ملکی معاشی صورت حال
عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت کی نموکی صورتحال میں بہتری آئی ہے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کے بعد درآمدات پر پابندیاں ہٹائی گئی ہیں، جس میں نمو میں اضافہ ہورہا ہے ، ملکی معیشت کے استحکام کے لیے زری اور مالیاتی پالیسیاں سخت رکھی گئی ہیں اور مالیاتی نظم و ضبط کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے نوجوان پارلیمنٹیرینز کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے آیندہ مالی سال کے بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔
بلاشبہ عالمی بینک کی رپورٹ نے معیشت میں بہتری کی نوید سنائی ہے، اسی تناظر میں دیکھا جائے تو انتہائی مختصر ترین وقت میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے دوست ممالک کے متعدد دورے کیے، ان کے یہ دورے خالصتاً پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے تھے، انھیں اپنے مقاصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور ملک میں وسیع پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری کے اعلانات سامنے آنے کے بعد معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔
یہ سب عالمی سطح پر پاکستان کی معاشی ساکھ کی بحالی کا سبب بن رہا ہے۔ دراصل معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات کو دورکرنے اور مہنگائی، بجٹ خسارہ و قومی قرضوں میں کمی کے لیے حکومت کو ذمے دارانہ مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکس وصولی اور اخراجات کے انتظام کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے جب کہ ترقی کے سفرکو تیز کرنے کے لیے چین، سعودی عرب، ترکی، ایران اور امریکا جیسے دوست ممالک کے تعاون سے برآمدات میں اضافے کے لیے کوششوں کو عملی شکل دینے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو موثر نفاذ اور پائیدار ترقی کے لیے واضح اہداف، ٹائم لائنز اور نگرانی کے طریقہ کار کے ساتھ ایک جامع طویل المدتی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
اس وقت مہنگائی کے عفریت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں بھی مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آئے عوام کئی بار سڑکوں پر آچکے ہیں، تاہم پاکستان جو ایک ترقی پذیر ملک ہے، اس کے مسائل مغربی ملکوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ کسی بھی ملک کی آمدن اور اخراجات کے تخمینے کے لیے بجٹ کا آنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ یہ اہم مالیاتی دستاویز ہوتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری آمدن کے ذرایع کیا ہیں؟ ہم نے کس حد تک کتنا پیسہ کہاں خرچ کرنا ہے۔
2024 میں بننے والی حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے۔ یہ ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب ہم آئی ایم ایف کے قرضوں اور شرائط تلے جکڑے ہوئے ہیں، جو خراب معاشی صورتحال ہے موجودہ حکومت کو اس کا اچھی طرح ادراک ہے۔ اس لیے مسائل کو حل نہ کیا تو لوگ سونامی کی صورت سڑکوں پر آسکتے ہیں، اس طرح حکومت کے لیے سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔ اس لیے وہ کسی بھی قسم کے عوامی ردعمل کا رسک نہیں لے سکتی۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ان کی معاشی ٹیم ملک کو ہر طرح کے معاشی و مالیاتی بحران سے باہر نکالنے کے لیے کوشاں ہے جب کہ دوسری جانب عوام بس دو وقت کی روٹی مانگ رہے ہیں۔ مہنگے بجلی اورگیس کے بلوں سے نجات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وہ خواہش مند ہیں کہ ان کے دن بھی بدلیں۔ وقت کے اچھے دھارے میں وہ بھی شامل ہو جائیں۔ ان کے بچے تعلیم یافتہ ہوں۔ انھیں صحت اور مکان کے کرایوں کا کوئی جھنجھٹ نہ ہو۔ وہ بیچارگی کے جس عالم میں ہیں، اس سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اس سے نکلنے کے لیے موجودہ حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ خراب ترین صورتحال کے باوجود اگرچہ اسٹاک ایکسچینج میں مندے کا رجحان نہیں۔ کاروبار میں تیزی آ رہی ہے اور اس تناظر میں ماہرین آنے والے دنوں میں معاشی صورتحال کو بہتر ہوتا دیکھ رہے ہیں، لیکن حکومت کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہمارے اقتصادی منتظمین کی ترجیح ٹیکسز کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش ہے، جو ہر سال غیر معقول طریقے سے طے کیے جاتے ہیں، اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ معیشت اصل میں کیسا برتاؤکررہی ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ موجودہ وفاقی وزیر خزانہ کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ محصولات کے اہداف کو علیحدگی میں طے کرکے اور پیداواری صلاحیت، کارکردگی، ماحولیات، کام کی اخلاقیات، توانائی کی لاگت اور معاشی نمو کو بہتر بنانے کے لیے ضروری کوششیں کیے بغیر، پاکستان کو ایک ایسی مشکل میں ڈال دیا گیا ہے، جہاں وہ اس کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم تجارت اور صنعت کو (بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کی وجہ سے) کوئی ٹیکس ریلیف پیکیج دے سکتے ہیں، اور نہ ہی اس کی وجہ سے معاشی ترقی کی تسلی بخش سطح حاصل کر سکے ہیں یہ ایک ایسا جال ہے، جس نے ہمارے پالیسی سازوں کو پھنسا رکھا ہے۔ انھیں اس الجھن سے نکل کر پاکستان کو معاشی طور پر ایک قابل عمل اور محفوظ مقام بنانے کے لیے راستے تلاش کرنے ہوں گے، جو مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکیں۔
ہماری اقتصادی ترجیحات کی مکمل تبدیلی کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنی پیداواری صلاحیت، کارکردگی اور معاشی نموکو بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے، جس سے ریاست کے لیے مزید محصولات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں خطے میں پاکستان کی ناقابل تردید جیو اسٹرٹیجک اور کاروباری مسابقتی پوزیشن کو بحال کر کے اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے تیزی سے اور فیصلہ کن طور پر آگے بڑھنا ہوگا۔ پاکستان کو رہنے، کام کرنے اور سرمایہ کاری کے لیے ایک باعزت مقام بنانے کے لیے ضروری اور سخت فیصلے لینے کی فوری ضرورت ہے۔ پاکستان میں وفاق، صوبوں اور مقامی حکومتوں کے درمیان مالیاتی اور ٹیکس لگانے کے اختیارات کی منصفانہ تقسیم پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حقیقی صوبائی خود مختاری کی ضمانت صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب ٹیکس کے اصول پر عمل کیا جائے۔ مقامی حکومتوں کا آئینی حکم (آرٹیکل 140 اے) کے مطابق کام کرنا ضلع انتظامیہ کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے۔
آئین ( اٹھارہویں ترمیم) ایکٹ، 2010 کے تناظر میں صوبائی خود مختاری (sic) اس حکم کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ صوبوں کو ان کے وسائل اور مالیات پر خصوصی حق دیں اور انھیں ٹیکس مقامی حکومتوں کو منتقل کرنا چاہیے تا کہ بنیادی جمہوریت اور عوامی خدمات کے لیے فنڈز کا استعمال اور ضمانت دی جا سکے۔ ہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ عوام کو ریلیف دیے بغیرکام نہیں چلے گا۔ یہ بات قومی المیے سے کم بھی نہیں کہ ملکی اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد حاوی ہوچکا ہے اور یہ عیب بھی سیاسی حکومتوں کی وجہ سے رواج پایا،اس بات سے انکار نہیں کہ حکومت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے اپنے شعبے میں حرفِ آخر ہیں اگرچہ ان کو انگلیوں پرگنا جا سکتا ہے، کچھ وزراء کی کارکردگی بھی قابل تعریف ہے بیوروکریسی میں بھی ایسے جوہر موجود ہیں، جن کو بہترین قرار دیا جاسکتا ہے، مگر ان کو بروئے کار لانے کی سنجیدہ سعی نہیں کی جا رہی، اگر حکومت بیوروکریٹس کی سالانہ خفیہ رپورٹس کی مدد سے اپنی غرض کے افسر تلاش کرے تو ایک بہترین ٹیم تشکیل دی جا سکتی ہے، جو ڈیلیورکر سکے۔
حکومتی اقدامات کے ثمرات نچلی سطح پر عوام میں منتقل کر سکے، عوام کو ریلیف دے سکے، مگر کیا کیا جائے کہ سالانہ خفیہ رپورٹس کو مرتب کرنے کا طریقہ کار بھی مشکوک ہو چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے سول بیوروکریسی کا کردار بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔ شنید ہے کہ بیوروکریسی کی ٹریننگ ہی اس اصول کے تحت کی جاتی ہے کہ سرکاری افسران اپنے آپ کو عام عوام سے الگ تھلگ سمجھیں۔ غالباً یہ برطانوی میراث کا عمل دخل ہے جس میں اس بات کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ اس منفی اور غیر منطقی روش کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔
مرکز میں وزیر صوبوں سے زیادہ با اختیار ہوتا ہے مگر ہمارے وزراء کی اکثریت وزارت اور محکموں کے بائی لاز سے واقفیت نہیں رکھتی، نہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اس لیے وہ سیکریٹری صاحبان کے محتاج ہوتے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ ان گنت سرکاری محکمے موجود ہیں، سرکاری محکموں کے سیکڑوں ملازمین لاکھوں اور کروڑوں روپے کی مراعات حاصل کرتے ہیں لیکن وہ فیلڈ میں نکل کرکام نہیں کرتے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں مافیاز کا راج ہے، جو ایک جھٹکے میں مارکیٹ میں کسی بھی شئے کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اربوں روپیہ کا ڈاکا عوام کی جیبوں پر ڈالتے ہیں۔
درحقیقت بیوروکریسی کے کام نہ کرنے سے خرابیاں جنم لے رہی ہیں، مگر اس پر بیوروکریسی کا کڑا احتساب کرنے کے بجائے اسے جاری رکھا جاتا ہے، ایسے میں کون کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے اور کیونکر اپنی پوری استعداد اور اہلیت کو بروئے کار لاکر ڈیلیورکرنے اور عوام کو ریلیف دینے کا سوچ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے ارکان بیوروکریسی کو فعال ادا کرنے پر مجبور کریں تاکہ عوام کو مہنگائی سے حقیقی معنوں میں ریلیف مل سکے۔