بلوچستان اور اس کے ڈیمز

شہلا اعجاز  اتوار 30 جون 2024

ان دنوں جب پورا ملک گرمی کی شدید لپیٹ میں ہے، صوبہ بلوچستان میں گرمی اپنے عروج پر تھی۔ بظاہر تو وہ کم آبادی والا صوبہ ہے لیکن رقبے کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کا رقبہ تین لاکھ پینتالیس ہزار ایک سو نوے مربع کلومیٹر ہے اور یہ رقبہ کل پاکستان کے رقبے کا 43.6 فیصد ہے۔

مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ تینتیس، چوالیس ہزار، چار سو آٹھ پر مبنی ہے جو یقینا آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ بلوچستان اپنے طویل میدانوں اور پہاڑی سلسلوں کے حوالے سے مشہور ہے تو وہیں معدنیات، سونے اور نایاب لیتھیم سے مزین ہے۔ سادہ زندگی گزارنے والے یہاں کے باسی بہت سی دشواریوں میں گھرے رہتے ہیں۔ یہاں کی ایک بڑی کمی اور مسئلہ پانی کا بھی ہے۔2020 میں پاکستان فلڈ کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل ڈیمز کی تعداد ایک ہزار سات ہے، جن میں سے سات سو دس بلوچستان میں ہیں۔

بلوچستان میں پانی کی کمی کے حل کے لیے سوڈیم پروجیکٹ ایک خوش آیند منصوبہ تھا۔ سیکیورٹی کے مسائل کے باعث بلوچستان میں بہت سے ادھورے ایسے اور بھی معاملات ہیں جنھیں حل کرنا ناگزیر ہے یہ نہ صرف صوبے کے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی ثمر آور ثابت ہوگا، محسوس یہ ہوتا ہے کہ دیگر مسائل کی طرح یہ مسئلہ بھی الجھتا ہی جا رہا ہے لیکن ناامیدی کا زہر اب بھی بلوچستان کی خاردار جھاڑیوں میں ہی اٹکا ہے، امید ہے کہ اس خوب صورت سرزمین پر محبتوں کے پھول جلد ہی کھل جائیں گے۔

کرپشن کے زہر سے بھی خطرناک کوئی زہر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک بڑے منصوبے پر عمل کرنا آسان نہ تھا، روایات و اقدار کے بیچ نفرتوں اور غلط فہمیوں کی دیواریں ڈھانا پھر تحقیق اور کھوج کے طویل مراحل لیکن ٹائم اسکیل اور بڑھتی مہنگائی نے کام کی رفتار اور اس کی کوالٹی کے تناسب میں واضح فرق پیدا کیا۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے بلوچستان میں سوڈیم کے منصوبے میں تیرہ کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے کے غیر مجاز خرچے ظاہر ہوئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ خرچہ دھماکہ خیز مواد کے ذریعے چٹانوں کی کٹائی پر ظاہر کیا گیا ہے جس کے لیے محکمہ داخلہ اور ڈپٹی کمشنرکا این او سی ضروری ہوتا ہے۔

مذکورہ رپورٹ گزشتہ مہینہ کی ہے جبکہ 2022 میں مون سون کی بارشوں کے دوران صوبہ بلوچستان میں ستائیس ڈیمز ٹوٹے تھے جبکہ ترانوے ڈیمز کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔ ان ڈیموں کی تعمیر میں بدعنوانی اور نااہلی کی بدولت صوبے کو پانچ ارب سے زائد کا نقصان پہنچا تھا۔ تحقیق کے بعد پتا چلا کہ ڈیمز میں ڈیزائن کی تکنیکی غلطیاں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وارننگ، سیاسی اور عوامی مداخلت کے باعث مجموعی طور پر نقصان کے ذمے دار قرار پائے۔

خبر تو یہ بھی کہ حکومت بلوچستان نے کوئٹہ میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایک فزیبلٹی رپورٹ تیار کر لی ہے جس کے تحت تین ڈیم 147 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہوں گے، یقینا یہ رپورٹ بہت معقول ہی ہوگی لیکن پچھلے چند سالوں میں مون سون کی بارشوں کے سیلابی ریلے کی نذر ہونے والے ایک ڈیم نے تہلکہ مچا دیا تھا جس نے کئی انسانی جانوں کو کھا لیا تھا، صرف انسانی جانیں ہی نہیں بلکہ سیکڑوں ایکڑ اراضی اور ہزاروں باغات بھی تباہ و برباد ہوئے۔

قلعہ عبداللہ کے باسی آج بھی اس اندوہناک حادثے کو بھول نہیں پائے ہیں۔ اس علاقے میں اڑتیس ڈیمز تباہ ہوئے کوئٹہ میں پندرہ ڈیمز ٹوٹے یہ چھوٹے ڈیمز تھے ان میں سے کچھ میں شگاف بھی پڑے تھے، خضدار میں بھی ڈیمز کے ٹوٹنے کی تعداد کم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہرنائی، ژوب، موسیٰ خیل، حب ڈیرہ بگٹی اور بیلا میں جبکہ ضلع خاران، واشک، مستونگ کیچ، کوہلو، قلات سراب اور ڈکی میں بھی ڈیمز کے ٹوٹنے کے واقعات پیش آئے، ان میں وہ ڈیمز بھی شامل تھے جن پر کام سست روی سے چل رہا تھا یا التوا کا شکار تھے۔یہ ایک طویل بحث ہے کہ کون سے علاقے میں کس قسم کے ڈیمز درکار تھے، لیکن یہ ضرور اہم ہے کہ ناتجربہ کاری، ناقص پلاننگ اور ٹائم اسکیل پر عمل نہ کرنے کے باعث لاگت میں اضافہ سرمائے کی بربادی اور انسانی جانوں اور املاک کے نقصان کی صورت میں ابھر کر سامنے آچکا ہے۔

کچھ عرصے پہلے ایک رپورٹ میں پڑھا تھا کہ ایران میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے حکومت نے دھڑا دھڑ ڈیمز بنائے لیکن ان میں سے اکثر ڈیمز اب ریت سے بھرے پڑے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح کم ہوجانے کے باعث اور مسلسل پانی کھینچنے کے باعث عمارتیں اور املاک کئی انچ زمین میں دھنس گئے۔تا ہم اس لحاظ سے کچھ مختلف کام ہوئے بھی ہیں صوبے میں لوگ مستفید بھی ہوئے لیکن مجموعی طور پر صورت حال کیا ظاہر کرتی ہے۔

اس تمام منظرنامے میں جو اہم نکتہ نظر آتا ہے وہ یہ کہ ضرورت کو پس پشت ڈال کر غیر اہم باتوں کو توجہ دے کر پہلے بھی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ اربوں کے ڈیمز اور کہاں لاکھوں کے ڈیمز لیکن اگر توجہ، تجربہ، محنت، عوام الناس کی خدمت اور خلوص سے فوکس کر کے کام کیا جائے تو آیندہ آنے والے دس بیس اور پچاس سال سے بھی آگے، قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والے موتی جیسے شفاف پانی کو استعمال کرتے لوگ اس کی مٹھاس، تازگی سے فرصت محسوس کریں گے تو ان کے خوش دل ان تمام مزدوروں، انجینئرز، ٹھیکے داروں اور اہم ذمے داروں تک دعائیں بن کر پھولوں کی طرح ان پر برستے رہیں گے۔ ہم اس طرح بھی تو سوچ سکتے ہیں کہ عقل و فہم کے در کھلے ہیں، مادیت میں جاذبیت ہے پر مٹھاس کہاں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔