بڑوں کی نظمیں بچوں کے لیے
ان کی نفسیات کا مکمل خیال رکھنا پڑتا ہے تب جا کر ایسا ادب تخلیق ہوتا ہے جو بچوں کے لیے قابلِ قبول ہو
بچوں کی اچھی تربیت اور پرورش ہر معاشرے کے لیے روشن مستقبل کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آج کا بچہ کل کا باپ ہوتا ہے، ہمارے ہاں بہت سے ایسے بچے موجود ہیں جن کی بہترین تعلیم و تربیت اور اچھی پرورش پر اُس طرح سے توجہ نہیں دی جاتی جس طرح سے دیگر ممالک کے معاشرے میں دی جاتی ہے۔
ہمیں چاہیے پاکستان کا نظامِ تعلیم اس حد تک بہترین بنائیں کہ آج کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے اُن کی شخصیت کو سنواریں تاکہ آنے والے وقت میں وہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھال سکیں اور تمام معاملات کو احسن طریقے سے نمٹا سکیں۔ محکمہ تعلیم کو بچوں کی نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان کی ورزش، کھیل کود اور شعر و سخن سے یعنی ادبِ لطیف کی طرف بھی توجہ مرکوز کروانی چاہیے۔
ہمارے پاکستان میں کچھ ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں کتب میلے، مشاعرے، مذاکرے اور بحث و مباحثے کے پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔بچوں کی تعلیم و تربیت اور ہم نصابی سرگرمی کے پیشِ نظر محمد فیصل عشرت نے شعر و سخن اور اُردو ادب کے حوالے سے ایک کتاب '' بڑوں کی نظمیں بچوں کے لیے'' کے نام سے مرتب کی ہے، جو بچوں کے ادب میں ایک اچھااور خوشگوار اضافے کا باعث ہیں۔ ہمارے ہاں خصوصا بچوں کے لیے بہت کم لکھا جاتا ہے۔
شاید اس لیے کہ بچوں کا ادب لکھنا آسان نہیں، ان کی ذہنی سطح تک جاکر سوچنا اور ان کی نفسیات کا مکمل خیال رکھنا پڑتا ہے تب جا کر ایسا ادب تخلیق ہوتا ہے جو بچوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔ یوں توکچھ ایسے نام بھی موجود ہیں جنہوں نے زندگی بھر بچوں کا ادب ہی تخلیق کیا وہیں اس میدان میں کچھ قلمی چہرے کم کم ہی نظر آئے، بہرحال جنہوں نے جتنا بھی لکھا کمال لکھا اور بچوں کے ادب میں خوب نام کمایا۔ '' بڑوں کی نظمیں بچوں کے لیے'' اس کتاب میں بھی ایسے ہی شعراء کی نظمیں شامل ہیں جو بچوں کے ادب کے باقاعدہ شاعر تو نہیں مگر انہوں نے بچوں کی نظمیں ضرور لکھی۔
شاعر غزل کا ہو یا نظم کا، حمد و نعت گو ہو یا قصیدہ گو اور مرثیہ نگار سبھی نے بچوں کے لیے چند نظمیں ضرور لکھی ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ بھی بچوں کے تعلیم و تربیت اور ان کی ہم نصابی سرگرمی میں اپنا اپنا حصہ ڈال سکیں اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ بچوں کا ادب لکھنے والوں میں جہاں کہنہ مشق شاعروں اور ادیبوں نے اپنے تجربات و مشاہدات سے نمایاں کام کیا وہاں نئے لکھنے والوں نے بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ زیرِ نظر کتاب '' بڑوں کی نظمیں بچوں کے لیے'' اس میں کچھ ایسی نظمیں بھی موجود ہیں جنہیں پہلی جماعت سے لے کر ایم اے تک، اُردو شاعری کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ محمد فیصل عشرت نے ایسے شعراء کی نظمیں بھی شامل کی ہیں جنہیں پُرانی کتابوں کے ڈھیر سے ڈھونڈنا بھی کافی دشوار ہوگا، لیکن یہ کام انہوں نے بڑی سعادت مندی کی ساتھ انجام دیا اور ان نظموں کو اپنی کتاب میں شامل کر لیا۔ ایسے شعرا میں اختر شیرانی، احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، انور شعور، حمایت علی شاعر، رفیع الدین راز، سرشار صدیقی، رئیس فروغ، غلام محمد قاصر، شمس الرحمن فاروقی، مظفر وارثی، نازش حیدری اور وحیدہ نسیم و دیگر ایسے نام شامل ہیں جن کا میدان غزل، نظم یا نثر ہو سکتا مگر ان کا شمار بچوں کے شعرا میں نہیں ہوتا۔ محمد فیصل عشرت نے ایسے شعرا کی نظموں کی کھوج لگا کر اُردو ادب کو ایک منفرد انتخاب کے تحفے سے نوازا ہے۔اس کتاب میں شامل اسماعیل میرٹھی کی ''برسات'' نظم کے بعد دوسری نظم خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی پڑھنے کو ملتی ہے جن کی مشہورِ زمانہ نعتیہ نظم آج بھی زبان زدِ عام ہے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
اسی نعتیہ نظم کا دوسرا مشہور شعر کچھ اس طرح سے ہیں کہ:
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
یہ نعتیہ نظم آج بھی ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہے، ہمارے زمانہ طالب علمی میں اس نعتیہ نظم کے بعد ہر روز صبح سویرے اسمبلی میں علامہ اقبالؒ کی یہ دعائیہ نظم پڑھائی جاتی تھی۔ یہ نظم آج بھی اُسی ذوق و شوق اور جذبے سے پڑھی جاتی ہے۔
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اس انتخاب میں پروفیسر خالد بزمی کی نظم بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ پروفیسر خالد بزمی حمد و نعت کے بہت عمدہ شاعر تھے، انہیں اپنے عہد کا قادر الکلام شاعر تصور کیا جاتا تھا۔ انہوں نے بڑوں اور بچوں دونوں کا ادب بھرپور اور عمدہ انداز میں تخلیق کیا۔ ان کی بہت سی نظمیں آج بھی مختلف رسائل میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان کی صاحبزادی عافیہ بزمی نے ان کے زیرِ طبع کتب کی اشاعت کو بیڑا اُٹھا رکھا ہے اور وہ اس کام میں کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔
پروفیسر سحر انصاری جو حقیقی طور پر غزل کے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں مگر ان کی بچوں کے لیے نظم ''کمپیوٹر'' پڑھ کر اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بچوں کے ادب میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح شاہدہ لطیف جن کا تعلق اسلام آباد سے ہیں وہ غزل، نظم اور نثر لکھنے پر مہارت رکھتی ہیں ان کی نظم '' قومی یکجہتی'' پڑھ کر بھی خوشی ہوئی کہ انہوں نے بچوں کے ادب میں اپنا کچھ تو حصہ ڈالا۔ '' بکری کا بچہ'' اس نظم کے خالق شاعر علی شاعر ہے جو اُردو ادب کی ہر صنف میں مضبوطی کی ساتھ قدم جمائے ہوئے ہیں۔
وہ ایک کامیاب اور ہنر مند لکھاری تسلیم کیے جاتے ہیں۔ '' ماں اور بچے'' یہ نظم گوجرانوالہ کے معروف شاعر جان کاشمیری کی ہے ۔ جنہیں شعرو سخن کا پہلوان بھی مانا جاتا ہے۔ ان کا بچوں کی شاعری پر مشتمل ایک ہی مجموعہ ''ث ثمر'' کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے جس کا دیباچہ اعزاز احمد آذر کا لکھا ہُوا ہے۔ جان کاشمیری بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہے اسی لیے اُن کی اب تک درجنوں غزل کی کتب منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ابصار عبدالعلی مرحوم جن کا شمار پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو کے ابتدائی دنوں صدا کاروں میں ہوتا ہے۔
انہیں تمثیلی ڈراموں کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بڑوں کے ادب کے علاوہ بچوں کا ادب بھی بھرپور تخلیق کیا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ مجھ خاکسار کو ان کی صحبت اور شفقت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں انہیں بابائے حسن اور ملت کا ولی کہتا تھا۔ ان کی بہت سی نظمیں ہمارے نصاب میں شامل ہیں۔ فیصل عشرت نے ان کی نظم ''بتاشے'' کو شامل کر کے اپنے انتخاب میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ محمد فیصل عشرت کراچی کے ایک تعلیمی ادارے میں درس و تدریس کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ادبی سفرکا آغاز بہت کم عرصے میں شروع کیا، انہوں نے افتخار عادل کے اخبار '' اساس'' کراچی سے کالم و مضمون نگاری سے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا۔
بعدازاں ان کے کالم اور مضامین دیگر قومی اخبارات و جرائد کی زینت بننے لگے۔ ان کی تصانیف میں '' سفر نامہ ٹھٹھہ مع اُردو سفر نامے کی مختصر تاریخ '' یہ سفر نامہ ٹھٹھہ کے تاریخی مقامات اور سندکی تہذیب کی عکاسی کرتا ہُوا ہر خاص و عام میں مقبولیت کی سند حاصل کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ ایک کالموں کا مجموعہ '' فیصل کے مضامین'' کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ جس میں پاکستان کی سیاست، معاشرت، معاشرے کے مسائل و مشکلات، حالاتِ حاضر اور چند ادبی کالم شامل ہیں۔ ان کی تیسری کتاب '' لفظوں کے جگنو'' اور چوتھی کتاب '' بڑوں کی نظمیں بچوں کے لیے'' شامل ہیں۔ اس کتاب میں ان کی اپنی ذاتی رائے کی علاوہ کوئی نظم شامل نہیں۔ دُعا گو ہوں کہ اللہ ان کے علم و ہنر اور زورِ قلم میں مزید اضافہ فرمائے ۔