پاکستان اور موسمیاتی تغیر… محمد عبد اللہ

محمد عبد اللہ  اتوار 30 جون 2024

پاکستان کی زیادہ تر آبادی دریائوں کے کناروں اور اس کے مضافاتی علاقوں میں رہتی ہے جو مون سون کی بارشوں کے دوران سیلاب کی زد میں آتی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہوا اور سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث بخارات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گرم ہوا زیادہ نمی برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے مون سون کی بارش زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔

اسی گلوبل وارمنگ کے چلتے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث شمالی علاقوں میں کوہساروں پر جمی برف کے تیزی سے پگھلنے اور دریائوں میں پانی کے اضافے کی وجہ سے طغیانی کے باعث سیلاب آتے ہیں۔ سیلاب کی دوسری بڑی وجہ طوفانی بارشوں کی شدت میں اضافہ ہے، جس کے باعث دریاؤں اور ندیوں میں پانی کے بہائو میں اضافہ ہوتا ہے۔

گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کی زد میں آنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے، اگرچہ کاربن امیشن اخراج کے لحاظ سے پاکستان کا کاربن امیشن دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان دنیا میں ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو دو بڑے موسمی نظاموں کا خمیازہ بھگتتا ہے۔

ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی کا سبب بن سکتا ہے، جیسے ہیٹ ویو، اور دوسرا مون سون کی بارش لاتا ہے۔سال 2022 پاکستان کو شدید مون سون بارشوں کے بعد ایک خطرناک سیلاب کا سامنا رہا، اس سیلاب سے پاکستان کا کوئی صوبہ بچ نہ سکا، خیبر سے مہران یا پنجاب سے بلوچستان، ہر جگہ اس سیلاب کی تباہ کاریوں کے درد ناک مناظر دیکھنے کو ملے۔

سیلاب کے باعث جہاں ہزاروں افراد کی اموات کا دکھ لیے لاکھوں لوگ اپنے گھر، گائوں دیہاتوں کو چھوڑکر نقل مکانی پر مجبور ہوئے وہیں گلوکار عبدالوہاب بگٹی کا گھر بھی سیلاب بہا لے گیا۔ عبدالوہاب بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوٹھ محمد عمر بگٹی کے ایک کچے مکان میں رہائش پذیر تھے جہاں سے انہیں سیلاب کے باعث اپنے خاندان کے ہمراہ محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی امداد اور بحالی کے لیے سرکاری سطح اور سماجی تنظیموں کی جانب سے مناسب انتظامات بھی کیے گئے، متاثرین کو سرکاری اسکولوں میں عارضی رہائش دی گئی جہاں ان کے کھانے پینے اور علاج معالجے کا انتظام کیا گیا۔

پاکستان پچھلے کئی برسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید موسمی حالات، جن میں سیلاب، خشک سالی، زلزلے اور طوفان جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں موسم کے مزاج تبدیل ہوئے ہیں جن کے باعث بن موسم برساتیں، مون سون کی بارشوں میں طغیانی و سیلاب کے باعث لاکھوں لوگوں کا متاثر ہونا، فصلوں کو نقصان اور آئندہ آنے والے زرعی موسم کے لیے بیجوں کا ٹھیک وقت پر نہ لگنا اور فصلوں کا وقت پر تیار نہ ہوکر زمینداروں اورکسانوں کا نقصان شامل ہے۔

نیزکہ پورا نظام موسم کے تبدیل ہونے سے درہم برہم ہوا ہے اور ان تبدیلیوں کو بہتر طریقے سے ٹھیک نہ کرنے کا خمیازہ پورا خطہ بھگت رہا ہے۔ملک بھر میں کئی سالوں سے سورج اپنے پورے جوش کے ساتھ چمک رہا ہے، جس کے باعث گرمی کی لہروں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، ہیٹ ویو ایک ایسی کیفیت ہے جس میں تیز جھلسا دینے والی دھوپ کے ساتھ حبس زدہ ماحول بن جائے اور ہوا کی جگہ لُو چلنے لگے۔ گرمی کی اس شدید لہر کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں درجہ حرارت اب 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوزکرچکا جبکہ لاہور میں درجہ حرارت 46 ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔ یہ کیفیت صحت کے لیے اتنی خطرناک اور ناقابلِ برداشت ہے کہ اس سے انسانی صحت پر جان لیوا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

پاکستان میں محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر کے بارے میں پہلے سے ہی شہریوں کو خبردارکیا تھا اور اس کے پیش نظر نیشنل ڈیزاسٹرمینیجمنٹ اتھارٹی نے ہیٹ ویووگائیڈ لائنز 2024 کے عنوان سے ایک کتابچہ بھی شائع کیا جس میں شدید گرمی کے نقصانات سے بچنے کے لیے سرکاری اور انفرادی سطح پر تدابیر بتائی گئی ہیں۔امریکا کے محکمہ موسمیات ’ ایکیو ویدر‘ کے سربراہ ڈاکٹر جوئل مائرکہتے ہیں کہ ’’ برصغیر میں عالمی اوسط کے مقابلے میں درجہ حرارت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے، شدید گرمی کی صورتحال یہاں کے بعض صحرائی خطوں کا درجہ حرارت باعث تشویش ہے جہاں موسم گرما کا درجہ حرارت پہلے ہی انسانی برداشت کی حد کو چھو رہا ہے۔

ان علاقوں کی ریکارڈ گرمی کم عمر افراد، چھوٹے بچوں اور ان لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہے۔‘‘گزشتہ پانچ سالوں میں ملک کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا اربنائزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان سے گہرا تعلق ہے۔ چونکہ شہر بڑھتی ہوئی آبادی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے پھیل رہے ہیں، سبز جگہیں ( درخت، پارک اور سبز میدان)، جوگرمی کے خلاف قدرتی بفرکے طور پر کام کرتی ہیں، کنکریٹ کی اونچی عمارتوں کی تعمیر کے لیے قربان کی جارہی ہیں۔ کلفٹن اربن فاریسٹ کے بانی شہزاد قریشی نے ایک حالیہ ویبینار میں گرین بیلٹس کے اس خطرناک سکڑاؤ پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے حالیہ برسوں میں متعدد اموات کی وجہ قرار دیا۔

انہوں نے شہری آبادیوں پر ہیٹ ویو کے اثرات کو کم کرنے میں سبز جگہوں کے اہم کردار پر زور دیا۔شدید موسمی حالات کے چلتے جہاں لوگ کسی مسیحا کے منتظر ہیں کہ کوئی آئے اور معجزاتی طور پر موسمی حالات درست ہو جائیں، وہیں اس سوچ کہ برعکس غلام رسول پاکستانی اپنی مدد آپ کی تحت پچاس کروڑ پودے لگانے کا عزم لیے اب تک سترہ لاکھ دیسی پودے لگا چکے ہیں۔ پاک پتن کے یہ شہری موسمی حالات سے لڑنے اور ملک کو ہرا بھرا کرنے کی غرض سے 2017 سے ملک میں شجر کاری کے رجحان کو بڑھانے کے لیے خنجراب سے گوادر تک آبشاروں اور جھیلوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ ان قدرتی آبی وسائل کے پاس شجر کاری بھی کر چکے ہیں۔

اب تک چولستان میں ایک لاکھ سے زائد درخت اور پودے لگانے کی مہم مکمل کر کے، اب یہ جون 2024 سے پاکستان کے 600 سے زائد مقامات پر شجرکاری کی غرض سے اپنی ایک چھوٹی وین میں سفرکا آغاز کر چکے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت کم از کم 25 فیصد حصے پر جنگلات کی ضرورت ہے ایسے میں غلام رسول ماحولیات کو بہتر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے نکل پڑے ہیں۔ شجرکاری نہ صرف کرہ ارض کے لیے بلکہ حالیہ چل رہی موسمیاتی تبدیلیوں، شدید موسمی حالات کے اثرات کو کم کرنے اور دنیا کے ایکوسسٹم کے توازن کو قائم کرنے میں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجزکوکم کرنے اور ان سے ہم آہنگ ہونے کے لیے پاکستان کو ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا جو فوری اور طویل مدتی خطرات کے اثر کو زائل کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔