غصّے کی تباہ کاریاں
غصہ صرف ایک عارضی حالت کا نام نہیں بل کہ یہ شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے
اﷲ رب العزت نے انسان کو پیدا فرما کر اس میں خیر و شر کے جذبات بھی پیدا فرمائے، تاکہ اس بات کی آزمائش کی جائے کہ انسان اپنے کون سے جذبے کو استعمال میں لاتا ہے اور ان پر کتنا قابو پاتا ہے۔ ان جذبات میں ایک غصہ ہے۔
قرآنِ کریم میں اﷲ رب العزت کے ارشاد کا مفہوم: ''وہ لوگ جو تنگی اور خوشی میں خرچ کرتے ہیں اور وہ جو غصے کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اﷲ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔'' مذکورہ آیت میں غصے کے گھونٹ کو پی کر معاف کرنے والے لوگوں کو اﷲ رب العزت اپنا پسندیدہ بندہ قرار دے رہے ہیں۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ اﷲ رب العزت کو ہر طرح کے گھونٹ میں غصے کا گھونٹ پی جانا بہت پسند ہے۔ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی مختصر نصیحت کی درخواست کرتے ہیں تو آپؐ فرماتے ہیں: ''غصہ مت کر!''
غصہ بہت سی برائیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو بہت سی برائیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی کوکھ سے بھی بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں، مثال کے طور پر غصہ اس شخص کو زیادہ آتا ہے جو تکبّر کے مغالطے میں مبتلا ہو۔ کوئی شخص کسی کو اپنے برابر یا اپنے سے بہتر سمجھ کر کبھی بھی اس پر غصہ نہیں کرتا۔ غصے کی وجہ سے جنم لینے والی برائیاں تو بہت زیادہ ہیں جن میں گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا اور مجبور ہونے کی صورت میں غیبت جیسی بیماریاں سر اٹھانے لگتی ہیں۔
ہمارے ہاں غصے کو ایک خوبی اور مہارت کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، مثلاً یہ کہنا کہ مجھ سے ہر بات برداشت نہیں ہوتی، میں تو صاف منہ پر سنا دیتا ہوں، میں لحاظ نہیں کرتا، میری کھوپڑی گرم ہے وغیرہ۔ یہ سب جملے استعمال کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بہت بڑی بات کررہے ہیں حالاں کہ یہ سب شیطان کے ہتھ کنڈے ہیں اور وہ ایسے جملوں کے ذریعے ہمیں غصے میں لاکر اپنے آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا اور ہمارے متعلقین کا نقصان ہوجاتا ہے۔
غصہ صرف ایک عارضی حالت کا نام نہیں بل کہ یہ شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ امام غزالیؒ اس حوالے سے فرماتے ہیں: ''غصے کے وقت صورت بگڑ کر بھیانک بن جاتی ہے، ایسی صورت بنتی ہے جیسے کاٹنے والا کتّا اور انسان اپنے مقام سے گر کر خوں خوار درندہ بن جاتا ہے جب کہ جو لوگ اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں ان کی صورت علماء، اولیاء اور صالحین سے ملتی ہے۔'' (احیاء العلوم)
غصے میں انسان عقل مندی سے کم عقلی کا سفر پل بھر میں طے کرلیتا ہے۔ اسے پتا بھی نہیں چلتا جب کہ اس کی عقل کام نہیں کر رہی ہوتی ہے۔ انصار کا قول ہے کہ گرم مزاجی بے وقوفی اور کم عقلی کی بنیادی اکائی ہے اور غصہ اس بنیاد کی راہ نمائی کرتا ہے گویا غصہ بے وقوفی کے سفر کو ایک راہ نما کی طرح طے کرانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ''جب تُو غصہ کرتا ہے تو اچھلتا ہے، قریب ہے کہ تو کہیں چھلانگ نہ لگا دے اور یہ چھلانگ تجھے سیدھا جہنم میں پہنچا دے۔'' اس سے معلوم ہُوا کہ غصہ انسان کی شخصیت میں فقط ضد، جہالت، انا پرستی کا ذریعہ بنتا ہے۔
ذیل میں غصے کے علاج کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کی جاتی ہیں:
وہ غصہ جو ہمارے مزاج کا مستقل حصہ بن جائے، اس کے پیچھے کچھ اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق غصہ ایک ردِعمل ہے جس کے اسباب میں ایک اہم سبب خوف ہے اور خوف ہمیشہ نااہلی کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر: ایک شخص کسی بھی وجہ سے اپنی بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ گھر میں کیسے جاؤں؟ قرض کیسے ادا کروں؟ گھر میں جاؤں گا تو بے سکون ہوجاؤں گا، کیوں کہ بیوی ذمہ داریاں پورا نہ ہونے کے سبب سوال کرے گی، بچوں کی فیس، علاج کا خرچ، گھر کا راشن تو وہ اس کے سبب ایک خوف میں مبتلا رہے گا اور جب بھی اس کی بیوی مذکورہ کوئی بھی سوال اٹھائے گی تو وہ اپنی کم زوری چھپانے اور اپنے گھیرے جانے کے خوف سے غصہ کرے گا، جھگڑے گا۔ ایسی صورت میں غصہ کا علاج اپنی کم زوری کو اہلیت و طاقت میں بدلنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
غصہ کا ایک سبب خود ساختہ تصورات مثلاً خاندان، قبیلہ، رنگ، نسل کی وجہ سے ایک بلاوجہ کی بڑائی کا شکار ہوجانے سے غلط فہمی میں خود کو افضل سمجھنا، کسی کی معمولی بدسلوکی پر اپنی پہچان جتا کر غصہ کرنا ہے۔ غصے کے حوالے سے سب سے پہلے یہ اصول سمجھنا ضروری ہے کہ غصہ انسانی خواہشات اور جذبات کا لازمی جز ہے لہٰذا غصے کے علاج کے حوالے سے جو بھی علاج ذکر کیا جائے گا، وہ غصے کو قابو کرنے کے طریقے ہوں گے نہ کہ ختم کرنے کے۔
رسول اکرم ﷺ کے مبارک ارشاد کا مفہوم ہے: ''پہلوان وہ نہیں ہے جو ایک ہی وار میں مقابل کو گرا دے، بل کہ حقیقی پہلوان وہ ہے جو عین غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔'' دل اس بات کا شدّت سے تقاضا کر رہا ہو کہ اس کو کھری کھری سناؤں، تھپڑ رسید کروں، گالیاں دوں، اپنی بھڑاس نکال دوں، گھر والوں پر چیخ چیخ کر اپنی بڑائی جتاؤں، غرض اپنے ہاتھ پیر یا زبان کے استعمال سے اپنے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچاؤں اور مجھے کوئی روک ٹوک کرنے والا بھی نہیں ہو۔ ٹھیک ایسی حالت کے دوران اپنے آپ پر قابو کرنا اور نظرانداز اور درگزر سے کام لینا یہ واقعی بہت بڑے پہلوان سے بھی بڑھ کر طاقت ور بننے والی خوبی ہے۔
غصے کے علاج کے طور پر کچھ طریقے ہیں جو مستقل علاج کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میں بعض اولیاء اﷲ ایک طریقہ ارشاد فرماتے ہیں کہ غصہ میں مبتلا شخص اپنے عیوب پر ہر حال میں نظر رکھے، اپنے عیوب پر نگاہ رکھنے والا شخص ہمیشہ عاجزی اور اپنی اصلاح کی فکر میں مگن رہے گا اور اسے یہ فکر کبھی بھی اپنے مخاطب پر چڑھائی کرنے سے روکتی رہے گی، ان شاء اﷲ۔
اہل علم حضرات ایک تجربے کی بات ارشاد فرماتے ہیں کہ غصے کو قابو کرنا ہمیشہ مفید رہا ہے اور غصے کے تقاضے پر عمل کرنا ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یعنی ایسا کبھی نہیں ہُوا کہ کسی نے غصہ نہ کرکے شرمندگی اٹھائی ہو، بل کہ ایسا شخص ہمیشہ اپنے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرے گا اور ایسا نہیں ہُوا کہ کسی نے غصہ کرکے افسوس اور شرمندگی نہ اٹھائی ہو، اس کا اندازہ معاشرے میں پھیلے بہت سے معاملات سے لگایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر: کاش! میں اس موقع پر اپنا ہاتھ روک لیتا، کاش! میری زبان گونگی ہوجاتی، میں اپنی زبان سے فلاں جملہ نہ کہتا۔ ال غرض بہت سے تعلقات لین دین، رشتے، تعلقات، خاندان اس غصے کی عارضی کیفیت کی نذر ہوجاتے ہیں۔
طلاق کی شرح تیزی سے بڑھنے میں غصہ کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ اکثر مرد حضرات غصے کی عین حالت میں معمولی تُو تُو مَیں مَیں کو طلاق کی نوبت تک پہنچا دیتے ہیں اور اکثریت بعد میں یہ کہتی پھرتی ہے کہ ہم نے غصے میں ایسا کیا ہے، اب ہم شرمندہ ہیں اور ہمیں کوئی طریقہ بتایا جائے تاکہ ہم اپنی شریکِ حیات کو دوبارہ لاسکیں لیکن: ''اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت''
غصے کو قابو کرنے کا ایک مفید علاج یہ بھی ہے کہ غصے کے دوران عذابِ الٰہی اور اﷲ کی قدرت کو ذہن میں دہرائے جیسا کہ روایت میں ہے کہ ایک بار حضرت صدیق اکبرؓ اپنے ایک غلام کو ڈانٹ رہے تھے تو آپؐ نے صدیق اکبرؓ سے فرمایا: ''اﷲ تم پر اس سے زیادہ اختیار رکھتا ہے جتنا تم اپنے اس غلام پر رکھتے ہو۔'' یعنی ہم جس پر غصہ کرکے اپنی بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں، وہ درحقیقت ہمارا اختیار ہوتا ہے، جسے ہم استعمال کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر اختیار رب کو اپنے اس بندے پر ہے، لہٰذا ہم اگر اﷲ سے معافی، درگزر، لحاظ، چھوٹ اور رعایت کو پسند رکھتے ہیں تو لوگوں کے ساتھ بھی اپنے رویّے میں اس چیز کو پسند رکھیں۔
ایک اہم علاج یہ ہے کہ غصہ جس جگہ آرہا ہے، وہاں سے فوری اتنا دور ہٹ جائیں کہ وہ شخص ہمیں نظر نہ آئے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ غصے کا اصل سبب انسان کے جسم میں موجود حرارت کے مادّے ہیں اور حرارت کا سبب حرکت ہے، جتنی حرکت ہوگی یعنی جتنا زیادہ بولے گا، جواب دے گا، جتنا ہاتھ اٹھائے گا، جتنا سوچے گا، انتقام کے جذبے کے سبب حرکت بڑھتی رہے گی اور جیسے ہی وہ اپنی جگہ بدل لے گا سکون میں آئے گا اور ایسی حرکات سے پرہیز کرے گا تو حرارت کم ہوگی، جس کے نتیجے میں غصے کے جذبات بھی کم ہوں گے، جس کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق علماء نے مختلف مختصر علاج تجویز کیے ہیں۔
مثلاً تکرار سے بچنا، جواب الجواب سے پرہیز کرنا، اس موقع پر کمرہ، گھر، دفتر یا اس مخصوص جگہ سے اتنی دور جانا کہ وہ شخص نظر نہ آئے اور گفت گو کا موضوع بدل جائے۔ وضو کرلینا، پانی پی لینا، تعوّذ پڑھ لینا وغیرہ۔ یہ سب تجاویز جسم میں موجود اس حرارت کو مزید حرکت دینے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ ال غرض غصہ آجائے تو اسے نظر انداز کرے اور اس موقع پر کوئی بھی چھوٹا بڑا فیصلہ کرنے سے گریز کرے اور غصے کو خود پر حاوی ہونے نہ دے۔ غصہ ایک کیفیت ہے جس سے باہر نکل جانے کی صورت میں وہ کیفیت یکسر ختم ہوجاتی ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ غصہ کا دورانیہ ماہرین کے مطابق دس منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا لہٰذا کسی بھی طرح ان دس منٹ کو بہلا پھسلا کر کسی غلط فیصلے سے بچالے تو اگلے طویل دورانیہ تک اس کا فائدہ محسوس ہوگا۔
اﷲ تعالی عمل کی توفیق دے۔ آمین
قرآنِ کریم میں اﷲ رب العزت کے ارشاد کا مفہوم: ''وہ لوگ جو تنگی اور خوشی میں خرچ کرتے ہیں اور وہ جو غصے کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اﷲ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔'' مذکورہ آیت میں غصے کے گھونٹ کو پی کر معاف کرنے والے لوگوں کو اﷲ رب العزت اپنا پسندیدہ بندہ قرار دے رہے ہیں۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ اﷲ رب العزت کو ہر طرح کے گھونٹ میں غصے کا گھونٹ پی جانا بہت پسند ہے۔ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی مختصر نصیحت کی درخواست کرتے ہیں تو آپؐ فرماتے ہیں: ''غصہ مت کر!''
غصہ بہت سی برائیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو بہت سی برائیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی کوکھ سے بھی بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں، مثال کے طور پر غصہ اس شخص کو زیادہ آتا ہے جو تکبّر کے مغالطے میں مبتلا ہو۔ کوئی شخص کسی کو اپنے برابر یا اپنے سے بہتر سمجھ کر کبھی بھی اس پر غصہ نہیں کرتا۔ غصے کی وجہ سے جنم لینے والی برائیاں تو بہت زیادہ ہیں جن میں گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا اور مجبور ہونے کی صورت میں غیبت جیسی بیماریاں سر اٹھانے لگتی ہیں۔
ہمارے ہاں غصے کو ایک خوبی اور مہارت کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، مثلاً یہ کہنا کہ مجھ سے ہر بات برداشت نہیں ہوتی، میں تو صاف منہ پر سنا دیتا ہوں، میں لحاظ نہیں کرتا، میری کھوپڑی گرم ہے وغیرہ۔ یہ سب جملے استعمال کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بہت بڑی بات کررہے ہیں حالاں کہ یہ سب شیطان کے ہتھ کنڈے ہیں اور وہ ایسے جملوں کے ذریعے ہمیں غصے میں لاکر اپنے آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا اور ہمارے متعلقین کا نقصان ہوجاتا ہے۔
غصہ صرف ایک عارضی حالت کا نام نہیں بل کہ یہ شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ امام غزالیؒ اس حوالے سے فرماتے ہیں: ''غصے کے وقت صورت بگڑ کر بھیانک بن جاتی ہے، ایسی صورت بنتی ہے جیسے کاٹنے والا کتّا اور انسان اپنے مقام سے گر کر خوں خوار درندہ بن جاتا ہے جب کہ جو لوگ اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں ان کی صورت علماء، اولیاء اور صالحین سے ملتی ہے۔'' (احیاء العلوم)
غصے میں انسان عقل مندی سے کم عقلی کا سفر پل بھر میں طے کرلیتا ہے۔ اسے پتا بھی نہیں چلتا جب کہ اس کی عقل کام نہیں کر رہی ہوتی ہے۔ انصار کا قول ہے کہ گرم مزاجی بے وقوفی اور کم عقلی کی بنیادی اکائی ہے اور غصہ اس بنیاد کی راہ نمائی کرتا ہے گویا غصہ بے وقوفی کے سفر کو ایک راہ نما کی طرح طے کرانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ''جب تُو غصہ کرتا ہے تو اچھلتا ہے، قریب ہے کہ تو کہیں چھلانگ نہ لگا دے اور یہ چھلانگ تجھے سیدھا جہنم میں پہنچا دے۔'' اس سے معلوم ہُوا کہ غصہ انسان کی شخصیت میں فقط ضد، جہالت، انا پرستی کا ذریعہ بنتا ہے۔
ذیل میں غصے کے علاج کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کی جاتی ہیں:
وہ غصہ جو ہمارے مزاج کا مستقل حصہ بن جائے، اس کے پیچھے کچھ اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق غصہ ایک ردِعمل ہے جس کے اسباب میں ایک اہم سبب خوف ہے اور خوف ہمیشہ نااہلی کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر: ایک شخص کسی بھی وجہ سے اپنی بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ گھر میں کیسے جاؤں؟ قرض کیسے ادا کروں؟ گھر میں جاؤں گا تو بے سکون ہوجاؤں گا، کیوں کہ بیوی ذمہ داریاں پورا نہ ہونے کے سبب سوال کرے گی، بچوں کی فیس، علاج کا خرچ، گھر کا راشن تو وہ اس کے سبب ایک خوف میں مبتلا رہے گا اور جب بھی اس کی بیوی مذکورہ کوئی بھی سوال اٹھائے گی تو وہ اپنی کم زوری چھپانے اور اپنے گھیرے جانے کے خوف سے غصہ کرے گا، جھگڑے گا۔ ایسی صورت میں غصہ کا علاج اپنی کم زوری کو اہلیت و طاقت میں بدلنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
غصہ کا ایک سبب خود ساختہ تصورات مثلاً خاندان، قبیلہ، رنگ، نسل کی وجہ سے ایک بلاوجہ کی بڑائی کا شکار ہوجانے سے غلط فہمی میں خود کو افضل سمجھنا، کسی کی معمولی بدسلوکی پر اپنی پہچان جتا کر غصہ کرنا ہے۔ غصے کے حوالے سے سب سے پہلے یہ اصول سمجھنا ضروری ہے کہ غصہ انسانی خواہشات اور جذبات کا لازمی جز ہے لہٰذا غصے کے علاج کے حوالے سے جو بھی علاج ذکر کیا جائے گا، وہ غصے کو قابو کرنے کے طریقے ہوں گے نہ کہ ختم کرنے کے۔
رسول اکرم ﷺ کے مبارک ارشاد کا مفہوم ہے: ''پہلوان وہ نہیں ہے جو ایک ہی وار میں مقابل کو گرا دے، بل کہ حقیقی پہلوان وہ ہے جو عین غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔'' دل اس بات کا شدّت سے تقاضا کر رہا ہو کہ اس کو کھری کھری سناؤں، تھپڑ رسید کروں، گالیاں دوں، اپنی بھڑاس نکال دوں، گھر والوں پر چیخ چیخ کر اپنی بڑائی جتاؤں، غرض اپنے ہاتھ پیر یا زبان کے استعمال سے اپنے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچاؤں اور مجھے کوئی روک ٹوک کرنے والا بھی نہیں ہو۔ ٹھیک ایسی حالت کے دوران اپنے آپ پر قابو کرنا اور نظرانداز اور درگزر سے کام لینا یہ واقعی بہت بڑے پہلوان سے بھی بڑھ کر طاقت ور بننے والی خوبی ہے۔
غصے کے علاج کے طور پر کچھ طریقے ہیں جو مستقل علاج کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میں بعض اولیاء اﷲ ایک طریقہ ارشاد فرماتے ہیں کہ غصہ میں مبتلا شخص اپنے عیوب پر ہر حال میں نظر رکھے، اپنے عیوب پر نگاہ رکھنے والا شخص ہمیشہ عاجزی اور اپنی اصلاح کی فکر میں مگن رہے گا اور اسے یہ فکر کبھی بھی اپنے مخاطب پر چڑھائی کرنے سے روکتی رہے گی، ان شاء اﷲ۔
اہل علم حضرات ایک تجربے کی بات ارشاد فرماتے ہیں کہ غصے کو قابو کرنا ہمیشہ مفید رہا ہے اور غصے کے تقاضے پر عمل کرنا ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یعنی ایسا کبھی نہیں ہُوا کہ کسی نے غصہ نہ کرکے شرمندگی اٹھائی ہو، بل کہ ایسا شخص ہمیشہ اپنے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرے گا اور ایسا نہیں ہُوا کہ کسی نے غصہ کرکے افسوس اور شرمندگی نہ اٹھائی ہو، اس کا اندازہ معاشرے میں پھیلے بہت سے معاملات سے لگایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر: کاش! میں اس موقع پر اپنا ہاتھ روک لیتا، کاش! میری زبان گونگی ہوجاتی، میں اپنی زبان سے فلاں جملہ نہ کہتا۔ ال غرض بہت سے تعلقات لین دین، رشتے، تعلقات، خاندان اس غصے کی عارضی کیفیت کی نذر ہوجاتے ہیں۔
طلاق کی شرح تیزی سے بڑھنے میں غصہ کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ اکثر مرد حضرات غصے کی عین حالت میں معمولی تُو تُو مَیں مَیں کو طلاق کی نوبت تک پہنچا دیتے ہیں اور اکثریت بعد میں یہ کہتی پھرتی ہے کہ ہم نے غصے میں ایسا کیا ہے، اب ہم شرمندہ ہیں اور ہمیں کوئی طریقہ بتایا جائے تاکہ ہم اپنی شریکِ حیات کو دوبارہ لاسکیں لیکن: ''اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت''
غصے کو قابو کرنے کا ایک مفید علاج یہ بھی ہے کہ غصے کے دوران عذابِ الٰہی اور اﷲ کی قدرت کو ذہن میں دہرائے جیسا کہ روایت میں ہے کہ ایک بار حضرت صدیق اکبرؓ اپنے ایک غلام کو ڈانٹ رہے تھے تو آپؐ نے صدیق اکبرؓ سے فرمایا: ''اﷲ تم پر اس سے زیادہ اختیار رکھتا ہے جتنا تم اپنے اس غلام پر رکھتے ہو۔'' یعنی ہم جس پر غصہ کرکے اپنی بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں، وہ درحقیقت ہمارا اختیار ہوتا ہے، جسے ہم استعمال کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر اختیار رب کو اپنے اس بندے پر ہے، لہٰذا ہم اگر اﷲ سے معافی، درگزر، لحاظ، چھوٹ اور رعایت کو پسند رکھتے ہیں تو لوگوں کے ساتھ بھی اپنے رویّے میں اس چیز کو پسند رکھیں۔
ایک اہم علاج یہ ہے کہ غصہ جس جگہ آرہا ہے، وہاں سے فوری اتنا دور ہٹ جائیں کہ وہ شخص ہمیں نظر نہ آئے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ غصے کا اصل سبب انسان کے جسم میں موجود حرارت کے مادّے ہیں اور حرارت کا سبب حرکت ہے، جتنی حرکت ہوگی یعنی جتنا زیادہ بولے گا، جواب دے گا، جتنا ہاتھ اٹھائے گا، جتنا سوچے گا، انتقام کے جذبے کے سبب حرکت بڑھتی رہے گی اور جیسے ہی وہ اپنی جگہ بدل لے گا سکون میں آئے گا اور ایسی حرکات سے پرہیز کرے گا تو حرارت کم ہوگی، جس کے نتیجے میں غصے کے جذبات بھی کم ہوں گے، جس کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق علماء نے مختلف مختصر علاج تجویز کیے ہیں۔
مثلاً تکرار سے بچنا، جواب الجواب سے پرہیز کرنا، اس موقع پر کمرہ، گھر، دفتر یا اس مخصوص جگہ سے اتنی دور جانا کہ وہ شخص نظر نہ آئے اور گفت گو کا موضوع بدل جائے۔ وضو کرلینا، پانی پی لینا، تعوّذ پڑھ لینا وغیرہ۔ یہ سب تجاویز جسم میں موجود اس حرارت کو مزید حرکت دینے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ ال غرض غصہ آجائے تو اسے نظر انداز کرے اور اس موقع پر کوئی بھی چھوٹا بڑا فیصلہ کرنے سے گریز کرے اور غصے کو خود پر حاوی ہونے نہ دے۔ غصہ ایک کیفیت ہے جس سے باہر نکل جانے کی صورت میں وہ کیفیت یکسر ختم ہوجاتی ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ غصہ کا دورانیہ ماہرین کے مطابق دس منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا لہٰذا کسی بھی طرح ان دس منٹ کو بہلا پھسلا کر کسی غلط فیصلے سے بچالے تو اگلے طویل دورانیہ تک اس کا فائدہ محسوس ہوگا۔
اﷲ تعالی عمل کی توفیق دے۔ آمین