وہ اپنی فیورٹ تھی

سیدہ شیریں شہاب  اتوار 30 جون 2024

لڑکیاں تتلیوں کی مانند ہوتی ہیں، وہ رنگ برنگے ملبوسات زیب تن کیے ایک جگہ سے دوسری جگہ دوڑتی بھاگتی، چہکتی، مہکتی خوشگواریت بکھیرتی خوب بھاتی ہیں۔ اُن کی زندگی سے بھرپور ہنسی ماحول میں تروتازگی پیدا کرتی ہے ساتھ فضا میں ترنم بکھیرتی ہے۔ دنیا کی سب رنگینی ان کے دم سے ہے، وہ مرجھا جائیں، خاموشی اختیار کر لیں تو ہر سو اُداسی پھیل جاتی ہے اورکائنات کے تمام رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔

وہ صنفِ نازک اس لیے نہیں کہلائی جاتیں کہ کسی لحاظ سے کمزور یا ناتواں ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ وہ ٹوٹ اور روٹھ بہت جلدی جاتی ہیں۔ بصورتِ دیگر یہ اپنی مخالف صنف سے کہیں زیادہ باہمت اور مضبوط ہیں۔ بیک وقت کئی کام مہارت کے ساتھ سرانجام دینے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے اور وہ چاہیں تو کیا کچھ نہیں کرسکتی ہیں۔ تقریباً تمام لڑکیاں یکساں طبیعت کی مالک ہوتی ہیں فقط چند ایک کے معاملات و حالات قدرے مختلف ہوتے ہیں۔

جس طرح مورکو اپنی خوبصورتی پر ناز رہتا ہے، بالکل اسی طرح لڑکیوں کو بھی اپنے حسن اور قابلیت سے عشق ہوتا ہے، وہ اپنی فیورٹ ہوتی ہیں۔ اصل میں دوسروں سے محبت وہی افراد کرسکتے ہیں جو خود سے محبت کرتے ہیں اور خلوص کے ساتھ رشتے بھی وہی لوگ نبھا پاتے ہیں جن کا خود سے رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ لڑکیوں میں ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ بدلتے رویے اور بگڑتے حالات کو یہ قبل از وقت بھانپ لیتی ہیں، معاملہ فہمی میں ان کا کوئی نظیر نہیں ہے۔

ان کے من کو بھائے توکنکرکو قیمتی پتھر میں تبدیل کردیتی ہیں اور نہ پسند آئے تو یاقوت اُٹھا کر پھینکنے میں بھی دیر نہیں لگاتیں۔یہ ہر لحاظ سے مکمل ہیں لیکن زمانے کو ان کا چہکنا خاص بھاتا نہیں تبھی وہ قدم قدم پر اْن کو بتلاتا ہے کہ وہ کتنی بے عقل ہیں۔ اْن کے لیے گئے فیصلے بیکار ہیں اور اپنی جن خصوصیات پر وہ نازاں ہیں وہ دراصل اْن کی خوش فہمیوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ زمانے کو لڑکیوں کے اعتماد کو کرچی کرچی کرنے میں کوئی خاص مزا آتا ہے اس لیے وہ اسے اپنا فرض سمجھ کر کرتا ہے۔

زمانہ ہم جیسے انسانوں سے ہی تشکیل پاتا جس میں مرد و خواتین سب ہی شامل ہوتے ہیں۔ یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ہی صنف سے منسوب افراد آپس میں جذبہ یگانگت کے سوا بھی کوئی دوسرا احساس رکھ سکتے ہیں جس میں محبت و احساسیت ڈھونڈنے کو بھی نہ ملے۔ مثبت احساس کے اسی فقدان نے زمانے کو لڑکیوں کا دشمن بنادیا ہے جو انھیں ہمہ وقت پریشان کرتا رہتا ہے۔ درحقیقت زمانے کو خوف ہے کہ اگر لڑکیاں اُس کے بے مقصد کے دباؤ سے آزاد ہوجائیں گی تو اپنی ذہانت و قابلیت کے بل بوتے دنیا تسخیر کرنے نکل پڑیں گی۔

اس لیے کبھی وہ انھیں گورے، کالے رنگ سے جْڑے مسائل میں اُلجھا دیتا ہے۔ زمانہ مستقل طور پر لڑکیوں پر حکمرانی کرنے کا خواہاں ہے، مثلاً کوئی کام کس طرح سرانجام دینا ہے اور سرانجام ہی کیوں دینا ہے اول تو اُس کی وضاحت اُسے مطلوب ہے۔ اس کے بعد کیا پڑھنا ہے، کہاں سے پڑھنا ہے، نوکری کرنی ہے تو کس نوعیت کی کرنی ہے، لازماً نوکری کیوں کرنی ہے، کس طرح کے ادارے میں کرنی ہے اور اگر کسی کو نہیں کرنی تو کیوں نہیں کرنی ہے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ زمانہ کسی حال خوش نہیں ہوتا ہے، اگر کسی کو خود پر زعم ہے کہ وہ باآسانی زمانے کو قائل کرسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف خوش فہمیوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیں ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ خوش مزاج، ذہین، شوخ و چنچل، خود سے محبت کرنے والی اور اپنی زندگی سے مطمئن لڑکیاں زمانے کی ہٹ لسٹ پر ہوتی ہیں۔ جب تک وہ اُن کی ذات سے وابستہ ساری امیدوں، منصوبہ بندیوں اور آرزؤں کو ختم نہیں کردیتا ہے چین کا سانس نہیں لیتا ہے۔

کسی کی شادی ہوئی تو زمانے کے معیار کے مطابق ہوئی کہ نہیں اور اگر کسی کی سرے سے ہوئی ہی نہیں یا کسی کا ایک بارکا تجربہ اذیت ناک ثابت ہوا تو ہمارا نام نہاد زمانہ اْس پر بھی کافی بے چینی میں مبتلا رہتا ہے اور بات بہ بات متعلقہ افراد کو طعنے دینے سے گریز بھی نہیں کرتا ہے۔سچ کی عینک پہن کر دیکھا جائے تو یہ من موجی، نازک مزاج، پُر اعتماد، عقل و ذہانت سے لیس، مضبوط ارادوں کی حامل اور جہان کی ترنگ خود میں سموئے حسن کے پیکر کو خدا تعالیٰ کا نادر کرشمہ نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے۔ زمانے نے نجانے کیوں مخلوقِ نسواں سے خار پالا ہوا ہے کہ جہاں موقع میسر آئے وہ اُن کے حقوق مسخ کرنے سے چوکتا نہیں ہے۔

زمانے کی انھی ستم ظریفیوں کی بدولت بیشتر لڑکیاں جو کبھی خود کی فیورٹ تھیں اب اپنے وجود سے ہی بیزار رہتی ہیں۔ اْن میں بہت کم خوش قسمت ہوتی ہیں جن کو زمانے کی گرم ہوا نہیں لگتی ورنہ اس چکّی میں گْھن گیہوں سب پستے ہیں۔ بعض لڑکیاں زمانے کی بے اعتنائی خاموشی سے سہہ جاتی ہے جبکہ باقی تمام جرأت مندی سے زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خود پر ڈھائی زیادتیوں کا منہ توڑ جواب دیتی ہیں۔

افسوس آخر میں وہ اپنی بقا کی لڑائی تو جیت جاتی ہیں مگر خود کو ہار جاتی ہیں یا اتنا تھک جاتی ہیں کہ جیت کی خوشی، اْن کی خود کی خواہشات، خواب، آرزوئیں اور تمنائیں بہت پیچھے چلی جاتی ہیں۔ ان سب مسافتوں کے بعد جو اچھی چیز رونما ہوتی ہے وہ یہ کہ صنفِ نازک’’صنفِ آہن‘‘ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد اْن کی زندگیوں میں کوئی خاص بدلاؤ پیدا نہیں ہوتا بس انھیں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنا آجاتا ہے۔ اس کالم میں لڑکیوں کو بیباک آزادی مہیا کرنے کی قطعی بات نہیں کی جارہی ہے نہ ہی انھیں دیوی، دیوتا جیسا مرتبہ دلوانے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ ادھر صرف اْن کے مسائل بیان کرکے زمانے سے التجا کی جارہی ہے کہ انھیں بھی انسان سمجھیں اور خدارا، اْن کا پیچھا چھوڑیں کیونکہ دنیا میں اور بہت کام ہیں لڑکیوں کی زندگی اجیرن کرنے کے سوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔