کون بنے گا ایران کا نیا صدر ؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 28 جون 2024
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ایران نے اپنے کئی فیصلوں، اقدامات اور پالیسیوں کی بدولت جنوبی ایشیا اور عالمِ عرب میں اہم حیثیت اختیار کر رکھی ہے ۔ اب ایران میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہو رہی ہے تو تقریباً ساری دُنیا کی نظریں ایران پر مرتکز ہیں ۔ فقط جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں بلکہ شمالی امریکہ اور مغربی ممالک بھی نئے ایرانی صدر کے انتخاب پر نظریں ٹکائے ہُوئے ہیں ۔

یوں تو ایران میں شیڈول اور اصول کے مطابق اگلے سال یعنی 2025 میں صدارتی انتخابات منعقد ہونے تھے مگر 5 ہفتے قبل ایک ایسا حادثہ فاجعہ پیش آیا کہ ایران میں آج 28 جون 2024 کو نئے ایرانی صدر کے لیے انتخابات کا میدان سجانا پڑا ہے۔ 19 مئی 2024کو منتخب ایرانی صدر ، جناب ابراہیم رئیسی ، ایک ڈیم کا افتتاح کرنے گئے تھے ۔ واپسی پر اُن کا ہیلی کاپٹر مبینہ طور پر دھند کا شکار ہُوا اور پہاڑی علاقے میں پُر اسرار طور پر گر کر تباہ ہوگیا ۔

رئیسی صاحب اپنے نصف درجن سینئر ساتھیوں سمیت ، جن میں ایران کے وزیر خارجہ عبداللہیان بھی شامل تھے، شہید ہو گئے ۔ ایران سمیت سارا عالمِ اسلام اِس سانحہ پر اب تک سوگوار ہے ۔ ابراہیم رئیسی صاحب ہم سب پاکستانیوں کو اس لیے بھی خاص طور پر یاد آتے ہیں کہ شہادت سے چند ہفتے قبل اُنھوںنے اپنی اہلیہ محترمہ، ڈاکٹر جمیلہ عالم الہدیٰ، کے ساتھ پاکستان کا سہ روزہ شاندار سرکاری دَورہ کیا تھا۔

رئیسی صاحب کی شہادت کے فوراً بعد جناب محمد مخبر کو ایران کا عبوری وزیر اعظم متعین کر دیا گیا تھا ۔آج نئے ایرانی صدر منتخب کیے جائیں گے ۔ ایران ہمارا برادر اور اہم ہمسایہ اسلامی ملک ہے ۔ اِس کے نئے صدر کے انتخاب بارے ہمیں خاص دلچسپی ہونی چاہیے تھی ۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ایرانی صدارتی انتخاب کی کوریج کے لیے ایران نہیں پہنچا ؛ چنانچہ ہمارے پاس نئے ایرانی صدارت کے اُمیدواروں بارے جو بھی اور جتنی بھی معلومات ہیں ،براہِ راست مشاہدات کا نتیجہ نہیں بلکہ امریکہ ، مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ممالک کے اخبارات و جرائد اور مستند و معروف ویب سائٹس میں شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹس کے مطالعہ کا نتیجہ کہی جا سکتی ہیں ۔ ہمارے اخبارات و جرائد بھی نئے ایرانی صدارتی انتخابات کی خبروں اور تجزیوں سے خالی نظر آ رہے ہیں ۔

اِس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ’’ نیویارک ٹائمز ‘‘ ایسا عالمی شہرت یافتہ اخبار بار بار اور مسلسل نئے ایرانی صدر کے انتخاب اور صدارتی اُمیدواروں بارے تفصیلی رپورٹیں شائع کررہا ہے ۔ مثال کے طور پر 21جون 2024ء کو مذکورہ اخبار کے فرنٹ پیج پر شائع ہونے والی ایک مفصّل اسٹوری۔ اِسے Eve Sampson اورAllisa Rubian نے لکھا ہے ۔

آج منعقد ہونے والے ایرانی صدارتی انتخاب میں شرکت کے لیے یوں تو80 بڑے اُمیدواروں نے ’’درخواستیں‘‘ دی تھیں۔ ایران کی 12 رکنی نہائت طاقتور ’’گارڈین کونسل‘‘ نے پہلے اِن سب ’’درخواستوں‘‘ اور شخصیات کی خوب چھان پھٹک کی اور پھر اِن میں سے74اُمیدواروں کی ’’درخواستوں‘‘ کو مسترد کر دیا ۔ صرف6اُمیدوار میدان میں رہ گئے ۔

’’گارڈین کونسل‘‘ نے یہ بھی تکلّف گوارا نہیں کیا کہ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو یہ بتایا جائے کہ 74افراد کو کن بنیادوں پر مسترد کیا گیا ہے ؟ 74 کے استرداد اور 6 افراد کے چناؤ پر آخری مہرِ تصدیق ایران کے سپریم لیڈر ،جناب آئت اللہ خامنہ ای ، نے ثبت کی ۔اگرچہ خامنہ ای صاحب غیر منتخب شخصیت ہیں۔شائد اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایران میں کوئی بھی صدر منتخب ہو جائے ، کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایرانی اقتدار کی اصل طاقت اور لگام آئت اللہ خامنہ ای صاحب کے پاس ہے۔ اُن کا ادارہ اور شخصیت مستقل حیثیت کی حامل ہے۔ غالباً ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایرانی صدارتی انتخابات کو دُنیا اس لیے بھی ’’غیر جمہوری‘‘ کہتی ہے۔ اور ایرانی عوام کا ووٹ ٹرن آؤٹ اس لیے بھی کم رہتا ہے کہ سب جانتے ہیں جب اصل فیصلے اور حکم سپریم لیڈر ہی نے صادر فرمانے ہیں تو صدر کا منتخب ہونا اور ووٹ ڈالنا چہ معنی دارد ؟

جن شخصیات کو ایرانی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی ، اُن میں بعض تو بڑے بڑے نام ہیں ۔ مثال کے طور پر محمود احمدی نژاد ، جو دو بار ایران کے صدر منتخب ہو چکے ہیں ۔ علی لاریجانی، جو ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر رہ چکے ہیں اور اسحاق جہانگیری ، جو ایران کے سابق نائب صدر رہ چکے ہیں ۔ اِنہیں مگر بوجوہ سپریم لیڈر کے دربار سے منظوری نہ مل سکی اور یہ بیچارے کچھ بھی نہ کر سکے ۔

اپنے استرداد کے خلاف کسی جگہ درخواست دائر کر سکے نہ کسی عدالت کے دروازے پر دستک ہی دے سکے ۔اور جو6اُمیدوار ایرانی صدارت کا انتخاب لڑنے کے اہل قرار پائے ہیں، ان کے اسمائے گرامی یوں ہیں :(۱) محمد باقر غالی باف ، تہران کے سابق میئر اور IRGCکے سابق کمانڈر (۲)سعید جلیلی، عالمی طاقتوں سے ایران کی جانب سے ایٹمی مکالمہ کار، تہران کے سابق میئر بھی (۳)علی رضا زکانی،تہران کے سابق میئر (۴) مسعود پیزش کیان، سابق وزیر صحت، پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر، ایرانی پارلیمنٹ کے رکن (۵) مصطفی پور محمدی ،سابق وزیر داخلہ و سابق وزیر انصاف (۶) امیر حسین غازی زادہ ہاشمی، ایرانی شہدا و سابق ایرانی فوجیوں کی فلاح و بہبود فاؤنڈیشن کے سربراہ!

ایرانی صدارت کے مذکورہ نصف درجن اُمیدواروں کے بارے میں ایک بات پورے تیقن سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ سب صدقِ دل سے ایرانی سپریم لیڈر ، جناب آئت اللہ خامنہ ای، کے وفادار ہیں۔ ایرانی مذہبی و کٹر انقلابی حکومت پر دل و جان سے نثار۔ معروف معنوں میں ہارڈ لائنرز ۔ سخت امریکہ و مغرب مخالف۔ یہ سب سپریم لیڈر کی منظورِ نظر ’’گارڈین کونسل‘‘ کی چھاننی سے گزر کر آئے ہیں ، اس لیے سپریم لیڈر صاحب مطمئن ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی نیا ایرانی صدر منتخب ہو جائے ، وہ سپریم لیڈر کے کھینچے گئے سخت نظریاتی دائرے سے باہر جانے کی جرأت و جسارت نہیں کر سکتا۔ یہ سوال بہرحال اُٹھائے جا رہے ہیں کہ ان چھ اُمیدواروں میں سے کونسا اُمیدوار جناب سپریم لیڈر کا فیورٹ ہے۔ ظاہر ہے ’’سہاگن ‘‘ وہی ہوگی جسے ’’پیا‘‘ چاہے گا۔ ابھی تک مگر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ جناب سپریم لیڈر کا فیورٹ اُمیدوار کون ہے؟

دُنیا کے تقریباً سبھی تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی ادارے مذکورہ6صدارتی اُمیدواروں کے خیالات ، اقدامات ، ماضی اور نظریات پر گہری نگاہیں گاڑے ہُوئے ہیں ۔ اور یہ بھی جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ جناب آئت اللہ خامنہ ای کا فیورٹ اُمیدوار کون ہے؟ صہیونی روزنامہThe Jerusalam Post کا کہنا ہے کہ ’’ آئت اللہ خامنہ ای کے صاحبزادے، جناب مجتبیٰ، نے کسی اُمیدوار کو سپریم لیڈر کا فیورٹ بننے ہی نہیں دیا کیونکہ وہ خود سپریم لیڈر کے عہدے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔‘‘ ممتاز امریکی تحقیقاتی جریدےAtlantic Councilنے بھی 21 جون 2024 کی اشاعت میں مصنف Shay Khatiriکا ایک طویل اور تفصیلی آرٹیکل شائع کیا ہے ۔

اِس مضمون میں بھی یہ راز ڈھونڈ نے کی کوشش کی گئی ہے کہ سپریم لیڈرکا فیورٹ کونسا اُمیدوار ہے اور یہ کہ ایرانی صدارتی اُمیدوار دراصل ہیں کون ؟بسیار کوشش کے باوصف راز تلاش نہیں کیا جا سکا ۔ البتہ بعض صدارتی اُمیدواروں پر لگے ماضی کے مبینہ بعض دھبے ضرور تلاش کر لیے ہیں ۔ ان دھبوں پر بھی یقین کرنا دشوار ہے کہ یہ ایران مخالفین کا پروپیگنڈہ بھی ہو سکتا ہے ۔ بہرحال آج رات تک نئے منتخب ایرانی صدر کا نام سامنے آ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔