ماحول دشمن انسانی سرگرمیاں ہیٹ ویوکاسبب
نسل انسانی نے خود غرضی کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے
سورج آگ برسا رہا ہے، پاکستان بھر میں قیامت خیز گرمی کا سلسلہ جاری ہے، حبس اور لُونے ہر کسی کو بے حال کردیا ہے۔ چرند، پرند اور انسان، سبھی گرمی سے نڈھال نظر آرہے ہیں۔ رہی سہی کسر بدترین لوڈ شیڈنگ نے پوری کردی ہے جس کا دورانیہ دس سے بارہ گھنٹے ہوچکا ہے۔ درختوں کی کٹائی اور کنکریٹ کے جنگلوں نے عمارتوں کو آگ کا گولا بنا دیا ہے۔ اونچی عمارتیں اور تنگ سڑکیں، گرم ہوا کو شہروں کے اندر ہی روک لینے کا نسخہ ہیں۔
درحقیقت پاکستان اس خطے میں واقع ہے جس کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرات لا حق ہیں۔ پاکستان میں درجہ حرارت دنیا کے دیگر ممالک سے 10 سال پہلے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ ہیٹ ویو میں پاکستان کا درجہ حرارت پچاس ڈگری سے بھی زائد ریکارڈ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کا اضافہ ہوا ہے جوکہ 2026 میں ہونا تھا۔ ہیٹ ویو پہلے بھی کئی مرتبہ آچکی ہے بلکہ اب تو ہر سال ہی آتی ہے، پچھلے 20 سال میں دنیا بھر میں ایک لاکھ66 ہزار افراد ہیٹ ویو کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''آم کھاؤ پیڑ نہ گنو'' لیکن ہم آم کھاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ آم کے درخت لگانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا آم کھانا ضروری ہے۔ گرمی لگنے کی صورت میں جو اے سی اور کولر استعمال کیے جاتے ہیں ان کی قیمت ماحولیاتی تبدیلی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ شاپنگ مال میں لگا سینٹرل ایئرکنڈیشننگ سسٹم مال کو تو ٹھنڈا رکھتا ہے لیکن اس مصنوعی ٹھنڈک کے ماحول پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس سے سب لاعلم ہیں، وہی مصنوعی ٹھنڈک ماحول میں جان لیوا گرمی بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ نسل انسانی نے خود غرضی کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہ دنیا جہاں ہم رہتے ہیں صرف انسانوں کا گھر نہیں ہے بلکہ کرہ ارض پر رہنے والے تمام جانداروں کا گھر ہے لیکن انسانوں نے اپنی ترقی اور سہولت کے لیے اس دنیا کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جدت کے نام پر ایسی ایسی ایجادات کی ہیں جس کے اثرات اب سامنے آرہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ کوئلہ، گیس، تیل کا استعمال ہے۔ ان سے نکلنے والا ایندھن ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال جب سے شروع ہوا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔ یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ روز بروز زمین پر درختوں کا کٹاؤ جس سے گرین ہاؤس گیسز کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ پانی کا بے تحاشا استعمال، صنعتوں میں ماحول دشمن سرگرمیاں مثلاً ماحول کو آلودہ کرنے والی گیس اور آلودہ پانی جوکہ آلودگی کا سبب بھی ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے۔ اسی طرح ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو سورج کی توانائی کو پھنساتی ہیں۔
ماحول دشمن انسانی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں۔ شہری آبادیوں میں اضافے کی وجہ سے لوگ کنکریٹ کی عمارتوں میں محصور ہوتے جا رہے ہیں، منفی اثرات میں نہ صرف پہلے سے زیادہ بے آرامی اور تھکاوٹ شامل ہے، بلکہ سانس کے امراض، سر درد، ہیٹ اسٹروک اور یہاں تک کہ گرمی سے ہلاکت بھی شامل ہیں۔ گرمی سے ہلاکت سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لوگ بخوبی واقف ہیں جب 2015میں 1200 سے زائد افراد گرمی کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے تھے۔
درحقیقت لالچ اور ہوس نے انسانوں کو یوں گھیرا کہ اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے گلشن کو اجاڑ لیا۔ کراچی کے سرسبز درخت کٹنے لگے، خالی میدان اور پارکوں پر قبضے کا چلن عام ہوا۔ تجارتی سرگرمیاں پھیلنے لگیں۔ کولتارکی سیاہ سڑکیں کالے ناگ کی طرح شہر بھر میں پھیل گئیں۔ پتھر اور مٹی کی جگہ سیمنٹ کی بلند و بالا عمارات فلک کو چھونے لگیں۔ بڑے پلاٹوں کی تو بات ہی چھوڑیں ایک سو بیس گز کے چھوٹے پلاٹ پر بھی کئی منزلہ عمارات تعمیر ہونے لگیں۔ ایک طرف کراچی اپنی بربادی کی داستاں لکھ رہا تھا تو دوسری جانب دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی نامی بلا نے اپنے پر پھیلائے کراچی اور اس جیسے دیگر شہروں نے اس بلا کو اڑ کر گلے لگایا۔ پرانی عمارات پتھر اور مٹی کی ہوا کرتی تھیں۔
ان کے اندر درازیں ہوتی جن سے ہوا اور ٹھنڈک گزر سکتی۔ یہ عمارات گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم رہتی لیکن سیمنٹ سے بننے والی بلند و بالا عمارات اس کے برعکس تھیں۔ اسی طرح لاہور میں دو بار شجرکاری مہم چلائی جاتی ہے، ہر سال سرکاری اور نجی اداروں کی جانب سے پودے لگائے جاتے ہیں، لیکن پودے لگانے کے بعد اس کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوپاتے۔
ہیٹ اسٹروک کے بعد بھی کراچی میں نجی اور سرکاری سطح پر پودے لگانے کی ' تقاریب' کی گئیں، لیکن فوٹو سیشن اور میڈیا کوریج کے بعد ان پودوں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کے پاس کراچی میں ہونے والی شجر کاری کے مستند اعداد و شمار نہیں ہیں، تاہم اگر شجرکاری کے لیے منعقد کی گئیں تقاریب اور ان میں بیان کیے گئے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے کراچی کو اسلام آباد کے برابر سر سبز ہوجانا چاہیے تھا۔
ان سب مسائل کا حل تو ریاست نے نکالنا ہے لیکن موسم کی شدت کو کم کرنے کے لیے ہم عوام ہی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ہیٹ ویو اور شدید گرمی سے بچنے کے لیے ہم سب کو درخت لگانا ہوں گے اور بہت درخت لگانا ہوں گے۔ درخت درجہ حرارت کم کرنے کے کام آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کے بہت سے فائدے ہیں۔ یہ ماحول کو صاف رکھتے ہیں، ہمیں پھل دیتے ہیں۔ ان کا تنا، چھال، شاخیں، پتے، جڑیں، غرض ہر چیز انسانوں کے کام آتی ہے مگر ہمارے ملک میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ درخت کاٹے جا رہے ہیں اور ہر روز کاٹے جا رہے ہیں۔
ایک پودے کو درخت بننے میں کئی سال لگتے ہیں مگر اس کو کاٹنے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ یہ زیادتی سرکاری سطح پر بھی ہو رہی ہے اور عوام بھی اس کام میں پیش پیش ہیں۔ یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ ہمارے ملک میں اس قیمتی قدرتی اثاثے کی قدر نہیں کی جاتی، اگر پڑھے لکھے لوگوں کا اس ملک میں یہ حال ہے تو کیا امید رکھیں ان لوگوں سے جو ناخواندہ ہیں۔
مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں 10 ایونیو آئی جے پرنسپل روڈ سے سری نگر ہائی وے کے ساتھ جی ٹین اور ایف ٹین کی طرف تعمیر ہوئی اور اس کی تعمیر میں ایک ہزار سے زائد درخت کاٹ دیے گئے، اس سڑک کی زد میں چھ پارکس اور کھیل کے میدان بھی آئے تھے۔ ڈھائی سو کے قریب پائن ٹری کاٹے گئے۔ ایک طرف مارگلہ ایونیو کے لیے درخت کاٹے گئے تو دوسری طرف 10 ایونیو کے لیے درختوں کا قتل عام کیا گیا۔
اس طرح کے متعدد اقدامات کے نتیجے میں اسلام آباد کا درجہ حرارت مزید بڑھا ہے۔ ایسے میں اسلام آباد کے سارے درخت کاٹ دیے گئے تو اسلام آباد اور سبی کے درجہ حرارت میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اس وقت بھی طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام تنگ ہیں، لوگ نزدیکی پارکس میں درختوں کی چھاؤں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بچے پارکوں میں کھیل لیتے ہیں۔
یہ بھی نہیں رہیں گے تو عوام کہاں جائیں گے؟ اس وقت پانی کی قلت، گرمی اور لوڈ شیڈنگ نے عوام کا برا حال کردیا ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے، اوپر سے اسلام آباد کا حسن بھی اس سے چھینا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی سمیت پورے پاکستان میں وسیع پیمانے پر شجر کاری کی جائے، بڑے درختوں کو کاٹا نہ جائے بلکہ اگر کوئی ضروری تعمیراتی کام ہو تو انھیں کہیں اور منتقل کر دیا جائے۔ جتنا ہوسکے نئے درخت لگائیں۔ پائن ٹری ماحول کو ٹھنڈا کرتے ہیں' ان کو زیادہ سے زیادہ لگایا جانا چاہیے تاکہ ہیٹ ویو کا دیرپا حل نکالا جا سکے۔
تمام شہروں میں ماحول کے موافق درخت لگائے جائیں۔ بلاوجہ شہروں کو کنکریٹ کا جنگل مت بنائیں۔ ہمیں پھولوں، پودوں، درختوں اور جنگلات کی بھی ضرورت ہے۔ پرندوں کے گانے کانوں میں رس گھولیں، شور اور دھویں سے پاک ماحول ہو اور ہم بیماریوں اور آلودگی سے محفوظ رہیں۔
جولائی، اگست شجرکاری کے لیے بہترین وقت ہے، اس لیے درخت لگائیں اور گرمی کو دور بھگائیں۔ دنیا بھر میں شہری حکومتیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اہم اور مہنگے اقدامات اٹھا رہی ہیں جن میں سڑکوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہلکے خاکستری رنگ سے رنگنا، چھتوں پر سبزہ اگانا، سولر پینلز لگانا یا پھر چھتوں کو سفید رنگ کرنا شامل ہیں۔ اس طرح کے کئی پالیسی فیصلے کیے جا رہے ہیں تاکہ درجہ حرارت میں اضافے پر قابو پایا جا سکے، مگر ایک آسان اور سادہ حل جنگلات کی بحالی ہوسکتا ہے۔
درحقیقت پاکستان اس خطے میں واقع ہے جس کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرات لا حق ہیں۔ پاکستان میں درجہ حرارت دنیا کے دیگر ممالک سے 10 سال پہلے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ ہیٹ ویو میں پاکستان کا درجہ حرارت پچاس ڈگری سے بھی زائد ریکارڈ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کا اضافہ ہوا ہے جوکہ 2026 میں ہونا تھا۔ ہیٹ ویو پہلے بھی کئی مرتبہ آچکی ہے بلکہ اب تو ہر سال ہی آتی ہے، پچھلے 20 سال میں دنیا بھر میں ایک لاکھ66 ہزار افراد ہیٹ ویو کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''آم کھاؤ پیڑ نہ گنو'' لیکن ہم آم کھاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ آم کے درخت لگانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا آم کھانا ضروری ہے۔ گرمی لگنے کی صورت میں جو اے سی اور کولر استعمال کیے جاتے ہیں ان کی قیمت ماحولیاتی تبدیلی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ شاپنگ مال میں لگا سینٹرل ایئرکنڈیشننگ سسٹم مال کو تو ٹھنڈا رکھتا ہے لیکن اس مصنوعی ٹھنڈک کے ماحول پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس سے سب لاعلم ہیں، وہی مصنوعی ٹھنڈک ماحول میں جان لیوا گرمی بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ نسل انسانی نے خود غرضی کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہ دنیا جہاں ہم رہتے ہیں صرف انسانوں کا گھر نہیں ہے بلکہ کرہ ارض پر رہنے والے تمام جانداروں کا گھر ہے لیکن انسانوں نے اپنی ترقی اور سہولت کے لیے اس دنیا کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جدت کے نام پر ایسی ایسی ایجادات کی ہیں جس کے اثرات اب سامنے آرہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ کوئلہ، گیس، تیل کا استعمال ہے۔ ان سے نکلنے والا ایندھن ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال جب سے شروع ہوا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔ یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ روز بروز زمین پر درختوں کا کٹاؤ جس سے گرین ہاؤس گیسز کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ پانی کا بے تحاشا استعمال، صنعتوں میں ماحول دشمن سرگرمیاں مثلاً ماحول کو آلودہ کرنے والی گیس اور آلودہ پانی جوکہ آلودگی کا سبب بھی ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے۔ اسی طرح ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو سورج کی توانائی کو پھنساتی ہیں۔
ماحول دشمن انسانی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں۔ شہری آبادیوں میں اضافے کی وجہ سے لوگ کنکریٹ کی عمارتوں میں محصور ہوتے جا رہے ہیں، منفی اثرات میں نہ صرف پہلے سے زیادہ بے آرامی اور تھکاوٹ شامل ہے، بلکہ سانس کے امراض، سر درد، ہیٹ اسٹروک اور یہاں تک کہ گرمی سے ہلاکت بھی شامل ہیں۔ گرمی سے ہلاکت سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لوگ بخوبی واقف ہیں جب 2015میں 1200 سے زائد افراد گرمی کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے تھے۔
درحقیقت لالچ اور ہوس نے انسانوں کو یوں گھیرا کہ اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے گلشن کو اجاڑ لیا۔ کراچی کے سرسبز درخت کٹنے لگے، خالی میدان اور پارکوں پر قبضے کا چلن عام ہوا۔ تجارتی سرگرمیاں پھیلنے لگیں۔ کولتارکی سیاہ سڑکیں کالے ناگ کی طرح شہر بھر میں پھیل گئیں۔ پتھر اور مٹی کی جگہ سیمنٹ کی بلند و بالا عمارات فلک کو چھونے لگیں۔ بڑے پلاٹوں کی تو بات ہی چھوڑیں ایک سو بیس گز کے چھوٹے پلاٹ پر بھی کئی منزلہ عمارات تعمیر ہونے لگیں۔ ایک طرف کراچی اپنی بربادی کی داستاں لکھ رہا تھا تو دوسری جانب دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی نامی بلا نے اپنے پر پھیلائے کراچی اور اس جیسے دیگر شہروں نے اس بلا کو اڑ کر گلے لگایا۔ پرانی عمارات پتھر اور مٹی کی ہوا کرتی تھیں۔
ان کے اندر درازیں ہوتی جن سے ہوا اور ٹھنڈک گزر سکتی۔ یہ عمارات گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم رہتی لیکن سیمنٹ سے بننے والی بلند و بالا عمارات اس کے برعکس تھیں۔ اسی طرح لاہور میں دو بار شجرکاری مہم چلائی جاتی ہے، ہر سال سرکاری اور نجی اداروں کی جانب سے پودے لگائے جاتے ہیں، لیکن پودے لگانے کے بعد اس کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوپاتے۔
ہیٹ اسٹروک کے بعد بھی کراچی میں نجی اور سرکاری سطح پر پودے لگانے کی ' تقاریب' کی گئیں، لیکن فوٹو سیشن اور میڈیا کوریج کے بعد ان پودوں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کے پاس کراچی میں ہونے والی شجر کاری کے مستند اعداد و شمار نہیں ہیں، تاہم اگر شجرکاری کے لیے منعقد کی گئیں تقاریب اور ان میں بیان کیے گئے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے کراچی کو اسلام آباد کے برابر سر سبز ہوجانا چاہیے تھا۔
ان سب مسائل کا حل تو ریاست نے نکالنا ہے لیکن موسم کی شدت کو کم کرنے کے لیے ہم عوام ہی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ہیٹ ویو اور شدید گرمی سے بچنے کے لیے ہم سب کو درخت لگانا ہوں گے اور بہت درخت لگانا ہوں گے۔ درخت درجہ حرارت کم کرنے کے کام آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کے بہت سے فائدے ہیں۔ یہ ماحول کو صاف رکھتے ہیں، ہمیں پھل دیتے ہیں۔ ان کا تنا، چھال، شاخیں، پتے، جڑیں، غرض ہر چیز انسانوں کے کام آتی ہے مگر ہمارے ملک میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ درخت کاٹے جا رہے ہیں اور ہر روز کاٹے جا رہے ہیں۔
ایک پودے کو درخت بننے میں کئی سال لگتے ہیں مگر اس کو کاٹنے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ یہ زیادتی سرکاری سطح پر بھی ہو رہی ہے اور عوام بھی اس کام میں پیش پیش ہیں۔ یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ ہمارے ملک میں اس قیمتی قدرتی اثاثے کی قدر نہیں کی جاتی، اگر پڑھے لکھے لوگوں کا اس ملک میں یہ حال ہے تو کیا امید رکھیں ان لوگوں سے جو ناخواندہ ہیں۔
مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں 10 ایونیو آئی جے پرنسپل روڈ سے سری نگر ہائی وے کے ساتھ جی ٹین اور ایف ٹین کی طرف تعمیر ہوئی اور اس کی تعمیر میں ایک ہزار سے زائد درخت کاٹ دیے گئے، اس سڑک کی زد میں چھ پارکس اور کھیل کے میدان بھی آئے تھے۔ ڈھائی سو کے قریب پائن ٹری کاٹے گئے۔ ایک طرف مارگلہ ایونیو کے لیے درخت کاٹے گئے تو دوسری طرف 10 ایونیو کے لیے درختوں کا قتل عام کیا گیا۔
اس طرح کے متعدد اقدامات کے نتیجے میں اسلام آباد کا درجہ حرارت مزید بڑھا ہے۔ ایسے میں اسلام آباد کے سارے درخت کاٹ دیے گئے تو اسلام آباد اور سبی کے درجہ حرارت میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اس وقت بھی طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام تنگ ہیں، لوگ نزدیکی پارکس میں درختوں کی چھاؤں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بچے پارکوں میں کھیل لیتے ہیں۔
یہ بھی نہیں رہیں گے تو عوام کہاں جائیں گے؟ اس وقت پانی کی قلت، گرمی اور لوڈ شیڈنگ نے عوام کا برا حال کردیا ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے، اوپر سے اسلام آباد کا حسن بھی اس سے چھینا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی سمیت پورے پاکستان میں وسیع پیمانے پر شجر کاری کی جائے، بڑے درختوں کو کاٹا نہ جائے بلکہ اگر کوئی ضروری تعمیراتی کام ہو تو انھیں کہیں اور منتقل کر دیا جائے۔ جتنا ہوسکے نئے درخت لگائیں۔ پائن ٹری ماحول کو ٹھنڈا کرتے ہیں' ان کو زیادہ سے زیادہ لگایا جانا چاہیے تاکہ ہیٹ ویو کا دیرپا حل نکالا جا سکے۔
تمام شہروں میں ماحول کے موافق درخت لگائے جائیں۔ بلاوجہ شہروں کو کنکریٹ کا جنگل مت بنائیں۔ ہمیں پھولوں، پودوں، درختوں اور جنگلات کی بھی ضرورت ہے۔ پرندوں کے گانے کانوں میں رس گھولیں، شور اور دھویں سے پاک ماحول ہو اور ہم بیماریوں اور آلودگی سے محفوظ رہیں۔
جولائی، اگست شجرکاری کے لیے بہترین وقت ہے، اس لیے درخت لگائیں اور گرمی کو دور بھگائیں۔ دنیا بھر میں شہری حکومتیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اہم اور مہنگے اقدامات اٹھا رہی ہیں جن میں سڑکوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہلکے خاکستری رنگ سے رنگنا، چھتوں پر سبزہ اگانا، سولر پینلز لگانا یا پھر چھتوں کو سفید رنگ کرنا شامل ہیں۔ اس طرح کے کئی پالیسی فیصلے کیے جا رہے ہیں تاکہ درجہ حرارت میں اضافے پر قابو پایا جا سکے، مگر ایک آسان اور سادہ حل جنگلات کی بحالی ہوسکتا ہے۔