بھتہ خوروں کی ’’بچہ فورس‘‘

حکومتی پالیسیوں اور سیاسی جماعتوں کی بداعمالیوں نے ہمارے روایتی صنعتی و معاشی کلچر کو تل پٹ کرکے رکھ دیا ہے


Adnan Ashraf Advocate June 27, 2014
[email protected]

کارخانوں کی چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں زندگی کی علامت اور چلتی مشینوں کی دھمک معیشت کے دل کی دھڑکن کی بنیاد ہوتے ہیں۔ صنعتی علاقوں میں کارخانوں اور فیکٹریوں کے سامنے کھڑی سیکڑوں کی تعداد میں سائیکلیں، موٹر سائیکلیں اور کاریں اور ان کارخانوں کے اطراف میں کھڑے کھانے پینے کے ٹھیلے اور قائم شدہ کچے پکے جھونپڑا ہوٹل اور عمارتوں پر منڈلاتے پرندوں کے جھنڈ ایک الگ سا اور خوشنما منظر پیش کرتے ہیں۔

صنعتی علاقوں میں ڈیوٹی ختم اور شروع کے اوقات اور کھانے اور نماز کے وقفے کے دوران بھی دلچسپ منظر دیکھنے میں آتا ہے۔ صنعت و تجارت کے شعبے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ لاکھوں افراد رزق حاصل کرتے ہیں۔ محنت کش اور آجر دونوں ملک کی معیشت اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں صنعتکاروں اور تاجروں کے دم سے ملک میں لاکھوں افراد جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کارخانوں کے ساتھ قائم تمام بنیادی آسائشات سے مزین رہائشی کالونیاں، اسٹیڈیم، کمیونٹی سینٹر، رفاہی ادارے، کارخانوں کی فیئر پرائس شاپس وغیرہ نہ صرف محنت کشوں کے لیے بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی بہت سہولیات اور آسانیاں مہیا کرتی ہیں۔

مالکان کا تعلق عام طور پر سیاسی، مذہبی یا لسانی جماعتوں سے بھی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو کاروباری معاملات میں اس کا عمل دخل نہیں ہوتا نہ ملازمین کو اس بات سے تعلق ہوتا ہے کہ ان کا مالک کس سیاسی، مذہبی، لسانی یا جغرافیائی حصے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی زبان ، قومیت مذہب یا فرقہ کیا ہے، نہ ہی مالکان کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ اس کے ملازمین کی سیاسی، مذہبی، لسانی یا جغرافیائی درجہ بندی کیا ہے۔

ایک مشین پر کام کرنے والے محنت کش بھی آپس کی اس تفریق و تقسیم سے بے نیاز اپنے فرائض ادا کرتے ہیں ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد جتھوں کی صورت میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے فیکٹریوں سے نکلتے ہیں اور خوشی خوشی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

البتہ صنعتی اداروں کی یونین میں بیرونی عناصر کی نمائندگی اور سیاسی جماعتوں کی مداخلت کی وجہ سے ٹریڈ یونینز کی سرگرمیوں میں سیاسی عناصر اور شخصیات کی شمولیت اور مداخلت کی وجہ سے ماحول کچھ حد تک اور وہ بھی یونینز کے انتخابات کے دوران سیاست زدہ ہوجاتا ہے مگر مجموعی طور پر محنت کش بلالحاظ کسی سیاسی وابستگی ان مزدور یونین کی کارکردگی اور منشور دیکھ کر ووٹ کا استعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قومی انتخابات میں سب سے کم نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کی ملک میں سب سے زیادہ ٹریڈ یونینز اور ان کی سب سے بڑی فیڈریشن ہے۔

حکومتی پالیسیوں اور سیاسی جماعتوں کی بداعمالیوں نے ہمارے روایتی صنعتی و معاشی کلچر کو تل پٹ کرکے رکھ دیا ہے جس کی لمبی تفصیل ہے۔ آج کا مزدور اور آجر دونوں گمبھیر مسائل سے دوچار ہیں سیاسی عدم استحکام، غیر موضوع حکومتی پالیسیوں، لوڈ شیڈنگ اور ان سب سے بڑھ کر بھتہ گیری، اغوا، تاوان، قتل اور بدامنی نے محنت کشوں اور آجروں دونوں کو نڈھال کرکے رکھ دیا ہے۔

ان کے لیے رزق حلال کمانے کے راستے بند ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے بیروزگاری اور جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے صنعتیں بند اور منتقل ہو رہی ہیں، سرمایہ، سرمایہ کار اور ماہرین بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے صنعتکار اور تاجر امن وامان اور گڈگورننس کی بحالی کے لیے حکومت سے اپیلیں کر رہے ہیں، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مستقل طور پر مشاورت اور رابطے میں ہیں ان کے ساتھ ہر قسم کا مالی، قانونی و اخلاقی تعاون اور مدد کر رہے ہیں۔

متعلقہ اداروں کو بہت سی سہولیات اور مالی امداد بھی فراہم کی گئی ہیں مگر بھتہ گیری، اغوا، تاوان اور قتل کی وارداتیں تھمنے میں نہیں آ رہی ہیں بلکہ ان کی شرح میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس صورت حال سے مجبور ہوکر کراچی کے صنعتکاروں نے شہر کے سات صنعتی علاقوں میں مسلح افواج کی تعینات کا مطالبہ کردیا ہے۔ وائس آف کراچی انڈسٹریلسٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس کے چیئرمین نے کہا ہے کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود صنعتکاروں اور تاجروں کے اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائمز کی شرح بڑھ رہی ہے۔ صنعتکاروں کی بڑی تعداد خوف کے باعث اپنی فیکٹریوں میں جانے سے گریزاں ہے، پاکستانی برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

یورپی یونین کے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد پاکستان کی یورپ کے لیے درآمدات بڑھی ہیں لیکن کراچی میں صنعتکاروں کے اغوا، بھتہ خوری، بدامنی اور دہشت گردی کے باعث برآمد کنندگان اس موقعے سے استفادہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ کراچی میں بھتہ مافیا کا ایک اور سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا ہے جس کے مطابق لیاری گینگ وار نے تاجروں اور دکانداروں سے بھتے کی وصولی کے لیے ''بچہ فورس'' قائم کردی ہے۔

بچے مرکزی مارکیٹوں اور بازاروں میں تاجروں اور دکانداروں کو بھتے کی پرچیاں دیتے ہیں گینگ کے کارندے ان کی نگرانی کرتے ہیں بچوں کو نگرانی اور رابطے کے لیے واکی ٹاکی اور موبائل فون فراہم کیے ہیں بچے رینجرز اور پولیس کو دیکھ کر گینگ وار کے سربراہوں کو اطلاع دیتے ہیں بچوں کی علیحدہ علیحدہ ٹولیاں بنائی گئی ہیں بڑی عمر کے بچوں کو پستول بھی دیے گئے ہیں کچھ بچوں کو چوکیداری پر رکھا گیا ہے جب کہ تیز اور ہوشیار بچوں سے تاجروں اور دکانداروں کو بھتے کی پرچیاں بھجوائی اور رقوم وصول کی جاتی ہیں۔ گینگ وار کے افراد اس عمل کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ کسی قسم کا واقعہ پیش آنے پر کارروائی کرسکیں۔

ذرائع کے مطابق ان بچوں کی عمریں 9 سے 15 سال تک ہیں جب رینجرز ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے آتے ہیں تو ان بچوں کو دیکھ کر ڈنڈے مار کر وہاں سے بھگا دیتے ہیں انھیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ بچے کس کے لیے اور کیا کام کر رہے ہیں گینگ وار کے ہر کمانڈر نے اپنا الگ گروپ بنالیا ہے وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہیں جس کا جہاں سے ہاتھ لگتا ہے بھتہ وصول کرلیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اغوا کرکے تاوان وصول کرلیتا ہے۔

شہر کے مختلف علاقوں سے جمع کی جانے والی بھتے کی رقم وصول کرکے بیرون ملک روپوشی اختیار کرنے والے چیف کمانڈر کو بھی بذریعہ ہنڈی بھیجی جاتی ہے۔ حکومت اور متعلقہ ادارے ان جرائم کی سرکوبی میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں بلکہ حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں میں بعض ایسے عناصر موجود ہیں جو خود ایسے جرائم یا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ملوث ہیں یا ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں مشہور شاعر سلیم عکاس کی پرانی نظم کے اشعار ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔

مجھے توڑا فقط زر کی ہوس نے

میرے اندر کا صابر مار ڈالا

سلامت بھوک میں تھا جس کا ایماں

وہ فاقہ مست آجر مار ڈالا

مشینیں جس کے دم سے چل رہی تھیں

وہ ہی خوشحال تاجر مار ڈالا

رکھا جس نے حساب نیک و بد یاں

جہالت نے وہ ناظر مار ڈالا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں