اور اچھی کھال بھی اتار لی، اس کے دو ہی عوامل ہوسکتے ہیں۔
داخلی یا خارجی۔ گستاخی معاف ، ماضی بعید میں صحافت اپنے بنیادی فرض یعنی لوگوں کو عوام الناس کو سچائی دکھانے سے بے خبر ہی رہی۔ جیساکہ میں اوپر جمہوریت کی حقیقی تعریف بیان کر ہی چکا ہوں، اگر ہمارے درمیان جمہوریت کے باعزت طریقے پر اتفاق رائے نہیں ہوسکے گا تو پھر ہم اپنے عوام کی زندگیوں میں کیا تبدیلی لے کر آئیں گے اور پاکستان صرف زمینی خداؤں، اپنی حدود سے تجاوز بیوروکریسی ترجیح یافتہ طبقے اور اس کے بیرونی حلیفوں کی ایک ایسی آماجگاہ بن کر رہ جائے گا۔
آپ کی یاداشت اچھی ہے مگر آپ کو 1963 کے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس کا وہ دور یاد نہیں ہے جب ہر طرف گھٹن اور جمود طاری تھا، لیکن 1977 کے بعد کے دور سے اس کو کسی بھی صورت ملایا نہیں جاسکتا، یہ جبر کا وہ دور تھا جسے پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں بدترین دور کی صورت یاد رکھا جائے گا۔
آمر یا ڈکٹیٹر اپنے ہاتھوں میں ہمیشہ قینچی رکھتا ہے اور وہ ہر ادبی کتابوں، رسائل و جرائد حتیٰ کہ پمفلٹس کو بھی اپنی روایتی سنسر شپ کی قینچی سے دور نہیں رکھتا، اور اس کے اردگرد خوشامدی بلکہ ماہر خوشامدی، نوآموز لوگ جو صحافت کی الف ب نہیں جانتے، صحافت پر حاکم بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہ صحافیوں پر ترجیح حاصل کرکے جو اپنے پیشے کے ساتھ اس کی آزادی صبح سے وابستہ تھے، ضیا الحق کے دور حکومت نے کالی بھیڑوں، خوشامدی، ابن الوقت اور وقتی فائدوں کے غلاموں کو بہ آسانی استعمال کیا، اور اس آمر کے دور حکومت میں ایسی کئی پارٹیاں وجود میں آئیں جن میں سے ایک کو آمر کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی اور وہ پارٹی بڑی صحافتی تنظیم تھی ۔
کئی سال تک ضیا الحق کی زیر صدارت اہل صحافت کیلیے سالانہ ایوارڈز ہوئے اور وہ ہر بار صحافت سے اپنے تنفر کا اظہار بھی کرتے رہے، تاہم کئی سینئر صحافیوں نے اس آمریت کے خلاف مزاحمت بھی کی، ماضی میں ہم نے دیکھا ہے اور آج کی نسل نے ممکن ہے کہ پڑھا بھی ہو۔ اسی دور میں اخبارات کے عام قاری، اخبارات پر سرکاری دباؤ سے واقف ہوں مگر انھیں اس نظر نہ آنے والے دباؤ کا بالکل بھی علم نہیں جو اخبارات کے مالکان، مدیروں، اشتہار دینے والوں، سیاسی جماعتوں، سماجی فرقہ وارانہ، نسلی گروہوں، طالب علموں اور ٹریڈ یونینوں اور دیگر پریشر گروپوں کی طرف سے ڈالا جاتا ہے، ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ مقامی اخباروں پر منظم حملے، رپورٹروں کی پٹائی روز کا معمول تھا۔
دور آمریت یا مارشل لا میں کئی رپورٹرز اور اخباری فوٹو گرافرز اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے اسپتالوں تک بھی پہنچائے گئے ، یا اپنی جانوں سے ان کو ہاتھ تک دھونے پڑے ہیں، آج پاکستان صحافیوں کیلیے خطرناک ملک بن چکا ہے ۔ اخباروں کی کاپیاں جلانا ایک عام رجحان تھا۔ یہ سب بلامبالغہ صحافت کے دفاعی حصار کو توڑنے کے مترادف تھا ، یوں کئی صحافیوں کے ضمیر بیدار ہوئے اور انھوں نے بین السطور اپنا پیغام پہنچانے کا ہنر سیکھ لیا اس نئی نسل کے لیے (جو اقلیت میں ہیں) اب سچائی کے علاوہ کچھ چیز مقدس نہیں وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے، چاہے وہ فرد واحد ہو یا کوئی ادارہ۔
دور آمریت میں سچ کہنے، سچ چھاپنے پر اتنی ہی پابندی ہوتی ہے، جتنی کسی بھی اسلامی رعایا اور حکومت میں حرام چیزوں کی دستیابی یا ان کے استعمال پر ہوتی ہے، حبیب جالب کی شخصیت اور ان کی شاعری اسی دور کی شاعری ہے، وہ صحافی ہوکہ شاعر ادیب ہو کہ نقاد وہ جمہوریت ہی کا دلدادہ ہوتا ہے، اور اگر وہ باضمیر بھی ہو تو اس کے لیے سچ، سچ ہوتا ہے اور جھوٹ، جھوٹ۔ لیکن جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہنے والا آمر کا رفیق کار ہوتا اور اس کے برعکس لکھنے والا کال کوٹھڑی میں قید تنہائی کاٹتا ہے، جبھی تو ہزاروں باضمیر صحافیوں اور شاعروں کو زندانوں میں عمر گزارنی پڑی۔ ان کے بچوں کو یتیم کردیا گیا۔
ان پر حد درجہ ظلم روا رکھا گیا، ان پرمقدمے چلائے گئے، کوڑے مارے گئے ۔ ستمبر 1983ء میں نیشنل پریس ٹرسٹ نے دس سینئر صحافیوں کو جن میں سے بیشتر بیس سال سے زیادہ عرصے سے اس مقدس پیشے سے وابستہ تھے، ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا۔ ان کا گناہ کیا تھا؟ ان کا گناہ صرف اتنا ہی تھا کہ انھوں نے ایک ایسی یادداشت پر دستخط کیے تھے جس میں جمہوریت کی بحالی اور ایم آرڈی MRD تحریک کے دوران سندھ میں ہونے والے ظلم و جبر کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا' میں نہیں جانتا
تم نے چوسا ہے صدیوں ہمارا لہو
اب نا ہم پہ چلے گا تمہارا فسوں
ظلم کی رات کو' جہل کی بات کو
میں نہیں مانتا' میں نہیں جانتا
یہ سب کہنے والے صرف کال کوٹھڑیوں میں ہی رہ سکتے ہیں، آمروں کے حواری تو جاہ و جلال سے رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
ضیا الحق کے دور حکومت میں جتنی زیادتیاں، آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت پر روا رکھی گئی تھیں اتنی پابندیاں کسی دوسرے آمر کے دور میں نہیں لگیں ، اگر ہیروئن کلچر اور کلاشنکوف کلچر کو بہاروں کے آنے کا سندیش دینے والوں نے اچھا جانا تھا تو وہ دراصل اندروں بیں تھے اور ان کا ایسا کرنا معاشرتی اور سماجی جرم تھا۔
بقول خالد علیگ
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا' یا ہاتھ قلم رکھنا
ہم ہاتھوں میں قلم رکھنے والے لوگ ہیں اور صبح پرست بھی ہیں، اور یہی ہماری ریت بھی ہے اور یہی ہماری پہچان بھی۔
اپنی مٹی پر چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پر چلوگے تو پھسل جاؤگے