سرکش قوم کا انجام اور حضر ت صالح علیہ السلام کی اونٹنی
چٹان دو ٹکڑوں میں بٹ گئی اور اس میں گابھن اونٹنی نمودار ہوئی اور اس نے ایک بچے کو جنم دیا
ٹی وی کی اسکرین پر گدھوں کی ریس دکھائی جا رہی تھی اور اول آنے والے گدھا گاڑی کے مالک کو انعام دیا جا رہا تھا ، عجیب منظر تھا ترقی کو تنزلی میں بدلنے کا، یہ ہی کسر اور رہ گئی تھی کہ قوم کوگدھوں اور ان کی ریس کی طرف مائل کیا جائے، کل کے بچوں سے کتابیں چھین کر انہیں گلیوں اور چوراہوں پر بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا اور نتیجہ سامنے ہے کہ آج وہ ہی بچے، ڈاکو، لٹیرے اور قاتل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
سخت مزاجی اور جہالت نے انسانیت کے منہ پر بھرپور طمانچہ مارا ہے اور یہ انہیں ورثے میں ملا ہے کہ ان کے آباؤاجداد قیام پاکستان کے بعد انہی مذموم حرکات وسکنات میں مبتلا تھے، انہوں نے اپنی اولاد پر ہرگز توجہ نہیں دی ،اس کی وجہ وہ خود شعور سے نا آشنا تھے، اس طرح وہ کرائے کے قاتل بھی بن گئے اور خود بھی یہ کار خیر انجام دینے کے لیے خود کفیل ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا اور یہ سرٹیفکیٹ دینے والے بھی عام نہیں خاص لوگ ہیں جن کی نسل در اصل غلامی کرتے آئے ہیں۔
ان کی مہربانی سے ان کی اولادیں شقی القلب بن چکی ہیں ، بے بس انسانوں پر ظلم ڈھاتے ڈھاتے ان کا دل بھرگیا تو ان ملزمان و مجرمان نے دل لگی کے لیے جانوروں کی طرف رخ کیا،گدھے اور اونٹنی کے واقعات نے دل چیر کر رکھ دیا ہے ، ایسے مواقعوں پر مجھے مبلغ دین اور مساجد کے خطیب دوسرے علمائے کرام یاد آجاتے ہیں، کبھی کبھی تویوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی اپنے فرائض سے غافل ہوگئے ہیں، جبکہ جہالت نے دور دور تک اپنا ڈیرہ ڈال لیا ہے، ظلم کی اندھیری چادر دراز ہوتی جارہی ہے، ان برائیوں کے خلاف جہاد کون کرے گا؟
'' امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا فریضہ '' ہر شخص پر فرض ہے لیکن سب خاموش ہیں جو بھی غیر انسانی، غیر اخلاقی فعل سامنے آتا ہے سوائے ایک دو جماعت کے قوم کے تمام افراد خواب غفلت کی نیند میں سوئے رہتے ہیں، علماء پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ پسماندہ علاقوں میں سیمینار اور فلاحی پروگرام کریں تاکہ محلے کو لوگوں کو دین کی سمجھ آئے، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کو اپنے اعمال کا حصہ بنالیں، یہ اس ہی صورت میں ممکن ہے جب اسلامی تنظیمیں ایک، ایک، محلے اور علاقوں کو تقسیم کرلیں اور یہ کام تو انہی وقتوں میں ہوجانا چاہیے تھا جب زینب جیسی معصوم بچیوں کو اغوا کیا جا رہا تھا، بچوں کی قابل شرم ویڈیوز بنا کر باہر ملکوں میں فروخت کی جارہی تھیں اور بیٹیوں کے حقوق کو غصب اور اس کے ساتھ ہی انہیں ان کے جائیداد کے حق سے محروم کیا جار ہا تھا۔
یہ سب اب بھی بلکہ زیادہ ہو رہا ہے، تب ریاست کا فرض بنتا ہے کہ وہ مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دیتی لیکن حکومتوں کے ساتھ اہل علم اور دوسرے اداروں کے سربراہان سب ہی خاموش ہیں کہ انہیں تو اپنا ادارہ اور اس کی ذمہ داریوں کو نبھانا ہے ملک میں آگ اور وحشیانہ رویہ جنم لے ان کی بلاسے، چونکہ وہ تو محفوظ ہیں، اللہ نے ان کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں، جہنم کا نچلا حصہ انہی کا ٹھکانہ ہوگا جو اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
ایک طرف عید الاضحی کا موقع تھا، مسلمان قربانی کر کے سنت ابراہیمی کو ادا کر رہے تھے، تو دوسری طرف یہی سانگھڑ میں اس بے زبان جانورکی ٹانگ کاٹ رہے تھے ، اس کے ساتھ ہی ایک اور واقعہ جنم لیتا ہے وہ ہے گدھے کا، حیدرآباد کا، جہاں سفاکی کے ساتھ گدھے کی ٹانگ کلہاڑی کے وار سے توڑی اور اس کے اعضا کو شدید اذیت میں مبتلا کیا گیا،گویا انہوں نے یہ کھیل تفریحاً کھیلا تھا۔
ان حالات میں حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا واقعہ اہل دانش کے سامنے آجاتا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم موج ومستی اور عیش وعشرت کی لذتوں میں گم تھی، وہ اللہ کے نبی کی نافرمانی کرتے ہوئے اسے عار نہیں سمجھتی تھی اور حضرت صالح علیہ السلام سے معجزات کی فرمائش کرتی، ایک دن قوم کے سرداروں نے حضرت صالح علیہ السلام سے فرمائش کہ ''اگر تم واقعی اللہ کے سچے رسول ہو تو فلاں کاتبہ پہاڑی سے ایک ایسی اونٹنی نکال دو جو دس ماہ کی تندرست اور خوبصورت ہو.
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے وہ کہنے لگے تم جادو زدہ ہو تم اور کچھ نہیں، بس ہماری ہی طرح کے آدمی ہو، اگر سچے ہو توکوئی نشانی پیش کرو۔( سورۃ الشعراء آیات 154,153) حضرت صالح علیہ السلام نے کہا، اگر میں یہ تمہار ا مطالبہ پورا کردوں تو پھر تم سب ایمان لے آؤگے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، حضرت صالح علیہ السلام اللہ کے حضور سربسجود ہوگئے اور دعا فرمائی اللہ تعالی نے حضرت صالح کی دعا کو مستجاب کر لیا، پھر اچانک ہی سامنے والی پہاڑی میں جنبش پیدا ہوئی اور چٹان دو ٹکڑوں میں بٹ گئی اور اس میں گابھن اونٹنی نمودار ہوئی اور اس نے ایک بچے کو جنم دیا، پوری قوم نے حیرت کے ساتھ اس معجزے کو دیکھا، لیکن قوم کے ایک سردار جندع بن عمرو اور اس کے چند ساتھیوں کے سوا کوئی بھی ایمان نہیں لایا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے، اب تم اسے اللہ کی زمین پر چھوڑ دو،اور اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچانا ورنہ عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے، اونٹنی اور اس کا نومولود بچہ نخلستان میں چرتے رہتے قوم دودھ سے فیضیاب ہوتی، حضرت صالح علیہ السلام نے پانی پینے کے دن کو تقسیم کردیا کہ ایک دن اونٹنی کا ہے اور دوسرا تمہارا، لیکن اسے کوئی اذیت نہیں پہنچانا، نہیں تو سخت عذاب پکڑ لے گا۔(سورۃ الشعراء)
اونٹنی اور اس کے بچے کا آزادی سے گھومنا پھرنا اور مقررکردہ دن پر آ کرکنویں کا سارا پانی ایک ہی سانس پی جانا انہیں ناگوار گذرنے لگا، لہذا انہوں نے اونٹنی کو مارنے کا منصوبہ بنایا، اس پر عمل کرنے کے لیے قوم کے سرداروں نے ایک خوبصورت عورت کا انتخاب کیا اور اس عورت نے علاقے کے اوباش دو نوجوانوں کو اپنی حسین وجمیل بیٹیوں سے شادی کے عوض اونٹنی کو جان سے مارنے پر راضی کر لیا، مصرع نے کمان سیدھی کی اور اونٹنی کو نشانہ بنایا، جو اس کی پنڈلی میں پیوست ہوگیا۔
قدار بن سالف آگے بڑھا اور تلوارکے ایک بھرپور وار سے اس کی کونچیں (پچھلے پاؤں کے اوپرکا حصہ) کاٹ ڈالیں، زخمی اونٹنی زوردار چیخ مارکرگر پڑی، گرتے ہی اس نے ہیبت ناک چیخ ماری، تاکہ اس کا بچہ ان ظالموں سے کہیں دور چلاجائے ، پھر سفاک قدار نے اونٹنی کے سینے پر نیزہ مارا اور اسے ذبح کردیا، بعد میں قوم نے جشن منایا اور اب وہ حضرت صالح علیہ السلام کی جان کے دشمن ہوگئے، جب ایک رات 9 افراد تاک لگائے بیٹھے تھے کہ حضرت صالح علیہ السلام گھر سے باہر نکلیں تو وہ حملہ کر دیں، اس ہی دوران پہاڑ سے بڑے بڑے پتھر ان پرگرے اور وہ سب ہلاک ہوگئے۔
لیکن اس گمراہ قوم کو بڑے بڑے معجزات دیکھنے کے بعد بھی عقل نہ آئی اور اس ہی طرح عیش وطرب میں مبتلا رہے اور حضرت صالح علیہ السلام سے کہنے لگے کہ '' اے صالح، جس بات سے تم ہمیں ڈراتے تھے وہ عذاب تو اب تک نہیں آیا ، اگر تم اللہ کے پیغمبر ہو تو عذاب کو ہم پر لے آؤ، (سورۃ الاعراف آیت 77) حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا '' بس تین دن کی مہلت ہے اور علامات بھی سن لو، پہلے دن تم سب کے چہر ے سخت زرد اور دوسرے دن سخت سرخ اور تیسرے دن سخت سیاہ ہوجائیں گے اور وہ تمہاری زندگیوں کا آخری دن ہوگا، ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے باوجود قوم اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہی، چوتھے دن صبح کو عذاب نے انہیں آ لیا، سخت زوردار چیخ اور زلزلے کے آنے سے وہ سب جہنم رسید ہوگئے اور عبرت کا نشان بن گئے ۔
سخت مزاجی اور جہالت نے انسانیت کے منہ پر بھرپور طمانچہ مارا ہے اور یہ انہیں ورثے میں ملا ہے کہ ان کے آباؤاجداد قیام پاکستان کے بعد انہی مذموم حرکات وسکنات میں مبتلا تھے، انہوں نے اپنی اولاد پر ہرگز توجہ نہیں دی ،اس کی وجہ وہ خود شعور سے نا آشنا تھے، اس طرح وہ کرائے کے قاتل بھی بن گئے اور خود بھی یہ کار خیر انجام دینے کے لیے خود کفیل ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا اور یہ سرٹیفکیٹ دینے والے بھی عام نہیں خاص لوگ ہیں جن کی نسل در اصل غلامی کرتے آئے ہیں۔
ان کی مہربانی سے ان کی اولادیں شقی القلب بن چکی ہیں ، بے بس انسانوں پر ظلم ڈھاتے ڈھاتے ان کا دل بھرگیا تو ان ملزمان و مجرمان نے دل لگی کے لیے جانوروں کی طرف رخ کیا،گدھے اور اونٹنی کے واقعات نے دل چیر کر رکھ دیا ہے ، ایسے مواقعوں پر مجھے مبلغ دین اور مساجد کے خطیب دوسرے علمائے کرام یاد آجاتے ہیں، کبھی کبھی تویوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی اپنے فرائض سے غافل ہوگئے ہیں، جبکہ جہالت نے دور دور تک اپنا ڈیرہ ڈال لیا ہے، ظلم کی اندھیری چادر دراز ہوتی جارہی ہے، ان برائیوں کے خلاف جہاد کون کرے گا؟
'' امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا فریضہ '' ہر شخص پر فرض ہے لیکن سب خاموش ہیں جو بھی غیر انسانی، غیر اخلاقی فعل سامنے آتا ہے سوائے ایک دو جماعت کے قوم کے تمام افراد خواب غفلت کی نیند میں سوئے رہتے ہیں، علماء پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ پسماندہ علاقوں میں سیمینار اور فلاحی پروگرام کریں تاکہ محلے کو لوگوں کو دین کی سمجھ آئے، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کو اپنے اعمال کا حصہ بنالیں، یہ اس ہی صورت میں ممکن ہے جب اسلامی تنظیمیں ایک، ایک، محلے اور علاقوں کو تقسیم کرلیں اور یہ کام تو انہی وقتوں میں ہوجانا چاہیے تھا جب زینب جیسی معصوم بچیوں کو اغوا کیا جا رہا تھا، بچوں کی قابل شرم ویڈیوز بنا کر باہر ملکوں میں فروخت کی جارہی تھیں اور بیٹیوں کے حقوق کو غصب اور اس کے ساتھ ہی انہیں ان کے جائیداد کے حق سے محروم کیا جار ہا تھا۔
یہ سب اب بھی بلکہ زیادہ ہو رہا ہے، تب ریاست کا فرض بنتا ہے کہ وہ مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دیتی لیکن حکومتوں کے ساتھ اہل علم اور دوسرے اداروں کے سربراہان سب ہی خاموش ہیں کہ انہیں تو اپنا ادارہ اور اس کی ذمہ داریوں کو نبھانا ہے ملک میں آگ اور وحشیانہ رویہ جنم لے ان کی بلاسے، چونکہ وہ تو محفوظ ہیں، اللہ نے ان کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں، جہنم کا نچلا حصہ انہی کا ٹھکانہ ہوگا جو اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
ایک طرف عید الاضحی کا موقع تھا، مسلمان قربانی کر کے سنت ابراہیمی کو ادا کر رہے تھے، تو دوسری طرف یہی سانگھڑ میں اس بے زبان جانورکی ٹانگ کاٹ رہے تھے ، اس کے ساتھ ہی ایک اور واقعہ جنم لیتا ہے وہ ہے گدھے کا، حیدرآباد کا، جہاں سفاکی کے ساتھ گدھے کی ٹانگ کلہاڑی کے وار سے توڑی اور اس کے اعضا کو شدید اذیت میں مبتلا کیا گیا،گویا انہوں نے یہ کھیل تفریحاً کھیلا تھا۔
ان حالات میں حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا واقعہ اہل دانش کے سامنے آجاتا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم موج ومستی اور عیش وعشرت کی لذتوں میں گم تھی، وہ اللہ کے نبی کی نافرمانی کرتے ہوئے اسے عار نہیں سمجھتی تھی اور حضرت صالح علیہ السلام سے معجزات کی فرمائش کرتی، ایک دن قوم کے سرداروں نے حضرت صالح علیہ السلام سے فرمائش کہ ''اگر تم واقعی اللہ کے سچے رسول ہو تو فلاں کاتبہ پہاڑی سے ایک ایسی اونٹنی نکال دو جو دس ماہ کی تندرست اور خوبصورت ہو.
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے وہ کہنے لگے تم جادو زدہ ہو تم اور کچھ نہیں، بس ہماری ہی طرح کے آدمی ہو، اگر سچے ہو توکوئی نشانی پیش کرو۔( سورۃ الشعراء آیات 154,153) حضرت صالح علیہ السلام نے کہا، اگر میں یہ تمہار ا مطالبہ پورا کردوں تو پھر تم سب ایمان لے آؤگے ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، حضرت صالح علیہ السلام اللہ کے حضور سربسجود ہوگئے اور دعا فرمائی اللہ تعالی نے حضرت صالح کی دعا کو مستجاب کر لیا، پھر اچانک ہی سامنے والی پہاڑی میں جنبش پیدا ہوئی اور چٹان دو ٹکڑوں میں بٹ گئی اور اس میں گابھن اونٹنی نمودار ہوئی اور اس نے ایک بچے کو جنم دیا، پوری قوم نے حیرت کے ساتھ اس معجزے کو دیکھا، لیکن قوم کے ایک سردار جندع بن عمرو اور اس کے چند ساتھیوں کے سوا کوئی بھی ایمان نہیں لایا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے، اب تم اسے اللہ کی زمین پر چھوڑ دو،اور اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچانا ورنہ عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے، اونٹنی اور اس کا نومولود بچہ نخلستان میں چرتے رہتے قوم دودھ سے فیضیاب ہوتی، حضرت صالح علیہ السلام نے پانی پینے کے دن کو تقسیم کردیا کہ ایک دن اونٹنی کا ہے اور دوسرا تمہارا، لیکن اسے کوئی اذیت نہیں پہنچانا، نہیں تو سخت عذاب پکڑ لے گا۔(سورۃ الشعراء)
اونٹنی اور اس کے بچے کا آزادی سے گھومنا پھرنا اور مقررکردہ دن پر آ کرکنویں کا سارا پانی ایک ہی سانس پی جانا انہیں ناگوار گذرنے لگا، لہذا انہوں نے اونٹنی کو مارنے کا منصوبہ بنایا، اس پر عمل کرنے کے لیے قوم کے سرداروں نے ایک خوبصورت عورت کا انتخاب کیا اور اس عورت نے علاقے کے اوباش دو نوجوانوں کو اپنی حسین وجمیل بیٹیوں سے شادی کے عوض اونٹنی کو جان سے مارنے پر راضی کر لیا، مصرع نے کمان سیدھی کی اور اونٹنی کو نشانہ بنایا، جو اس کی پنڈلی میں پیوست ہوگیا۔
قدار بن سالف آگے بڑھا اور تلوارکے ایک بھرپور وار سے اس کی کونچیں (پچھلے پاؤں کے اوپرکا حصہ) کاٹ ڈالیں، زخمی اونٹنی زوردار چیخ مارکرگر پڑی، گرتے ہی اس نے ہیبت ناک چیخ ماری، تاکہ اس کا بچہ ان ظالموں سے کہیں دور چلاجائے ، پھر سفاک قدار نے اونٹنی کے سینے پر نیزہ مارا اور اسے ذبح کردیا، بعد میں قوم نے جشن منایا اور اب وہ حضرت صالح علیہ السلام کی جان کے دشمن ہوگئے، جب ایک رات 9 افراد تاک لگائے بیٹھے تھے کہ حضرت صالح علیہ السلام گھر سے باہر نکلیں تو وہ حملہ کر دیں، اس ہی دوران پہاڑ سے بڑے بڑے پتھر ان پرگرے اور وہ سب ہلاک ہوگئے۔
لیکن اس گمراہ قوم کو بڑے بڑے معجزات دیکھنے کے بعد بھی عقل نہ آئی اور اس ہی طرح عیش وطرب میں مبتلا رہے اور حضرت صالح علیہ السلام سے کہنے لگے کہ '' اے صالح، جس بات سے تم ہمیں ڈراتے تھے وہ عذاب تو اب تک نہیں آیا ، اگر تم اللہ کے پیغمبر ہو تو عذاب کو ہم پر لے آؤ، (سورۃ الاعراف آیت 77) حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا '' بس تین دن کی مہلت ہے اور علامات بھی سن لو، پہلے دن تم سب کے چہر ے سخت زرد اور دوسرے دن سخت سرخ اور تیسرے دن سخت سیاہ ہوجائیں گے اور وہ تمہاری زندگیوں کا آخری دن ہوگا، ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے باوجود قوم اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہی، چوتھے دن صبح کو عذاب نے انہیں آ لیا، سخت زوردار چیخ اور زلزلے کے آنے سے وہ سب جہنم رسید ہوگئے اور عبرت کا نشان بن گئے ۔