کیا کیا جائے!

شیریں حیدر  ہفتہ 29 جون 2024
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میرے گھر میں فقط دو بلب ہیں، ایک پنکھا ہے ‘ وہ بھی فقط دن کو چلتا ہے، رات کو ہم بچوں سمیت کچے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کر کے باہر چارپائیاں ڈال کر سوتے ہیں۔ رات بھر مچھر اور گرمی سونے نہیں دیتے، بچے آئے دن بیمار ہوتے رہتے اور کمزور ہیں اور ناطاقت ہے کہ ہمارے پاس ان کے دوا دارو کے لیے دھیلا نہیں ہے، اوپر سے مزید مصیبت یہ کہ اس ماہ بجلی کا بل آیا ہے بارہ ہزار روپے۔ ‘‘ اس کے دل کی گہرائیوں سے آہ نکلی، ’’ لگتا ہے کہ پورے محلے کی فرج، اے سی، بتیوں اور پنکھوں کا بل ہمیں آ یا ہے۔‘‘

اس نے ہاتھ میں مڑا تڑا بجلی کا بل نکال کر میرے سامنے رکھا۔ ’’ آپ ہی کوئی مشورہ دیں کہ کیا کروں۔ صبح سات بجے گھر سے نکلتی ہوں، ایک میل سے زیادہ پیدل چل کر ویگن کے اسٹاپ تک آتی ہوں، چاہوں تو کسی چنگ چی میں بھی بیٹھ سکتی ہوں مگر اس کی گنجائش نہیں نکلتی۔ اسی علاقے میں چار گھروں میں دو دوگھنٹے کام کرتی ہوں، جانے آنے کا ملا کر پانچ میل کا فاصلہ گرمی سردی میں ہر روز پیدل طے کرتی ہوں اور پانچ پانچ ہزار کے حساب سے مہینے کا بیس ہزار روپیہ کماتی ہوں۔

امیروںکی آبادی کے پچھواڑے ایک غریب بستی میں، ایک چھوٹے سے کمرے اور کچے صحن والے گھر کا آٹھ ہزار روپیہ مہینے کا کرایہ دیتی ہوں، اسی صحن میں ایک طرف چھوٹا سا چھپر لیٹرین کا ہے اور ایک باورچی خانے کا ۔‘‘ اس ماہ اگرکرایہ اور بجلی کا بل دوں گی تو باقی مہینہ کیا کروں گی؟‘‘ اس کا لہجہ بے بسی سے بھیگا ہوا تھا۔ کئی دن اس کی جیب کی حالت ایسی ہوتی تھی کہ گھر واپسی کے لیے ویگن کے کرائے کے تیس روپے بھی ادھار مانگ کر لے جاتی ہے۔  ظاہر ہے کہ اتنی سی رقم اسے کوئی ادھار کی نیت سے تو نہیںدیتا تھا مگر اس کی انا اسے مجبورکرتی ہے کہ وہ کرایے کے تیس روپے مانگتے وقت یہ ضرور کہتی ہے کہ پہلی تاریخ کو حساب چکتا کر دے گی اور تنخواہ لیتے وقت ضرور کہتی ہے کہ اس کی تنخواہ میں سے اس کی ادھار مانگی ہوئی سو پچاس روپے کی رقم منہا کرلی جائے ۔

حکومت جب بھی مزدور طبقے کی کم از کم آمدنی مقرر کرتی ہے تو اس کا اطلاق خالی تنخواہ پر ہی ہوتا ہے، اس میں سب سے نچلا طبقہ مزدور کا ہے جسے صرف دیہاڑی ملتی ہے۔ جب گھریلو ملازمین رکھے جاتے ہیں تو ان پر اس کم ازکم آمدنی کااطلاق نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان ملازمین کو کھانا اور رہائش بھی دی جاتی ہے جو کہ مزدور کو نہیں دی جاتی۔ مزدور اسی دیہاڑی کی رقم میں سے خود کھاتا بھی ہے، رہائش پر بھی خرچ کرتا ہے اور اپنے گھر بھی بھیجتا ہے، جب کہ گھریلو ملازمین کا رہائش اور کھانے پینے کا خرچہ شامل کیا جائے ان کی تنخواہ کہیں زیادہ بن جاتی ہے۔

اگرچہ ہم اپنے ملازمین کی رہائش، کھانے پینے اور ماہانہ تنخواہ کے علاوہ بھی ان کی کئی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں مگر کہاں تک۔ ان کے گھروں کے مسائل بھی ایسے ہیں کہ جن میں سے بہت سے اخراجات انھوں نے خود ہی اپنے گلوں میں مصیبت کے ہار کی طرح پہن رکھے ہوتے ہیں۔

شادیوں، عیدوں، شب براتوں، بچوں کی پیدائش اور مرگ وغیرہ پر غیر ضروری اخراجات، جن کی وجہ سے وہ عمر بھر قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ کھانے کو کچھ ہوتا ہے نہ پہننے اوڑھنے کو مگر ناک اونچی رکھنا سب سے اہم ہوتا ہے ۔ ان کے پاس نہ تعلیم ہوتی ہے اور نہ کوئی ہنر، غربت کے مارے لوگ بچوں پر بچے پیدا کیے جاتے ہیں کہ جتنے ہاتھ ہوں گے اتنا کام کر کے کمائیں گے اور عمر بھر کے جمع ہونے والے قرضے اتاریں گے۔

ان کی مجبوریوں کی داستانیں ایسی ہیں کہ سنیں تو دکھ سے دل بھر جاتا ہے، ان کی مدد تو انسان ہمدردی میں کر دیتا ہے مگر ان کے عمر بھر کے غموں کا کیا علاج۔ ہمارے ہاں بھی جب بجلی، گیس یا پانی کا بل آتا ہے تو ہم کھولنے سے پہلے کئی دفعہ رکتے ہیں کہ بل کی رقم دیکھ کر دل کا حال جانے کیا ہو۔ گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کے بل ہمارے مہینے بھر کے بجٹ کا ستیا ناس کر دیتے ہیں ۔

ان غریبوں کے ہاں اگر مہینے بھر کی کمائی کا بڑا حصہ بجلی کے بل میں نکل جائے تو وہ کیا کریں، بل ادا نہ کریں تو بجلی کٹ جائے گی اور جو ذرا سا روشنی کا آسرا ہے… وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ یہ بھی اچھا ہے کہ ان کے ہاں گیس اور پانی کے ایسے کنکشن نہیں ہیں کہ جن پر بل دینا پڑتا ہے ورنہ ملک میں غربت اور مجبوریوں کے ہاتھوں خود کشیوں کا تناسب اور بھی بڑھ جائے گا۔

سب سے تلخ حقیقت اس سارے قصے میں یہ بھی ہے کہ جو غریب ہے اور مستحق ہے کہ اسے مفت رہائش، بجلی، گیس ، پانی ، علاج اور بچوں کی تعلیم ملے… وہ ہمہ وقت اس جہد میں ہے کہ دن کو رات اور رات کو دن کرے جب کہ یہ مفت کی ساری سہولیات اس طبقے کے پاس ہیںجن کی تنخواہوں اور مراعات کا شمار ہی نہیں۔ نہ ہی انھیں کسی بھی چیز کا بل دینا پڑتا ہے، نہ رہائش کا ، نہ علاج کا، نہ بجلی، گیس اور پانی کے بل، نہ گاڑیوں کا پٹرول، نہ سفری اخراجات۔ استحصال اورناانصافی کے اس نظام نے ملک میں بہت زیادہ طبقاتی فرق پیدا کر دیا ہے، اس فرق نے جرائم ، ذہنی امراض اور خود کشیوں کو فروغ دیا ہے۔

فلموں ڈراموں اور ٹیلی وژن کے شوز میں دولت کی نمود و نمائش اس وقت بڑھ گئی ہے جس سے دلوں میں حسرتوں بڑھتی ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں، قیمتی ملبوسات ، زیورات میں ملبوس اور ہاتھوں میںمہنگے مہنگے فون اٹھائے ، شاپنگ مالز میں، کئی کئی تھیلے مہنگے برانڈز کے سامان کے اٹھائے، یہ لوگ غریبوں کو تو عجوبے یا کسی اور سیارے سے آئی ہوئی مخلوق ہی لگتے ہیں۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ ان عجوبوں کے بھی دکھ ہوتے ہیں ، انھیں دوسرے کی بڑی گاڑی دیکھ کر اپنا آپ چھوٹا لگنے لگتا ہے، دوسرے کا جدید ماڈل کا فون دیکھ کر یہ اپنے گال نوچنے لگتے ہیں، کسی اور کا بچہ امتحان میں بہتر گریڈ لے جائے تو انھیں اینگزائٹی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔

یہ لوگ کسی چھوٹے گھر والے غریب کے مسائل کو کیا جانیں کہ جس کے ہاں سب سے بڑی عیاشی یہ ہے کہ ایک وقت کا کھانا سب گھر والے پیٹ بھر کر کھا لیں۔ان امیروں کی ساری مراعات اور عیاشیوں کے بل ملک کا غریب اور تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے اور بدقسمتی سے اس نچلے اور میانہ طبقے کے لیے ساری پالیسیاں بنانا اس طبقے کا کام ہے جو جانتا ہی نہیں کہ غربت کے تیز دانت غریب کو کس طرح ہر وقت کترتے رہتے ہیں۔

کیا حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والے سبھی افراد آسمان سے نازل ہوئے ہیں؟ کیا ان کا واسطہ کبھی اپنے حلقوں میں غریب لوگوں سے نہیں پڑتا؟ کیا انھیں علم نہیں کہ غربت کس طرح ان کے حلقوں میں بھنگڑے ڈالتی ہے اور اللہ تعالیٰ جب انھیں کرسی عطا کرتا ہے تو وہ صرف اختیار ہی نہیں ہوتا بلکہ امتحان بھی ہوتا ہے۔ خدارا غربت کو ختم کرنے کا سامان کریں، غریبوں کو نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔