پی ٹی آئی انتخابی نشان وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کا جواب جمع دیگر کو منگل تک مہلت
اس معاملے کو حل ہونا ہے پتہ تو چلے الیکشن کمیشن کے پاس کتنا اختیار ہے، اظہر صدیق ایڈووکیٹ
پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے جواب جمع کرا دیا جبکہ دیگر فریقین کو جواب کے لیے منگل تک مہلت دے دی گئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے پارٹی انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے اختیار کے خلاف اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار وکیل اظہر صدیق، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیگر فریقین اگر جواب جمع کروانا چاہتے ہیں تو اگلے منگل تک جمع کروا سکتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابی نشان سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں بھی چل رہا ہے۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کا کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں اور معاملہ چل رہا ہے میں نے سیکشن 215 کو چیلنج کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کی جانب سے کون ہے، پتہ نہیں وہ آئیں یا نہ آئیں۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں میں نے آئین اور الیکشن ایکٹ میں تضاد پر بات کرنی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درخواست ذیادہ تر پاکستان تحریک انصاف کے کیس سے متعلق ہے، اسی طرح کی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اظہر صاحب نے بتایا ہے کہ دیگر ہائیکورٹس میں اس تضاد کو چیلنج نہیں کیا گیا، میں نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا تھا میں جماعتوں کی جانب نہیں جاؤں گا میں تضادات پر بات کروں گا۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ میں نے کل سپریم کی ساری سماعت دیکھی ہے، سارا ریکارڈ جمع کروا دیا ہے، سلمان اکرم راجہ نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی انتخابی نشان لے لیں مگر فارم 33 میں جماعت پی ٹی آئی لکھیں، الیکشن کمیشن نے اس پر جو آرڈر دیا وہ میرے پاس موجود ہے جو میرے حق میں ہے۔
اپنے دلائل میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن میں پیش ہوتا ہوں وہ سمجھتے ہیں انکے پاس عدالتی اختیار بھی موجود ہے، اس معاملے کو حل ہونا ہے پتہ تو چلے الیکشن کمیشن کے پاس کتنا اختیار ہے، یہ میرا کوئی ذاتی کیس نہیں آئین اور قانون کی بات ہے، میں نے آئین اور قانون میں دیکھا سمجھ نہیں آیا الیکشن کمیشن کس قانون کے تحت انتخابی نشان لیتا ہے، میں یہاں کسی پارٹی کی جانب سے نہیں بلکہ ایک شہری کی حیثیت سے عدالت آیا ہوں۔
عدالت نے دیگر فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے پارٹی انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے اختیار کے خلاف اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار وکیل اظہر صدیق، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیگر فریقین اگر جواب جمع کروانا چاہتے ہیں تو اگلے منگل تک جمع کروا سکتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابی نشان سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں بھی چل رہا ہے۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کا کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں اور معاملہ چل رہا ہے میں نے سیکشن 215 کو چیلنج کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کی جانب سے کون ہے، پتہ نہیں وہ آئیں یا نہ آئیں۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں میں نے آئین اور الیکشن ایکٹ میں تضاد پر بات کرنی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درخواست ذیادہ تر پاکستان تحریک انصاف کے کیس سے متعلق ہے، اسی طرح کی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اظہر صاحب نے بتایا ہے کہ دیگر ہائیکورٹس میں اس تضاد کو چیلنج نہیں کیا گیا، میں نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا تھا میں جماعتوں کی جانب نہیں جاؤں گا میں تضادات پر بات کروں گا۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ میں نے کل سپریم کی ساری سماعت دیکھی ہے، سارا ریکارڈ جمع کروا دیا ہے، سلمان اکرم راجہ نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی انتخابی نشان لے لیں مگر فارم 33 میں جماعت پی ٹی آئی لکھیں، الیکشن کمیشن نے اس پر جو آرڈر دیا وہ میرے پاس موجود ہے جو میرے حق میں ہے۔
اپنے دلائل میں اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن میں پیش ہوتا ہوں وہ سمجھتے ہیں انکے پاس عدالتی اختیار بھی موجود ہے، اس معاملے کو حل ہونا ہے پتہ تو چلے الیکشن کمیشن کے پاس کتنا اختیار ہے، یہ میرا کوئی ذاتی کیس نہیں آئین اور قانون کی بات ہے، میں نے آئین اور قانون میں دیکھا سمجھ نہیں آیا الیکشن کمیشن کس قانون کے تحت انتخابی نشان لیتا ہے، میں یہاں کسی پارٹی کی جانب سے نہیں بلکہ ایک شہری کی حیثیت سے عدالت آیا ہوں۔
عدالت نے دیگر فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔