دو پیسے کی افیم

سعد اللہ جان برق  جمعـء 28 جون 2024
barq@email.com

[email protected]

پہلے ایک شعرسنئیے

شوق کی دیوانگی طے کرگئی کتنے مقام

عقل جس منزل میں تھی اب تک اسی منزل میں ہے

لیکن یہاں عقل سے مراد وہ عقل نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں بلکہ وہ عقل ہے جو آپ تو کیا خود عقل بھی نہیں سمجھ رہی ہے بلکہ اس عقل کو مزید واضح کرنے کے لیے مکالمہ سنئے

بیٹے! گھر میں آج کیا پکا ہے ؟

آج میری ماں نے عقل پکائی ، یہاں آپ کی عقل یہ بھی سمجھ سکتی ہے کہ اس میں نئی کیابات ہے یہ تو گھرگھر کی کہانی ہے ہرگھر میں بیویاں عقل ہی پکاتی ہیں لیکن ہم شوہروں کی عقل کی بات نہیں کررہے ہیں، اس لڑکے کی ماں نے واقعی اس دن مغز پکایا تھا۔جس عقل کی بات ہم کرناچاہتے ہیں جو ابتک اسی منزل میں ہے اوریہ بات ہمیں پڑوسی ملک میں ہونے والے انتخابات سے پتہ چلی ہے کہ واقعی کالانعام کی عقل اسی جگہ پر ٹھہری ہوئی ہے جس جگہ سیکڑوں ہزاروں سال پہلے تھی۔ اگر تھوڑی بہت ’’ہلی‘‘بھی تھی تو دامودرداس نریندرداس مودی نے اسے یوٹرن دے کر پھر اسی مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں کا خمیر تھی ۔ یعنی بے حقیقت اور جھوٹے نعروں پر کالانعام کا خون گر جانا اور شکارکرنا۔

بڑودرہ ریل اورگجرات سے شروع ہونے والا سفر اس نے ایودھیا اور رام جنم بھومی اسی آزمودہ نسخے کا سفر ہے ۔ یہ نسخہ جو قدیم ایام میں برہمن اورکھشتری پر مشتمل اشرافیہ نے ایجاد کیاتھا اسے آپ اکثریت پر اقلیت کی حکومت کانسخہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔

اگر تاریخ کے اوراق میں ڈھونڈا جائے تو دو لفظوں میں یہ نسخہ تریاق اعظم ہے ۔ اقلیت کا اکثریت پر حکومت کرنے اورکرتے رہنے کا ۔ صرف ہندوستان میں دیکھا جائے تو ’’آریا‘‘ یاکھشتری بھی اقلیت تھے ، ایرانی بھی اقلیت تھے، یونانی بھی اقلیت تھے اوراس کے بعد جو آئے اورآتے رہے وہ بھی سب کے سب اقلیت تھے جب حکمران دیوتا تھا تب بھی اقلیت حکمران تھی اوراکثریت غلام ۔اس نے اپنا نام دیوتا کا بیٹا رکھا تب بھی اکثریت غلام تھی اقلیت کی ۔پھرظل الٰہیوں کے زمانوں میں بھی وہی پندرہ فی صد اشرافیہ اس پچاسی فی صد عوامیہ پر مسلط رہی اورجب گاڈ دی سیو دی کنگ یاسایہ خدائے ذوالجلال کا زمانہ آیا تب بھی اکثریت محکوم اوراقلیت حاکم رہی اوراگر اب یہ زمانہ ہے جس میں بندوں کو گناکرتے ہیں تولا نہیں کرتے تو بھی وہی صورت حال ہے کیوں کہ صدیوں ہزاروں کے تسلسل میں عقل کے کثرت استعمال اورعدم استعمال کاہی دور چلتا رہا۔ اکثریت کا دماغ عدم استعمال سے صفر اور اقلیت کادماغ کثرت استعمال سے بے پناہ ہوتا چلا گیا اوراب یوں ہے کہ اس عدم استعمال کے مارے دماغ کے لیے کوئی بھی ’’احمقانہ نعرہ‘‘ کافی ہوتا ہے ۔

وہ کہتے ہیں نا کہ ایک افیمی نے دکاندار سے کہا کہ مجھے ’’دوپیسے‘‘ کی افیم دو ، دکاندار نے کہا دوپیسے کی افیم سے کیا’’نشہ ‘‘ہوگا تو افیمی نے کہا کہ نشہ میرے سر میں بہت ہے صرف ایک دھکے کی ضرورت ہے ۔

ویسے تو اس معاملے میں کچھ اوربھی نعرے چل جاتے ہیں لیکن سب سے زیادہ موثر زود اثر اورکارگر نشہ ان نعروں میں ہوتا ہے جس کی ریسپی میں ’’مذہب‘‘ کو بطور’’مصالحہ ‘‘ شامل کیاگیا ہو۔ اورمودی نے یہی کیا ہے وہ یہ نکتہ پاگیاتھا کہ احمق جاہل اور جذباتی اکثریت کو کس ’’دانہ ودام‘‘ شکار کیاجاسکتا ہے ، ورنہ نہ تو وہ کئی دانا دانشورہے نہ فلسفی ہے نہ پڑھا لکھا ہے ،اس کی واحد خوبی سیاست میں مذہب کو استعمال کرنے کی ہے ، اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک تقریر میں اس نے کہا کہ دنیا کاپہلا طیارہ رام بھگت ’’ہنومان ‘‘ نے ایجاد کیاتھا اور وہ ’’سجیونی بوٹی‘‘ لانے کے لیے استعمال کیاگیا تھا ۔

ایک اورتقریر میں اس نے کہا کہ دنیا کی سب سے پہلی سرجری بلکہ آرگن ٹرانسپلانٹیشن کا تجربہ بھی ہند میں ہوا تھا جب مہادیو نے اپنے سسر پر چاپتی دکش کا سر اڑادیا تھا اورپھر اپنی ساس اوردیوتاؤں کی استدعا پر اس کے دھڑ کو بکرے کاسر لگایاتھا اور دوسرے موقع پر جب اس نے طیش میں آکر اپنے بیٹے گنیش کاسر اڑادیا تو اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لیے اسے ہاتھی کے بچے کاسر لگادیاتھا اوریہ تو ہرکوئی جانتا ہے کہ احمقوں کو کسی دانشمندانہ نعرے سے نہیں بلکہ احمقانہ نعرے سے رام کیاجاسکتا ہے اوریہ اس نے عملی طورپر دکھا بھی دیاہے ۔

اب ایک ایسا سوال جس پر آج تک کسی نے بھی غورنہیں کیاہے ، یہ ہے کہ ’’عوام‘‘ مذہبی نعروںسے اتنے متاثر کیوں ہوجاتے ہیں یہ تو خیر سب کو پتہ ہے کہ ان کے ’’سر‘‘ میں اپنا نشہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ تھوڑی سی افیم بھی ان کے لیے بہت ہوتی ہے اوراس سوال کاجواب اگر آپ ڈھونڈنا چاہتے ہیں توصرف اس سوال کاجواب ڈھونڈلیجئے کہ بھٹو ضیاء الحق اورعمران نے عوام کو کیسے شکار کیا۔ پہلے والے دونوں میں ایک نے سوشلسٹ جاہلوں کو نعرے دیے دوسرے نے اسلام کا۔

لیکن عمران کے پاس کیاتھا؟ اس کے پاس تو کوئی ڈھنگ کانعرہ تھا ہی نہیں پھر بھی کالانعام شکارہوئے۔ اس لیے کہ احمقوں کو احمقانہ نعروں سے ہی شکار کیاجاسکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔