جامعات کا مالی بحران اور داخلی خود مختاری
ہاں تک جامعات کو مالی بحران کا سامنا ہے تو اس تناظر میں وفاق جامعات کو گرانٹ نہیں دے رہا ہے
ریاستی و حکومتی نظام کی بنیادی ترجیحات میں ایک مسئلہ تعلیمی ترجیحات کا بھی ہوتا ہے ۔پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک حکومت کی مضبوط کمٹمنٹ ہی تعلیم سے جڑے اعلیٰ معیارات کو یقینی بناتی ہے ۔لیکن ہمارے ریاستی و حکومتی نظام میں تعلیم جیسے حساس معاملات پر عدم توجہ کی پالیسی نے ہمیں تعلیمی میدان میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔جامعات کی سطح پر دیکھیں تو سیاسی مداخلت، مالی وسائل کی کمی، نگرانی و جوابدہی کا غیر موثر نظام ، مسلسل ایڈہاک پالیسی ،مستقل وائس چانسلرز کی جگہ قائم مقام وائس چانسلرز سے نظام کو چلانے کی کوشش جیسے مسائل سرفہرست ہیں ۔
چاروں صوبوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تقرری کا عمل مکمل نہیں ہوسکا ۔ وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے جو سرچ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، ان میں بھی تعلیمی ماہرین کے مقابلے میں بیوروکریسی کی بالادستی ہے ۔جہاں تک جامعات کو مالی بحران کا سامنا ہے تو اس تناظر میں وفاق جامعات کو گرانٹ نہیں دے رہا ہے ، وفاق نے 18ویں ترمیم یا NFC رپورٹ کو بنیاد بنا کر یہ معاملہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا ہے ۔گزشتہ مالی سال کے دوران کل جی ڈی پی کا محض 1.5فیصد تعلیم پر خر چ کیا گیا تھاحالانکہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں یہ رقم 4فیصد تک مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
جامعات کی سطح پر پہلے سے اساتذہ اور محققین کے لیے 75فیصد ٹیکس چھوٹ 2103تک نافذ العمل تھی لیکن پہلے اسے کم کرکے 40فیصد کیا گیا اوربعد میں مزید کمی کرکے 25فیصد اوراب اسے یکسر ہی ختم کردیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں جامعات ملک کی تعلیمی اور تحقیقی ترقی میں اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہوجائیں گی ۔ اساتذہ پہلے ہی کم تنخواہوں کی وجہ سے مالی بحران سے گزررہے ہیں اور ٹیکس استثنی کے خاتمہ کے بعد مالی معاملات زیادہ گمبھیر ہوجائیں گے۔
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایوسی ایشن )فپواسا(کے مرکزی صدرممتاز ماہر تعلیم اور دانشور ڈاکٹر امجد مگسی نے اس مسئلہ کی توجہ وزیر اعظم سمیت اہم عہدے داروں کو ایک خط کی مدد سے پہنچائی او رمختلف پارلیمانی جماعتوں سے براہ راست بات چیت کی اوران کوہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیرمین کی طرف سے فیڈرل بورڈ آف ریونیویعنی ایف بی آر کو 14مئی 2024 کو لکھے گئے خط کا حوالہ بھی دیا ہے جس میںاساتذہ اور محققین کو 75فیصدٹیکس چھوٹ کو بحال کرنے کی تجویز دی تھی۔اب جو بجٹ کی ترامیم سامنے آئی ہیں اس میں اس فیصلہ کو واپس لے لیا گیا ہے ، جو خوش آیند فیصلہ ہے۔
ڈاکٹر امجد مگسی کے بقول ملک بھر کی جامعات کی ریکرنگ گرانٹ میں کماحقہ اضافہ کیا جائے تاکہ شدید مالی بحران سے دوچارجامعات ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔ ان کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومتیں سندھ کی طرز پر صوبائی جامعات کے لیے کم ازکم پچاس ارب کی خصوصی گرانٹ جاری کریں وگرنہ ان جامعات کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔
18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی سبجیکٹ ہے ۔ یہاں جامعات وفاق سے مالی گرانٹ پر تو ماتم کرتی ہیں مگر صوبوں نے جو مالی اختیارات کی تقسیم کے ماڈل کو خراب کیا ہوا ہے اس پر بھی غور ہونا چاہیے ۔ممتاز ماہر تعلیم اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اسلام آباد کے سربرا ہ ڈاکٹر شاہد سرویا جو اعلیٰ تعلیم سے جڑے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور معاملات کو ایک مختلف زوایہ سے بھی دیکھتے ہیں ۔ ان کے بقول جب تعلیم کو صوبوں میں منتقل کیا گیا ہے تو پھر اصل ذمے داری صوبائی حکومتوںاور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کو بخوبی اداکریں ۔
صوبوں میں ہائر ایجوکشن کمیشن کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دیں اور ان کو یہ اختیاردیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکیں ۔جو مالی وسائل ہیں وہ براہ راست ہائر ایجوکیشن کی نگرانی میں جامعات کو دیے جائیں ۔سندھ نے ایچ ای سی کی مدد سے وسائل جامعات کو بہتر طریقے سے تقسیم کیے ہیں جب کہ باقی صوبے ان معاملات پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ۔ صوبوں سطح پر جو جامعات ہیں وہ خود مختار ہیں تو پھر ان کو اپنی خودمختاری کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیے ۔لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے وفاق میں موجود ہائر ایجوکیشن کمیشن کس حد تک صوبوں میں موجود کمیشنوں کو مضبوط بنانا چاہتا ہے یا وہ بھی معاملات کو مرکزیت کی بنیاد پر چلانا چاہتا ہے ۔
بنیادی طور پر ہم اعلیٰ تعلیم اور جامعات کی خود مختاری کے بحران سے دوچار ہیں ۔ وفاقی ، صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن ، وفاقی و صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ، تعلیمی سے جڑی بیوروکریسی اور جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز سب ہی ایک دوسرے مقابلے میں موجود ہیں ۔ مقابلہ بازی اور ایک دوسرے کی حیثیت کو قبول نہ کرنے کی روش نے پورے اعلیٰ تعلیم کے نظام کو مشکل صورتحا ل سے دوچار کیا ہوا ہے اور ہمارے پاس سوائے بے بسی کے اور کچھ بھی نہیں ۔مثال کے طور پر وائس چانسلرز کی تقرری کا معاملے کو ہی دیکھ لیں۔
ان تقرریوں میں عملی طور پر ایک اہم کردار حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی سرچ کمیٹیوں کا ہوتا ہے ۔ان کمیٹیوں میں ریٹائرڈ بیوروکریٹس ہیں اور کئی دہائیوں کا بیوروکریسی کا تجربہ رکھتے ہیں ،لیکن تعلیمی معاملات ، جامعات کے معاملات پر ان کی کوئی دسترس نہیںہے ۔یہاں تک کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اور بیوروکریسی میں شمولیت کے بعد ان کا کوئی تعلق جامعات سے رہا ہے او رنہ ہی ان کی حیثیت ماہر تعلیم یا ایسے فرد کی ہے جو وائس چانسلرز کی تقرری کے معیارات کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دسترس دنیا میں ہونے والی جدید تعلیمی رجحانات پر ہے کہ وہ اس کو بنیاد بنا کر میرٹ پر وائس چانسلرز کو منتخب کرسکے ۔کچھ ایسے افراد ہیں جو تسلسل کے ساتھ سرچ کمیٹیوں میں شامل ہوتے ہیں مگر ان کمیٹیوں میں آپ کو سابق وائس چانسلرز یا معروف ماہر تعلیم جن کی ساری زندگیاں جامعات میں گزری ہیں، ان کو نظراندازکردیا جاتا ہے،
عملاً پورے اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بیوروکریسی تک محدود کردیا گیا ہے ۔اسی طرح جامعات میں سنڈیکیٹ کے محاذپر حکومتی صوبائی ارکان اسمبلی کی تقرری کے عمل سے براہ راست سیاسی مداخلتوں کا دروازہ کھول دیا گیا ہے ۔اصولی طور پر وائس چانسلرز کی تقرری میں بنیادی بات کو ہی اہمیت دی جانی چاہیے جن میں اس لیڈر شپ، بولنے کی صلاحیت ، طلبہ و اساتذہ کے ساتھ سماجی روابطے، جدید تعلیمی تقاضوں سے اہم آہنگی ، غیر نصابی سرگرمیوں کو بنیاد بنانا ، فکری آزادیوں پر یقین رکھنا اور عمل کرنا ، میرٹ کی بالادستی ، تحقیق کے شعبو ں کی جہتوں کو سمجھنا ، مالی طور پر ان اداروں کو خود مختاری میں تبدیل کرنا ، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر، سیاسی مداخلتوں کے خلاف کھڑا ہونا ۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم وائس چانسلرز کی تقرری کو بھی میرٹ کی بنیاد پر ترجیح دیں گے اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ان تقرریوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی ۔
دنیا بھر میں جامعات ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کو چلانے میں ایک واچ گروپ یا متبادل سوچ، فکر اور پالیسی دیتی ہے ۔ وہ ان تمام ریاستی معاملات کا گہرائی سے تجزیہ کرتی ہے ، تحقیق کو بنیاد بنا کرایک درست تصویر فیصلہ کرنے والوں کے سامنے رکھتی ہے ، مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں جامعات او رریاست کے نظام کے درمیان ایک بڑی خلیج ہے ، ریاست یا حکومت جامعات کو نظرانداز کرکے نظام کو چلانے کی جو کوشش کررہی ہے وہ مثبت نتائج کے بجائے مزیدحالات کو بگاڑ رہی ہے ۔
چاروں صوبوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تقرری کا عمل مکمل نہیں ہوسکا ۔ وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے جو سرچ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، ان میں بھی تعلیمی ماہرین کے مقابلے میں بیوروکریسی کی بالادستی ہے ۔جہاں تک جامعات کو مالی بحران کا سامنا ہے تو اس تناظر میں وفاق جامعات کو گرانٹ نہیں دے رہا ہے ، وفاق نے 18ویں ترمیم یا NFC رپورٹ کو بنیاد بنا کر یہ معاملہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا ہے ۔گزشتہ مالی سال کے دوران کل جی ڈی پی کا محض 1.5فیصد تعلیم پر خر چ کیا گیا تھاحالانکہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں یہ رقم 4فیصد تک مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
جامعات کی سطح پر پہلے سے اساتذہ اور محققین کے لیے 75فیصد ٹیکس چھوٹ 2103تک نافذ العمل تھی لیکن پہلے اسے کم کرکے 40فیصد کیا گیا اوربعد میں مزید کمی کرکے 25فیصد اوراب اسے یکسر ہی ختم کردیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں جامعات ملک کی تعلیمی اور تحقیقی ترقی میں اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہوجائیں گی ۔ اساتذہ پہلے ہی کم تنخواہوں کی وجہ سے مالی بحران سے گزررہے ہیں اور ٹیکس استثنی کے خاتمہ کے بعد مالی معاملات زیادہ گمبھیر ہوجائیں گے۔
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایوسی ایشن )فپواسا(کے مرکزی صدرممتاز ماہر تعلیم اور دانشور ڈاکٹر امجد مگسی نے اس مسئلہ کی توجہ وزیر اعظم سمیت اہم عہدے داروں کو ایک خط کی مدد سے پہنچائی او رمختلف پارلیمانی جماعتوں سے براہ راست بات چیت کی اوران کوہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیرمین کی طرف سے فیڈرل بورڈ آف ریونیویعنی ایف بی آر کو 14مئی 2024 کو لکھے گئے خط کا حوالہ بھی دیا ہے جس میںاساتذہ اور محققین کو 75فیصدٹیکس چھوٹ کو بحال کرنے کی تجویز دی تھی۔اب جو بجٹ کی ترامیم سامنے آئی ہیں اس میں اس فیصلہ کو واپس لے لیا گیا ہے ، جو خوش آیند فیصلہ ہے۔
ڈاکٹر امجد مگسی کے بقول ملک بھر کی جامعات کی ریکرنگ گرانٹ میں کماحقہ اضافہ کیا جائے تاکہ شدید مالی بحران سے دوچارجامعات ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔ ان کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومتیں سندھ کی طرز پر صوبائی جامعات کے لیے کم ازکم پچاس ارب کی خصوصی گرانٹ جاری کریں وگرنہ ان جامعات کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔
18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی سبجیکٹ ہے ۔ یہاں جامعات وفاق سے مالی گرانٹ پر تو ماتم کرتی ہیں مگر صوبوں نے جو مالی اختیارات کی تقسیم کے ماڈل کو خراب کیا ہوا ہے اس پر بھی غور ہونا چاہیے ۔ممتاز ماہر تعلیم اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اسلام آباد کے سربرا ہ ڈاکٹر شاہد سرویا جو اعلیٰ تعلیم سے جڑے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور معاملات کو ایک مختلف زوایہ سے بھی دیکھتے ہیں ۔ ان کے بقول جب تعلیم کو صوبوں میں منتقل کیا گیا ہے تو پھر اصل ذمے داری صوبائی حکومتوںاور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کو بخوبی اداکریں ۔
صوبوں میں ہائر ایجوکشن کمیشن کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دیں اور ان کو یہ اختیاردیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکیں ۔جو مالی وسائل ہیں وہ براہ راست ہائر ایجوکیشن کی نگرانی میں جامعات کو دیے جائیں ۔سندھ نے ایچ ای سی کی مدد سے وسائل جامعات کو بہتر طریقے سے تقسیم کیے ہیں جب کہ باقی صوبے ان معاملات پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ۔ صوبوں سطح پر جو جامعات ہیں وہ خود مختار ہیں تو پھر ان کو اپنی خودمختاری کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیے ۔لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے وفاق میں موجود ہائر ایجوکیشن کمیشن کس حد تک صوبوں میں موجود کمیشنوں کو مضبوط بنانا چاہتا ہے یا وہ بھی معاملات کو مرکزیت کی بنیاد پر چلانا چاہتا ہے ۔
بنیادی طور پر ہم اعلیٰ تعلیم اور جامعات کی خود مختاری کے بحران سے دوچار ہیں ۔ وفاقی ، صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن ، وفاقی و صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ، تعلیمی سے جڑی بیوروکریسی اور جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز سب ہی ایک دوسرے مقابلے میں موجود ہیں ۔ مقابلہ بازی اور ایک دوسرے کی حیثیت کو قبول نہ کرنے کی روش نے پورے اعلیٰ تعلیم کے نظام کو مشکل صورتحا ل سے دوچار کیا ہوا ہے اور ہمارے پاس سوائے بے بسی کے اور کچھ بھی نہیں ۔مثال کے طور پر وائس چانسلرز کی تقرری کا معاملے کو ہی دیکھ لیں۔
ان تقرریوں میں عملی طور پر ایک اہم کردار حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی سرچ کمیٹیوں کا ہوتا ہے ۔ان کمیٹیوں میں ریٹائرڈ بیوروکریٹس ہیں اور کئی دہائیوں کا بیوروکریسی کا تجربہ رکھتے ہیں ،لیکن تعلیمی معاملات ، جامعات کے معاملات پر ان کی کوئی دسترس نہیںہے ۔یہاں تک کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اور بیوروکریسی میں شمولیت کے بعد ان کا کوئی تعلق جامعات سے رہا ہے او رنہ ہی ان کی حیثیت ماہر تعلیم یا ایسے فرد کی ہے جو وائس چانسلرز کی تقرری کے معیارات کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دسترس دنیا میں ہونے والی جدید تعلیمی رجحانات پر ہے کہ وہ اس کو بنیاد بنا کر میرٹ پر وائس چانسلرز کو منتخب کرسکے ۔کچھ ایسے افراد ہیں جو تسلسل کے ساتھ سرچ کمیٹیوں میں شامل ہوتے ہیں مگر ان کمیٹیوں میں آپ کو سابق وائس چانسلرز یا معروف ماہر تعلیم جن کی ساری زندگیاں جامعات میں گزری ہیں، ان کو نظراندازکردیا جاتا ہے،
عملاً پورے اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بیوروکریسی تک محدود کردیا گیا ہے ۔اسی طرح جامعات میں سنڈیکیٹ کے محاذپر حکومتی صوبائی ارکان اسمبلی کی تقرری کے عمل سے براہ راست سیاسی مداخلتوں کا دروازہ کھول دیا گیا ہے ۔اصولی طور پر وائس چانسلرز کی تقرری میں بنیادی بات کو ہی اہمیت دی جانی چاہیے جن میں اس لیڈر شپ، بولنے کی صلاحیت ، طلبہ و اساتذہ کے ساتھ سماجی روابطے، جدید تعلیمی تقاضوں سے اہم آہنگی ، غیر نصابی سرگرمیوں کو بنیاد بنانا ، فکری آزادیوں پر یقین رکھنا اور عمل کرنا ، میرٹ کی بالادستی ، تحقیق کے شعبو ں کی جہتوں کو سمجھنا ، مالی طور پر ان اداروں کو خود مختاری میں تبدیل کرنا ، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر، سیاسی مداخلتوں کے خلاف کھڑا ہونا ۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم وائس چانسلرز کی تقرری کو بھی میرٹ کی بنیاد پر ترجیح دیں گے اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ان تقرریوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی ۔
دنیا بھر میں جامعات ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کو چلانے میں ایک واچ گروپ یا متبادل سوچ، فکر اور پالیسی دیتی ہے ۔ وہ ان تمام ریاستی معاملات کا گہرائی سے تجزیہ کرتی ہے ، تحقیق کو بنیاد بنا کرایک درست تصویر فیصلہ کرنے والوں کے سامنے رکھتی ہے ، مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں جامعات او رریاست کے نظام کے درمیان ایک بڑی خلیج ہے ، ریاست یا حکومت جامعات کو نظرانداز کرکے نظام کو چلانے کی جو کوشش کررہی ہے وہ مثبت نتائج کے بجائے مزیدحالات کو بگاڑ رہی ہے ۔