پاکستانی صحافت…ایک منظر نامہ

سرور منیر راؤ  اتوار 30 جون 2024
msmrao786@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں میڈیا کی تعمیر وترقی کا ایشو ہمیشہ زیربحث رہا ہے۔ تیسری دنیا میں آزادی اظہار کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کو سر فہرست سمجھا جاتا ہے۔اگر اس میں کمی آرہی ہے تو اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جن پر بحث کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے لیکن حالیہ دنوں میں میڈیا کو ’’ذمے دار بنانے کی چھتری‘‘ کی آڑ میں نئی قانون سازی کی گئی ہے۔

پاکستانی میڈیا کی کہانی در اصل پاکستان کی کہانی ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک جو بھی خبریں لکھی، سنی، پڑھی اور تبصرے شایع ہوئے، وہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا ’’رف مسودہ‘‘ تھیں، انھی بنیادوں پر قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کی تاریخ لکھی گئی لہٰذا 14 اگست 1947 سے اب تک کی تاریخ کی اہم ترین بنیاد، وہ خبریں ، تبصرے اور کالم ہیں جو ہرروز شایع ہوتے رہے۔

پاکستان میں آج میڈیا ایک متحرک ہے۔ میڈیا سیاسی دباؤ اور پابندیوں کے باوجود اپنی راہ بنائے چلا جا رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا نے بھی آزادی حاصل کر لی ہے بلکہ اس کی رفتار اور اثر ات اب بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ آزادی کے حصول کے اس عمل میںجہاں صحافتی قدروں کو عزت ملی وہاں سنسنی خیزی نے بھی اسی رفتار سے میڈیا میں اپنی جگہ بنائی۔

جس تیزی سے ملک میں پرنٹ اور ٹی وی جرنلزم کا پھیلاؤ ہوا ، اس سرعت سے پاکستان میں ریڈیو کو ترقی نہ مل سکی ۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ریڈیوکے کئی نئے اسٹیشنز کھلے اور ایف ایم ریڈیو عام ہوا لیکن ریڈیو عوامی معاشرت پر وہ اثر ڈال سکا جو ٹی وی اور خاص طور پر اخبارات کے تبصروں اور کالم نگاروں کی تحریروں نے کیا۔

پاکستانی میڈیا کا تجزیہ کریں تو اس میں مختلف قسم کی نظریاتی اور سماجی گروپنگ بھی نظر آتی ہے، اردو اور انگریزی میڈیا کے درمیان بھی واضح فرق موجود ہے۔اردو اخبارات کے قارئین کی اکثریت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی جب کہ انگریزی اخبارات و جرائد ایلیٹ کلاس میں زیادہ اثر رکھتی ہے ۔ ٹی وی کے اردو اور انگریزی چینلز کی صورت حال پرنٹ میڈیا سے خاصی مختلف ہے۔اردو چینلز کو ملک میں جو پذیرائی ملی ہے اس کی دس فی صد مقبولیت بھی انگریزی چینلز کو حاصل نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی انگریزی چینلز کو اپنی نشریات بند کرنا پڑیں اور ان میں سے کچھ کو تو اپنے انگریزی چینل کو اردو چینل میں منتقل کردیا۔

حیران کن اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جن ایام میں پاکستانی میڈیا کی آزادی کا سفر شروع ہوا وہ ملک میں فوجی آمریت کے دن تھے۔ یہ ایام نیوز رپورٹنگ کے اعتبار سے بھی خطرناک ترین شمار کیے جاتے ہیں۔ امریکا اور سوویت کی افغانستان میں جنگ اور پھر دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور دیگر جنگوں کی کوریج کے دوران متعدد صحافی مارے گئے اور کئی قتل کردیے گئے۔ یوں دیکھا جائے تو ہر صحافی موت کے دھانے پر کھڑا رپوررٹنگ کر رہا تھا۔سیکیورٹی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ افغانستان کے اندر آزادانہ صحافت کرنا ناممکن تھا اور اب بھی ہے ۔ وہاں طالبان حکومت کے خلاف خبر دینا ممکن نہیں ہے۔

پاکستان میں صحافیوں پر دباؤ بھی رہا ہے لیکن پھر بھی پاکستان میں آزاد صحافت کرنا قدرے ممکن ہے ۔پاکستانی میڈیا نے دنیا بھر میں صحافتی اقدار کے حوالے سے جو مقام بنایا وہ قابل رشک ہے۔ آمریت کے دور میں کلمہ حق کہنا ، سیاسی جماعتوں میں آمرانہ قیادت اور انتہا پسندی کی گرفت میں آئے معاشرے میں حکمرانوں کی کرپشن کو نمایاں کرنا اور ’’In the line of fire‘‘ پر کھڑے ہو کر عدالتوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں صاحب اقتدار شخصیات کو للکارنا یقینی اعتبار سے تیسری دنیا کے ممالک میں پہلی مثال ہے۔ اس جد وجہد میںجو ساتھی ہر اول دستہ بنے ،وہ صحافتی شعبے میں آنے والے افراد کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

پاکستان اس وقت تاریخ کے ایک ایسے مقام پر ہے جہاں وہ دہشت گردی کا شکار ہے اور وہاں پاکستان میں جمہوریت اپنے پاؤں مضبوط کرنا چاہتی ہے جب کہ عام آدمی غربت، بے روزگاری اور سیکیورٹی کے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ یہ وقت جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کا بھی ہے اور بکھری ہوئی معیشت کو سہارا دینے کا بھی، ان حالات میں ملک کے سیاستدان اور حکمران بھی ایک امتحان سے گزر رہے ہیں اور پاکستانی میڈیا بھی ایک آزمائش کے مرحلے میں ہے اور عدالتی نظام پر بھی کڑی ذمے داری ہے ۔وقت کا تقاضہ ہے ملک کے سیاستدان، ذرایع ابلاغ اور عدلیہ برطانوی آئین کی طرح ایک غیر تحریری اخلاقی معاہدے کے تحت ملک کو اس مرحلے سے بخیر و خوبی گزارنے کا اہتمام کریں ۔اگر ہم اس مرحلے میں کامیاب ہو گئے تو وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا جو تحریک قیام پاکستان کے وقت دیکھا گیا تھا۔ ہم پہلے ہی بہت وقت ضایع کر چکے ہیں اور اب غلطی کی گنجائش نہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔