صدرمملکت ممنون حسین نے انسداد دہشت گردی ترمیمی ایکٹ 2014 پر دستخط کردیے
مسلح افواج، پولیس کے گریڈ 17کے افسر کو مشتبہ دہشت گرد پر گولی چلانے کااختیارہوگا
صدر ممنون حسین نے انسداددہشت گردی ترمیمی ایکٹ2014 پردستخط کردیے۔ گریڈ17 کاپولیس افسر، اس کے مساوی مسلح افواج یاسول آرمڈفورسز رینک کاافسریا پھر ڈیوٹی پر موجودمجسٹریٹ گولی چلانے کاحکم دے سکے گا۔
وفاقی حکومت، مسلح افواج اورسول آرمڈ فورسزکودہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اوراغوابرائے تاوان میںملوث افرادکو 90روز تک تحویل میں رکھنے کا قانونی جواز بھی دے دیا گیا۔ سینیٹ اورقومی اسمبلی سے منظوری اور صدرمملکت کے دستخط کے بعدایکٹ کا باضابطہ گزٹ نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا۔ ایکٹ کے مطابق سیکیورٹی ادارے اسی صورت میںگولی چلاسکیںگے جب انھیںشبہ ہوکہ متعلقہ شخص کسی کی جان کونقصان پہنچاسکتا ہے۔ سیکیورٹی ادارے کے اہلکارکے گولی چلانے پر کسی ہلاکت یا زخمی ہونے کے واقعے کی متعلقہ قانون نافذکرنے والے ادارے کاسربراہ محکمانہ انکوائری کرنے کا پابند ہوگا۔
ایکٹ کے تحت تحویل میں لیے گئے شخص کومیڈیکل چیک اپ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ تحویل میںلیے گئے شخص سے انکوائری کے لیے مسلح افواج، سول آرمڈ فورسز، انٹیلی جنس ایجنسیوںاور پولیس پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے گی۔ تحویل میںلیے گئے شخص کو ہرضلع میں قائم مخصوص پولیس اسٹیشن میںپولیس افسرکے حوالے کیا جائے گا۔ انسداددہشت گردی ترمیمی ایکٹ کے تحت قائم عدالت مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیادپر کرنے اور ایک ہفتے میں فیصلہ کرنے کی پابند ہوگی۔
ایک ہفتے میں مقدمہ نمٹایا نہ جاسکا تو مزید ہدایات کے لیے معاملہ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا جائے گا۔ ججوں، گواہوں اورپراسیکیوٹرز کی سیکیورٹی کے لیے مخصوص اسکرین استعمال کی جائے گی۔ جیل کے احاطے میں ہی ٹرائل کے لیے وڈیولنک کابندوبست بھی کیا جائے گاجہاں اچھی تحقیقات پرتفتیشی افسرا ن کوانعام دیا جائے گاوہیں بدنیتی یاجھوٹے الزام پرکسی شخص کوتحویل میںلیے جانے پر متعلقہ تحقیقاتی افسر کو 2سال تک کی سزابھی دی جاسکے گی۔
کسی بھی شخص کے خلاف الیکٹرونک، فارنسک اورجدید ڈیوائسزپر مشتمل شواہدبھی قابل قبول قراردے دیے گئے ہیں۔ ججوں، گواہوںیا پھر پراسیکیوٹرز کی سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کومتعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رضا مندی کے ساتھ انسداددہشت گردی کی عدالت میں چلنے والے کسی بھی مقدمے کوایک صوبے سے دوسرے صوبے میںمنتقل کرنے کااختیار دے دیا گیاہے۔
وفاقی حکومت، مسلح افواج اورسول آرمڈ فورسزکودہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اوراغوابرائے تاوان میںملوث افرادکو 90روز تک تحویل میں رکھنے کا قانونی جواز بھی دے دیا گیا۔ سینیٹ اورقومی اسمبلی سے منظوری اور صدرمملکت کے دستخط کے بعدایکٹ کا باضابطہ گزٹ نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا۔ ایکٹ کے مطابق سیکیورٹی ادارے اسی صورت میںگولی چلاسکیںگے جب انھیںشبہ ہوکہ متعلقہ شخص کسی کی جان کونقصان پہنچاسکتا ہے۔ سیکیورٹی ادارے کے اہلکارکے گولی چلانے پر کسی ہلاکت یا زخمی ہونے کے واقعے کی متعلقہ قانون نافذکرنے والے ادارے کاسربراہ محکمانہ انکوائری کرنے کا پابند ہوگا۔
ایکٹ کے تحت تحویل میں لیے گئے شخص کومیڈیکل چیک اپ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ تحویل میںلیے گئے شخص سے انکوائری کے لیے مسلح افواج، سول آرمڈ فورسز، انٹیلی جنس ایجنسیوںاور پولیس پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے گی۔ تحویل میںلیے گئے شخص کو ہرضلع میں قائم مخصوص پولیس اسٹیشن میںپولیس افسرکے حوالے کیا جائے گا۔ انسداددہشت گردی ترمیمی ایکٹ کے تحت قائم عدالت مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیادپر کرنے اور ایک ہفتے میں فیصلہ کرنے کی پابند ہوگی۔
ایک ہفتے میں مقدمہ نمٹایا نہ جاسکا تو مزید ہدایات کے لیے معاملہ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا جائے گا۔ ججوں، گواہوں اورپراسیکیوٹرز کی سیکیورٹی کے لیے مخصوص اسکرین استعمال کی جائے گی۔ جیل کے احاطے میں ہی ٹرائل کے لیے وڈیولنک کابندوبست بھی کیا جائے گاجہاں اچھی تحقیقات پرتفتیشی افسرا ن کوانعام دیا جائے گاوہیں بدنیتی یاجھوٹے الزام پرکسی شخص کوتحویل میںلیے جانے پر متعلقہ تحقیقاتی افسر کو 2سال تک کی سزابھی دی جاسکے گی۔
کسی بھی شخص کے خلاف الیکٹرونک، فارنسک اورجدید ڈیوائسزپر مشتمل شواہدبھی قابل قبول قراردے دیے گئے ہیں۔ ججوں، گواہوںیا پھر پراسیکیوٹرز کی سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کومتعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رضا مندی کے ساتھ انسداددہشت گردی کی عدالت میں چلنے والے کسی بھی مقدمے کوایک صوبے سے دوسرے صوبے میںمنتقل کرنے کااختیار دے دیا گیاہے۔