انبیائے کرامؑ کی دُعاؤں سے راہ نمائی
ایک مشہور ماہرِ نفسیات کا قول ہے کہ کسی قوم میں دُعا و زاری کا فقدان اُس ملّت کی تباہی کے مترادف ہے
حافظ سیّد ریاض حسین نجفی، شیخ عبّاس قمیؒ کی مشہورِ زمانہ تالیف ''مفاتیح الجنان'' کے مقدّمے میں دُعا کے عنوان سے کیا خوب رقم طراز ہیں:
حضرتِ انسان کس قدر شرف و عظمت کا مالک ہے کہ جس کے لیے کائنات بنی، جس کو کائنات میں تکریم و عزّت کا حق دار ٹھہرایا گیا، جس کی خدمت گزاری اور منفعت رسانی کے لیے باقی تمام مخلوقات پیدا کی گئیں، مگر اِس قدر عزّت و عظمت کے مالک انسان کی خِلقت کا مقصد اﷲ کی معرفت اور عبادت ہے۔
لہٰذا انسان کی عظمت کے لیے سب سے اہم امر خدا سے ارتباط اور رابطہ ہے، مگر کیسا رابطہ ؟ انسان باوجود یہ کہ اشرف الخلائق ہے، لیکن اﷲ کے سامنے وہ فقرِ محض، احتیاجِ محض ہے اور اللّٰہُ غنی مستغنیِ کائنات ہے۔ خالق الاسباب ہے، مسبّب الاسباب ہے۔ مشکلات و مصائب اور تکالیف میں مبتلا انسان خدا کی طرف رجوع کرکے اپنے فقیر اور محتاج ہونے کا اظہار و اعتراف کرتا ہے، محض فقیر ہی نہیں بل کہ فقر و احتیاجِ محض ہونے کا اقرار کرتا ہے۔
اِس طرح اپنی نفی اور بے ثباتی کا اقرار کرتا ہے اور اُسے ہر معاملے میں خدا کی طرف متوجّہ اور محتاج ہونا پڑتا ہے، تو درحقیقت دُعا احتیاج کا اظہار اور اﷲ سے اعانت کی التجا ہے۔ مصائب و مشکلات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہر انسان کو کسی سہارے اور کسی فریاد رسی کی ضرورت ہے، ورنہ وہ زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے اور آخری قدم اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
ایک مشہور ماہرِ نفسیات کا قول ہے کہ کسی قوم میں دُعا و زاری کا فقدان اُس ملّت کی تباہی کے مترادف ہے۔ وہ قوم جو احتیاجِ دُعا سے بے نیاز ہو جائے، وہ فساد و زوال سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ ہر قوم، گروہ اور ہر انسان کا آخری سہارا خدا ہے، جب احتیاج انتہا کو پہنچ جائے، مصائب و مشکلات سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہ آئے، تو ایسے میں دُعا ہی دل کی تسکین، اُمید اور سکون کا باعث بنتی ہے۔ اضطراب اور بے چینی کے عالم میں جب آدمی اپنی بے چارگی کو پوری شدّت سے محسوس کرتا ہے تو بے ساختہ دستِ دُعا بلند ہو جاتے ہیں:
مفہوم: ''کون ہے جو مضطر اور پریشان کی فریاد کا جواب دیتا ہے اور اُس کی تکلیف کو دُور کرتا ہے۔'' (سورۂ نحل)
بے چارگی کی وہ منزل جہاں قدرت و طاقت جوا ب دے جائے، کوئی حل نظر نہ آئے ، کوئی کوشش بار آور ثابت نہ ہو، مایوسیوں کے اندھیرے پھیلنے لگیں، تو ایسے میں دُعا ہی اُمید کی کرن بن کر سامنے آتی ہے۔ حالت ِ دُعا میں جب آدمی سراپا التجا بن جائے اور آنسو اُس کے فقیر ہونے کا ثبوت بن کر ٹپکیں تو یہ کیفیت قبولیت سے قریب ہوتی ہے۔ اُس عالمِ بے چارگی و بے چینی میں مضطر و پریشان انسان خود کو تمام قوّتوں کی مالک ہستی کے قریب محسوس کرتا ہے، جس سے اُس کا احساسِ تنہائی ختم ہو جاتا ہے۔
مایوسیوں کے اندھیرے چھٹنے لگتے ہیں اور وہ اپنی ناتوانی کو اُمید و رجاء کی قوّتوں میں بدلتا محسوس کرتا ہے، وہ احساس کرتا ہے کہ اگر اُس کے پاس دُنیاوی عارضی سہارے نہیں تو کیا ہُوا ؟ قادرِ مطلق کی ذات کا سہارا جو حاصل ہے، جس کے قبضۂ قدرت میں تمام قوّتیں اور نعمتیں ہیں، جو ہر مصیبت و مشکل کا دُور کرنے والا ہے۔ خالقِ کائنات و مالکِ مہربان سے اُس کا یہ رابطہ اُسے جینے کی نئی اُمید عطا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اُس کی بے چینی و اضطراب سکون و اطمینان و راحت کی کیفیت میں بدل جاتی ہے۔
مفہوم: ''بے شک! اﷲ کی یاد سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔'' (سورۂ رعد)
انبیائے علیہم السلام جیسی عظیم المرتبت معصوم ہستیوں کو بھی جب مشکلات و مصائب کا سامنا ہُوا تو دُعا کا سہارا لیا، مُونسِ حقیقی سے اپنے غم کا مداوا چاہا۔
حضرت آدم علیہ السلام کی دُعا:
مفہوم: ''پروردگار! ہم نے اپنا نقصان کیا، اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم یقیناً گھاٹا اُٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔'' (سورۂ اعراف)
حضرت نوح علیہ السلام کی دُعا:
مفہوم: ''اے پالنے والے! میں مغلوب ہوں، پس میری مدد فرما۔'' (سورۂ قمر)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دُعا:
مفہوم: ''اے میرے پالنے والے! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنادے، ہمارے پالنے والے! دُعا قبول فرما۔'' (سورۂ ابراہیم)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا:
مفہوم: ''اے میرے پروردگار! تُو میرے لیے میرے سینے کو کشادہ فرما اور میرا کام میرے لیے آسان کردے اور میری زبان سے لکنت کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھیں۔'' (سورۂ طٰہٰ)
مفہوم: ''اے میرے پروردگار! اِس وقت جو نعمت تُو میرے پاس بھیج دے، میں اُس کا سخت حاجت مند ہُوں۔'' (سورۂ قصص)
حضرت ایوب علیہ السلام کی دُعا:
مفہوم: ''بیماری تو میرے پیچھے لگ گئی ہے اور تُو بڑا رحم کرنے والا ہے۔''(سورۂ انبیاء)
حضرت یونس علیہ السلام کی دُعا:
مفہوم: ''تیرے سِوا کوئی معبود نہیں تُو ہر عیب سے پاک و پاکیزہ ہے۔ بے شک! میں قصور وار ہُوں۔'' (سورۂ انبیاء)
حضرت زکریا علیہ السلام کی دُعا:
مفہوم: اے میرے پروردگار! مجھے تنہا، بے اولاد نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے۔'' (سورۂ انبیاء)
حضرت یوسف علیہ السلام کی دُعا:
مفہوم: ''اے میرے پروردگار! تُو ہی دُنیا و آخرت میں میرا مالک ہے تُو مجھے دُنیا سے مسلمان اُٹھا لے اور مجھے نیکو کاروں میں شامل فرما۔'' (سورۂ یوسف)
خاتم النبیین ، رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی چند دُعاؤں کے مفاہیم:
''پروردگار! ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور ہمارا رب یقیناً مہربان اور تمہاری باتوں کے مقابلے میں قابلِ استعانت ہے۔'' (سورۂ انبیاء)
''اے اﷲ! میرے علم میں اضافہ فرما۔'' (سورۂ طٰہٰ)
''میں صبح کے مالک کی پناہ چاہتا ہوں، تمام مخلوقات کے شر سے، اور اندھیری رات کے شر سے جب اُس کا اندھیرا چھا جائے، اور گنڈوں پر پھونکنے والیوں کے شر سے، اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب بھی وہ حسد کرے۔'' (ماخوذ از: سورۂ الفلق)
''میں انسانوں کے پروردگار کی پناہ چاہتا ہوں، جو تمام لوگوں کا مالک اور بادشاہ ہے، سارے انسانوں کا معبود ہے۔ شیطانی وسواس کے شر سے جو نامِ خدا سُن کر پیچھے ہٹ جاتا ہے، اور جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کراتا ہے، وہ جنّات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔'' (ماخوز از: سورۂ الناس)
گویا دُعا انبیاء و صالحین کی سنّت اور اُن کی نجات کا ذریعہ ہے۔
دُعا ایسا پسندیدہ عمل ہے کہ جس کا تقاضا خود خدا نے فرمایا ہے:
مفہوم: (میرے بندو) ''مجھ سے دُعا مانگو میں قبول کروں گا۔'' (سورۂ مومن)
اﷲ رحمن و رحیم! سب کو اپنی بارگاہ میں صمیمِ قلب سے کی جانے والی دُعاؤں کے ذریعے اپنے قرب کی توفیق اور سعادت عطا فرما۔ آمین